عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Fehm_deen_masdar_2nd آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
دلائل ابن قیمؒ از اِعلام الموقعین صحابہؓ معیارِ حق ہیں اور اُنکے مدرسہ کی اتباع لازم
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

دلائل ابن قیمؒ از اِعلام الموقعین

صحابہؓ معیارِ حق ہیں اور اُنکے مدرسہ کی اتباع لازم

 

اعلام الموقعین میں یہ ایک طویل مبحث ہے؛ یعنی صحابہؓ کی علمی اتباع۔ یہاں ہم امام ابن قیمؒ کے ان دلائل سے استفادہ کریں گے۔ عموماً یہ امام صاحب کے کلام کی تلخیص ہوگی، تاہم کہیں کہیں پر ہم نے اس کے بعض نقاط کو کھول بھی دیا ہے۔ مسئلۂ ’’قولِ صحابیؓ‘‘ کی ٹیکنیکل جہتوں کی طرف یہاں ہم نہیں جائیں گے، جس کی کچھ وضاحت پچھلی فصل کے حاشیہ نمبر ۱ میں گزری ہے۔

 

۱) آیت سورۃ التوبۃ

وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ  (التوبۃ: ۱۰۰)

’’اور جو مہاجرین اور انصار (ایمان لانے میں سب سے) سابق اور مقدم ہیں اور (بقیہ امت میں) جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ اُن سب سے راضی ہوا اور وہ سب اُس (اللہ) سے راضی ہوئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اُن کیلئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے (اور) یہ بڑی کامیابی ہے۔ (ترجمہ: اشرف علی تھانوی)

وجہِ دلالت: آیت کے اندر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو قابل ستائش ٹھہرایا ہے جو مہاجرین و انصار کے سابقین اولین کی اتباع اختیار کرتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا: وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ۔

چنانچہ صحابہ (وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ) اگر کوئی قول کہیں، تو اُس قول کی دلیل جاننے سے پہلے اس میں ان کی اتباع کرنے والا شخص ہی السابقون الاولون من المہاجرین والأنصار کا متبع کہلائے گا اور وہ لازماً اِس پر قابل ستائش ہوگا اور اللہ کی خوشنودی کا مستحق ٹھہرے گا (کیونکہ فرمایا: رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ

صحابہؓ کے قول کی دلیل جاننے سے پہلے اس قول میں ان کی اتباع کیوں؟

وجہ یہ کہ آیت میں وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ کے جو الفاظ آئے ہیں اِس میں ’’اتباع‘‘ سے مراد اگر ’تقلیدِ محض‘ ہوتی، جیسا کہ ایک عامی کسی مفتی یا عالم کی تقلید کر لیتا ہے، تو لازم آتا کہ صحابہؓکی اتباع پر خوشنودیِ خداوندی (رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ) کے مستحق تب صرف اِس امت کے عامی ہوتے!!! رہ گئے علمائے مجتہدین تو ان کیلئے تو اس صورت میں صحابہ کی ’’اتباع‘‘ جائز ہی نہ ہوتی! پس واضح ہوا کہ آیت میں مذکور ’’صحابہ کی اتباع‘‘ سے مراد کوئی ایسی چیز ہے جو عامی پر بھی لازم ہے اور عالمِ مجتہد پر بھی۔

اب یہاں ہم اِس پر وارد ہونے والے بعض اشکالات کا جواب دیں گے:

پہلا اشکال:

آیت میں وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم ٍسے مراد ہے ’’دلیل‘‘ میں صحابہ کی پیروی کرنا۔ یعنی جو قول صحابہ نے اختیار کیا وہی قول اختیار کرنا، مگر تب جب کتاب و سنت سے اُس پر کوئی دلیل پائی جاتی ہو۔ مختصر یہ کہ آدمی پہلے اُس مسئلہ میں صحابہؓ کے اجتہاد اور استدلال کی صحت جانے اورپھر اگر وہ کتاب و سنت کے مطابق نکل آئے تو ضرور اُس کو قبول کر لے۔ کیونکہ صحابہؓ نے وہ قول کسی اجتہاد کی بنیاد پر ہی اختیار کیا ہو گا۔ یہ حضرات کسی کسی وقت یہ نکتہ بھی پیش کرتے ہیں کہ آیت میں مذکور لفظ ’’بِإِحْسَانٍ‘‘ اِسی بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کی اتباع ’’دلیل‘‘ کی بنیاد پر کی جائے نہ کہ بغیر دلیل۔ کیونکہ جو شخص صحابہ کی محض تقلید کرے گا (کسی قول میں صحابہؓ کی دلیل جانے بغیر اُنکی پیروی کرے گا) وہ ’’متبع بإحسان‘‘ (وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ) کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ کیونکہ اگر صحابہ کی مطلق اتباع ہی قابل ستائش ہوتی تو ’’اتباع بإحسان‘‘ اور ’’اتباع بغیر إحسان‘‘ کا فرق نہ کیا جاتا (جبکہ قرآن میں ’’بإحسان‘‘ کی شرط ذکر کر دی گئی)۔

ابن قیمؓ کا جواب:

’’اتباع‘‘ کے معنیٰ میں اِس بات کو شرط ٹھہرانا درست نہیں کہ صحابہ نے جو ’اجتہاد‘ یا ’استدلال‘ کیا ہے آدمی پہلے اُس کی صحت معلوم کرے اور اُس کو اپنے فہمِ کتاب و سنت پر پیش کرے۔ اور یہ بات اللہ کے فضل سے متعدد پہلو ؤں سے واضح ہے:

الف) ’’اتباع‘‘ کا ذکر جہاں کہیں قرآن میں آیا ہے، جیسے } فاتبعونی یحببکم اللہ تو پھر میری اتباع کرو { اور } واتبعوہ لعلکم تہتدون اور اِس کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پا جاؤ { نیز } ویتبع غیر سبیل المؤمنین اور جو شخص اتباع کرے مومنوں کے راستے کے ماسوا کی{ .. وہاں ’’اتباع‘‘ اِس بات پر موقوف نہیں ہوتی کہ جس قول کی اتباع کرنا ہو آدمی __ اُس کے قائل کی حیثیت کو نظر انداز کر تے ہوئے __ اُس قول کی اپنی صحت پر ہی دلیل مانگے اور خود اپنی صوابدید سے اُس کو چیک کرے اور اگر اُس کا خیال بنے کہ اس پر دلیل نہیں پائی جاتی تو اپنے آپ کو اُس کی پابندی سے آزاد جانے! اِس طرح تو آپ نے ہر شخص کو راہِ فرار دے دی کہ جب تک اُس کی اپنی تسلی نہ ہو او روہ بھی اُس کے اپنے معیارات کی رو سے، تب تک وہ اس کا پابند ہی نہیں!

ب) آیت میں مذکور ’’صحابہؓ کی اتباع‘‘ سے مراد اگر یہ ہوتی کہ ان کے قول کی صحت پر دلیل مانگی جائے، یعنی صحابہ کی ’’اتباع‘‘ کسی مسئلہ میں اُن کے استدلال و اجتہاد کی چھان بین کر لینے کے بعد ہی کی جائے .. تو پھر آیت میں مذکور ’’سابقین اولین از انصار و مہاجرین‘‘ کے مابین اور ان کے مابعد آنے والی جملہ مخلوقات کے مابین کوئی فرق ہی نہیں رہ جاتا۔ بھئی جب دلیل پوچھ کر ہی صحابہ کی بات تسلیم کی جائے گی تو دلیل پوچھ کر تو ہر کسی کی بات ہی تسلیم کر لی جائے گی! پھر صحابہ کی خصوصیت کیسی؟ تب تو آیت میں مذکور صحابہؓ اور دیگر سب لوگ ایک برابر ہوگئے اور آیت میں خاص ان کی اتباع کا ذکر بے معنی ہو گیا! جب آپ نے کہا کہ دلیل دیکھی جائے گی تو ’’دلیل‘‘ تو بذاتِ خود واجب الاتباع ہے اور اُس کو تو جس کے بھی ہاں وہ پائی جائے اُسی سے لے لینا ضروری ہوگا! ظاہر سی بات ہے جو شخص بھی صحیح دلیل دے دے اُس کی بات تسلیم کرلینا واجب ہے۔ ’’اتباع‘‘ سے مراد اگر یہی ہے پھر تو کائنات میں ہر شخص ’واجب الاتباع‘ ہے!!! آیت میں مذکور صحابہؓ کا پھر کیا اختصاص باقی رہ جاتا ہے؟!

ج) اگر یہ ضروری ہے کہ پہلے صحابہ کا استدلال ہی دیکھا جائے، تو فرض کیجئے آپ نے صحابہؓ کا استدلال معلوم کر لیا۔ اب یا اُس قول کے معاملہ میں صحابہ کی مخالفت جائز ہوگی یا ناجائز ہوگی۔ اگر آپ کہیں کہ ناجائز ہے تو یہی ہمارا بھی کہنا ہے کہ صحابہ کے قول کی مخالفت جائز نہیں۔ اور اگر آپ کہیں کہ صحابہ کے قول کی مخالفت جائز ہے تو آپ نے خاص اُس حکم میں صحابہ کے قول کی مخالفت کی اور کہا کہ صحابہؓ کا استدلال درست ہوتا تب میں اُن کی اتباع کرتا۔ اور ظاہر ہے صحابہ کے استدلال کو صحیح یا غلط قرار دینے میں حتمی حیثیت آپ کے اپنے فہمِ دلیل کی ہوئی۔ اب جس شخص کی شرط یہ ہے کہ اُسکا اپنا استدلال صحابہ کے استدلال کے موافق نکل آئے تو تب جا کر ہی وہ صحابہ کے قول کو اختیار کرے گا اُس کو صحابہ کا متبع کیونکر کہا جائے جبکہ خاص اُس حکم میں اُس نے صحابہ کے قول کے مخالف جانا روا کر رکھا ہے؟

د) جس شخص نے صحابہ کے اختیار کردہ حکم کے معاملہ میں صحابہ کے خلاف جانا اپنے لئے روا ٹھہرا لیا ہے اُس کو صحابہ کا متبع کہنا لغو کی قسم میں آئے گا۔ جو شخص کسی مسئلہ میں ایک مجتہد کے اختیار کردہ قول کو جابجا رد کر دیتا اور اس کے خلاف جانا روا کر لیتا ہو اُس کے بارے میں یہ کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ اُس شخص نے اُس مجتہد کی پیروی کر رکھی ہے؟ اور اگر کسی وقت یہ کہا بھی جائے تو اُس کو مقید کرتے ہوئے یہ کہنا ضروری ہو گا کہ وہ شخص اُس مجتہد کے اجتہاد یا استدلال کو وہاں اختیار کر لیتا ہے جہاں وہ اُس کے اپنے اجتہاد یا استدلال کے مطابق نکلے!

ھ) ’’اتباع‘‘ باب ’’افتعال‘‘ سے ہے۔ (یعنی آیت میں لفظ تَبِعَ نہیں بلکہ اتَّبَعَ ہے) ’’اتباع‘‘ میں کسی کے پیچھے چلنے اور اُس کا ضرورت مند ہونے کا ایک معنیٰ پایا جاتا ہے۔ جبکہ دو مجتہد اگر ایک سا استدلال کر رہے ہوں تو محض یہ دیکھ کر کہ اُن دونوں کا استدلال ایک سا ہے اُن میں سے کسی ایک کو دوسرے کا ’’متبع‘‘ نہیں کہا جاتا، جب تک کہ ان میں سے ایک مجتہد دوسرے کے پیچھے چلنے اور اُس کی بات کی پابندی اختیار کرنے کا باقاعدہ ایک اعتقاد نہ رکھتا ہو۔ اگر اتفاقاً آپ کا بھی وہی اجتہاد نکل آتا ہے جو ایک دوسرے شخص کا ہے یا آپ کا بھی وہی فتویٰ ہے جو ایک دوسرے شخص کا ہے، تو یہاں آپ کو اُس کا متبع نہیں کہا جائے گا۔

و: آیت کا مقصود سابقون الاولون کی ثنا کرنا ہے اور ان کی اِس سابقیت کے باعث ان کا یہ استحقاق بیان کرنا کہ بعد والوں کیلئے اب وہ ائمہ متبوعین(۵) قرار پائیں۔ البتہ اگر یہ معنیٰ لیا جائے کہ نہ تو ان کے اختیار کردہ قول کی موافقت ضروری ہے اور نہ اس کی مخالفت میں ہی کوئی شرعی مانع ہے بلکہ اتباع تو ہوگی دلیل اور قیاس واجتہاد وغیرہ ہی کی، تو ان کا یہ منصب نہ رہا کہ وہ ائمہ متبوعین ہیں۔ تب وہ اِس مدح اور ثناء کے مستحق نہیں رہتے کہ بعد والے ان کی اتباع کریں۔

ذ) جہاں تک آیت میںآنے والے لفظ ’’بإحسان‘‘ کا تعلق ہے(۱) تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی خود اپنا ایک اجتہاد کرے، خواہ وہ اجتہاد صحابہ کے قول کے موافق پڑے یا مخالف۔ کیونکہ اگر اس کا اجتہاد صحابہؓ کے قول کے مخالف نکلتا ہے اور وہ اپنے اجتہاد ہی کو اختیار کرتا ہے تو وہ آیت میں مذکور لفظ ’’اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ‘‘ کے زمرے میں آنا تو درکنار ’’اتَّبَعُوهُم‘‘ ہی کے زمرے میں نہیں آتا، ۔ اپنا استدلال یا اجتہاد کرکے ایک قول کو اختیار کرنا اُس قول میں صحابہ کی اتباع کرنا کیسے ہو گیا؟ ’’متبع صحابہ‘‘ کا لفظ تو اسی شخص پر صادق آئے گا جو اعتقاد اور قول میں صحابہؓ ہی کی موافقت اختیار کرے۔ ہاں اِس کے ساتھ ساتھ، خدا کی خوشنودی (رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ   کا استحقاق پانے کیلئے) یہ بھی ضروری ہے کہ وہ محسن (بھلائی کرنے والا) ہو یعنی فرائض کا ادا کرنے والا اور محرمات سے اجتناب کرنے والا ہو تاکہ وہ اِس فریب میں نہ رہے کہ وہ قول کی حد تک عین اُسی راستے پر ہے جس پر صحابہ تھے (بلکہ ضروری ہے کہ عمل میں بھی وہ احسان کی راہ پر ہو)۔ نیز یہ بھی ضروری ہے کہ صحابہ کی پیروی کرنے والا صحابہ کے بارے میں جو الفاظ بولے ان میں وہ محسن (بھلائی کرنے والا) ہو (یعنی صحابہ کیلئے خوب الفاظ استعمال کرے) اور ان کی عیب جوئی نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو ضروری ٹھہرایا، اس لئے کہ اُس کو علم تھا کہ بعد ازاں ایسے لوگ آئیں گے جو صحابہ پر (معاذ اللہ) لعن طعن کریں گے۔ صحابہ کے ساتھ احسان کا یہ مفہوم سورۂ حشر میں مذکور اُس ذکرِ خیر کے ساتھ جڑ جاتا ہے جو صحابہ کیلئے بعد والوں پر لازم قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ سورۂ حشر میں مہاجرین اور انصار کا ذکر کر دینے کے بعد ’’والذین جاؤوا من بعدہم‘‘ کا ذکر آیا اور ان کا وہ اخص الخاص وصف بیان ہوا کہ وہ کہتے ہیں: ’’اے ہمارے پروردگار! بخش دے ہم کو اور ہمارے اُن بھائیوں کو جو ایمان میں ہم سے پہلے ہوئے (سبقونا بالایمان: یہاں بھی اولین صحابہ کی سابقیت ہی کا ذکر ہوا ہے) اور نہ رہنے دے ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے خلاف کوئی کدورت‘‘۔

دوسرا اشکال:

آیت میں صحابہؓ کی اتباع کا جو ذکر آتا ہے وہ اصولِ دین میں ہے نہ کہ فروع میں۔

ابن قیمؒ کا جواب:

آیت میں صحابہ کی مطلق اتباع کا ذکر ہوا ہے۔ نیز وہ شخص جو اصولِ دین ہی میں صحابہؓ کا متبع ہے اس کو اگر مطلق طور پر صحابہ کا متبع مان لیا جائے تو ہم پچھلی امتوں کے اہل ایمان کے بھی متبع قرار پائیں گے (کیونکہ اصولِ دین سب آسمانی امتوں میں ایک ہی رہے ہیں)۔ تب اِس امت کے سابقین اور دیگر اہل ایمان کے مابین کوئی بڑا فرق نہ رہ جائے گا۔ جبکہ آیت میں صحابہ کی مطلق اتباع کا ذکر ہے۔ لہذا اِس اتباع کو مطلق ہی رکھا جائے گا جو اصول دین کو بھی شامل ہو گی اور فروعِ دین کو بھی۔ اگر صرف اصول میں صحابہ کی اتباع کی جائے گی تو گویا صحابہ کی مطلق امامت ہم نے تسلیم نہیں کی۔ حالانکہ صحابہ ہر معنیٰ میں ائمہ ہیں۔ اصول میں بھی وہی امام ہیں اور فروع میں بھی۔

تیسرا اشکال:

آیت میں جو چیز قابل ستائش ٹھہرائی گئی ہے وہ ہے اُن سب کی اتباع کرنا۔

ابن قیمؒ کا جواب:

ہم کہتے ہیں آیت کا اقتضاء یہ ہے کہ وہ شخص قابل ستائش ٹھہرایا جائے جو اُن میں سے ایک ایک کی اتباع کرتا ہے، اُسی طرح جس طرح آیت میں مذکور الفاظ وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَاور وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم میں سے ایک ایک کیلئے رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ کی خوشخبری دیتے ہیں ۔

پس جس طرح ’’وَالسَّابِقُونَ‘‘ میں سے ایک ایک متبوع ٹھہرتا ہے ویسے ہی وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم میں سے ایک ایک تابع ٹھہرتا ہے۔ آیت کے الفاظ اُن پر مجتمع طور پر بھی لاگو ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک ایک(۶) پر بھی(۲)۔ نیز آیت سب ’’سابقون‘‘ کیلئے عام ہے؛ جہاں یہ سب اکٹھے ہوں وہاں ان کے اکٹھوں کی پیروی ہو گی جہاں ان کا ایک ایک فرد پایا جائے بشرطِ امکان وہاں ان کے ایک ایک فرد کی پیروی ہو گی۔ پس یہ مجتمع ہوں تو ان کی پیروی ہو گی، افراد ہوں تو ان کی پیروی ہو گی بشرطیکہ ان کے اپنے میں سے ہی کسی دوسرے نے اس کی مخالفت نہ کی ہو۔

نیز سابقون میں سے کئی ایک نبی ا کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ لہٰذا اگر شرط یہ ہے کہ وہ سب کے سب اکٹھے ہوں تو تب جا کر آیت کی رو سے ان کی پیروی درست ہوگی تو یہ شرط پوری ہونا تو ویسے ہی محال ہے۔

*****(۳)

ابن قیم کے مزید دلائل

اِس کے بعد امام ابن قیمؒ صحابہ کی اتباع پر کچھ مزید دلائل اختصار کے ساتھ لاتے ہیں۔ ہم ان میں سے چند ایک کو مختصر تر صورت میں بیان کریں گے:

۲) صحابہ کو قرآن نے ’’الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ‘‘ ہونے کی باقاعدہ سند دی ہے۔ اور یہ سند ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کے علاوہ کسی کو نہیں دی:

ابن قیمؒ کے بقول: صحابہ کیلئے ’’الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ‘‘ کے الفاظ سورۃ المجادلہ میں آئے ہیں:

يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ (المجادلۃ: ۱۱)

’’اللہ بلند کرے گا درجہ بدرجہ ان لوگوں کو جو تم میں سے ایمان لائے اور جن کو علم دیا گیا‘‘

پھر یہی لفظ (صحابہؓ کیلئے) سورۃ محمد (آیت ۱۶) میں بولے گئے:

حَتَّى إِذَا خَرَجُوا مِنْ عِندِكَ قَالُوا لِلَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آنِفًا

’’یہاں تک کہ جب یہ (منافقین) تیرے پاس سے نکل کر جاتے ہیں تو ان لوگوں سے جن کو علم دیا گیا ہے کہتے ہیں: ’’اس نے ابھی ابھی کیا کہا تھا؟‘‘

پس ایک طرف صحابہؓ ہیں جن کی بابت نصوصِ وحی خود شاہد ہیں کہ یہ وہ ہستیاں ہیں جو بالیقین شریعتِ خداوندی کا علم رکھتی ہیں۔ اور دوسری جانب بعد کی ہستیاں ہیں جن کی بابت بذریعہ وحی ایسی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی کہ وہ شریعتِ خداوندی کا ٹھیک ٹھیک علم رکھتی ہیں۔

بلکہ سورہ محمد میں آپ دیکھیں تو ایک ہی مقام پر صحابہ کیلئے ’’لِلَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ‘‘ کے لفظ بھی بولے گئے یعنی ’’وہ لوگ جن کو علم دے دیا گیا‘‘۔ پھر ’’وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا‘‘ کے لفظ بھی، یعنی ’’وہ لوگ جو ہدایت پا گئے‘‘۔ پھر ’’زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْواهُمْ‘‘ کے لفظ بھی، یعنی ’’اللہ نے ان کو اور بھی ہدایت سے نوازا اور ان کو تقویٰ نصیب فرمایا‘‘۔ بتائیے اِس امتیاز میں صحابہ کے ساتھ کون شریک ہو سکتا ہے؟

آیت کے الفاظ یوں ہیں:

وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ حَتَّى إِذَا خَرَجُوا مِنْ عِندِكَ قَالُوا لِلَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آنِفًا أُوْلَئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءهُمْ  وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْواهُمْ  (محمد: ۱۶،۱۷)

اور ان (منافقین) میں بعض تیری طرف کان لگائے رکھتے ہیں حتی کہ جب تیرے پاس سے نکلتے ہیں تو ان لوگوں سے جن کو علم دیا گیا ہے کہتے ہیں: ’’اس نے ابھی ابھی کیا کہا تھا؟‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور وہ اپنے نفس کی اَھواء پر چلتے ہیں۔ البتہ وہ لوگ جو ہدایت پا گئے ہیں اللہ نے ان کی ہدایت میں اضافہ کر دیا ہے اور انہیں تقویٰ نصیب فرما دیا ہے۔

۳) جن کو ’’ہدایت یافتہ‘‘ ہونے کی سند شارع نے خود دی ہے:

یہاں پر ابن قیمؒ چند قرآنی آیات لاتے ہیں:

الف) آل عمران (آیت ۱۰۳) میں خاص صحابہؓ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ’’اور تھے تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر، تب اللہ نے تمہیں اُس سے بچایا۔ ایسے ہی اللہ تمہارے لئے آیات بیان کرتا ہے کہ تم ہدایت پاؤ‘‘۔ یہاں پر اللہ نے صحابہ کو فرمایا (لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ)۔ جبکہ ہم جانتے ہیں جس واقعہ کیلئے لَعَلَّ کا لفظ اللہ رب العزت بولے وہ واجب اور یقینی ہوتا ہے؛ لہٰذا صحابہ بالیقین ہدایت یافتہ ہیں۔ باقیوں کی بابت ایسی کوئی یقین دہانی نہیں۔

ب) سورہ محمد (آیت ۴، ۵) میں صحابہ کی بابت فرمایا: وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ’’جو مارے جاتے ہیں اللہ کی راہ میں، اللہ ان کے اعمال کبھی اکارت نہ جانے دے گا۔ وہ ان کو راہ دکھائے گا‘‘۔ یہاں سے بھی صحابہؓ کی وہ خصوصیت سامنے آتی ہے کہ راہِ راست ملا رہنے کی بابت صحابہؓ سے اللہ کا خاص وعدہ ہے۔

ج) پھر سورہ عنکبوت (آیت ۶۹) میں اُن کو ہدایت ملی رہنے کی یقین دہانی کروائی: وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ’’جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کریں گے، ہم ضرور بضرور اُن کو اپنی راہیں دکھاتے چلے جائیں گے‘‘

ان آیات کو نقل کرنے کے بعد امام ابن قیمؒ لکھتے ہیں: صحابہؓ میں سے ہر شخص جس نے اللہ کے راستے میں قتال کیا اور جہاد کیا، خواہ وہ ہاتھ کے ساتھ ہو یا زبان کے ساتھ، ان آیات کی رو سے اللہ نے اس کو ہدایت یافتہ کر رکھا تھا۔ ہر وہ شخص جس کو اللہ نے ہدایت یافتہ کر رکھا ہے وہ راہِ راست پر ہے۔ اور جو راہِ راست پر ہے اُس کا طریقہ اور منہج واجبِ اتباع ہے۔

۴) ’’مہتدون‘‘ کی اتباع کا حکم بھی فرمایا:

اتَّبِعُوا مَن لاَّ يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُم مُّهْتَدُونَ (یس: ۲۱)

’’پیروی کرو ان کی جو تم سے صلہ نہ مانگیں اور جو ہوں بھی راہِ راست پر‘‘

ابن قیم کہتے ہیں: اللہ رب العزت نے یہ قاعدہ سورۂ یس میں مذکور اُس مردِ مومن کی زبان سے بر سبیل رضا وتحسین ادا کروایا ہے کہ ان بے لوث لوگوں کی پیروی کی جائے جو ہم سے کسی صلہ کے خواستگار نہیں جبکہ وہ ہوں بھی ہدایت یافتہ۔ اب دنیا کے کسی شخص یا کسی گروہ کے بارے میں دعوی کے ساتھ یہ کہا ہی نہیں جا سکتا کہ وہ ہدایت پا چکے سوائے صحابہ کے جن کے ایمان اور جن کے راہِ راست پر ہونے کی شہادت قرآن نے بھی دی ہے اور نبی ا نے بھی۔

۵) وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا (البقرۃ: ۱۴۳)

’’اسی طرح ہم نے تمہیں سب سے چنیدہ گروہ بنایاتاکہ تم ہو جاؤ گواہ سب لوگوں پر اور رسولؐ ہو جائے گواہ تم لوگوں پر‘‘۔

امام ابن قیمؒ کہتے ہیں: یہاں وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو سب سے برگزیدہ اور حق بات کرنے والا گروہ بنایا، یعنی امۃً وسطاً۔ اپنے اقول، افعال، اعمال، ارادات اور نیتوں میں صحابہ سب سے بڑھ کر عدل پر ہیں۔ لفظ ’’وسط‘‘ کی اصل حقیقت یہی ہے۔ اپنی اِسی صفت کے بموجب صحابہ لوگوں پر اللہ کے گواہ ہیں۔ گواہ وہی قابل قبول ہوتا ہے جو علم کے ساتھ گواہی دے۔ صحابہؓ انسانیت پر اللہ کے شہداء ہیں تو وہ اپنی اِس صفت کے باعث کہ اللہ نے ان کو اپنے رسولؐ پر اتاری جانے والی حقیقت کا علم اور فہم دے دیا ہے اور اس پر قائم ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے، جس کے دم سے وہ انسانیت پر خدا کی شہادت قائم کریں گے۔ اِسی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ صحابہ میں اختلاف بھی ہو تو حق ان سے خارج بہرحال نہیں ہوتا۔ انسانیت پر خدا کے پیغام کے گواہ __ از روئے قرآن __ صحابہ ہوں اور حق کسی اور کے ہاں پایا جائے، یہ کیسے ہو سکتاہے؟؟؟

۶) سورۂ بقرہ کی اِسی آیت کے ساتھ امام ابن قیمؒ سورہ حج کی یہ آیت لے کر آتے ہیں:

وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ (الحج: ۷۸)

’’اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں جیسا اس کی راہ میں جہاد کرنے کا حق ہے۔ اُس نے تمہیں چن لیا ہے اور نہیں کیا تم پر دین کے اندر کوئی حرج۔ اپنے باپ ابراہیم کی ملت کو اختیار کرتے ہوئے۔ اُس نے تمہارا نام مسلم (فرماں بردار) رکھا ہے پہلے بھی اور اِس میں بھی۔ تاکہ رسول تم پر گواہ ہو جائے اور تم انسانوں پر گواہ ہو جاؤ‘‘۔

آیت میں بیان ہونے والے کچھ مطالب کی توضیح کر دینے کے بعد ابن قیم فرماتے ہیں: پھر اللہ تعالیٰ صحابہ کو خبر دیتا ہے کہ اُس نے (ان کا یہ مقام اور ان کا یہ چناؤ) اس لئے کیا کہ رسولؐ ان پر شہادت قائم کر دے اور وہ انسانوں پر شہادت قائم کر دیں۔ پس ان کے حق میں یہ خاص شہادت اس وجہ سے ہے کہ رسولؐ نے ان پر شہادت قائم کر دی ہے جس کے باعث اب وہ اہل ہیں کہ جملہ انسانیت پر شہادت قائم کر دیں۔ مقصود یہ کہ صحابہ اللہ کے ہاں اگر اِس منزلت پر ہیں تو پھر یہ محال ہے کہ ایک مسئلہ میں اللہ ان کے سب کے سب کو قولِ صائب سے محروم رکھے، یعنی ان میں اگر کہیں اختلاف ہو گیا ہے تو ان کے دونوں کے دونوں فریق ایک غلطی پر مبنی فتویٰ ہی دے رہے ہوں، جبکہ ان کے بعد آنے والے اُس مسئلہ کے اندر ہدایت اور حق کی راہ کو پانے کا اعزاز حاصل کر دکھائیں!!!

(خدا ایسی کج فہمی سے بچا کر رکھے)

۶) اسی سے متصل امام ابن قیمؒ سورہ آل عمران کی یہ آیت لے آتے ہیں:

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ (آل عمران: ۱۱۰)

’’تم وہ بہترین گروہ ہو جو انسانیت کیلئے برپا کیا گیا، کہ تم معروف کا حکم دیتے ہو، منکر سے روکتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔

پھر فرماتے ہیں صحابہ کا ہر معروف کا حکم دینا اور ہر منکر سے روکنا از روئے قرآن ثابت ہے۔ پس اگر ایک واقعہ ان کے زمانے میں پیش آیا ہے تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس مسئلہ میں معروف کی نشاندہی کرنے والا گروہ صحابہؓ کے مابین نہ پایا گیا ہو۔

۷) امام ابن قیمؒ مزید فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اصحابِ موسیٰؑ کا منصبِ امامت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ (السجدۃ: ۲۴)

’’اور ہم نے ٹھہرایا ان کو ائمہ، جو راہ دکھاتے تھے ہمارے حکم سے ، جب وہ صابر ہوئے، اور تھے وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھنے والے‘‘۔

موسی علیہ السلام کی متابعت میں اصحابِ موسیٰؑ کے صبر اور یقین کی کچھ وضاحت کرنے کے بعد امام ابن قیمؒ لکھتے ہیں: یہ تو معلوم ہی ہے کہ اصحابِ محمدؐ اس وصف میں اصحابِ موسیٰؑ کی نسبت کہیں بڑھ کر اور اولیٰ تر ہیں۔ اِن کا یقین بھی اُن سے بڑھ کر ہے اور اِن کا صبر بھی۔ بلکہ صبر و یقین میں صحابہ تاریخ انسانی کے کسی بھی گروہ سے بڑھ کر ہیں۔ پس صحابہ ائمہ ہیں۔ یہ چیز بلا شک و شبہ ثابت اور ظاہر و باہر ہے۔ پس یہ محال ہے کہ کسی مسئلہ میں جو بات حق ہے وہ صحابہ کے تو کسی ایک بھی فریق کے ہاتھ نہ آئے البتہ بعد والوں کے ہاتھ میں وہ حق آجائے! ایسا ہوتا تو معاملہ الٹ ہو جاتا، تب تو متاخرین کو ’ائمہ‘ کہلانا چاہیے تھا اور پہلے والوں کو ان کے فتاویٰ اور ان کے اقوال کی جانب رجوع کا پابند ہونا چاہیے تھا، جو کہ عقلاً بھی محال ہے اور حسی طور پر بھی۔ حق یہ ہے کہ عقل و حس سے پہلے یہ شرعاً محال ہے۔ اور توفیق دینے والا اللہ ہے۔

۸) اسی کے ساتھ متصل یہ بات کہ صحابہؓ کی یہ مناجات اللہ تعالیٰ نے برسبیل تحسین واقرار ذکر کی ہے:

وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (الفرقان: ۷۴)

’’اور وہ لوگ جو کہتے ہیں: اے ہمارے پرودگار! بخش دے ہمیں ہماری ازواج اور ہماری اولادوں سے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک۔ اور کر دے ہمیں متقیوں کیلئے امام‘‘

ابن قیم لکھتے ہیں: قیامت تک کے متقیوں کیلئے صحابۂ کرامؓ امام ہیں۔ جس کسی کو متقی بننا ہے اس کو چاہیے صحابہ کی امامت میں چلے اور صحابہ کی اقتدا اختیار کرے۔ متقی بننا واجب ہے تو صحابہ کی امامت اور اقتدا اختیار کرنا بھی واجب ہے۔ اور صحابہ کے اختیار کردہ قول و اعتقاد کی مخالفت کرنا صحابہ کی اقتداء کے ساتھ معارض ہے۔

۹) پھر ابن قیمؒ خیر القرون قرنی ’’سب سے بہتر میرا قرن ہے‘‘ والی مشہور حدیث لاتے ہیں۔ پھر اس کی کچھ توضیح کرنے کے بعد فرماتے ہیں: اِسی حدیث کا تقاضا ہے کہ خیر کے ہر باب میں صحابہ کے قرن ہی کو مقدم مانا جائے اور اسی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھا جائے۔ اگر متصور کر لیا جائے کہ قولِ صواب صحابہ کے قرن میں تو کسی ایک بھی شخص یا ایک بھی فریق کے ہاتھ نہیں آ پایا البتہ بعد میں آنے والے لوگوں کا اُس پر ہاتھ جا پڑا ہے تو اِس سے یہ لازم آئے گا کہ بعد والوں کا قرن اُس پہلو سے صحابہ کے قرن سے بہتر اور فضیلت میں بڑھ کر ہے۔ ظاہر ہے جس قرن میں قولِ صواب امت کے ہاتھ لگا وہ اُس قرن سے بہتر ہو گا جس میں امت خطا پر پائی گئی! جو شخص کسی ایک آدھ مسئلہ میں اِس اعتقاد کا روادار ہے اُس کو ہزاروں مسئلوں کی بابت بھی یہ اعتقاد رکھنے میں کوئی اصولی مانع نہیں رہ جاتا؛ یعنی بے شمار مسائل میں اِس شخص کا قول صحابہؓ کے قول سے بہتر ہو سکتا ہے! اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ اصل برگزیدگی علم و فضل کی برگزیدگی ہے جو کہ اِس شخص کے خیال میں صحابہ کے دور کی نسبت اِس کے اپنے دور میں پائی جانے لگی ہے! کیا محرومی سی محرومی ہے؛ صدیقؓ، فاروقؓ، عثمانؓ، علیؓ، ابن مسعودؓ، سلمان فارسیؓ، عبادہ ابن الصامتؓ اور انہی جیسے بے حد و حساب ائمۂ علم تو کہہ رہے ہوں کہ ایک مسئلہ میں خدا کے نازل کردہ حکم کا منشا یوں ہے مگر یہ شخص سمجھے کہ نہیں حق ان سبھی کے ہاتھ نہیں آ سکا ہے، بلکہ حق وہی ہے جو کچھ بعد والوں پر منکشف ہو گیا ہے بلکہ جو خود اُس پر منکشف ہو گیا ہے! سبحانک ھٰذا بہتان عظیم۔

۱۰) امام ابن قیمؒ مزید لکھتے ہیں: استدلال اور استنباط اور ترجیح ادلہ کس قدر نازک مبحث ہے، اس کا اندازہ اُسی شخص کو ہو سکتا ہے جس کو علم سے کچھ مس ہے۔ یہاں پر اگر اصحابِ رسول اللہ کے اقوال اور فتاویٰ مل جائیں تو اِس سے بڑھ کر کوئی مدد نہ ہو گی جو قولِ صواب اختیار کرنے میں ایک مجتہد کی رہنما ہو سکے۔ اللہ کے اُن سے راضی ہونے کی سند ہمیں واضح طور پر حاصل ہے۔ امت کے سردار وہ ہیں۔ علم کے امام اور پیشوا وہ ہیں۔ ’’تنزیل‘‘ اور ’’سنت‘‘ کے سب سے بڑے عالم وہ ہیں۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جو تیئیس سال تک تنزیل خداوندی کا مشاہدہ کرتی اور اس کی تاویل اور تفسیر ہوتی ہوئی خود اپنی آنکھوں سے دیکھتی رہی ہیں۔ جو شخص بھی علمِ حقیقی سے کچھ حظ رکھتا ہے وہ اپنی رائے اور قیاس کو ان کے علمی ذخیروں کے آگے کوئی چیز جاننے سے بے حد اجتناب کرتا ہوا نظر آئے گا۔ ایک حقیقی عالم کو جو تسلی صحابہ کا قول مل جانے پر ہوتی ہے اُس کا ادراک کر لینا بھی اُس کے سوا کسی کے بس میں نہ ہو گا۔

۱۱) مزید یہ کہ صحابہ کے اپنے فہم و ذکاء، اور حق کو پانے اور سمجھنے کی بابت ان کی اپنی حرص کے علاوہ یہ بات بھی واضح رہے کہ کچھ اشیاء خاص صحابہ ہی کے حق میں پائی جاتی ہیں۔ ایک بات جو ہمیں صحابی سے مل رہی ہے بے حد امکان ہے کہ وہ بات اُس نے رسول اللہ ا سے سن رکھی ہو۔ یا پھر کسی دیگر صحابی سے سنی ہو جس نے وہ بات نبی ا سے سنی ہو، جبکہ صحابہؓ سب کے سب عدول ہیں۔

ابن قیم اِس مبحث کو بھی بہت کھول کر بیان کرتے ہیں کہ:

ضروری نہیں ہر صحابی نے جتنا کچھ رسول اللہ ا سے سن رکھا تھا وہ سب کا سب باقاعدہ روایت کی صورت میں ہی اُس نے بیان کیا ہو (صحابی کی بہت سی باتیں جو وہ رسول اللہ ا سے روایت کے انداز میں ہم سے بیان نہیں کر رہا، وہ بھی رسول اللہ ا سے ہی سنی ہوئی ہو سکتی ہیں)۔ رسول اللہ ا کی صحبت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر کبار صحابہؓ سے بڑھ کر کس نے کی ہو گی؟ لیکن اِن بڑے بڑے صحابہ سے کوئی بہت زیادہ احادیث مروی نہیں۔

ایسا تو بہرحال نہیں کہ جتنی باتیں ان کبار صحابہؓ نے رسول اللہ ا سے باقاعدہ روایت کے انداز میں ہمیں بیان کر کے دیں انہوں نے بس اُتنی ہی باتیں رسول اللہ ا سے سنی ہوں۔

ذرا اِسی بات پر غور کر لیجئے: اِس امت کے صدیق (ابو بکر رضی اللہ عنہ) سے بڑھ کر بھلا کس نے نبی ا کے ساتھ وقت گزارا ہو گا؟ جبکہ ابو بکرؓ کی روایت کردہ احادیث کی تعداد سو کوبھی نہیں پہنچتی! یہ امت کا وہ صحابی ہے جس نے بعثت کے وقت سے نبی ا کا دامن تھاما اور وفات تک نہ چھوڑا، ہر ہر وقت اور ہر ہر مرحلہ پر آپؐ کے ساتھ رہا۔ بلکہ یہ آپؐ کا وہ ساتھی ہے جو بعثت سے پہلے بھی آپ کے ساتھ ہوتا تھا! نبی ا کے شب و روز کا حتی کہ آپ کے مزاج اور احوال کا ابوبکرؓ سے بڑھ کر کون علم رکھ سکتا ہے؟ علم کا ذخیرہ ابوبکرؓ سے بڑھ کر بھلا کس کے پاس پایا جا سکتا ہے؟ پھر بھی آپ دیکھتے ہیں چند احادیث ہی اِس صحابی سے ہمیں باقاعدہ ’’روایت‘‘ کی صورت میں ملتی ہیں۔

حضراتِ ابو بکرؓ و عمرؓ اگر وہ سب کچھ باقاعدہ روایت کی صورت میں ہمیں بیان کر کے دیتے جو انہوں نے رسول اللہا سے سنا اور دیکھا اور سمجھا اور پایا تو ان کے روایت کردہ ذخیرے ابوہریرہؓ و دیگر راوی صحابہؓ کے ذخیروں سے کہیں بڑھ جاتے(۴)۔ ایسا ہی معاملہ دیگر کبار علمائے صحابہؓ کا ہے۔ کسی آدمی کا یہ کہنا کہ صحابیؓ کے پاس اِس مسئلہ میں اگر رسول اللہ ا سے سنی یا جانی ہوئی کوئی چیز ہوتی تو صحابی کو لازماً چاہیے تھا کہ وہ ’روایت‘ کی صورت میں ہی ہمیں بیان کر کے دیتا.. یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جو صحابہ کی سیرت اور اطوار سے واقف ہی نہیں۔ صورت حال یہ تھی کہ وہ رسول اللہ ا سے باقاعدہ روایت کرنے کی ایک خاص ہیبت اپنے دلوں پر محسوس کیا کرتے تھے اور اس کو ایک بے حد بڑی اور عظیم چیز جانتے۔ ان کو نہایت خوف ہوتا کہ کوئی ایک لفظ بھی ان کے اپنے پاس سے زیادہ یا کم نہ ہو جائے۔ ایسا بھی ہوتا کہ ایک چیز جو انہوں نے متعدد مرتبہ رسول اللہ ا سے سن رکھی ہوتی اس کو بیان کرتے، لیکن یہ صراحت کرتے ہوئے کہ انہوں نے رسول اللہ ا کو یہ فرماتے ہوئے سنا پھر بھی ایک خوف محسوس کرتے۔ یعنی وہ رسول اللہ ا ہی سے سنی ہوئی ایک بات کرتے اور یہ کہنے سے بسا اوقات احتراز کرتے کہ رسول اللہ ا نے یہ اور یہ لفظ کہے ہیں۔

۱۲) اپنے اِس بیان میں امام صاحب جندب بن عبد اللہؓ سے متعلق ایک واقعہ بھی نقل کرتے ہیں: خوارج کا ایک ٹولہ صحابی رسولؐ جندب بن عبد اللہؓ کے ہاں وارد ہوا اور ان سے کہنے لگا: ’’ہم تمہیں کتاب اللہ کی طرف بلاتے ہیں‘‘ ۔

جندب بن عبد اللہؓ بولے: تم؟؟؟

خوارج کہنے لگے: ہاں ہم!

جندبؓ پھر بولے: تم؟؟؟

خوارج کہنے لگے: ہاں ہم!

جندبؓ فرمانے لگے۔۔۔: اے خدا کی خبیث ترین مخلوقات! کیا ہماری اتباع میں تمہیں گمراہی نظر آنے لگی ہے اور ہمارے طریقے کو چھوڑ کر کہیں تمہیں ہدایت دکھائی دینے لگی ہے؟ دفع ہو جاؤ یہاں سے۔

خوارج کا یہ واقعہ ذکر کر دینے کے بعد امام صاحب لکھتے ہیں:

ظاہر ہے جو شخص اس بات کا قائل ہے کہ صحابہؓ اپنے فتاوی میں غلط جبکہ بعد والے ان کی نسبت حق کو پانے والے ہو سکتے ہیں (اور ظاہر ہے حق کی پیروی تو صحابہؓ پر بھی ضروری ہے!)، یوں وہ شخص صحابہ کے اقوال کے خلاف جانے کو اپنے لئے روا جانتا ہے تو بلا شبہ اُس کو (خوارج کی طرح) صحابہ کے طریقے کو چھوڑ کر کہیں پر ہدایت دکھائی دیتی ہے اور اپنے تئیں وہ صحابہ کو کتاب اللہ کی طرف بلانے یا صحابہ کو کتاب اللہ سمجھانے کا برتہ رکھتا ہے۔ یعنی یہ شخص صحابہؓ کو قرآن پڑھا سکتا ہے! آدمی کے جاہل ہونے کیلئے یہی ایک بات کافی ہے۔

 

استفادہ از: اعلام الموقعین جلد ۴، فصول:

فصل: الأدلۃ علی أن اتباع الصحابۃ واجب، فصل: اتباع الصحابۃ مجتمعین ومنفردین، فصل: اتباع أقوال الصحابۃ، فصل: أدلۃ أخریٰ علی وجوب اتباع الصحابۃ)


حواشی

 

حاشیہ ۱ :

کچھ لوگوں کو کیا سوجھی کہ آیت میں مذکور لفظ ’’بإحسانٍ‘‘ کی یہ تفسیر کرنا شروع کر دی کہ اس سے مراد ہے استدلال و اِحصائے ادلہ! یعنی آپ صحابہ کے قول کو تو رکھ دیں ایک طرف اور دیکھیں یہ کہ اس کے حق میں شریعت سے کوئی دلیل ہے یا نہیں۔ صحابہؓ کی دلیل آپ کو سمجھ آجائے اور آپ کا دل اس پر ٹھک جائے تو اس کو قبول کر لیں ورنہ اُس کو رد کر دیں! اس کا جواب ابن قیمؒ دے چکے۔ یہاں ہم نے مناسب جانا کہ آیت میں مذکور لفظ ’’باحسان‘‘ کے تحت اردو مترجمین قرآن کے کچھ حوالے بھی آپ کی خدمت میں پیش کر دیے جائیں:

شاہ رفیع الدین: ’’ساتھ نیکی کے‘‘

وحید الزمان: ’’نیکی کے ساتھ‘‘

جوناگڑھی: اخلاص کے ساتھ

تھانوی: اخلاص کے ساتھ

 

حاشیہ ۲ :

ابن قیم: قاعدہ یہ ہے کہ جو احکام اسمائے عامہ کے ساتھ معلق ٹھہرائے جائیں وہ اُن اسماء کے تحت آنے والے ہر ہر فرد کے حق میں ثابت ہوتے ہیں۔ أقیموا الصلوۃ کہیں گے تو اُس میں ایک ایک نماز آئے گی۔ لقد رضی اللہ عن المؤمنین کہیں گے تو شجرۂ رضوان کے نیچے بیعت کرنے والا ایک ایک مومن اِس کا مصداق ہوگا۔ کونوا مع الصادقین سے مراد یہ نہیں ہوگی کہ جب تک تم ان سب صادقین کو اکٹھا ایک جگہ نہ دیکھو تب تک ان کی معیت اختیار کرنا تم پر لازم نہ ہوگا! ہاں البتہ وہ احکام جو ایک مجموع کے ساتھ معلق ٹھہرائے جاتے ہیں اُن کیلئے وہ الفاظ لائے جاتے ہیں جو اُس کو ایک مجموع کے طور پر ہی لیں؛ وہاں ایک ایک فرد کا وہ حکم نہ ہوگا جوکہ اُس مجموعہ کا بطورِ مجموعہ۔ مثلاً وکذلک جعلناکم امۃ وسطا ۔ اسی طرح کنتم خیر امۃ أخرجت للناس۔ اسی طرح ویتبع غیر سبیل المؤمنین۔ ہاں یہاں البتہ لفظ ’’أمۃ‘‘ اور لفظ ’’سبیل المؤمنین‘‘ کو ان میں شامل افراد پر تقسیم نہیں کیا جاسکتا یعنی وکذلک جعلناکم امۃ وسطا اور کنتم خیر امۃ أخرجت للناس میں جو حکم ’’امت‘‘ کا ہے وہی حکم امت کے ایک ایک فرد کا نہ ہو گا۔ اسی طرح یہ بھی درست نہ ہوگا کہ ’’ویتبع غیر سبیل المؤمنین‘‘ میں جو حکم مومنین کا (بطورِ مجموع) ہو وہی حکم ایک مومن کا ہو۔ بر خلاف لفظ ’’السَّابِقُون‘‘ کے، جو کہ ’’السَّابِقُون‘‘ میں آنے والے ایک ایک فرد پر صادق آئے گا۔

 

حاشیہ ۳ :

یہاں ابن قیم اِس سوال کا بھی جواب دیتے ہیں کہ:

سابقون وہ ہیں جو دونوں قبلوں کی جانب نماز پڑھ چکے ہیں، یا یہ کہ جو اہل بیعت رضوان ہیں اور اُن سے بھی پہلے کے لوگ۔ البتہ جو اس کے بعد اسلام لائے ہیں اُن کی اتباع پر کیا دلیل ہے؟

ابن قیم کا جواب: اگر یہ چیز مان لی جاتی ہے کہ بیعت رضوان تک ایمان لانے والے اصحابِ رسول اللہؐ کی اتباع واجب ہے، تو ایک بہت بڑا مقصود پورا ہو جاتا ہے۔ جبکہ یہ بات اپنی جگہ کہ اہل علم میں سے ان میں فرق کسی نے بھی نہیں کیا۔ سب کے سب صحابہؓ ہی اپنے سے بعد والوں کی نسبت سابقون ہیں۔

ابن قیم کا جواب ختم ہوا۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ سورۃ توبہ کی یہ آیات غزوہ تبوک کے اختتام پر نازل ہوئی ہیں؛ یعنی دورِ نبوت کے اختتام کے بالکل قریب جا کر۔ یہاں پر اُن اصحابؓ کا یہ درجہ کہ جو ایمان میں پہل کر چکے ہیں بعد والے جیسے جیسے آتے آجائیں ان پہلے والوں کی پیروی کرتے جائیں، نہایت اہم بات ہے۔ بلکہ اس میں باقاعدہ ایک منہج بیان ہو گیا ہے کہ اس جماعت میں بعد والے پہلے والوں کے پیچھے ہی صف بناتے رہے ہیں اور زمانۂ آخر تک ایسا ہی رہے گا۔

 

حاشیہ ۴ :

اِس نقطے پر مزید غور کرنے کیلئے:

ابو بکر صدیقؓ، رسول اللہ ا کی وفات سے لے کر اپنی وفات تک روزانہ اگر اللہ کے رسول کی ایک بات بھی بیان کرتے تو کوئی پون ہزار احادیث تنہا حضرت ابو بکرؓ سے ہی مروی ہوتیں۔ حضرت عمرؓ روزانہ اللہ کے نبی کی ایک بات بتاتے تو کئی ہزار مرویاتِ عمرؓ ہمارے پاس ہوتیں۔ لامحالہ ’’نقل سنت‘‘ کی ایک اور بھی صورت ہے جو ایک عمل اور تواتر اور احوال و تربیت و آثار وغیرہ کی صورت میں کبار صحابہ سے صغار صحابہ اور پھر آگے تابعین کو منتقل ہوئی ہے۔ صحابہؓ جب بھی کسی چیز کو جزم کے ساتھ بطورِ دین پیش کریں اور ان کے مابین اس پر کوئی اختلاف نہ ہو تو وہ ’’علم‘‘ ہی کی ایک صورت ہے، جیسا کہ پچھلی فصل میں شافعیؒ و محمدؒ ودیگر ائمہ علم سے نقل ہوا ہے۔

(۵) متبوع یعنی جس کی پیروی کی جائے

(۶) ابن قیمؒ یہاں ایک قاعدہ بھی ذکر کرتے ہیں۔ کلام پیچیدہ ہوجانے کے پیش نظر وہ اِس فصل کے آخر میں بصورتِ حاشیہ دیا جا رہا ہے

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز