عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Fehm_deen_masdar_2nd آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
منہجِ سلف قرونِ ثلاثہ کے بعد
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

منہجِ سلف

قرونِ ثلاثہ کے بعد

اَتباعِ تابعین کا دور گزرتے ہی عالم اسلام کے مرکزی خطوں میں ایک گھٹا ٹوپ اندھیرا دیکھنے میں آیا۔ یہ اندھیرا تیسری صدی کے وسط سے اٹھنا شروع ہوا اور چوتھی صدی کے نصف کو پہنچتے پہنچتے __ یعنی ایک صدی کے دوران ہی __ تقریباً پورے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ یہ بنیادی طور پر ایک باطنی و رافضی انقلاب تھا۔ چوتھی صدی کے نصف کے آس پاس پر ذرا ایک نگال ڈالئے اور دیکھئے عالم اسلام کی حالت کیا تھی:

۱) جزیرۂ عرب کے بیشتر خطوں میں بحرین کے قرامطہ (۲۸۳ ۔ ۳۷۸ ھ) کا دورِ اقتدار جو کہ رافضی باطنیت کا بدترین نمونہ تھے اور جو کہ کعبہ سے حجر اسود تک اکھاڑ لے گئے تھے اور حجاجِ اہلسنت کا قتل عام کرتے تھے۔

۲) مراکش سے لے کر مصر تک کے طویل وعریض خطہ پراور بعد ازاں شام کے بعض علاقوں تک فاطمی (دراصل عبیدی) خلافت (۳۲۲ ۔ ۵۸۳ ھ) جو کہ باطنی رافضیت کی ایک خبیث شکل تھی اور جس کی ایک فرع آج کے اسماعیلی اور بوہری ہیں۔ اسی ’فاطمی خلافت‘ کا اقتدار بعد ازاں پانچویں صدی میں صلیحیوں کے ہاتھوں یمن تک میں قائم ہوا بلکہ کوئی ایک سال بھر کیلئے بغداد کے اندر بھی قائم رہا اور ایک معجزانہ طور پر بغداد کی برائے نام سنی خلافت اس کے ہاتھوں مکمل طور پر ختم ہوجانے سے بچ پائی۔

۳) عراق سے لے کر فارس، اصفہان، طبرستان اور جرجان تک بویہی اقتدار (۳۲۳ ۔ ۴۴۷ ھ) جو رافضی عقائد کا پورے دھڑلے کے ساتھ پرچار کرتا تھا اورجس نے کہ دارِخلافت بغداد پر قابض ہو کر مساجد کے دروازوں پر صحابہؓ کو گالیاں لکھ رکھی تھیں۔

۴) شمالی عراق اور جنوبِ شام پر بنو حمدان کا اقتدار (۳۳۰ ۔ ۴۰۴ ھ) جو ان سب میں بہتر تھے اور جو کہ ان سب میں وہ تنہا ریاست تھی جو عرصہ تک روم کے ساتھ برسرقتال بھی رہی۔ گو یہ رافضی نہ تھی مگر تشیع کا میلان رکھتی تھی۔ تشیع تو گویا وقت کا فیشن تھا!

۵) ملتان جو کہ سندھ کے مسلم مفتوحہ خطوں کا پایہ تخت تھا، میں اسماعیلیوں کی سلطنت (۳۴۷ ۔ ۴۰۱ ھ) اور جس نے ملتان کی مساجد میں مصر کے فاطمی خلیفہ المعز لدین اللہ معد بن اسماعیل (۳۴۱ ۔ ۳۶۵ ھ) کا باقاعدہ خطبہ جاری کرایا تھا، اور جوکہ چوتھی صدی ہجری کے اختتام پر محمود غزنویؒ کے ہاتھوں نیست و نابود ہوئی۔

پورے عالم اسلام میں صرف دو خطے بچتے تھے جو رافضی یا شیعی اقتدار کے زیرتسلط آنے سے محفوظ رہے : ایک طرف عالم اسلام کے آخری مشرقی کونے میں ماوراء النہر کی سامانی ریاست اور دوسری جانب آخری مغربی کونے پر اندلس کی اموی امارت جو کہ خود بھی حالات کے ہاتھوں ہچکولے کھا رہی تھی بلکہ فاطمیوں کے توسیع پسندانہ عزائم اورجارحانہ حملوں سے بڑی مشکل کے ساتھ اپنا دفاع کر رہی تھی۔

اس لحاظ سے چوتھی صدی ہجری ہمیں رافضی اور باطنی ظلمت کی صدی نظر آتی ہے۔ اسی اندھیرے کا فائدہ اٹھاکر صلیبی شام اور فلسطین کے ساحل پر آبیٹھے اوربالآخر بیت المقدس پر بھی قابض ہوئے۔ جبکہ اسی صدی کے اواخر میں جا کرہم دیکھتے ہیں کہ اہلسنت ایک نئی کروٹ لیتے ہیں اور پانچویں صدی میں ایک نئے سرے سے سنت اور توحید کا غلغلہ ہونے لگتا ہے۔

یوں پانچویں اور پھر چھٹی صدی ہمیں رافضیت کے خلاف اہلسنت کی فتح کی صدی نظر آتی ہے، گو اس بار اِس میں بہت کچھ ’دخن‘(۱) بھی تھا۔ سیاسی اسٹیج پر اس عمل کا آغاز چوتھی صدی کے اواخر میں غزنوی فتوحات (۳۹۰ ۔ ۴۲۱ ھ) سے ہوا جن کی تگ وتاز بغداد سے لے کر ماوراء النہر اور بلاد ہند تک تھی اور جس کے دوران __ جیسا کہ امام ابن کثیرؒ البدایہ(۲) والنہایۃ میں بیان کرتے ہیں ___ اہل بدعت پر زمین تنگ ہو گئی تھی۔ پھر پانچویں صدی کے ربع دوئم میں سلجوقیوں کی دولت (۴۲۹ ۔ ۷۰۰ ھ) قائم ہوئی جو کہ سنت اور شرع کے خادم تھے اور جن کا اقتدار ماوراء النہر سے خراسان تک اور پھر رافضی بویہیوں کا اقتدار ختم کردینے کے بعد عراق اور جنوب شام تک جا پہنچا۔ حتی کہ سلجوقیوں نے روم سے جہاد کا ازسرنو آغاز کیا اور ایشیائے کوچک میں عرصہ بعد نئے خطے فتح ہوئے۔ پھر زنگی دولت نے (۵۲۱ ۔ ۵۷۶ ھ) چھٹی صدی ہجری کے ربع دوئم میں شام کو اہلسنت کا قلعہ بنا دیا۔ جس کے بعد ایوبی دولت (۵۶۷ ۔ ۶۴۸ ھ)نے مصر سے فاطمی خلافت کا شجرۂ خبیثہ ہی اکھاڑ ڈالا اور بہ کمال قدرت شام اور مصر کو سنت کے پرچم تلے جمع کیا اور بنی عباس کی سنی خلافت کا خطبہ بحال کرایا۔ تب اِس سُنی وحدت کے نتیجہ میں چھٹی صدی کے نصف دوئم میں بیت المقدس اہل اسلام کو واپس ملا۔

نورالدین محمود زنکی اور صلاح الدین یوسف ایوبی وغیرہ کا امام ابن تیمیہ اپنی کتب میں ’’ملوک السنۃ‘‘ کے لقب سے ذکر کرتے ہیں۔

(دیکھئے فتاوی ابن تیمیہ ج ۱۷ ص ۵، ج ۲۷ ص ۴۹، ج ۳ ص ۲۸۰)

*****

اَتباع تابعین کا زمانہ گزر جانے کے بعد، کہ جب معاشروں پر سنت کی وہ فرماں روائی قائم نہ رہی تھی، اور نتیجتاً منہجِ سنت تک رسائی اُتنی آسان نہ رہی تھی جتنی کہ قرونِ ثلاثہ خیرہ میں، تو اس معاملہ کی اب ایک اور جہت بنی۔۔۔

راہِ سلف کے ترجمان طبقے معاشرے میں اب وہ حیثیت نہ رکھتے تھے جو کہ گزشتہ ادوار میں ان کو حاصل رہی تھی۔ معاشرہ اب ان سے اس طرح رہنمائی نہ لے رہا تھا اور نہ لے سکتا تھا جس طرح کہ اس سے پہلے۔ وقت کے علمی، فکری اور معاشرتی رحجانات پر اب یہ اس طرح چھائے ہوئے نہ تھے اور نہ ہی فکری اور تہذیبی حالات پر ان کی وہ گرفت رہی تھی۔ باطنی اور رافضی اور معتزلی غلبہ کے پیش نظر اہل سنت اب اُس پہلے والے انداز میں معاشروں کی قیادت کر ہی نہ کرسکتے تھے۔

پس اب ایک بڑے خلا کا پیدا ہونا یقینی تھا۔

خالص علم کی پسپائی، علماء کا ایک بڑی تعداد میں اٹھ جانا، علمی حلقوں کی رونقیں بڑی حد تک قصۂ پارینہ بن جانا، اور زنادقہ و اہل بدعت کا راج ۔۔۔ اب یہ وہ دور تھا جس میں سنت اور بدعت خلط ہونے لگے۔ جبکہ اس سے پہلے اس بات کی گنجائش نہ تھی۔ رفتہ رفتہ ’اہلسنت‘ ایک نام بن کر رہ گیاجبکہ اس سے پہلے یہ ایک حقیقت تھی نہ کہ محض ایک نام۔ بہت سوں کیلئے اب یہ ایک نسلی تسلسل تھا اور کچھ لگے بندھے کام کر لینے اور کچھ ظاہری علامات اختیار کرلینے کا نام۔(۳)

حتی کہ وہ لوگ جن کیلئے یہ ایک نام نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی، ان میں سے بھی بہت سے ایسے تھے جن کیلئے یہ حقیقت اب دن بدن ’جزوی‘ ہوتی جا رہی تھی۔ اہلسنت کے بعض اصول سے ان کا شدید تمسک تھا تو بعض اصول پر ان کی گرفت ڈھیلی ہوتی جا رہی تھی۔ فکر وفہم کے جن جن خطوں پر سنت کی پسپائی ہو رہی تھی وہی وہی خطے بدعت کے زیرآب آرہے تھے۔ یہی وہ بات ہے جس کو ہم نے سنت اور بدعت کا خلط(۴) کہا ہے۔ سو ایک کثیر تعداد اب ایسے لوگوں کی ہونے لگی، بلکہ باقاعدہ ایسے طبقے وجود میں آئے، جو جزوی طور پہ سنت افکار پر تھے اور جزوی طور پہ بدعت افکار پر۔(۵) جبکہ شمار بدستور یہ سب لوگ اہلسنت ہی ہوتے رہے۔
چنانچہ اب یہ دیکھنا لازم ہو گیا تھا کہ: کوئی شخص یا طبقہ اہلسنت ہے تو اسکے ہاں منہجِ سنت وسلف اپنی حقیقت کے اعتبار سے کس قدر ہے۔ یعنی معاملہ ’فیصدی‘ کا ہو گیا تھا۔ اور بہت سے لوگوں کے بارے میں یہ بات صادق آنے لگی تھی۔

سنت اور بدعت کے خلط کا یہ وہ دور ہے جس میں کئی ایک اہلسنت طبقوں میں نئے رحجانات نے جنم لیا اور یہ رحجانات آگے چل کر خود بھی کسی چھوٹی یا بڑی بدعت کی صورت دھار گئے۔ تب سے اب تک، اہلسنت کے کئی ایک طبقوں کی ان مبتدعہ رحجانات سے جان نہیں چھوٹی۔ صوفیت کے بہت سے سلسلے، عقائد میں اشاعرہ اور ماتریدیہ وغیرہ کا پھیل جانا اور وقت کا ایک فیشن بن جانا سب اسی دور کی یادگار ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ بدعت کے بعض پہلوؤں کا سدباب کر رہے تھے مگر دوسری جانب منہج سلف کے بعض پہلوؤں سے خود بھی بیگانہ ہو رہے تھے۔ (۵) پس یہ ایک ملی جلی صورت حال تھی۔ جبکہ وہ لوگ جو معاملہ کو زیادہ سے زیادہ خالص کرنے پر زور لگا رہے تھے، ایک نہایت خاص طبقہ تھا۔

*****

مذہبی تعصب بھی اسی دور کی یادگار ہے۔

مذاہبِ اربعہ ودیگر فقہی مذاہب درحقیقت اہلسنت کے معتبر فقہی مذاہب ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا اہلسنت ہی کافقہی تسلسل بن کر رہنا ہے۔ ’’اصول دِین‘‘ کے اندر ان کے مابین کوئی اختلاف نہیں۔ کوئی اختلاف ہے تو فروع کے اندر، جس کی سلف کے ہاں گنجائش رہی ہے۔ چنانچہ فروع کے اندر فقہی مذاہب کا یہ تنوع، دورِ سلف کا ہی ایک تسلسل تھا۔ ان فقہی مذاہب کے اپنائے جانے میں __ جب تک کہ معاملہ اندھی تقلید اور ضد بازی تک نہ پہنچے __ کوئی بھی حرج کی بات نہ تھی۔ امام طحاوی (۲۳۹ھ ۔۔۔ ۳۲۲ھ) ایسے ائمہ سنت اور ترجمانِ عقیدۂ سلف کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ فروع میں خود حنفی مذہب رکھتے ہیں البتہ ’’اصولِ دین‘‘ میں وہ پوری اُمت کو سلف کے اس منہج پر لاتے ہیں جس کی اِتباع حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، اہل الحدیث، اہل الظاہر وغیرہ سمیت سب پر یکساں لازم ہے۔یہی طریقہ اصولِ اہلسنت کی تعلیم دینے والے سب ائمہ کا رہا اور صدیوں چلتا رہا۔ فروع کو میدانِ کارزار کسی نے بھی نہ بنایا۔ لوگوں کے فقہی مذاہب چھڑوانے یا بدلوانے کی تحریک کبھی نہیں چلائی گئی۔ صرف تعصب اور تقدیسِ رجال سے ممانعت کی گئی۔ یہی طریقہ ہمیں آجری (م ۳۶۰ھ) ابن بطہ (م ۳۸۷ھ) ابن مندہ (م ۳۹۵ھ) اور لالکائی (م ۴۱۸ھ) وغیرہ کا دکھائی دیتا ہے جوکہ اپنے دور کے ائمہ سنت تھے اور اصولِ سلف کے بہترین ترجمان۔ یہاں تک کہ آج بھی ’’اصولِ اہلسنت‘‘ کیلئے انہی کے مؤلفات سے رجوع کیا جاتا ہے۔ پھر یہی اسلوب ہمیں بعد ازاں ابن تیمیہ، ابن قیم، نووی، ذھبی اور ابن حجر وغیرہ کے ہاں ملتا ہے۔ یہ سب اپنے اپنے دور میں سنت کے امام تھے۔ فروع کے اندر بحث وتحقیق میں بھی گو انہوں نے کوئی کمی نہیں چھوڑی مگر ’شافعی، مالکی‘ یا ’حنفی، اہلحدیث‘ والی جنگ بھی کبھی نہیں کروائی۔ البتہ اصولِ دین میں نزاع اور افتراق کی سرکوبی کی اور اس پہلو سے اُمت کو ’’پہلے والی راہ‘‘ پر لے آنے اور قائم رکھنے کیلئے سرگرم رہے۔ اُمت کی تالیف اور شیرازہ بندی کی ان کے ہاں یہی اساس تھی۔

چنانچہ فروع کے اندر فقہی مذاہب کا تنوع پایاجانا حرج کی بات تھی اور نہ اب ہے۔ مگر چوتھی صدی ہجری میں جو فرق آیا وہ مذہبی تعصب کی بدعت تھی۔ اس کے باعث فروع ہی لوگوں کیلئے اصول بن گئے۔ اب لازماً یہ ہونا تھا کہ اصول سرے سے ہی ان کی نگاہ سے روپوش ہو جائیں۔ سو سب معرکے اب اسی میدان میں سر ہونے لگے! یہاں تک کہ فقہی مذاہب بہت سوں کیلئے قریب قریب ’ادیان‘ کی شکل اختیار کر گئے!

*****

بہرحال اسلام کی پہلی تین نسلیں گزرجانے کے بعد معاً جو دور آیا اور حالات نے جس انداز سے پلٹا کھایا (سیاسی پلٹا تو صحابہ کے دورِ آخر میں ہی آگیا تھا مگر ہم ایک فکری اور نظریاتی پلٹے کی بات کر رہے ہیں) اس کے بعد اہلسنت سے منسوب کئی ایک طبقوں میں کچھ مبنی بر بدعت رحجانات در آنے لگے۔ نتیجتاً یہ بھی فکر وعمل کی کچھ ایسی جہتوں سے مانوس ہوتے چلے گئے کہ اہلسنت فلک میں گردش کرنے والی ایک کثیر تعداد آج تک ان رحجانات کے زیراثر ہے۔ خصوصاً برصغیر۔ ان تمام تر صدیوں میں اصلاح کی کوششیں بھی گو کم نہ رہیں پھر بھی اہلسنت کا داخلی میدان مکمل طور پر صاف نہ ہو سکا۔ تاآنکہ زوال کی یہ آخری صدیاں آئیں اور بہت کچھ اپنے ساتھ بہا لے گئیں۔ یوں اصلاح اور تبدیلی اور دِین کو خالص کرنے کا عمل اور بھی بہت پیچھے چلا گیا۔

تیسری صدی ہجری کے بعد سے لے کر یوں بھی ائمۂ اہلسنت پر کوئی وقت ایسا نہیں آیا جو شدید طور پر ہنگامی دور نہ ہو۔

بہرحال اہلسنت کی یہ پسپائی جو دورِ سلف کے متصل بعد آئی (مابین تیسری صدی کا وسط تا چوتھی صدی کا وسط) ۔۔۔ یہ ایک ایسا دھچکہ تھا جس سے آج تک اہلسنت کا وجود سنبھلنے نہیں پایا۔

*****

اب جب یہ دیکھنے کا وقت آگیا تھا کہ کسی آدمی کا منہج ’کتنے فیصد‘ سنت پر ہے تو طبعی بات تھی کہ اصولِ سنت اور منہجِ سلف کی ایک ازسرنو تنقیح بھی ہونے لگتی۔ ’اہلسنت‘ جب ایک نسلی اور گروہی پہچان ہو گئی تھی تو اصل حقیقت کو جلی کیا جانا وقت کی ضرورت تھا۔ سنت اور بدعت کا جہاں خلط ہو قدرتی طور پر وہاں یہ تمیز لازم تھی کہ کونسی چیز’’شروع سلف‘‘ سے چلی آرہی ہے اور کونسی چیز ’بعد میں‘ کہیں سے آشامل ہوئی ہے۔

پیش ازاں، قرون ثلاثہ کے دوران، اصول اہلسنت سے تمسک ایک نہایت معلوم حقیقت اور ایک حد درجہ متعین امر سے چمٹ جانے کا نام تھا۔ مگر اب اس معاملہ کی جو نئی جہت بنی وہ یہ کہ ’’اصول اہلسنت سے تمسک‘‘ کے معنی میں ’’چمٹ جانے‘‘ کے علاوہ ’’تنقیح کرلینا‘‘ (کہ آیا یہ وہ پہلے والی چیز ہی ہے) بھی شامل ہوگیا۔

پس اب اس دور کا تقاضا تھا کہ یہاں اصولِ اہلسنت کے نہایت ثقہ قسم کے ترجمان پائے جائیں۔ چنانچہ وقت کے اچھے اچھے مجاہدانہ کردار کے حامل علماء اپنے اپنے دور کے حوالے سے اصولِ اہلسنت کی ترجمانی کا فریضہ سرانجام دینے لگے۔ کچھ اہل علم تھے جنہوں نے خاص متعین میدانوں میں اصولِ سنت اور منہجِ سلف کی ترجمانی کی۔ جبکہ راہِ سلف کے کچھ خاص شہسواروں نے منہجِ سلف کی ایک جامع انداز کی ترجمانی کا فرض نبھایا۔ چنانچہ اِن بعد کی صدیوں میں کچھ خاص چہرے آپ کو اصولِ سنت اور منہجِ سلف کی شناخت بنے ہوئے نظر آئیں گے۔

’آپریشن‘ بغیر تکلیف کب انجام پاتا ہے؛ لازم تھا کہ اہلسنت سے تاریخی نسبت کے حامل طبقے اب آپس میں بھی الجھیں اور خود انہی کے بہت سے لوگ اس ’’تحقیق‘‘ اور ’’تنقیح‘‘ (درحقیقت احیاء وتجدید) کے عمل کو خوش آمدید کہنا اپنے لئے دشوار پائیں بلکہ اسکو بُرا بھلا کہنے، حتی کہ اسکو ’اہلسنت‘ ہی سے انحراف قرار دینے تک چلے جائیں!

چنانچہ تجدید کے سرخیل، منہجِ سلف کے ترجمان ائمۂ سنت کو ہر دور میں اپنوں کو گھر لانے کی خدمت بھی انجام دینا پڑی اور پرایوں سے اِس گھر کا تحفظ بھی کرنا پڑتا رہا۔

تب سے یہ معاملہ مختلف انداز میں اور مختلف سطحوں پر چلتا رہا ہے۔ اس میں اب ایک فرق پچھلے دو سو سال سے یہ آیا ہے کہ مغربی استشراقی افکار کے پوری دُنیا پہ چھا جانے کے باعث زمانہ ایک بالکل ہی نیا رخ اختیار کر گیا ہے اور یکایک اب یہ ضرورت آن پڑی ہے کہ وہ اصولِ سنت جن کی ترجمانی یہاں کے آج سے دو سوسال پہلے کے روایتی معاشروں کے اندر ہوتی رہی ہے انہی اصولِ سنت کی ترجمانی اب آج کے اِن غیر روایتی معاشروں میں کرکے دکھائی جائے۔ آج کے ان ’غیر روایتی مسائل‘ اور ’غیر روایتی بدعات‘ اور ’غیر روایتی انحرافات‘ کے مدمقابل سلف کے اس ٹھیٹ منہج کو لے کر آیا جائے اور سنت اور بدعت کے اس ’غیر روایتی‘ خلط کی بھی اسی منہج کی بنیاد پر ایک تنقیح کی جائے۔ یہ بہرحال کوئی چھوٹا چیلنج نہیں ہے؛ بہت سے اہل علم حضرات جو یہاں کے ’روایتی معاشروں‘ میں منہج سلف کی ایک اچھی ترجمانی کر سکتے تھے آج کے ان ’غیر روایتی‘ معاشروں میں کچھ بھی پیش کر سکنے سے قاصر ہیں۔ بلکہ سچ پوچھیں تو ہکا بکا دیکھے جاتے ہیں۔ الاماشاء اللّٰہ۔

اس لحاظ سے اب ہم جہاں کھڑے ہیں وہ تاریخ کا ایک پیچیدہ مقام ہے۔ اہلسنت کی اس بار کی پسپائی ہرگز کوئی چھوٹی پسپائی نہیں۔

 


(۱) یعنی دھواں اور آلودگی۔ مراد یہ کہ مجموعی طور پر معاملہ اہلسنت راہ پر تھا مگر بدعت کا ایک گونہ خلط تھا۔

(۲) البدایہ والنہایہ: جلد: ۱۱ صفحہ: ۲۲۲۔

(۳) بعض کیلئے یہ ایک ’عصبیت‘ کی شکل بھی اختیار کر گیا، جس کے مظاہر آپ آج بھی دیکھ سکتے ہیں۔

(۴) اہلسنت کے نزدیک یہ ممکن ہے کہ ایک ہی شخص میں سنت اور بدعت دونوں وصف مجتمع ہوں اور وہ اپنی سنت کے بقدر قابل ستائش ہو اور اپنی بدعت کے بقدر قابل گرفت یا__ خا ص حالات میں __ قابل عذر (دیکھئے فتاوی ابن تیمیہ ج ۲۸، ص ۲۰۹)

(۵) اس تاریخی اور واقعاتی مسئلہ کو وضاحت سے پڑھنے کیلئے دیکھئے: مجموع فتاوی ابن تیمیہ (ج:۳، ص ۳۴۸)

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز