تنقیح ’بعد والوں‘ کے مناہج کی |
نہ کہ ’’دورِ اول‘‘ کے مسلمات کی! |
جس ’’تنقیح‘‘ یا ’’تحقیق‘‘ کی ضرورت کا پچھلی فصل میں ذکر ہوا ہے، اور جس کا پچھلی بارہ صدیوں سے ہمارا ہر دور ضرورت مند رہا ہے، خصوصاً ہمارا آج کا برصغیر.. اس ’’تنقیح‘‘ یا ’’تحقیق‘‘ سے ہماری مراد واضح ہو جانی چاہیے۔۔۔
اِس ’’تحقیق‘‘ یا ’’تنقیح‘‘ سے اگر ہماری مراد واضح نہیں ہوتی تو اس کا سارا فائدہ یہاں کے وہ طبقے اٹھا لے جاتے ہیں جو کہ ویسے ہی اپنی کسی مار پر ہیں اور جوکہ دراصل کوشاں ہیں کہ اس امت کے فکر وفہم کو اُس قدیم پٹڑی سے سرکا دیں جس پر یہ قرونِ اُولیٰ میں پائی گئی ہے؛ اور پھر قرونِ اُولیٰ والی اس قدیم پٹڑی سے اتار کر یہ اِس کو اپنی ہی کچھ پیچیدہ راہوں پر کھینچتے اور دھکیلتے پھریں۔
وہ ’’تحقیق‘‘ جس کی صدا ہم بلند کرتے ہیں، اُس سے مراد ’پہیے کی ازسرنو ایجاد‘ نہیں، جیساکہ اسلام کی ’ازسرنو تعبیر‘ کے شیدائی خیال کرنے لگے ہیں اور اپنی اِس ٹیڑھی رگ کے باعث یہ لوگ ’تنقیح‘، ’تحقیق‘، اور ’چھان پھٹک‘ ایسے الفاظ سن کر باغ باغ ہونے لگتے ہیں!
قرآن حدیث کو خود اپنی محنت اور ذہانت سے، یا زیادہ سے زیادہ کسی عربیِ مبین کی مدد سے، سمجھ لینے کی کوشش وہ ’تحقیق‘ نہیں جو یہاں مطلوب ہے۔ کتاب وسنت کو سمجھنے کے معاملہ میں خاص اپنے زورِ بازو پر انحصار کرنا یا زیادہ سے زیادہ پچھلے کسی سو پچاس سالہ ’مکتبِ فکر‘ کا التزام کر لینا جادۂ بدعت و انحراف پر آپ کا پہلا قدم ہوگا۔ سلف کے راستے کی پابندی کئے بغیر کتاب وسنت کے فہم کا کوئی طریقہ نہیں۔
وہ ’’تنقیح‘‘ یا ’’تحقیق‘‘ جس کی ضرورت خاص خیر القرون کے گزر جانے کے بعد پڑی، اور اب تک ہے، اور ہمیشہ رہے گی۔۔۔ وہ یہ ہے کہ: بعد والوں کے یہاں جو اشیاء پائی گئیں اُن کو سلف کے منہج پر پیش کیا جائے اور سلف ہی کے اصول اور سلف ہی کے فہم کی بنیاد پر اُن کا ایک محاکمہ ہو۔ اس تنقیح کامطلب ہوگا: اُن اضافوں اور اُن جزوی انحرافات کو ورثۂ اہلسنت سے بے دخل کرنا جو زمانۂ سلف کے بعد اِس کے اندر راہ پا لینے میں کامیاب ہو جاتے رہے ہیں۔ اِس ’’چھان پھٹک‘‘ کا مقصد ہوگا: کچھ سنی طبقوں کے ہاتھ سے منہج سلف کے جن پہلوؤں کا دامن چھوٹ جاتا رہا ان کا ازسرنو احیاء کرنا۔ ایک ’نسلی تسلسل‘ بن جانے کے ناطے اہلسنت کے یہاں اگر کچھ نادرست رحجانات در آ گئے ہیں، ان کا خاتمہ کرنا۔
اس ’تنقیح‘ کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خود اس ’’منہجِ سلف‘‘ ہی کا محاکمہ شروع کر دیا جائے! جیسا کہ کچھ ھویٰ پرستوں کو خیال چرانے لگا ہے کہ قدیم سے چلی آنے والی ہر بات کی ہی آج چھان بین ہونی چاہیے! ایسی ’تحقیق‘ کے نتیجے میں تو لازم ہے شرعی مصادر سے استنباط واستدلال کے مناہج ہی ہزاروں کے حساب سے میسر ہوں، جوکہ ان نابغوں کے خیال میں زمانے کی مشکلات آسان کردے گا! جب سلف کو محاکمہ سے معاف نہ رکھنے کا منہج سند ٹھہرے گا تو پھر ہر شخص کا ہی محاکمہ ہوگا! دلچسپ بات یہ کہ کسی ٹھوس بنیاد کے بغیر ہوگا! پس ہر شخص یہاں صحابہؓ کے استدلالات کی چھان بین کرے گا!!! ایسی صدائیں جو ’تحقیق‘ کے نام پر بلند کی جا رہی ہیں وہ دراصل اُمت کو اسکی تاریخی بنیاد سے ہلا دینے ،اور اسکو انتشار اور افتراق کے اُس لق ودق صحرا میں چھوڑ آنے کی ایک بے رحم کوشش ہے جہاں سب سمتیں ایک ہو جائیں اور فہم شریعت کی بابت کوئی ’نقظۂ حوالہ‘ referring point ہی دستیاب نہ رہے۔ آج کی اِس جدت پسند ’تحقیقاتی‘ روش کی رُو سے امت پر گویا فرض ہے کہ یہ قیامت تک ’سیمینار‘ کرے؛ ایک کے بعد ایک مفکر کو ہی سنتی اور داد دیتی چلی جائے؛ اور اسی شغل میں صدیاں پار کر دے؛ کیونکہ اپنے معاشرے اور اپنے زمانے میں ا س اُمت کو اب اور کچھ نہیں کرنا!
یہ ایک فکری طوائف الملوکی ہے جس میں امت کو جھونک دینے کی کوششیں ہو رہی ہیں؛ اندازہ کیجئے فہمِ کتاب وسنت کے معاملہ میں کوئی نقطۂ حوالہ اسکے پاس ہو ہی نہ!
جہاد کی مامور ایک بھاری بھرکم اُمت کو، جسے پورے کرۂ ارض پر صفیں باندھنا اور شرق تا غرب جماعتِ واحدہ کی صورت چلنا ہو، زمانے کی چھاتی پر پیش قدمی کیلئے ایک ٹھوس بنیاد چاہئے اور اپنے پیر دھرنے کو ایک پختہ زمین۔۔۔ ایک ایسی پختہ زمین جس کے ہر ہر قدم پر ’بحث‘ کرنا ضروری نہ ہو اور جس پہ ہزاروں لاکھوں لوگ پورے اعتماد سے پیر دھریں اور نسلوں کی نسلیں، مطمئن، اس پر چلتی چلی جائیں۔
ہمارے آج کے بعض ’محققین‘ یہ ثابت کرنے جا رہے ہیں کہ ایسی کوئی زمین اس اُمت کو میراث میں نہیں ملی؛ لہٰذا اُمت اگر چاہے تو اب اِنہی محققین کے ’کتاب وسنت سے استنباط کردہ‘ اصولِ استدلال ومبادیِ استنباط اختیار کرلے اور پھر جیسے جیسے یہ گھومیں، اِنکے ساتھ گھومتی چلی جائے! جبکہ عملاً صورتحال یہ ہے کہ آج کے اِن ’تحقیقی‘ رحجانات میں ایک اصولِ استدلال کی بابت ہی اتنی متضاد جہتیں پائی جاتی ہیں کہ اِن میں اگر فیصلہ کرنا ہو تو پوری کی پوری اُمت اِنکے اختلاف میں ہی کہیں گم ہو کررہ جائے۔
سو اِن لوگوں کے پاس تو خود اپنے اختلاف کا فیصلہ کرنے کیلئے کوئی بنیاد نہیں، سلف کا محاکمہ تو بڑی جرأت کی بات ہے!
کتاب وسنت بلاشبہ کسوٹی ہے۔ مگر کتاب وسنت کی کسوٹی، کیا اِن کے فہم کے ساتھ یا سلف کے فہم کے ساتھ؟ فہم تو بہرحال ضروری ہے خواہ ان کا ہو یا سلف کا۔ پس سوال ہے تو وہ یہ کہ ’’کس کا فہم‘‘؟ بیمار کا۔۔۔ یا صحتمند کا؟
کتاب وسنت کی جانب رجوع، اہلسنت کا اصلِ اول ہے۔ ’فہم سلف‘ معاذ اللہ ’کتاب وسنت‘ کے کسی متبادل کا نام نہیں۔ جیسا کہ بعض متعصب لوگ اپنے کسی بڑے کی بات کو نصوصِ شریعت پر ترجیح دے کر کرتے ہیں۔ اصل سوال صرف یہ ہے کہ کتاب وسنت کی جانب رجوع کس کے فہم اور کس کے اصولِ استدلال اور کس کے طریقے پر ہو، ان کے یا سلف کے؟؟؟
شریعت کے معانی کا تعین جادۂ حق پر آپکا پہلا قدم ہے۔ اِس سلسلہ میں فہمِ سلف کی صورت آپکو جو چیز حاصل ہے وہ حق بھی ہے اور وہ پائدار بنیاد بھی کہ جس پر قوموں اور معاشروں کی ایک دوررس اور طویل المیعاد بنا رکھی جا سکے۔ اسکے علاوہ آپکو اور کیا چاہیے؟
_ اصول و مسلمات جو قوموں کی ناگزیر ضرورت ہیں، کہ جن پر وہ پورے اعتماد کے ساتھ چلیں، اور جن پر چلتے ہوئے قدم قدم پر پیچھے مڑ کر دیکھنے اور فکر میں پڑ جانے اور بحثیں اٹھانے کی حاجتمند نہ رہیں۔۔۔، آپکی بنیادی ضرورت ہے۔ سلف کا چلا ہوا راستہ آپ کے اسی دکھ کا مداوا تو ہے۔
_ نیز یہ ضروری ہے کہ وہ مسلمات جن پر آپ اپنے دور اور معاشرے میں فکر وعمل کی ایک بلند وبالا عمارت اٹھانا چاہتے ہیں (اور عمارت ایسی جو بار بار نہ ادھیڑنی پڑے)، عین حق اور درست ہوں اور انکے درست ہونے پر مطمئن رہنے کی آپکے پاس کوئی ٹھوس بنیاد ہو (اُسکو نبی ا کی توثیق حاصل ہونا)۔ سلف کا راستہ آپکے اِس دُکھ کا بھی علاج ہے۔
اس کے علاوہ اور آپ کو کیا چاہیے؟ چلنا رہ جاتا ہے اور وہ ظاہر ہے کہ آپ کو ہی چلنا ہے۔
کتنا فرق ہے ایک ایسی قوم میں جس کو راستے کی نشاندہی ہو اور اس کے درست ہونے کی ضمانت بھی اس کو حاصل ہو.. محض اس پر چلنا باقی ہو۔۔۔ اور ایک ایسی قوم میں جس کا چلنا تو ابھی باقی ہو ہی، راستہ ڈھونڈنا بھی ابھی باقی ہو بلکہ راستہ کے ایک ایک قدم (ایک ایک استدلال) پر طویل بحثیں کرنا بھی۔
حضرات! اصولِ اہلسنت کی تعلیم پر آپ کا کچھ وقت ضرور صرف ہوگا مگر یہ برصغیر میں آپکے ایک بڑے معضلہ dilemma کا پائیدار حل اور آپکے ایک دیرینہ مرض کا دائمی علاج ہوگا۔ نیز یہ آپکی ایک ایسی طویل المیعاد سرمایہ کاری long term investment اور ایک ایسے کثیر المقاصد انفراسٹرکچر multi-purpose infra structure کی تعمیر ہوگی جو آپکو نسلوں آرام دے۔
*****
پس وہ تمام مناہج اور وہ تمام رجحانات جو قرونِ سلف کے بعد سامنے آئے ہیں، اگرچہ وہ اہلسنت کا عنوان لئے ہوئے ہوں، لازماً ایک تنقیح کے عمل سے گزارے جائیں گے۔ ان میں جو خیر ہے وہ قبول کی جائے گی اور اگر کوئی ناخالص چیز ہے وہ رد ہوگی۔ کتاب وسنت کی بنیاد پر اور منہجِ سلف کی روشنی میں محاکمہ سے کوئی چیز بالا نہ رکھی جائے گی۔ محض یہ بات کہ ایک چیز امت کے اندر ’صدیوں‘ سے چلی آتی ہے، اس کے قبول کرلیا جانے کی دلیل نہ ہوگی، الا یہ کہ اس کا ثبوت قرونِ ثلاثہ کے علمی ذخیروں ہی سے دے دیا جائے۔ بعد کے بزرگ بھی یقیناًبزرگ ہیں اور نہایت قابل احترام، مگر ان کی بات کو پہلے والوں کے منہج کی جانب بہر حال لوٹایا جائے گا۔