علمائے سلف کو چھوڑ کر بونوں سے علم لیا جانا |
یہ چیز بھی ذہن نشین رہے کہ اتباعِ سلف کے موضوع پر یہ سب آثار جو ہم نے اوپر دیے اور ابھی آگے چل کر دیں گے، قرونِ اولیٰ کے ائمہ سے ماخود ہیں، نہ کہ آج کے اِس دور جہالت و افراتفری کے کسی ایسے مصدر سے جس کا علمی نسب تک امت کیلئے مجہول ہو۔ ہم سب آگاہ ہیں، ’’خیر القرون‘‘ تاریخ اسلامی کا وہ زریں عہد ہے جس میں علومِ شریعت بلندی میں آسمانوں کو چھو رہے تھے۔ مسلم معاشرے خوب جانتے تھے کہ علم و راہنمائی کیلئے وہ کن ہستیوں کے در کی راہ دیکھیں۔ یہ وہ دور تھا جس میں عالم کہلانا کوئی مذاق نہیں تھا۔ پھر عالموں کے مابین عالم گنا جانا تو اُس خیر القرون میں، کہ جہاں سربرآوردہ علماء کے ٹھٹھ ملتے تھے، ایک نہایت عظیم بات ہے۔ اور پھر ایسے لوگوں کے مابین ’’امام‘‘ کہلانا تو اس سے بھی عظیم تر.. اور پھر اماموں کا امام۔۔۔!!! ابو حنیفہؒ ، شافعیؒ ، مالکؒ ، احمدؒ ، اوزاعیؒ ، ثوریؒ ، بخاریؒ اور اس طرح کے نام جو آسمانِ علم پر قیامت تک روشنی کرنے والے ہیں ۔۔۔ کچھ ناقابل قیاس نام ہیں۔ ان کے بعد علم میں نہ ایسے لوگ پائے گئے اور نہ علم کے ایسے بے تحاشا و بے بہا قدرتی مواقع۔ بس ایک دور تھا جو بیت گیا۔ اور کچھ چیزوں کی تاسیس تھی جو بروقت ہو گئی۔
سمجھو ایک ایسی فیکٹری تھی جس نے دو ڈھائی سو سال، رات دن کی شفٹیں لگا کر کام کیا، انسانی تاریخ کے نفیس ترین جوہر کو کام میں لائی، اور قیامت تک کی انسانی ضرورت کی بنیادی ترین اشیاء پیدا کر ڈالیں(۳)۔ بعد کے لوگ اپنے اپنے دور کے اندر اِس کی اِن لازوال مصنوعات کو کام میں لانے کا طریقہ اور سلیقہ ہی سیکھ لیں(۴) تو وہ جہانِ انسانی کی قیادت سے کمتر کسی منصب پر نہ دیکھے جائیں۔
بنا بریں، شخصیت پرستی ہمارے دین میں نہیں لیکن ایک صیرفیِ جوہر شناس اور ایک عام منیاری والے کے مابین فرق ختم کر دینا بھی ہمارے دین کی تعلیم نہیں؛ کہ ہردو کے ہاں سے ’زیور‘ ہی تو دستیاب ہے۔۔۔!
ایسی امت میں کیا خیر، جس کو معلوم ہی نہ ہو کہ دین لینے اور سمجھنے کیلئے اُس کو کس کے پاس جانا ہے اور کتاب اللہ و سنت رسول اللہؐ کے فہم و استیعاب کیلئے کس کے یہاں جا کر بھیڑ کرنی ہے:
عن أبی أمیۃ اللخمی (الجمحی)، أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال:
’’إن من أشراط الساعۃ ثلاثۃ، إحداہن: أن یلتمس العلمُ عند الأصاغر‘‘۔ (رواہ ابن المارک والطبرانی، و صححہ الألبانی)(۸)
ابو امیہ جمحیؓ سے روایت ہے، کہ نبی ا نے فرمایا:
(۸)’’قیامت کی نشانیوں میں سے تین ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ: علم بونوں کے ہاں ڈھونڈا جائے گا۔
عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، قال: ’’لا یزال الناس بخیر ما أتاہم العلم من أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال، ومن أکابرہم، فإذا جاۂم العلم من قِبَلِ أصاغرہم فذلک حین ہلکوا‘‘۔ (المعجم الکبیر للطبرانی الأثر رقم: ۸۵۱۱، کتاب الزہد والرقائق لابن المبارک، الأثر رقم: ۸۰۲، جامع بیان العلم ۱: ۶۱۷)
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا:
’’لوگ خیر خیریت سے رہیں گے جب تک اُن کو علم اصحابِ رسول اللہؐ سے پہنچتا رہے گا، اور ان کے بڑوں سے پہنچتا رہے گا۔ ہاں پھر جب ان کو علم اُن کے بونوں کے پاس سے آنے لگے گا تو یہ وہ وقت ہو گا جب وہ ہلاک ہوں گے‘‘
کان عمرُ یقول: إنَّ أصدق القیلِ قیلُ اللہ۔ ألا وإن أحسن الہدیِ ہدیُ محمدٍ صلی اللہ علیہ وسلم قال۔ وشر الأمور محدثاتہا، وکل محدثۃ ضلالۃ۔ ألا وإن الناس بخیرٍ ما أخذوا العلم عن أکابرہم، ولم یقم الصغیر علی الکبیر، فإذا قام الصغیر علی الکبیر فقد‘‘ (شرح أصول الاعتقاد للالکائی ۱: ۸۴، الأثر رقم ۸۸۔ وذکر جزئاً منہ فی جامع بیان العلم ۱: ۶۱۵ الأثر رقم: ۱۰۵۴)
عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے:
سب سے اچھا کلام اللہ کا قول ہے۔سب سے اچھا نمونہ محمد ا کا نمونہ ہے۔ سب سے بری چیز وہ ہے جو دین کے اندر نئی نکال لی گئی ہو، اور ہر نئی نکال لی گئی بات گمراہی ہے۔ خبردار! لوگ خیر سے رہیں گے جب تک کہ وہ علم اپنے بڑوں سے ہی لیں، اور جب تک یوں نہ ہونے لگے کہ چھوٹا، بڑے کے اوپر بڑا بنے۔ ہاں جب چھوٹا، بڑے پر بڑا بننے لگا، تو تب وہ وقت ہو گا کہ..
اس معنیٰ کے کئی دیگر آثار نقل کرنے کے بعد آخر میں جا کر ابن عبد البرؒ ایک تقریر دیتے ہیں، گو اس میں بھی وہ کچھ آثار کی جانب ہی اشارہ کرتے ہیں:
وقال آخرون: معنیٰ حدیث ابن عمر وابن مسعود فی ذلک أن العلم إذا لم یکن عن الصحابۃ کما جاء فی حدیث ابن مسعود، ولا کان لہ أصل فی القرآن والسنۃ والإجماع، فہو علم یہلک بہ صاحبہ، ولا یکون حاملہ إماما ولا أمینا ولا مرضیا کما قال ابن مسعود، وإلیٰ ہذا نزع أبو عبید رحمہ اللہ۔ (جامع بیان العلم۔ ج ۱ ص۶۱۸۔ الأثر رقم: ۱۰۵۶)
دیگر بزرگانِ سلف نے بیان کیا ہے کہ: حدیث ابن عمرؓ و ابن مسعودؓ کا مفہوم اس سلسلہ میں یہ ہے کہ علم اگر صحابہؓ سے چلتا ہوا نہ آیا ہو، جیسا کہ حدیث ابن مسعودؓ میں ہے، اور نہ اس کا کوئی اصل قرآن میں ہو اور نہ سنت میں اور نہ اجماع میں تو وہ ایک ایسا علم ہو گا جو آدمی کو برباد کروا دے۔ ایسے علم کا حامل نہ امام ہو گا، نہ امانت کا محل، اور نہ قابل اطمینان، جیسا کہ ابن مسعودؓ نے فرمایا۔ اور اسی معنیٰ کی جانب امام ابو عبید (قاسم بن سلام) کا میلان ہے۔
*****
وہ دور (خیر القرون) جس سے __ صحابہؓ کے علمی اتباع کو لازم ٹھہرانے کے حوالے سے __ ڈھیروں کے حساب سے یہ سب آثار اور یہ نقولات ملتی ہیں.. یہاں تک کہ اُس دور کا کوئی بھی امام، علمائے صحابہؓ کے علمی مقررات سے ہٹ کر اور اقوالِ صحابہؓ سے نکل کر اپنی مصنوعات سامنے لانے کا روادار ہی نظر نہیں آتا، (اور اگر کسی نے یہ کام کیا تو وہ خوارج و روافض و معتزلہ وغیرہ ہوئے، جن کو خیر القرون کے اُس معاشرے سے صبح شام سننے کو کچھ ملتا تو وہ بربادی کی وعیدیں ہوتیں).. نہایت ضروری ہے کہ اُس دور کی اُن اشیاء کا جو اُس کے یہاں مسلمات کی حیثیت کر گئی تھیں صحیح صحیح مول لگایا جائے۔ ایک نہایت عظیم بات کو محض ایک جملے میں اڑا دینے کا اسلوب تباہ کن ہے۔
بظاہر ’احترام‘ پر مبنی یہ رویہ کہ۔۔۔ مقرراتِ سلف کی اتباع کو واجب ٹھہرانے والے آثارِ شافعیؒ کو ایک جانب لڑھکا دیا جائے، آثارِ ابو حنیفہؒ کو کسی دوسری جانب، آثارِ مالکؒ کی کسی اور طرح توجیہ کر لی جائے اور احمدؒ و اوزاعیؒ وبخاریؒ وغیرہ کے آثار سے کسی اور طرح جان چھڑائی جائے اور زیادہ ہی ہوا تو اِن ائمۂ علم کیلئے کوئی ’عذر‘ تلاش کیا جائے کہ صاحب وہ تو کوئی دور ہی ایسا تھا کہ سب لوگ ایک سی ہی ’غلطی‘ کرتے چلے آئے ہیں اور اُن پر تو اقوالِ ابو بکرؓ و عمرؓ و ابن عباسؓ و ابن مسعودؓ وغیرہ کی دھاک ہی کچھ غیر ضروری طور پر بیٹھی رہی ہے۔۔۔ اور یہ کہ ہم آئے ہیں تو اَب کہیں جا کر بو حنیفہؒ و شافعیؒ کے اُن نسل در نسل چلے آنے والے دستوروں کی تصحیح ہونے لگی ہے!
ردِ تقلید کے مومنٹم سے زور پکڑنے والا یہ آزادی پسند رویہ جو کئی ایک عوامل کے تحت اَب تیزی کے ساتھ مقبولیت پانے لگا ہے۔۔۔ شدید حد تک باعث تشویش ہے۔
کچھ اور نہیں تو صرف اِسی ایک بات ہی کو مد نظر رکھ لیا جائے کہ آپ کا یہ دور جس میں کھڑے ہو کر آپ کو ابو حنیفہؒ ، شافعیؒ ، مالکؒ ، احمدؒ ، اوزاعیؒ ، ثوریؒ ، بخاریؒ وغیرہ کے یہ متفقہ مقررات ’غلط‘ نظر آتے ہیں، جہالت اور علمی بوناپن کا دور ہے (ابھی اس کے ساتھ ہم اھواء اور بغی اور بیرونی اثرات ۔ خصوصاً استشراقی اثرات جوکہ ہوا میں پھیلے ہوئے وبائی خصائص کی سی حیثیت رکھتے ہیں اور آپ سے آپ نفس میں اترتے ہیں ۔ کا ذکر نہیں کر رہے)۔ اور یہ کہ جس دور کے علمی مقررات آج جا کر آپ کو ’غلط‘ نظر آنے لگے ہیں وہ علم اور ہدایت کا تابناک ترین دور ہے!
جس آسانی کے ساتھ ہمارے آج کے یہ لوگ ابو حنیفہؒ و شافعیؒ وغیرہ کو فارغ کر دیتے ہیں اور ان سب فقہاء کے مابین متفق علیہ چلے آنے والے علمی وفقہی پیمانوں کو (خاص اپنے ’کتاب و سنت‘ کے فہم کی رو سے!) بیہودہ و فرسودہ بنا کر رکھ دیتے ہیں، حیران کن بھی ہے اور پریشان کن بھی اور افسوسناک بھی۔ تصور کریں اتباعِ صحابہؓ کو لازم ٹھہرانے کے حوالے سے (معاذ اللہ) کوئی ایسا ’بیہودہ قاعدہ‘ ، عمر بن عبد العزیز، قاسم بن محمد، سالم بن عبداللہ بن عمر، عروہ بن زبیر، ابن مسیب، عطاء، مجاہد، طاووس، عکرمہ، ابن جبیر، حسن بصری، سلیمان بن یسار، شعبی، ابن سیرین، علقمہ، شریح، مسروق، مکحول، زہری، ابن ابی حبیب، ابو ثور، ابن راھویہ، نخعی، حماد، ابو حنیفہ، ثوری، ابن المبارک، ابن سلام، اوزاعی، ربیعہ، مالک، لیث، یحی، معمر، ابن عیینہ، طبری، شافعی، احمد، ابو یوسف، محمد، زفر، ابن القاسم، اَشہب، مزنی، ابن معین، بخاری، مسلم، نسائی، ترمذی، ابو داود، ابن ماجہ، مروزی، حمیدی (رحمہم اللہ) وغیرہ وغیرہ وغیرہ نے (’’اتباعِ سلف‘‘ ایسا کوئی ایسا بے بنیاد قاعدہ!) بنا بھی دیا (اور وہ بھی اس متفقہ انداز میں!)، جاری بھی کر دیا اور پھر وہ اِس امت کے اندر چل بھی گیا۔۔۔!!! ( نہ امت نے پیر پیر پر اس کو مخالفت اور مزاحمت دی اور نہ جا بجا اس پر کہیں مناظرے دیکھنے میں آئے.. اور وہ بھی علم کی اُن تابناک ترین صدیوں کے اندر!) اور پھر ان بزرگانِ خیر القرون کا بنایا ہوا کوئی ایسا (بے سر و پا!) قاعدہ برس ہا برس اور صدی ہا صدی چلنے کیلئے... بعد کی صدیوں میں پائے جانے والے ہزارہا ائمۂ علم (مانند دارمی، بیہقی، ضحاک، خلال، ابن حبان، طحاوی، بربہاری، ابن بطہ، لالکائی، ابن عبد البر، دینوری، اسفرائینی، اشعری، غزالی، ابن جوزی، اصفہانی، رازی، کاسانی، سرخسی، دسوقی، قرافی، شیرازی، مقدسی، ابو شامہ، قرطبی، بغوی، خرقی، شاطبی، ابو حیان، مناوی، ابن بطال، ابن عبدالسلام، ابن تیمیہ، ابن قیم، ذہبی، نووی، شربینی، ابن کثیر، ابن حجر، ابن رجب، ابن ابی العز،بقاعی، زرکشی، ھیتمی، ماوردی، بلقینی، فیروزآبادی رحمہم اللہ وغیرہ وغیرہ) کے ہاں نہ صرف باقاعدہ رواج اور قبولیت پا کر رہا بلکہ اپنے اپنے دور میں علم کے یہ سب پہاڑ باقاعدہ اسی دستور (صحابہؓ کے منہج کی پابندی) کے مبلغ اور داعی اور اس کے پرزور وکیل بن کر رہے۔۔۔ تاآنکہ جہالت کی یہ حالیہ صدیاں آئیں جنہوں نے ہمارے یہ نکتہ ور پیدا کر کے دیے اور پھر اِنہوں نے آ کر اُن ’غلطیوں‘ کی نشاندہی کی کہ دیکھو کیسے کیسے ’غیر علمی‘ استدلال کر کے یہ لوگ سلف کی اتباع کو لازم ثابت کر لیتے رہے ہیں اور سلف کی ’تقلید‘ کرتے ہوئے کتنے کتنے ’واضح‘ مقامات پر یہ لوگ ایک سراسر غیرواجب اور غیر ضروری چیز کو واجب بنا دیتے رہے ہیں۔۔۔!!!!!(۹)
ایک اتنا بڑا اور ناقابل تصور مفروضہ قائم کرنے کی نسبت کیا یہ کہیں بہتر نہیں کہ جو لوگ آج یہ رائے قائم کرنے لگے ہیں کہ سلف کی اتباع کو غیر ضروری طور پر اس امت کے اندر فرض ٹھہرا لیا گیا ہے۔۔۔، اُن کی اپنی نظر کو ہی مطعون ٹھہرا لیا جائے جوکہ ہماری تاریخ کی اِن مابعد انحطاط صدیوں(۵) میں آ کر کچھ زیادہ ہی فعال ہو چکی ہے!؟
ایک سیدھی مستقیم چیز، جو عہد نبوت سے ایک باقاعدہ علمی تسلسل کی صورت میں چلی آ رہی ہے، آج کسی کو ٹیڑھی نظر آنے لگی ہے تو اس امکان کو کیوں سامنے نہ رکھا جائے کہ دیکھنے والی نظر میں ہی یا اُس کی کسی رگ میں ہی ٹیڑھ ہو؟ آخر اِس ٹیڑھ کو ہی تو ہمارے وہ ائمۂ سنت ’’اھواء‘‘ کا نام دیتے تھے اور ’’بغی‘‘ قرار دیتے تھے! اور یہ ٹیڑھ بھی کوئی نیا تو نہیں ہے؛ ائمۂ سنت ہمیشہ اہل بدعت کی یہی تو تشخیص کرتے رہے ہیں!
پس مسئلہ اِن کی تشخیص کا ہے۔۔۔ نہ کہ اُن کی تصحیح کا!؟
*****