عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Fehm_deen_masdar_2nd آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
’’پہلے سے‘‘ چلا آنے والا راستہ. نہ کہ ’غور و خوض‘ سے سامنے آنے والی چیز
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

’’پہلے سے‘‘ چلا آنے والا راستہ. نہ کہ ’غور و خوض‘ سے سامنے آنے والی چیز

 

إِنَّا نَقْتَدِیْ وَلا نَبْتَدِئ (قول ابنِ مسعودؓ)۔۔ ہم اقتداء کرنیوالے ہیں نہ کہ ابتداء کرنیوالے

ترجمانِ سلف، حافظ ابن عبد البرؒ اپنی معروف تصنیف جامع بیان العلم میں باقاعدہ ایک باب باندھتے ہیں:

باب: معرفۃ أصول العلم وحقیقتہ، وما الذی یقع علیہ اسم الفقہ والعلم مطلقاً

اس بات کا بیان کہ: اصولِ علم کیا ہیں اور حقیقتِ علم کیا ہے، اور یہ کہ فقہ اور علم کے الفاظ اپنے مطلق معنیٰ میں کس چیز کیلئے آتے ہیں

اس کے تحت ابن عبد البرؒ کچھ نہایت نفیس مباحث لے کر آتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ سلف کے ہاں ’’علم‘‘ کا لفظ ’رائے‘ کے مقابلے میں ایک خاص مفہوم کیلئے استعمال ہوتا تھا۔ اس کا سادہ مفہوم بیان کیا جائے تو (دینِ خداوندی کے معاملہ میں):

’’علم‘‘ اس چیز کو کہیں گے جو آپ کو ’’بتا دی جائے‘‘ نہ کہ وہ بات جو آپ ’بوجھیں‘۔ اس کے مقابلے میں ’رائے‘ ہے اور یہ وہ چیز ہے جس کو آپ ’سوچ بچار‘ اور ’غور و خوض‘ کے نتیجے میں ’دریافت‘ کر کے لاتے ہیں۔

دینِ آسمانی اپنی فطرت میں ’’سمع‘‘ ہے نہ کہ ’دریافت‘۔

’’علم‘‘ 
نہ کہ ’رائے‘

ابن عبد البرؒ علمائے سلف کے استعمالات کے اندر یہ بات اس قدر واضح پاتے ہیں __ یعنی ’’علم‘‘ اور ’’رائے‘‘ میں تمییز رکھنا __ کہ وہ اس پر کوئی اختلاف تک نہیں جانتے:

ولا أعلم بین متقدمی ہذہ الأمۃ وسلفہا خلافا أن الرأی لیس بعلم حقیقۃ، وأفضل ما روی عنہم فی الرأی أنہم قالوا: (الأثر رقم: ۱۴۵۱:) ’’نعم وزیر العلم الرأی الحسن‘‘۔

وقالوا: (الأثر رقم ۱۴۵۲:) أبقی الکتاب موضعاً للسنۃ، وأبقت السنۃ موضعاً للرأی الحسن‘‘ (جامع بیان العلم ص ۷۷۹)

میں اِس امت کے متقدمین و سلف کے مابین اس بات پر کوئی اختلاف نہیں جانتا کہ: رائے حقیقت میں علم نہیں ہے۔ رائے کے حق میں جو بہترین بات متقدمین سے مروی ہوئی ہے وہ ان کا یہ قول ہے:

۔ ’’علم‘‘ (بادشاہ ہے اور) اور ’’خوب رائے‘‘ اس کا کیا ہی اچھا وزیر۔

۔ اسی طرح متقدمین کا یہ بھی قول ہے: کتاب نے سنت کیلئے ایک خاص جگہ چھوڑی ہے۔ اور سنت نے خوب رائے کیلئے ایک خاص جگہ چھوڑی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عقیدہ کے احاطہ میں ’رائے‘ کو پیر دھرنے کی بھی اجازت نہیں۔ اہل بدعت کی سب مذمت اِسی باب سے ہے۔ ابن عبد البر، دورِ تابعین کے دستور کے حوالے سے یہ بیان لے کر آتے ہیں:

وما ینقم علیٰ أہل البدع إلا أنہم اتخذوا الدین رأیا، ولیس الرأیُ ثقۃً ولا حتماً (جامع بیان العلم، ۱: ۷۷۹۔ الأثر رقم: ۱۴۴۹)

اہل بدعات کا اور کوئی بھی جرم بیان نہیں کیا جاتا مگر یہ کہ انہوں نے دین کو رائے بنا لیا ہے۔ جبکہ رائے نہ تو یقینی چیز ہے اور نہ حتمی۔

اپنے فہم دین کی ایک صحیح ترین بنیاد ڈالنے کیلئے کیا منہج ہے، ابن عبد البرؒ یہاں پر ذو النون مصریؒ کا یہ قولِ زریں لے کر آتے ہیں:

’’مِن أعلام البصر بالدین: معرفۃ الأصول لتسلم من البدع والخطأ، والأخذ بالأوثق من الفروع احتیاطاً لتأمن‘‘ (جامع بیان العلم، ۱: ۷۸۵۔ الأثر رقم: ۱۴۶۹)

دین میں بصیرت رکھنے کی نمایاں ترین علامات میں سے یہ ہے کہ: تم نے اصول کو ٹھیک ٹھیک جان لیا ہو، تا کہ بدعات اور انحرافات سے سلامت رہو۔ پھر فروع میں اُس چیز کو اختیار کرو جو ثقہ تر ہے، از راہِ احتیاط۔ تا کہ محفوظ رہو۔

چنانچہ اصولِ دین (جبکہ مبادیِ فہم کا بھی ایک بڑا حصہ اصول میں آتا ہے) کے معاملہ میں تو ’رائے‘ کو کوئی دخل ہی نہیں۔ یہاں پر تو سلف کے سب مکاتب کے نزدیک ’رائے‘ کی وہ مذمت پائی جاتی ہے کہ الامان والحفیظ۔ یہاں پر تو آپ کو وہ چیز ’’بتائی‘‘ جائے گی جو ’’پہلے سے چلی آ رہی ہے‘‘، یعنی ’’علم‘‘ اور ’’اثر‘‘۔۔۔۔ ’’علم‘‘ اور ’’اثر‘‘ کے بغیر یہاں زبان ہلانا ہی درست نہیں۔ رہ گئے فروع، تو اُن میں بھی اصل یہی ہے کہ ’’علم‘‘ ہو۔ اور جو ’’علم‘‘ مل جائے اُس میں ’رائے‘ کو دخل بہرحال نہیں ہے۔ ہاں جب ’’علم‘‘ حاصل ہو جائے تو آپ اس ’’معلوم‘‘ کی مدد سے ’’غیر معلوم‘‘ کو بھی دریافت کرتے ہیں اور اس کا نام ’’رائے‘‘ ہے، جو کہ نہایت مستحسن ہے۔

پس یہ تین باتیں ہوئیں:

۔ ایک تو یہ واضح ہوا کہ اصول دین (اور مبادیِ فہم) میں ’رائے‘ نہیں بلکہ ’’علم‘‘ چلتا ہے، جوکہ رسول اللہ ا سے بذریعہ صحابہؓ ہم کو ملتا ہے، منضبط ’’نص‘‘ کی صورت میں بھی، مستند ’’فہم‘‘ کی صورت میں بھی اور ایک جاری و ساری ’’معمول‘‘ اور ’’دستور‘‘ کی صورت میں بھی۔ لہٰذا یہ چیز اَصحابؓ سے لئے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں۔

۔ دوسری یہ چیز واضح ہوئی کہ فروع میں بھی اصلاً ’’علم‘‘ ہی چلتا ہے نہ کہ ’رائے‘۔ خصوصاً یہ کہ جہاں ’’علم‘‘ آ جائے وہاں تو ’رائے‘ کو کوئی دخل ہی نہیں، خواہ معاملہ فروع کا ہی کیوں نہ ہو۔

۔ تیسری چیز یہ کہ فروع میں ایک ایریا ایسا رکھا گیا ہے کہ دستیاب ’’علم‘‘ کو بنیاد بنا کر دیگر اشیاء کی بابت ’’رائے‘‘ قائم کر لی جائے اور یوں ’’معلوم‘‘ کی مدد سے ’’غیر معلوم‘‘ کی جانب راہنمائی پا لی جائے، بشرطیکہ آدمی کے اندر اس بات کی استطاعت ہو۔

اپنے مطلق معنیٰ میں ’’علم‘‘ ایک ایسی ہی شرعی حقیقت پر دلالت کیلئے آتا ہے۔

پس ’’علم‘‘ کا کل تعلق اس بات سے ہے کہ آپ نے ’’سمع‘‘ کیا کیا، نہ کہ اس بات سے کہ آپ اپنے ’بحرِ تفکیر میں غوطہ لگا کر‘ کیا چیز برآمد کر لائے۔ (کیونکہ مسئلہ دینِ آسمانی کا ہے جس کا سب کو پابند کرایا جانا ہے نہ کہ زمین کی خانہ سازی کا(۱)) اور جب اس چیز کا تعلق ’’سمع‘‘ سے ہے تو سب کچھ صحابہؓ سے لئے بغیر چارہ نہیں، خواہ اصول ہوں اور خواہ فروع۔ اصول اور مبادی تو من و عن چلیں گے اور ان میں تو آپ کچھ تصرف کریں گے ہی نہیں۔ فروع بھی اولاً آپ ’’سمع‘‘ سے لیں گے۔ ہاں فروع میں آپ ایک خاص ایریا کے اندر ’’سمع‘‘ کو بنیاد بنا کر ’’رائے‘‘ بھی اختیار کریں گے۔ پس ’’علم‘‘ درحقیقت ’’سمع‘‘ کا نام ہے، ’’رائے‘‘ اس سے متفرع ہو سکتی ہے۔

دوربارہ واضح کر دیا جائے: مسئلہ دینِ آسمانی کا ہے نہ کہ زمینی افکار کا(۲)۔

’’علم‘‘ اور ’رائے‘ کے اِس فرق سے چونکہ صحابہؓ ہی سب سے بڑھ کر واقف ہیں، اور صحابہؓ ہی نے اس پر سب سے بڑھ کر زور دیا ہے۔۔۔ لہٰذا صحابہؓ جب کسی چیز کو ’’طریقۂ جاریہ‘‘ اور ’’دستور‘‘ کی حیثیت میں چلاتے ہیں تو وہ محض ’رائے‘ سے بڑھ کر کوئی چیز ہوتی ہے؛ نبی ا سے اُس کا اکتساب ہونے کے بے شمار پہلو اور سطحیں ہوتی ہیں (اور جوکہ نبی ا سے کبار صحابہؓ کو حاصل ہوتی ہیں اور پھر کبار صحابہؓ سے صغار صحابہؓ کو، جبکہ سب صحابہؓ عدول ہیں۔ نبیؐ اور انسانوں کے مابین واسطہ ہیں۔ انسانوں پر نبیؐ کے شہید ہیں اور وہ چیز جو نبیؐ نے ان میں کھڑی کی انہوں نے وہ چیز انسانیت کے اندر کھڑی کر دی، جس میں رویے بھی آتے ہیں، مزاج بھی، احوال بھی، اخلاق بھی، مبادیِ فہم بھی، عقیدہ بھی، اور عبادت بھی، معاملات بھی، اور جہاد بھی، اور دولت بھی اور امارت بھی)۔ یا پھر وہ چیز اجماع کا ایک معنیٰ لئے ہوئے ہوتی ہے(۷)۔ محض اپنی رائے سے ایک بات کر دی گئی ہو تو صحابی اُسے امت کو جاری کر کے دینے کی چیز جانتا ہی نہیں ہے۔

چنانچہ بزرگانِ تابعین میں یہ چیز ایک دستور کی حیثیت اختیار کر گئی؛ اور ظاہر ہے اِس دستور کو سب سے پہلے صحابہؓ کی اپنی ہی تائید حاصل تھی، کہ عہدِ صحابہؓ سے جو چیز ایک طریقۂ جاریہ کی صورت میں چلی آتی ہے اُس کو ’’علم‘‘ ہی کے ایک درجہ میں لیا جائے۔ یہی وہ چیز ہے جو ہماری اِسی فصل میں پیچھے شافعیؒ اور محمد بن الحسنؒ ہر دو کی تقریر میں گزری ہے۔ ’’علم‘‘ کا ثبوت کس طرح ہوتا ہے، اس موضوع پر تقریباً ایک ہی بات ہے جس کو امام شافعیؒ نے ’’العلم: خمس طبقات‘‘ کے تحت سمیٹا ہے اور امام محمدؒ نے ’’العلم أربعۃ أوجہ‘‘ کے تحت، اور پھر ان کو بیان کرنے کے بعد امام محمدؒ نے کہا ہے: ’’ولا یخرج العلم عن ہذہ الوجوہ الأربعۃ‘‘۔ (دیکھئے صفحہ ۱۹۵، ۱۹۹ )۔

چنانچہ دین آسمانی کو صحابہؓ سے لینے اور سمجھنے کے حوالے سے ’’علم‘‘ کا یہ باقاعدہ ایک تصور ہے جو ہمیں حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ، حنابلہ اہل الحدیث و دیگر سب متبع سنت و جماعت مذاہب کے اندر نہایت واضح اور باقاعدہ ایک دستور و آئین کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اور یہی وہ واحد چیز ہے حو دینِ آسمانی کو بعد ازاں روز نئی شکل اختیار کرنے اور بازیچۂ اطفال بن جانے سے بچا کر رکھتی ہے(۲)۔ اس کی تفسیر اور اس کے معانی کو ایک طے شدہ اور ناقابل تبدیل حیثیت دینے کی یہی صورت ہے جو خود علمائے صحابہؓ نے اور پھر ان کی تعلیم سے بزرگانِ تابعینؒ نے امت کو اختیار کر کے دی۔

’رائے‘ اور ’’علم‘‘ میں کس واضح انداز سے فرق رکھا جاتا ہے، اس پر ابن عبد البرؒ دورِ سلف سے کچھ لفظ بلفظ شواہد لے کر آتے ہیں:

عن طاووس عن عبد اللہ بن عمر أنہ کان إذا سئل عن شیءٍ لم یبلغہ فیہ شیءٌ ، قال: ’’إن شئتم أخبرتکم بالظن‘‘۔  (جامع بیان العلم: ص ۷۷۷، الأثر رقم: ۱۴۴۳)

طاووسؒ سے روایت ہے: عبد اللہؓ بن عمرؓ سے جب بھی کوئی ایسا مسئلہ دریافت کیا جاتا جس میں اُن کو (پہلے سے پائی جانے والی) کوئی چیز نہ پہنچی ہو، تو وہ جواب دیتے: ’’تم چاہتے ہو تو میں تمہیں ظن سے کوئی چیز بتا دیتا ہوں‘‘۔

وعن أبی ہریرۃ أنہ کان إذا قال فی شیءٍ برأیہ قال: ہذا من کیسی‘‘  (جامع بیان العلم ص ۸۵۱ الأثر رقم: ۱۶۰۷)

ابو ہریرہؓ کے بارے میں آتا ہے کہ ان کا معمول تھا، جب کسی چیز کے معاملے میں وہ اپنی رائے سے بات کرتے تو کہہ دیا کرتے: یہ میری عقل سے ہے۔

وعن ابن مسعود أنہ قال فی غیر ما مسئلۃ: ’’أقول فیہا برأیی‘‘۔  (جامع بیان العلم ص ۸۵۲ الأثر رقم: ۱۶۰۸)

عبد اللہ بن مسعودؓ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے بے شمار مسئلوں کو بیان کرتے وقت یہ صراحت کی کہ ’’یہ میں اپنی رائے سے بیان کر رہا ہوں‘‘۔

عن سالم بن عبد اللہ بن عمر أن رجلاً سألہ عن شیءٍ، فقال لہ: ’’لم أسمع فی ہذا بشیءٍ‘‘۔ قفال لہ الرجل: إنی أرضیٰ برأیک۔ فقال لہ سالم: ’’لعلی أن أخبرک برأیی، ثم تذہب فأریٰ بعدک رأیا غیرہ فلا أجدک‘‘ (جامع بیان العلم: ص ۷۷۷، الأثر رقم: ۱۴۴۲)

سالمؒ بن عبداللہؓ بن عمرؓ سے روایت ہے: ایک آدمی نے سالمؒ سے ایک مسئلہ پوچھا۔ سالمؒ نے جواب دیا: میں نے اِس مسئلہ میں کچھ سن نہیں رکھا۔ آدمی بولا: مجھے آپ کی رائے پر اطمینان ہے۔ سالم نے جواب دیا: ’’شاید کہ میں تمہیں اپنی رائے سے ایک بات بتا دوں، پھر تم چلے جاؤ، اور اس کے بعد میری کوئی اور رائے ہو جائے اور پھر تم مجھے نہ ملو‘‘

عن عاصم الأحول، قال: کان ابن سیرین إذا سئل عن شیء: قال: لیس عندی فیہ إلا رأی أتہمہ۔ فیقال لہ: قل فیہ علی ذلک برأیک۔ فیقول: لو أعلم أن رأیی یثبت لقلت فیہ؛ ولکنی أخاف أن أریٰ الیوم رأیا وأریٰ غداً غیرہ، فأحتاج أن أتبع الناس فی دورہم‘‘ (جامع بیان العلم: ص ۷۷۷ الأثر رقم: ۱۴۴۱)

عاصم الاحول سے روایت ہے، کہا:

ابن سیرینؒ سے مسئلہ دریافت کیا جاتا تو وہ کہتے: اِس مسئلہ میں میرے پاس صرف رائے ہے جو کہ میرے نزدیک بھروسے کی چیز نہیں۔ تو ابن سیرین سے کہا جاتا: آپ اپنی رائے سے بتا دیجئے۔ فرماتے: اگر میں جانتا کہ میری رائے کسی ایک چیز پر قائم رہے گی تو میں ضرور اپنی رائے سے کچھ کہہ دیتا، لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ آج میں ایک رائے رکھوں اور کل کو میری رائے کچھ اور ہو جائے اور مجھے ضرورت محسوس ہو کہ میں گھر گھر جا کر لوگوں کو اپنی نئی رائے بتاتا پھروں‘‘۔

یہاں سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں، سلف جس چیز کو ’’علم‘‘ کہتے ہیں وہ کیا چیز تھی۔

عن عثمان بن عطاء، عن أبیہ، قال: سئل بعض أصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال فقال: إنی أستحیی من ربی أن أقول فی أمۃ محمد برأیی‘‘ (جامع بیان العلم، ص ۷۷۸، الأثر رقم: ۱۴۴۷ قال المححق: إسنادہ ضعیف)

عثمان بن عطاء سے روایت ہے، کہ ان کے والد (عطاء بن ابی رباحؒ ) نے روایت کی: نبی ا کے اصحاب میں سے کسی ایک سے مسئلہ پوچھا گیا تو اُس صحابی نے جواب دیا: میں اپنے پرودگار سے حیاء کرتا ہوں کہ میں امت محمدؐ کے اندر محض اپنی رائے سے کوئی قول جاری کر دوں۔

اِس اثر کی سند میں اگرچہ ضعف بیان ہوا ہے، مگر وہ عمومی تصویر جو ہمیں اصحاب رسول اللہ ؐ سے اس سلسلہ میں ملتی ہے وہ اس سے کچھ مختلف بہرحال نہیں ہے، اسی لئے ابن عبد البر نے اس کو اپنی تالیف میں درج کر دیا ہے۔ اِدھر ہمارے ہاں یہ حال ہے کہ کسی ایک مسئلے میں نہیں، اصول سے لے کر فروع تک پورے دین کی ایک نئی تعبیر خاص اپنی ’تفکیر‘ اور ’غور و خوض‘ سے نکال کر امت محمدؐ کے اندر جاری کروانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کو مقبول کروانے کیلئے دنیا بھر کے پاپڑ بیلے جاتے ہیں۔۔۔ اور پروردگار سے اس پر کوئی حیاء محسوس نہیں کی جاتی۔۔۔ بلکہ شاید فخر ہوتا ہو۔ فاللّٰہم اھدنا واھدِ الجمیع۔

پہلے سے چلی آئی چیز یعنی ’’علم‘‘ (جوکہ ایک ٹھوس اور غیر متغیر چیز ہوتی ہے) کے مابین۔۔۔ اور سوچ بچار اور غور و خوض سے دریافت کی گئی چیز یعنی ’رائے‘ (جوکہ ایک ذہنی پراسیس کا نتیجہ ہوتی ہے اور کسی بھی وقت بدل سکتی ہے)۔۔۔ کے مابین فرق کرنا سلف کے منہج میں جگہ جگہ نظر آتا ہے:

وذکر عبد الرزاق أیضا عن ابن جریج، قال: سألت عطاءً عن غریب قدِم فی غیر أشہر الحج معتمراً، ثم بدا لہ أن یحج فی اشہر الحج: أیکون متمتعاً؟ قال: ’’لا یکون متمتعا حتیٰ یأتی من میقاتہ فی أشہر الحج‘‘۔ قلت: أرأی أم علم؟ قال: ’’بل علمٌ‘‘ (جامع بیان العلم ص ۷۷۱، الأثر رقم: ۱۴۲۹)

عبد الرزاق نے ہی ابن جریج سے بیان کیا، کہا: میں نے عطاء بن ابی رباحؒ سے مکہ کے غیر رہائشی شخص کی بابت پوچھا جو حج کے مہینوں کے علاوہ ایام میں عمرہ کرنے آیا، پھر اُس کی رائے بنی کہ وہ حج کے مہینوں (تک یہیں رہے اور) حج کر لے، کیا وہ حج تمتع شمار ہو گا؟ فرمایا: نہیں حج تمتع شمار نہیں ہو گا جب تک کہ وہ حج کے مہینوں میں ہی اپنی میقات پار کر کے نہ آئے۔ میں نے دریافت کیا: کیا یہ رائے ہے یا علم؟ فرمایا: ’’بالکل علم ہے‘‘۔

عن ابن جریج، قال: سئل عطاء عن المستحاضۃ؟ فقال: ’’تصلی وتصوم، وتقرأ القرآن، وتستثفر بثوب، ثم تطوف۔ فقال لہ سلیمان بن موسیٰ: أیحل لزوجہا أن یصیبہا؟ قال: نعم۔ قال سلیمان: أرأی أم علم؟ قال: ’’بلیٰ سمعنا أنہا إذا صلت وصامت حلَّ لزوجہا أن یصیبہا‘‘۔ (جامع بیان العلم ص ۷۷۱، الأثر رقم: ۱۴۲۸)

ابن جریج سے روایت ہے، کہا: عطاء بن ابی رباحؒ (ایک عظیم تابعی) سے استحاضہ والی عورت کی بابت مسئلہ پوچھا گیا۔ عطاءؒ نے جواب دیا: وہ نماز پڑھے گی، روزہ رکھے گی، قرآن پڑھے گی، کپڑا اچھی طرح باندھ لے اور پھر طواف کر لے۔ سلیمان بن موسیٰ نے اس پر ایک اور سوال کیا: کیا اُس کے شوہر کیلئے حلال ہے کہ وہ اُس سے ہم بستری کرے؟ عطاءؒ نے جواب دیا: ہاں۔ سلیمان نے پلٹ کر پوچھا: یہ آپ رائے بیان کر رہے ہیں یا علم؟ عطاءؒ بولے: ’’کیوں نہیں، ہم نے باقاعدہ سنا ہے کہ جب وہ نماز پڑھے گی اور روزہ رکھے گی تو اس کے شوہر کیلئے اُس کے ساتھ ہم بستری کرنا بھی حلال ہو گا‘‘۔

عن بقیۃ، قال: سمعت الأوزاعی یقول: ’’العلم ما جاء عن أصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قال ، وما لم یجیء عن واحدٍ منہم فلیس بعلم۔ (جامع بیان العلم: ص ۷۶۹ الأثر رقم: ۱۴۲۱)

بقیہؒ روایت کرتے ہیں، کہا: میں نے اوزاعیؒ کو کہتے ہوئے سنا:

’’علم‘‘ وہ ہے جو اصحابِؓ محمد سے ملتا ہو۔ رہی وہ چیز جو کسی بھی صحابیؓ سے نہ ملتی ہو تو وہ ’’علم‘‘ نہیں ہے۔

اوزاعیؒ نے یہ بات یونہی نہیں کہہ دی۔ ’’علم‘‘ درحقیقت وہی ہے جو صحابہؓ کو دیا گیا:

عن قتادۃ فی قولہ عز وجل: ’’وَيَرَى الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ الَّذِي أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ هُوَ الْحَقَّ‘‘ (سبأ: ۶) قال: ’’أصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم قال‘‘۔ (جامع بیان العلم: ص ۷۶۹۔۷۷۰ الأثر رقم: ۱۴۲۲)

’’الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ‘‘
کی تفسیر  صحابہؓ ہیں

تابعی مفسر قرآن قتادہؒ سے تفسیر مروی ہے، کہ کلامِ خداوندی } وَيَرَى الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ الَّذِي أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ هُوَ الْحَقَّ (سبأ: ۶) ’’اور وہ لوگ جن کو علم دیا گیا ہے وہ دیکھتے ہیں اُس چیز کو جو تجھ پر تیرے رب کی طرف سے اتاری گئی ہے کہ وہی حق ہے { کہ’’ اس میں } الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ ’’وہ لوگ جن کو علم دیا گیا ہے‘‘ { سے مراد ہے: اصحابِؓ محمد ا‘‘۔

سورۂ محمد میں یہ بات اِس سے بھی زیادہ صریح ہے کہ ’’الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ‘‘ یعنی ’’جن لوگوں کو علم دے دیا گیا ہے‘‘ سے مراد اصحابِ رسول اللہؐ ہیں۔ اور اسی وجہ سے ابن قیمؒ نے اس کو اپنے قوی ترین دلائل میں ذکر کیا ہے:

وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ حَتَّى إِذَا خَرَجُوا مِنْ عِندِكَ قَالُوا لِلَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آنِفًا أُوْلَئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ (محمد: ۱۶) ’’ان میں ایسے بھی ہیں جو کان لگا کر تیری بات سنتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب تیرے پاس سے نکلتے ہیں تو اُن لوگوں سے جن کو علم دیا گیا ہے کہتے ہیں، اس نے ابھی ابھی کیا کہا تھا؟ یہی ہیں وہ لوگ جن کے دلوں پر اللہ نے ٹھپہ لگا دیا ہے‘‘

ابن قیم کہتے ہیں: اِس میں ’’الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ‘‘ یعنی ’’جن لوگوں کو علم دے دیا گیا ہے‘‘ سے مراد بلاشبہ اصحابِ رسول اللہؐ ہیں۔ پس بنصِ قرآن، علمائے صحابہؓ تاریخ کا وہ برگزیدہ گروہ ہے جس کو علمِ شریعت (اللہ کے اپنے نبیؐ کے ہاتھوں) دے دیا اور سکھا دیا گیا ہے، اور ظاہر ہے یہ بات امت میں کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔

عن مجاہد، قال: ’’العلماء أصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم قال ‘‘ (جامع بیان العلم ص ۷۷۰، الأثر رثم ۱۴۲۴ قال المحقق: إسنادہ ضعیف وصح معناہ عن کثیر من التابعین فمن بعدہم)

تلمیذِ عبد اللہؓ بن عباسؓ، عظیم تابعی مفسر مجاہدؒ سے روایت ہے، کہا:

’’علماء (درحقیقت) اصحابِؓ محمد ا ہیں‘‘

کتاب وسنت کی تفسیر وتاویل اِنہی کے آثار میں تلاش کی جائے گی؛ ان کے آثار ہی اصل ’’علم‘‘ ہیں۔

اتباعِ اثر

اتباعِ اثر یا آثار۔۔۔: یعنی کتاب و سنت کی تفسیر و تطبیق کے اِس عمل میں اِن پہلوں کے قدم جہاں پڑ چکے، عین وہیں پر قدم رکھنا اور نئے راستے نہ بنانا۔

عن عبد اللہ بن المبارک، عن سفیان، قال: إنما الدین الآثار‘‘ (جامع بیان العلم، ص ۷۸۱، الأثر رقم: ۱۴۵۸)

عبد اللہ بن مبارکؒ ، سفیان ثوریؒ کا قول روایت کرتے ہیں:

’’دین تو صرف اور صرف آثار کا نام ہے‘‘

عن سعید بن جبیر، قال: ما لم یعرفہ البدریون فلیس من الدین (جامع بیان العلم: ص ۷۷۱، الأثر رقم ۱۴۲۵)

سعید بن جبیرؒ (ایک عظیم تابعی) سے روایت ہے، فرمایا:

’’وہ چیز جس سے بدری اصحابؓ واقف نہیں، دین نہیں ہے‘‘

یعنی کسی کے صغریٰ وکبریٰ سے ’’دین‘‘ نہیں نکل آیا کرتا ۔ ’’دین‘‘ وہی ہے جو ایک معلوم حقیقت ہے اور جس پر پہلے لوگ چل چکے۔ ’’دین‘‘ کی تفسیر وہی ہے جو پہلوں کے یہاں ہو چکی۔ یہ اب خالی ’غوروخوض‘ سے نہیں ’’پہلوں کے نشاناتِ راہ‘‘ سے ثابت ہو گی۔۔۔ یعنی ’’آثار‘‘۔ راستے ہیں جو بنائے جا چکے۔ بلکہ شاہراہیں ہیں جن پر نسلوں کی نسلیں پورے اعتماد اور وثوق سے چلیں گی اور اس کی ہر اینٹ دوبارہ اکھاڑتی نہیں پھریں گی۔ بنیادی ترین معاملے اِس امت کے اندر سرے لگ چکے۔ اس میں کھلواڑ کی سب راہیں بند ہو چکیں(۲)۔ امت کی ہر نسل کو اِس پر اب ’’چلنا‘‘ ہے ’راستے‘ نہیں بنانے۔

اتبعوا، ولا تبتدعوا، فقد کفیتم

فإنَّ کلَّ محدَثُۃٍ بدعۃ

لفظ ’’اثر‘‘ کی صحیح دلالت درحقیقت یہی ہے۔ ’’دینِ آسمانی‘‘ اپنی حقیقت و ماہیت میں کیا ہے، اور اس کی ’’سرچ‘‘ اور اس کو ’’معلوم‘‘ کرنے کی ایک فطری اپروچ کیا ہے، اِن سب مفہومات کو ادا کرنے کیلئے لفظِ ’’اثر‘‘ میں جو بلاغت اور جو معنویت ہے وہ کسی اور لفظ میں نہیں۔

پس قرونِ اولیٰ کا یہ ایک باقاعدہ دستور ہے جو دورِ تابعین و تبع تابعین میں ایک گونج کی صورت سنا جاتا ہے:

عن عبد اللہ بن المبارک، عن سفیان، قال: إنما الدین بالآثار‘‘ (جامع بیان العلم، ص ۱۰۴۹، الأثر رقم: ۲۰۲۲)

سفیان ثوریؒ بروایت عبد اللہ بن المباکؒ :

’’دین تو ثابت ہوتا ہے آثار سے‘‘۔

عن محمد بن سیرین، قال: ’’کانوا یرون أنہم علی الطریق ما داموا علی الأثر‘‘ (جامع ص ۷۸۳، الأثر رقم: ۱۴۶۲)

محمد بن سیرینؒ (عظیم تابعی) بیان کرتے ہیں:

’’لوگ اپنے آپ کو __ تاوقتیکہ وہ اثر پر ہوں __ جادۂ حق پر جانتے تھے‘‘

عن محمد بن سیرین، قال: قال شریح: ’’إنما أقتفی الأثر، فما وجدت فی الأثر حدثتکم بہ‘‘ (جامع بیان العلم ص ۷۸۱ الأثر رقم: ۱۴۵۵)

محمد بن سیرینؒ ، شریح (ایسے عظیم تابعیؒ جس کو عمرؓ نے اپنے زمانے میں قاضی بنایا تھا) کی بابت روایت کرتے ہیں کہ شریح ؒ نے کہا:

’’میں صرف اور صرف اثر کی پیروی کرتا ہوں۔ پس جو چیز میں اثر سے پاتا ہوں تم کو بیان کر کے دے دیتا ہوں‘‘

عن ابن المبارک، یقول: ’’لِیَکُنْ الأمر الذی تعتمدون علیہ ہٰذا الأثر، وخذوا من الرأی ما یفسر لکم الحدیث‘‘۔ (جامع بیان العلم، ص ۷۸۱، الأثر رقم: ۱۴۵۷)

عبد اللہ بن المبارکؒ سے روایت ہے، فرمایا:

’’ہونا یہ چاہئے کہ جس چیز پر تمہارا سہارا ہو وہ تو ہو یہ اثر ہی۔ ہاں پھر اس حدیث کو تفسیر کرنے کیلئے رائے سے بھی مدد لے لیا کرو‘‘

عن أیوب السختیانی، قال: قلت لعثمان البتی: دُلَّنی علی باب من أبواب الفقہ۔ قال: ’’اسمع الاختلاف‘‘۔ (جامع بیان العلم ص ۷۸۴، الأثر رقم: ۱۴۶۶)

ایوب سختیانیؒ سے روایت ہے، کہا: میں نے عثمان بتیؒ سے عرض کی: مجھے فقہ کے ابواب میں سے کسی اہم باب کی نشان دہی کر کے دیجئے۔ فرمایا: سلف کے اختلاف کا زیادہ سے زیادہ علم لو۔

*****

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز