عن الشعبی، عن شریح، أن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کتب إلیہ: ’’إذا جائک شیءٌ فی کتاب اللہ فاقض بہ، ولا یلفتنک عنہ رجال، فإن جائک أمر لیس فی کتاب اللہ فانظر سنَّۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال فاقض بہا، فإن جائک ما لیس فی کتاب اللہ ولیس فیہ سنَّۃ من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال، فانظر ما اجتمع الناسُ علیہ فخد بہ، فإن جائکما لیس فی کتاب اللہ ولم یکن فیہ سنَّۃ من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال، ولم یتکلم فیہ أحد قبلک فاختر أی الأمرین شئت؛ إن شئت أن تجتہد برأیک وتقدم فتقدم، وإن شئت أن تتأخر فتأخر، لا أری التأخر إلا خیراً لک‘‘۔
(مصنف ابن أبی شیبۃ کتاب البیوع والأقضیۃ باب فی القاضی ما ینبغی أن یبدأ بہ فی قضاۂ الأثر رقم: ۲۲۵۲۹۔ کذلک البیہقی رقم: ۱۸۶۸۰۔ کذلک الدارمی رقم: ۱۷۲۔ ومثلہ فی جامع بیان العلم ص ۸۴۵، الأثر رقم: ۱۵۹۶، وقد صححہ محققہ أبو الأشبال الزہیری)
شعبیؒ ، قاضی شریح ؒ سے روایت کرتے ہیں کہ امیر المومنین عمرؓ بن الخطاب نے شریح کو اپنے (سرکاری) خط میں لکھا تھا:
’’جب تمہارے پاس کوئی معاملہ آئے جو کتاب اللہ میں ہو تو اُس کے مطابق اُس کا فیصلہ کر دو اور آدمیوں کے اقوال ہرگز تمہیں اس سے پھیریں۔ اگر کوئی ایسا معاملہ آئے جو کتاب اللہ میں نہیں تو رسول اللہ ا کی سنت کو دیکھو اور اس کی رو سے فیصلہ کر دو۔ پھر اگر کوئی ایسا معاملہ آئے جو نہ تو کتاب اللہ میں ہو اور نہ رسول اللہ ا سے اُس کی بابت کوئی سنت ملتی ہو تو دیکھوکہ لوگوں نے کس بات پر اجماع کر رکھا ہے، اور اسی کو اختیار کرو۔ پھر اگر کوئی ایسا معاملہ آئے جو کتاب اللہ میں نہیں اور نہ اس کی بابت رسول اللہا سے کوئی سنت ملتی ہو اور نہ تم سے پہلے اس پر کسی نے کوئی قول چھوڑا ہے تو پھر اِن دونوں باتوں میں سے جو چاہو اختیار کر لو؛ چاہو تو اپنی رائے سے اجتہاد کرلو اور آگے بڑھو، اور چاہو تو اس سے پیچھے رہو اگرچہ پیچھے رہنا میں تمہارے حق میں زیادہ بہتر جانتا ہوں۔
وعن عبید اللہ بن یزید قال: رأیت ابن عباس إذا سئل عن شیءٍ ہو فی کتاب اللہ قال بہ، فإن لم یکن فی کتاب اللہ وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال قال بہ، فإن لم یکن فی کتاب اللہ ولم یقلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال وقال أبو بکر أو عمر رضی اللہ عنہما قال بہ، وإلا اجتہد رأیہ‘‘۔(جامع بیان العلم، ص ۸۵۰ الأثر رقم: ۱۶۰۱)
عبید اللہ بن یزید سے روایت ہے، کہا:
میں عبد اللہ بن عباسؓ کو دیکھتا رہا ہوں، جب بھی اُن سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا جوکہ کتاب اللہ میں ہوتا تو وہ اس کے مطابق جواب دے دیتے۔ اگر وہ کتاب اللہ میں نہ ہوتا اور رسول اللہ ا نے اُس کو بیان کیا ہوتا تو وہ اس کے مطابق بیان کر دیتے۔ اگر وہ کتاب اللہ میں نہ ہوتا اور نہ رسول اللہ ا نے اس کو بیان کیا ہوتا، لیکن ابوبکرؓ و عمرؓ نے اس کی بابت کچھ کہا ہوتا تو وہ اس کی رو سے مسئلہ بتاتے، ورنہ خود اپنی رائے کا اجتہاد کرتے۔
عن سعید بن جبیر عن ابن عباس، قال: کنا إذا أتانا الثبت عن علیٍّ رضی اللہ عنہ، لم نعدل بہ‘‘ (جامع بیان العلم ص ۸۵۱ الأثر رقم: ۱۶۰۳)
سعید بن جبیرؒ سے روایت ہے، کہا عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا: ’’اگر کوئی ثقہ قسم کا اثر ہمیں علیؓ سے میسر آ جاتا تو ہم اُس سے ہٹ کر کسی چیز کی جانب نہ جاتے‘‘
عن حارثۃ بن مضرب، قال: کتب عمر إلی أہل الکوفۃ: إنی قد بعثت عمارا أمیرا وعبد اللہ بن مسعود معلما ووزیرا وہما من النجباء من أصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم من أہل بدر وأُحُد، فاقتدوا بہما واسمعوا من قولہما۔(المعجم الکبیر للطبرانی: ۹: ۸۶۔ أثر رقم: ۸۴۷۸)
حارثہ بن مضرب سے روایت ہے، کہا:
عمر رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کی جانب اپنا مکتوب روانہ کیا تھا:
میں نے تمہاری جانب بھیجا ہے عمار کو بطورِ امیر۔ اور عبد اللہ بن مسعود کو بطورِ معلم اور وزیر۔ اور یہ دونوں اصحابِؓ محمد ا کے لائق ترین لوگوں میں سے ہیں۔ اہل بدر و اہل اُحد میں سے ہیں۔ پس اِن دونوں کی اقتداء کرو اور ان کے قول کو سنو۔
لالکائی حضرت حذیفہؓ بن الیمان کا قول لے کر آتے ہیں:
قال حذیفۃ رضی اللہ عنہ: اتقوا اللہ یا معشر القراء، خذوا طریق من قبلکم، فواللہ لئن سبقتم لقد سبقتم سبقا بعیدا، وإن ترکتموہ یمیینا وشمالا لقد ضللتم ضلالا بعیدا۔ (شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ ۱: ۹۰، جامع ابن عبد البر ۲: ۹۴۷، الأثر رقم: ۱۸۰۹ ، الموافقات: ۴: ۷۸)
حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اے علمائے قرآن! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اپنے سے پہلوں کا راستہ اختیار کر کے رہو۔ بخدا اگر تم اس راہ میں سبقت لے جاؤ تو بڑی آگے کی سبقت ہے۔ اور اگر تم اس راستے کو دائیں یا بائیں چھوڑ دو تو یہ گمراہی بھی بڑی دور کی ہے۔
شاطبیؒ ، حضرت حذیفہؓ کا اثر اِن الفاظ کے ساتھ بھی نقل کرتے ہیں، ساتھ میں عبد اللہ بن مسعودؓ کا بھی ایک اثر لاتے ہیں:
قال حذیفۃ: اتبعوا آثارنا، فإن أصبتم فقد سبقتم سبقاً بیناً، وإن أخطأتم فقد ضللتم ضلالا بعیداً۔ وعن ابن مسعود مثلہ، فقال: اتبعوا آثارنا ولا تبتدعوا فقد کفیتم، وعنہ أنہ مر برجل یقص فی المسجد ویقول سبحوا عشرا وہللوا عشرا، فقال عبد اللہ: إنکم لأہدیٰ من أصحاب محمد أو أضل، بل ہذہ بل ہذہ یعنی أضل، والآثار فی ہذا المعنی یکثر إیرادہا۔ (الموافقات: ۴: ۷۹)
حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’پیروی کرو ہمارے آثار کی۔ اگر تم نے اِس راہ کو پا لیا تو یہ ایک نہایت بین سبقت ہے۔ اور اگر تم نے یہ راہ کھو دی تو یہ گمراہی بڑی دور کی ہے۔
عبد اللہ بن مسعود سے بھی ایسا ہی قول مروی ہے، فرمایا:
ہمارے آثار کی پیروی کرو، اور نئی اپج نہ نکالو، کیونکہ تمہیں کفایت کر دی گئی ہے۔
عبد اللہ بن مسعود ہی سے روایت ہے کہ وہ ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو مسجد میں وعظ کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا: دس بار کہو سبحان اللہ۔ دس بار کہو لا الہ الا اللہ۔ تب عبد اللہ بن مسعودؓ بولے: یقینی طور پر تم اصحابِؓ محمدؐ سے بڑھ کر ہدایت یافتہ ہو یا پھر گمراہ تر ہو۔ نہیں بلکہ گمراہ ہو۔ گمراہ ہو۔
شاطبی کہتے ہیں: اِس معنیٰ کے آثار بہت بڑی تعداد میں مروی ہوئے ہیں۔
عبد اللہ بن مسعود: إنا نقتدی ولا نبتدء، ونتبع ولانبتدع، ولن نضل ما تمسکنا بالأثر۔ (شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ ۱: ۸۶)
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
’’ہم اقتداء کرنے والے ہیں نہ کہ ابتداء کرنے والے۔ ہم اتباع کرنے والے ہیں نہ کہ ابتداع کرنے والے۔ اور ہم ہرگز نہیں بھٹکیں گے جب تک اثر کو مضبوطی سے تھام کر رہیں‘‘۔
عن مولی لابن مسعود، قال: دخل أبو مسعود علی حذیفۃ فقال: اعہد إلی۔ فقال ألم یأتک الیقین۔ قال بلیٰ وعزۃ ربی۔ قال: فاعلم أن الضلالۃ حق الضلالۃ أن تعرف ما کنت تنکر وأن تنکر ما کنت تعرف، وإیاک والتلون فی دین اللہ تعالی؛ فإن دین اللہ واحد (شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ ۱: ۹۰)
مولیٰ ابن مسعود سے روایت ہے، کہا: ابو مسعود حذیفہؓ کے ہاں داخل ہوئے اور نصیحت چاہتے ہوئے عرض کی: مجھے کوئی عہد سونپئے۔ (نصیحت فرمائیے) فرمایا: کیا تمہیں یقین نہیں آیا؟ عرض کی: کیوں نہیں، میرے پروردگار کی عزت کی قسم۔ فرمایا: تو پھر جان لو کہ ضلالت اور صحیح ضلالت یہ ہے کہ جس چیز کو تم منکر جانتے تھے اُس کو بعد ازاں معروف جاننے لگو اور جس چیز کو معروف مانتے تھے اُس کو منکر جاننے لگو۔ خبردار اللہ کے دین میں نئے نئے رخ اختیار نہ کرنا؛ کیونکہ اللہ کا دین ایک متعین حقیقت ہے‘‘۔
صحابی رسولؓ عبد اللہؓ بن عباسؓ نے خوارج کے ساتھ ایک طویل مناظرہ کیا۔ اِس میں وہ اُن کو چند اصولی امور پر بھی متنبہ کرتے ہیں:
ابن عباس: جئتکم من عند أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال، ولیس فیکم منہم أحد، ومن عند ابن عم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال، وعلیہم نزل القرآن، وہم أعلم بتأویلہ۔ (جامع لابن عبد البر ۲: ۹۶۳۔ الأثر رقم ۱۸۳۴)
ابن عباسؓ خوارج سے مخاطب ہو کر کہنے لگے:
میں تمہارے پاس اصحابِؓ رسول اللہ ا کے پاس سے آیا ہوں جبکہ تمہارے مابین اُن میں سے کوئی ایک بھی نہیں ہے، اور رسول اللہ ا کے ابنِ عم کے پاس سے آیا ہوں۔ اور یہ اصحابِؓ رسول اللہ ؐ ہی ہیں جن پر قرآن اترا تھا۔ اور وہی ہیں اس کی تاویل کے سب سے بڑے عالم۔
یہاں ایک تو ہم دیکھتے ہیں کہ عبد اللہ بن عباسؓ خوارج کو یہ بات جتلاتے ہیں ولیس فیکم منہم أحد یعنی تم (خوارج) لوگوں میں اصحابِؓ رسول اللہؐ میں سے کوئی ایک بھی نہیں ہے۔ عبد اللہؓ بن عباسؓ کی ذکر کردہ اِس بات کو منہج اہلسنت کی بے شمار کتب میں ایک نہایت اہم پوائنٹ کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر خوارج (جوکہ نیکی میں تو اصحابِؓ رسول اللہؐ سے کچھ بڑھے ہوئے ہی نظر آتے تھے) کے ساتھ صحابہؓ کی بھی کوئی چھوٹی موٹی جماعت ہوتی (معاذ اللہ) تو معاملہ عجیب وغریب ہو جاتا۔ مگر یہ خدا کی ایک حجت تھی کہ عقائدی انحرافات کے مدمقابل صحابہؓ سب کے سب ایک چیز پر تھے اور یوں یہ ایک نہایت کھلی دلیل تھی کہ حق کس طرف ہے (ظاہر ہے کہ صحابہؓ کی طرف)۔ دوسری چیز جو ابن عباسؓ نے خوارج کو جتلائی وہ یہ کہ وعلیہم نزل القرآن، وہم أعلم بتأویلہ یعنی قرآن کی تفسیر پر سب بڑھ کر اتھارٹی کوئی ہو سکتے ہیں تووہ صحابہؓ ہیں۔
*****
صحابی کے ساتھ اتفاق نہیں، صحابی کی پیروی |
عن عبد العزیز بن عبید اللہ، قال: قال رجل لعامر: اتفق شریح وابن مسعود، فقال عامر: بل تبع شریح ابن مسعود، وإنما یتفق أصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال والناس لہم تبع‘‘ (ذم الکلام وأہلہ، ۴: ۷۱۔ الأثر رقم ۸۰۸)
عبد العزیز بن عبید اللہ سے روایت ہے، کہا: ایک آدمی امام عامر شعبیؒ کے سامنے یوں بول بیٹھا: فلاں مسئلہ پر شریح نے ابن مسعودؓ کے ساتھ اتفاق کیا ہے۔ شعبی فرمانے لگے: یوں کہو: شریح ؒ نے ابن مسعودؓ کی پیروی کی ہے۔ اتفاق ہوتا ہے اصحابِؓ رسول اللہ ا کے آپس کے مابین۔ رہے لوگ تو وہ ان کے تابع ہیں۔
*****