امام شاطبیؒ : سنت کی تعریف کرتے ہوئے |
جیسا کہ گزشتہ فصل میں ہم بیان کر آئے ہیں، ’’سنت‘‘ کو پانا علمائے سلف کے یہاں متعدد پہلوؤں سے صحابہؓ کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ ’’سنت‘‘ کا رپورٹ ہونا ہے تو تب، ’’سنت‘‘ کا کسی کے ہاں پایا جانا ہے تو تب، ’’سنت‘‘ کا سمجھا جانا ہے تو تب، اور ’’سنت‘‘ کی تطبیق ہے تو تب، ہر چیز پر اتھارٹی صحابہؓ ہیں۔ اصولِ فقہ کا ایک نہایت عظیم نام امام شاطبیؒ لکھتے ہیں:
ویطلق أیضا لفظ السنۃ علی ماعمل علیہ الصحابۃ وُجِدَ ذلک فی الکتاب أو السنۃ أو لم یوجد لکونہ اتباعاً لسنۃٍ ثبتت عندہم لم تنقل إلینا أو اجتہادا مجتمعاً علیہ منہم أو من خلفاۂم، فإن إجماعہم إجماع249 وعمل خلفاۂم راجع أیضا إلی حقیقۃ الإجماع من جہۃ حمل الناس علیہ حسبما اقتضاہ النظر. (الموافقات: ج۴249 ص ۴)
نیز لفظ ’’سنت‘‘ کا اطلاق اُس چیز پر بھی ہوتا ہے جس پر صحابہؓ کا عمل پایا گیا ہو، چاہے وہ چیز کتاب میں اور سنت میں ملے اور چاہے نہ ملے۔ یہ چیز اُس کی اِس حیثیت کے باعث کہ وہ ایک ایسی سنت کی اتباع ہو جو اُن (صحابہؓ) کے یہاں پایۂ ثبوت کو پہنچی ہو مگر ہم تک نقل ہونے میں نہ آئی ہو، یا ایک ایسا اجتہاد ہو جس پر اُن کا یا اُن کے خلفاء کا اتفاق پایا گیا ہو، کیونکہ اُن کا اجماع ہی (دراصل) اجماع ہے۔ جبکہ اُن کے خلفاء کا جو عمل ہے وہ بھی اجماع کی حقیقت ہی کی طرف لوٹتا ہے؛ اور وہ اس جہت سے کہ لوگوں کو حسب اقتضائے نظر (خلفاء کی طے کردہ) اُس چیز پر باقاعدہ چلایا جاتا تھا۔
امام شافعیؒ ’’علم‘‘ کے مراتب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
والعلم طبقات: الأولی: الکتاب والسنۃ إذا ثبتت السنۃ. ثم الثانیۃ: الإجماع فیما لیس فیہ کتاب ولا سنۃ. والثالثۃ: أن یقول بعض أصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ورضی عنہم. والرابعۃ: اختلاف أصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ورضی عنہم۔ والخامسۃ: القیاس علی بعض ہذہ الطبقات (المدخل إلی السنن للییہقی: الجزء الأول249 ص ۴۴، الأثر رقم: ۳۶)
علم متعدد طبقات ہے:
پہلا: کتاب اور سنت، جبکہ سنت ثابت ہو چکی ہو۔
دوسرا: اجماع، اُس معاملہ میں جس میں کتاب یا سنت سے کوئی چیز نہ پائی گئی ہو۔
تیسرا: نبی ا کے بعض اصحابؓ سے ایک قول پایا گیا ہو۔
چوتھا: نبی ا کے اصحابؓ کا اختلاف (یعنی جو جو اختلاف ہوا، اس سے بھی ’’علم‘‘ ثابت ہوتا ہے)۔
پانچواں: (علم کے) ان طبقوں میں سے کسی ایک (کو بنیاد بنا کر اُس) پر قیاس کرنا۔
اس سے اگلے اثر میں امام بیہقیؒ ، امام شافعیؒ کا ایک اور قول نقل کرتے ہیں:
وہم فوقنا فی کل علم، واجتہاد، وورع، وفعل، وأمر استدرک بہ علم، واستنبط بہ، وآراؤہم لنا أحمد، وأولیٰ بنا من آرائنا عندنا لأنفسنا، واللہ أعلم، ومن أدرکنا ممن أرضیٰ أو حُکِیَ لنا عنہ ببلدنا، صاروا فیما لم یعلموا لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال فیہ سنۃً إلیٰ قولہم إن اجتمعوا، وقول بعضہم إن تفرقوا، فہکذا نقول إذا اجتمعوا أخذنا باجتماعہم، وإن قال واحدہم ولم یخالفہ غیرہ أخذنا بقولہ، فإن اختلفوا أخذنا بقول بعضہم ولم نخرج من أقاویلہم کلہم۔ (المدخل إلی السنن ، ص ۴۵، الأثر رقم: ۳۷)
صحابہؓ ہم سے اوپر ہیں ہر علم، ہر اجتہاد، ورع، اور ہر فعل کے اندر۔ اور ہر ایسے امر میں جس کے ذریعے سے علم شرعی کا استدراک ہوتا ہو، یا استنباط ہوتا ہو۔ اُن کی آراء ہمارے حق میں کہیں زیادہ قابل ستائش ہیں، اور ہماری اپنی آراء سے جو ہم اپنے لئے اختیار کریں ہمارے حق میں اولیٰ تر ہیں۔ اللہ اعلم۔
وہ سب بزرگانِ دین جن کو میں (امام شافعیؒ ) باعث اطمینان جانتا ہوں، جن کو میں نے خود پایا یا اپنے علاقہ میں اُن کا تذکرہ کسی سے سنا، ان کا یہی دستور تھا کہ جس چیز میں اُن کو رسول اللہ ا کی کوئی سنت معلوم نہ ہوتی تو وہ صحابہؓ کے قول پر چلے جاتے جب صحابہؓ اُس قول پر مجتمع ہوتے، اور اگر صحابہؓ نے اختلاف کیا ہوتا تو اُن میں سے بعض کے قول پر چلے جاتے۔ ایسا ہی ہم بھی کہتے ہیں کہ جب صحابہؓ متفق ہوں تو ہم اُن کے اتفاق کو اختیار کریں گے، اور اگر وہ صحابہؓ میں سے کسی ایک کا قول ہو اور کسی دوسرے صحابیؓ نے اُس سے مخالف رائے نہ رکھی ہو تو ہم اُس کو اختیار کریں گے۔ اور اگر صحابہؓ کا اختلاف ہوا ہو تو ہم صحابہؓ ہی کے ایک فریق کا قول اختیار کریں گے، اور بالجملہ اُن سب کے اقوال سے باہر نہ جائیں گے۔
امام بیہقیؒ اپنی ایک دوسری کتاب میں امام شافعیؒ کا قول لاتے ہیں:
عن الربیع بن سلیمان، قال: قال الشافعی: لا یکون لک أن تقول إلا عن أصل، أو قیاساً علی أصل. والأصل: کتاب أو سنۃ، أو قول بعض أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ، أو إجماع الناس (مناقب الشافعی للبیہقی: الجزء الأول ص ۳۶۷)
ربیع بن سلیمان سے روایت ہے، کہا: فرمایا امام شافعیؒ نے:
تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ تم ۔(دین میں) کوئی بات کہو اِلا یہ کہ وہ کسی اصل کی بنا پر ہو یا پھر وہ کسی اصل پر قیاس کیا گیا ہو۔ اور اصل ہے: کتاب، یا سنت، یا رسول اللہ ا کے بعض اصحابؓ کا قول، یا لوگوں کا اجماع۔
تھوڑا آگے چل کر بیہقیؒ امام شافعیؒ سے ایک اور اثر لاتے ہیں۔ اِس سے آپ کو یہ بھی اندازہ ہو گا کہ کس طرح یہ ائمۂ سنت اپنے سے پہلے فقہاء کے فقہی تسلسل کا پابند رہتے ہیں اور ان کے تسلسل سے ہٹ کر امت کو بالکل ہی ایک نیا قول نکال کر دینے سے محترز رہتے ہیں:
وقال: فإن لم یکن علی القول دلالۃ من کتاب ولا سنۃ، کان قول أبی بکر، أو عمر، أو عثمان، أو علی ۔رضی اللہ عنہم ۔ أحب إلیَّ أن أقول بہ من قول غیرہم إن خالفہم، من قِبَل أنہم أہل علمٍ وحکام۔ ثم ساق الکلام إلیٰ أن قال: فإن اختلف الحکام استدللنا الکتاب والسنۃ فی اختلافہم، فصرنا إلی القول الذی علیہ الدلالۃ من الکتاب والسنۃ، وقلَّ ما یخلو اختلافہم من دلائل کتاب أو سنۃ، وإن اختلف المفتون یعنی من الصحابۃ بعد الأئمۃ بلا دلالۃ فیما اختلفوا فیہ، نظرنا إلی الأکثر، فإن تکافؤوا نظرنا إلیٰ أحسن أقاویلہم مخرجا عندنا، وإن وجدنا للمفتین فی زماننا وقبلہ اجتماعا فی شیءٍ لا یختلفون فیہ تبعناہ، وکان أحد طرق الأخبار الأربعۃ وہی: کتاب اللہ، ثم سنۃ نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم قال، ثم القول لبعض أصحابہ، ثم اجتماع الفقہاء، فإذا نزلت نازلۃ لم نجد فیہا واحدۃ من ہذہ الأربعۃ الأخبار، فلیس السبیل فی الکلام فی النازلۃ إلا اجتہاد الرأی۔ (المدخل الی السنن للبیہقی: ص ۴۵ ۔ ۴۶، الأثر رقم: ۳۹)
شافعیؒ مزید کہتے ہیں: پھر اگر ایک قول پر کتاب یا سنت سے کوئی دلالت نہ ملتی ہو، تو قولِ ابو بکرؓ، یا قولِ عمرؓ، یا قولِ عثمانؓ، یا قولِ علیؓ مجھے ان کے ما سوا کسی بھی بزرگ کے قول کی نسبت مرغوب تر ہو گا، اگر ان میں اختلاف ہو۔ یہ اس وجہ سے کہ یہ (چاروں خلفاء) اہل علم ہیں اور (صحابہؓ کے) قضاء کے منصب پر رہے ہیں۔ پھر آگے چل کر امام شافعیؒ کہتے ہیں: پھر اگر یہ قضاۃ اختلاف کریں تو ہم ان کے اختلاف کے معاملہ میں کتاب و سنت سے استدلال لیں گے، اور اُس قول کی جانب جائیں گے جس پر کتاب اور سنت سے دلالت پائی جاتی ہو، اور کم ہی کبھی ہوا ہے کہ ان کے اختلاف میں کتاب وسنت سے دلالت نہ پائی جاتی ہو۔ اور اگر ان (چاروں ائمۂ صحابہؓ) کو چھوڑ کر دیگر مفتیانِ صحابہؓ کے مابین اختلاف ہوا ہو، اور ان کے اختلاف پر (کتاب وسنت سے) دلالت نہ پائی جاتی ہو، تو ہم دیکھیں گے اکثریت کس طرف گئی ہے۔ اگر وہ ہم پلہ ہوں تو ہم دیکھیں گے کہ ان میں سے کس کا قول ہمارے خیال میں سب سے بہتر انداز میں استخراج کیا گیا ہے۔ اگر ہم پائیں کہ ہمارے زمانے اور اس سے پہلے کے مفتیان کا کسی بات پر اجتماع ہے اور ان میں اس پر اختلاف نہیں ہوا ہے، تو ہم اُسی کی پیروی کریں گے، اور وہ ’’اخبار‘‘ کے باقاعدہ چار طرق میں سے ایک طریق ٹھہرے گا جوکہ یہ ہیں: اللہ کی کتاب۔ پھر اس کے نبیؐ کی سنت۔ پھر آپؐ کے اصحابؓ میں سے بعض کا قول، پھر فقہاء کا اجتماع۔ ہاں اگر کوئی نازلہ (نیا مسئلہ) سامنے آئے اور اُس کی بابت ہمیں ’’اخبار‘‘ کے اِن چاروں میں سے کسی ایک بھی طریق سے کچھ نہ ملے تو پھر اُس نازلہ کی بابت کوئی موقف اختیار کرنے کے معاملہ میں خود اپنی رائے کا اجتہاد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا۔
امام ابو حنیفہؒ کا بھی یہی مذہب ہے |
پیچھے آپ ’’علم‘‘ کے طبقات کے بیان میں امام شافعیؒ کا کلام دیکھ آئے ہیں۔ سبحان اللہ، عین ویسا ہی کلام دیکھئے آپ کو فقہائے احناف کے ہاں ملتا ہے:
قال محمد بن الحسن: ’’العلم أربعۃ أوجہ: ما کان فی کتاب اللہ الناطق وما أشبہہ، وما کان فی سنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال المأثورۃ وما أشبہہا، وما کان فیما أجمع علیہ الصحابۃ وما أشبہہ، وکذلک ما اختلفوا فیہ لا یخرج عن جمیعہ، فإذا وقع الاختیار فیہ علی قول فہو علم یقاس علیہ ما أشبہہ، وما استحسنہ عامۃ فقہاء المسلمین وما أشبہہ وکان نظیرا لہ۔ قال: ولا یخرج العلم عن ہذہ الوجوہ الأربعۃ‘‘۔ (جامع بیان العلم وفضلہ، لابن عبد البر: ص ۷۶۰، الأثر رقم: ۱۴۰۵)
امام محمد بن الحسنؒ کہتے ہیں:
’’علم‘‘ چار انداز سے ہے:
۔ جو اللہ کی کتاب میں ناطق ہو، اور جو اس سے مشابہ ہو،
۔ اور جو رسول للہ ا کی سنتِ ماثورہ میں ہو، اور جو اس سے مشابہ ہو،
۔ اور وہ چیز جس پر صحابہؓ نے اجماع کر رکھا ہو، اور جو اس سے مشابہ ہو،
۔ اسی طرح جو جو صحابہؓ میں اختلاف ہوا ہے، علم مجموعی طور پر اس سے باہر نہیں ہوتا؛ پس اختلافاتِ صحابہؓ میں سے جب کسی ایک قول کو اختیار کر لیا جائے تو وہ ’’علم‘‘ ہے، جس پر قیاس ہو سکتا ہے، اور جو اس سے مشابہ ہو۔ اور وہ چیز جس کا عام فقہائے مسلمین نے استحسان کیا ہو اور جو اس سے مشابہ ہو اور اس کی نظیر ہو،
امام محمدؒ کہتے ہیں: ’’علم‘‘ اِن چار وجوہ سے باہر نہیں ہوتا۔
عن أبی یوسف قال: سمعت أبا حنیفۃ یقول:
’’إذا جاء الحدیث عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال عن الثقات أخذنا بہٖ، فإذا جاء عن أصحابہ لم نخرج عن أقاویلہم، فإذا جاء عن التابعین زاحمتہم‘‘. (أخبار أبی حنیفۃ وأصحابہ: ص ۲۴، مؤلفہ: الإمام المحدث المؤرخ الکبیر الفقیہ القاضی: أبو عبد اللہ حسین بن علی الصیمری، المتوفیٰ ۴۳۶ ھ)
امام ابو یوسف روایت کرتے ہیں، کہا: میں نے سنا امام ابو حنیفہؒ کو فرماتے ہوئے: ’’اگر حدیث آ جائے نبی ا سے بذریعہ ثقہ راویوں کے، تو ہم اُسی کو اختیار کریں گے۔ اور اگر آ جائے آپؐ کے اصحابؓ سے تو ہم اُن کے اقوال سے باہر نہیں جائیں گے۔ اور اگر آ جائے تابعین سے تو وہاں البتہ میں ان کے برابر بھیڑ کروں گا‘‘۔
یہ تو واضح ہی ہے کہ امام ابو حنیفہؒ اپنے آپ کو نہ صرف حدیث بلکہ اقوالِ صحابہؓ کا پابند رکھتے تھے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا، اور جوکہ امام ابو حنیفہؒ کی بابت لکھی گئی کتب میں نہایت معروف ہے۔ نہ صرف یہ، بلکہ امام ابو حنیفہؒ فقہائے کوفہ (جوکہ درحقیقت مدرسۂ علیؓ وابن مسعودؓ ہے) کے بھی شدید طور پر پابند تھے اور اپنے آپ کو اُنہی کا تسلسل بنا کر رکھتے تھے:
عن الحسن بن صالح قال: کان أبو حنیفۃ شدید الفحص عن الناسخ من الحدیث والمنسوخ، فیعمل بالحدیث إذا ثبت عندہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال وعن أصحابہ، وکان عارفا بحدیث أہل الکوفۃ وفقہ أہل الکوفۃ، شدید الاتباع لما کان علیہ الناس ببلدہ. (أخبار أبی حنیفۃ وأصحابۃ: ۲۵)
حسن بن صالح روایت کرتے ہیں، کہا: امام ابو حنیفہؒ حدیث کے ناسخ و منسوخ کی جانچ پرکھ میں نہایت شدید تھے۔ آپؒ حدیث پر عمل کرتے اگر حدیث آپؒ کے نزدیک ثابت ہوتی نبی ا سے، اور آپؐ کے اصحابؓ سے۔ امام صاحبؒ اہل کوفہ کے ہاں پائی جانے والی حدیث اور اہل کوفہ کی فقہ ہر دو کے نہایت واقف تھے۔ آپ اُس چیز کی اتباع میں نہایت شدید تھے جس پر آپ کے شہر کے فقہاء لوگ پائے گئے تھے۔
ادب القاضی (للخصافؒ ، یکے از فقہائے احناف متوفیٰ ۲۶۱ ھ) کے شارح حسام الدین عمرؒ (متوفیٰ ۵۳۶ ھ) اپنی اِس نہایت مشہور کتاب میں لکھتے ہیں:
قال أبو حنیفۃ: أقلد من کان من القضاۃ والمفتین من الصحابۃ رضی اللہ عنہم لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: اقتدوا بالذین من بعدی أبی بکر وعمر249 وقد اجتمع فی حقہما القضاء والفتیا، فمن کان بمثابتہما مثل عثمان وعلی والعبادلۃ الثلاثۃ، وزید بن ثابتٗ ومعاذ بن جبل، وغیرہم، ممن کان فی معناہم فأقلدہم، ولا أستجیز خلافہم برأی. (شرح أدب القاضی: ۱: ۱۸۳ ۔ ۱۸۴)
ابو حنیفہؒ کہتے ہیں:
’’صحابہؓ میں سے جو لوگ باقاعدہ قضاء اور افتاء کے منصب پر فائز رہے ہیں میں ان کی تقلید کرتا ہوں، اس بنا پر کہ نبی ا نے فرمایا تھا: پیروی کرو ان دو میرے بعد والوں کی، ابو بکرؓ اور عمرؓ۔ جبکہ ان دونوں کے حق میں (صحابہؓ کے اندر) قضاء اور افتاء کے منصب مجتمع رہے ہیں۔
پس جو کوئی ان دونوں کی حیثیت کا رہا ہو، مثل عثمانؓ، علیؓ، عبادلہ ثلاثہؓ، زید بن ثابتؓ، معاذ بن جبلؓ اور ان کے علاوہ وہ لوگ جن کو عین یہی معنیٰ حاصل ہو، تو میں اُن (صحابہؓ) کی تقلید کرتا ہوں اور رائے کی بنا پر اُن کے خلاف جانے کو جائز نہیں رکھتا‘‘۔
یہاں تک کہ امام ابو حنیفہؒ تابعین میں سے بھی اُن کبار ائمہ کو جنہوں نے صحابہؓ کی موجودگی میں اور ان کی اجازت اور تزکیہ سے قضاء و افتاء کے امور سرانجام دیے ہیں، یہی حیثیت دیتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے، کہ وہ تابعین جن کی برابری میں امام ابو حنیفہؒ اپنے آپ کو اجتہاد وغیرہ کے منصب پر رکھتے ہیں، وہ بعد کے تابعین ہیں نہ کہ اول اول کے تابعین جو کبار صحابہؓ سے قضاء و اِفتاء کیلئے باقاعدہ سند یافتہ رہے تھے:
قال الإمام أبو حنیفۃ: من کان من أئمۃ التابعین وأفتیٰ فی زمن الصحابۃ وزاحمہم فی الفتویٰ وسوغوا لہ الاجتہاد، فأنا أقلدہ۔مثل شریح، والحسن، ومسروق بن الأجدع، وعلقمۃ۔ (شرح أدب القاضی: ۱: ۱۸۶ ۔ ۱۸۷)
امام ابو حنیفہؒ کہتے ہیں:
جو کوئی تابعین کے ائمہ میں سے رہا ہو اور صحابہؓ کے زمانے میں فتویٰ دیتا رہا ہو اور ان کے ساتھ فتویٰ میں بھیڑ کرتا رہا ہو، اور صحابہؓ نے اس کو باقاعدہ اجتہاد کا اہل جانا ہو، میں اُس کی تقلید کروں گا۔ مثل: قاضی شریح ؒ ، حسن بصری ؒ ، مسروق بن اجدع ؒ اور علقمہ بن قیسؒ ۔
اِس کی توجیہ کرتے ہوئے صاحب شرح لکھتے ہیں:
وہذا لأنہم لما بلغوا درجۃ الفتویٰ فی زمن الصحابۃ، وسوّغ الصحابۃ لہم الاجتہاد، صار قولہم کقول الصحابۃ رضی اللہ عنہم۔ (نفس المصدر: ۱: ۱۸۷ ۔ ۱۸۸)
اور یہ اس لئے کہ جب وہ صحابہؓ کے زمانے میں درجۂ افتاء کو پہنچ چکے تھے، اور صحابہؓ نے ان کو اجتہاد کا اہل ہونے کی سند دے دی، تو ان کا قول بھی صحابہؓ کے قول جیسا ہو گیا۔
گو اس کے بعد (تابعین کے اقوال کی بابت) مذہب حنفی کے بیان کے سلسلے میں شارح ادب القاضی لکھتے ہیں:
فعلیٰ ہذہ الروایۃ لا یحتاج إلی الجواب عن قول من یقول: لم ذکر أبو حنیفۃ رضی اللہ عنہ أقاویلہم فی الکتب۔
وعلی ظاہر المذہب یحتاج: فنقول: إنما ذکرہا لا محتجاً بہا، بل بیانا أنہ لم یستبد بہذا القول، بل سبقہ غیرہ، وقال متبعا،لا مبتدعاً (نقس المصدر: ۱: ۱۸۸)
پس اس روایت کی بنا پر اُس شخص کا جواب دینے کی ضرورت نہیں رہتی جو کہے کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے اُن کے اقوال کتب میں کیوں ذکر کئے ہیں۔ گو ظاہرِ مذہب کی رو سے ضرورت ہے۔ پس ہم کہیں گے: امام صاحب نے وہ اقوال ذکر کئے، ان سے احتجاج کرنے کے طور پر نہیں، بلکہ یہ بیان کرنے کے طور پر کہ امام صاحب یہ قول لانے والے کوئی پہلے شخص نہیں، بلکہ دوسرے ان سے پہلے یہ قول کہہ چکے ہیں، اور یہ کہ امام صاحب نے از راہِ اتباع یہ اقوال کہے ہیں نہ کہ از راہِ ابتداع۔
ابھی یہ فروع کا معاملہ ہے۔ رہ گیا اصولِ دین کا معاملہ، تو یہاں امام ابو حنیفہؒ بھی صحابہؓ کے پیچھے عین اُسی طرح کھڑے ہیں جس طرح دیگر ائمہ واَعلامِ سنت۔ امام ہرویؒ اِس سلسلہ میں امام ابو حنیفہؒ کا یہ قول ذکر کرتے ہیں:
عن نوح الجامع، قول أبی حنیفۃ:
’’علیک بالأثر وطریقۃ السلف، وإیاک وکل محدثۃ، فإنہا بدعۃ‘‘ (ذم الکلام وأہلہ۔ ج ۴ ص ۲۱۳ ۔ ۲۱۴)
نوح جامع سے امام ابو حنیفہؒ کا قول مروی ہے:
’’اثر کو اور طریقۂ سلف کو لازم پکڑو۔ اور خبردار رہو ہر نئی چیز سے، کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے‘‘۔
امام مالک و امام احمد کا موقف تو خیر محتاج بیان ہی نہیں |
رہ گیا اِس موضوع پر امام مالکؒ اور امام احمدؒ کا موقف تو وہ اس قدر مشہور ہے کہ محتاجِ بیان ہی نہیں۔
اندلسی فقیہ و اصولی امام شاطبیؒ __ جوکہ خود بھی مالکی ہیں __ ’’قولِ صحابی‘‘ کی بابت امام مالکؒ کے مشہور وزبان زدِ عام موقف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ولما بالغ مالک فی ہذا المعنیٰ بالنسبۃ إلی الصحابۃ أو من اہتدیٰ بہدیہم واستن بسنتہم جعلہ اللہ تعالی قدوۃ لغیرہ فی ذلک فقد کان المعاصرون لمالک یتبعون آثارہ ویقتدون بأفعالہ ببرکۃ اتباعہ لمن أثنی اللہ ورسولہ علیہم وجعلہم قدوۃ أو من اتبعہم رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ أولئک حزب اللہ ألا إن حزب اللہ ہم المفلحون۔ (المواقفات: ۴: ۸۰)
چونکہ امام مالکؒ صحابہؓ اور صحابہؓ کی علمی روش کی پیروی کرنے والے اور صحابہؓ کی سنت کو مسنون جاننے والے شخص کو تعظیم دینے میں بہت آگے گئے ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے خود امام مالکؒ کو بھی اس معاملہ میں دوسروں کیلئے قدوہ (مشعل راہ) بنا دیا۔ چنانچہ امام مالک کے ہم عصر امام مالک ہی کے آثار کی اتباع کرنے لگے تھے اور اُن کے افعال کی ہی اقتدا کرنے لگے تھے۔ یہ برکت تھی امام مالک کے اُن بزرگوں کا اتباع کرنے کی جن کی ثنا کی تھی اللہ نے اور اس کے رسولؐ نے اور قدوہ (جس کی اقتداء کی جائے) ٹھہرایا تھا اُن کو یا اُن کی اتباع کرنے والوں کو، اللہ اُن سے راضی ہو اور وہ اللہ سے راضی ہوں۔ وہی ہیں اللہ کا جتھا، آگاہ رہو اللہ کا جتھا ہی کامیاب ہو کر رہنے والا ہے‘‘۔
امام احمد بن حنبلؒ کے یہ الفاظ مذہب اہل سنت کے بیان میں بچے بچے کی زبان پر پائے گئے ہیں:
أصول السنۃ عندنا: التمسک بما علیہ اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم قال والاقتداء بھم، وترک البدع، وکل بدعۃ فھي ضلالۃ ، وترک الخصومات والجلوس مع أصحاب الأھواء وترک المراء والجدال والخصومات فی الدین (شرح اصول اھل السنۃ والجماعۃ للالکائی ج۱: ص ۱۵۶)
’’اصول (اہل) سنت(۶) ہمارے ہاں یہ ہیں کہ ہر وہ امر جس پر اصحاب رسول اللہا تھے، اس سے چمٹ کر رہا جائے۔ ان کی اقتداء کی جائے۔ اور نئی ایجادات کو ترک کر رکھا جائے۔ کیونکہ ہر نئی اپج (بدعت) ضلالت ہے۔ اور کلامی بحثوں اور اہل اھواء کی ہم نشینی کو ترک کر رکھنا۔ اور دین کے اندر دلیل بازی اور جدال اور کلام کو ترک کر کے رکھنا ‘‘۔
امام اوزاعیؒ اس حقیقت کے بیان میں کیا خوبصورت پیرایہ اختیار کرتے ہیں، گویا منہجِ سلف کی ایک تصویر کھینچ دیتے ہیں:
اِصبِر نَفسَکَ عَلٰی السُّنَّۃِ، وَقِف حَیثُ وََقَفَ القَومُ، وَقُل بِمَا قَالُوا، وَکُفَّ عَمَّا کَفُّوا، وَاسلُک سَبِیلَ سَلَفِکَ الصَّالِحِ، فَإِنَّہ یَسَعُکَ مَا وَسِعُھم (شرح اصول اہل السنۃ والجماعۃ للالکائی ۱:۱۵۴)
’’جی مار کر اس (اہل) سنت(۶) راہ پر جمے رہو۔ ان پہلوں کے قدم جہاں رک گئے ہوں وہاں تم بھی ضرور رُک جاؤ۔ جس بات کے وہ قائل ہوئے ہوں تم بھی اسی کے قائل رہو۔ جس بات سے وہ خاموش اور دستکش رہے ہوں تم بھی اس سے دستکش ہی رہو۔ چلو تو اپنے ان سَلَفِ صالح کی راہ پر چلو۔ اس لئے کہ گنجائش کا جو دائرہ ان کیلئے رکھا گیا ہے وہی تمہارے لئے ہے‘‘۔
مجددِ عہدِ تابعین امیر المومنین عمر بن عبد العزیزؒ کے الفاظ، جوکہ امام مالکؒ کی زبان پر بھی اکثر سنے جاتے تھے:
سنَّ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وولاۃ الأمر بعدہ سننا، الأخذ بہا تصدیق لکتاب اللہ عز وجل، واستکمال لطاعتہ، وقوۃ فی دین اللہ، لیس لأحد تغییرہا ولا تبدیلہا ولا النظر فی رأی من خالفہا، فمن اقتدیٰ بما سنوا اہتدیٰ، ومن استبصر بہا بصر، ومن خالفہا واتبع غیر سبیل المؤمنین ولاہ اللہ عز وجل ما تولیٰ وأصلاہ جہنم، وسائت مصیراً (شرح اصول اھل السنۃ والجماعۃ للالکائی ج۱: ص ۹۴)
رسول اللہ ا نے اور پھر آپؐ کے بعد والیانِ کار نے کچھ سنتوں کا اجراء کیا ہے۔ ان کو اختیار کرنا اللہ کی کتاب کی تصدیق ہے۔ اُس کی فرماں برداری کی تکمیل ہے۔ دینِ خداوندی کے اندر قوت (پانے کا باعث) ہے۔ کسی کیلئے روا نہیں کہ وہ ان میں ترمیم کرے، یا ان کو تبدیل کرے، یا اُس شخص کی رائے میں نظر تک کرے جو ان کے خلاف چلے۔ پس جو شخص اقتدا کرے اُس چیز کی جسے اُنہوں نے دستور ٹھہرایا وہ ہدایت یافتہ ہوا۔ اور جس نے (اُن کے اِن دساتیر) کی مدد سے راستہ دیکھنے کی کوشش کی وہی ہے جو راستہ دیکھ پایا۔ اور جس نے ان (دساتیر) کے خلاف راستہ اختیار کیا اور پیروی کی اِن اہل ایمان کے راستے کے ماسوا کی تو اللہ اس کو اُسی طرف کو چلائے گا جدھر کو وہ پھر گیا ہے اور دوزخ میں ڈالے گا، اور برا ہے وہ ٹھکانہ۔
کیوں نہ ہو یہ وہ ہستیاں ہیں جن کے خصوصی تذکرے خدا کی تین برگزیدہ ترین کتابوں کے اندر ہوئے ہیں:
قال الشافعی: وقد أثنی اللہ تعالی علی أصحاب رسول اللہ ورضی عنہم فی القرآن والتوراۃ والإنجیل (المدخل إلی السنن للبیہقی. الجزء الأولٗ ص ۴۷، الأثر رقم: ۴۱)
وقال: وسبق لہم علیٰ لسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من الفضل ما لیس لأحد بعدہ (نفس المصدر، الأثر رقم: ۴۳)
امام شافعیؒ کہتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے اصحابِؓ رسول اللہ ا کی باقاعدہ ثنا کی ہے قرآن کے اندر، تورات کے اندر، اور انجیل کے اندر‘‘۔
نیز کہتے ہیں: ’’اور رسول اللہ ا کی زبان سے اُن کے لئے وہ فضل ذکر ہو چکا ہے جو ان کے بعد کسی کیلئے سزاوار ہی نہیں‘‘۔
ذرا تصور ہی تو کر لیجئے، آج کے لاہور یا گوجرانوالہ کے کسی ’دبستان‘ کا ذکر باقاعدہ نام لے کر تورات میں بھی ہوتا، انجیل میں بھی ہوتا اور قرآن میں بھی جگہ جگہ ہوتا۔۔۔!
ہاں، پر۔۔۔ ایں سعادت بزورِ بازو نیست! وہ ایک ہی دبستان ہے اور اس کی اتباع لازم۔
*****
’’فہم‘‘ کیلئے ’’سلف‘‘کا حوالہ حجت نہیں تو پھر حجت کیا ہے؟ |
پس آپ اہل ایمان و اتباع کے جملہ ذخیرے کھنگال جائیے، اصحابِؓ رسول اللہؐ کی یہی متبوع حیثیت آپ کو ہر کسی کے ہاں ملے گی۔ اہل ایمان کا یہی دستور ہے، جو عہد اول سے ہے اور قیامت تک رہے گا۔ کبھی کوئی ایک بھی تو عالم ہوا ہو کہ جس کو امت نے عالم مانا ہو، اور اس نے اصحابِؓ رسول اللہؐ کے فہمِ کتاب و سنت کو اپنے لئے حجت ماننے اور ان کے علمی وفقہی تسلسل کا حصہ بنے رہنے سے انکار کیا ہو!
امت میں باقاعدہ یہ ایک حجت مانی گئی ہے کہ ’’صحابہؓ و سلفؒ نے فلاں بات کو یوں نہیں یوں سمجھا ہے‘‘۔
آٹھویں صدی ہجری کے شافعی فقیہ خلیل کیکلدی العلائی (متوفیٰ ۷۶۱ ھ)، جو کہ ’’إجمال الإصابۃ فی أقوال الصحابۃ‘‘ کے مؤلف ہیں، اپنی مذکورہ تصنیف میں ایک نہایت طویل و عریض بیان اور استشہادات ذکر کرنے کے بعد، اِس پورے مبحث کی تلخیص کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ومن أمعن النظر فی کتب الآثار وجد التابعین لایختلفون فی الرجوع إلی أقوال الصحابی فیما لیس فیہ کتاب ولا سنۃ ولا إجماع. ثم ہذا مشہور أیضا فی کل عصر لا یخلو عنہ مستدل بہا أو ذاکر لأقوالہم فی کتبہ. (إجمال الإصابۃ: ص ۶۷)
جو شخص کتبِ آثار کے اندر غور سے نظر کرے، وہ یہی بات پائے گا کہ تابعینؒ اِس معاملہ میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں رکھتے کہ جس مسئلہ میں کتاب سے اور نہ سنت سے اور نہ اجماع سے کوئی دلیل پائی جاتی ہو وہاں صحابیؓ کے اقوال کی جانب رجوع کیا جائے گا۔ پھر یہی چیز مشہور رہی ہے ہر زمانے کے اندر ہی۔ کبھی کوئی زمانہ نہیں ملے گا جس میں فقہاء لوگ اس سے استدلال کرنے والے اور ان کے اقوال کو اپنی کتابوں کے اندر ذکر کرنے والے نہ پائے گئے ہوں۔
یہی لب لباب شاطبیؒ اپنی مایہ ناز کتاب ’’الموافقات‘‘ میں دیتے ہیں کہ تابعین کے زمانے سے لے کر آج تک علمائے اسلام اور فقہائے شریعت کا یہی دستور چلا آیا ہے کہ وہ اپنے سب علمی مواقف اور استدلالات کیلئے تائید اور سپورٹ صحابہؓ ہی کے ہاں دیکھتے ہیں اور انہی کو بنیاد بنا کر اپنے فہم و استدلال کو صحیح ثابت کرتے ہیں۔ صحابہؓ کی یہ حیثیت اور ہیبت آج تک مسلم چلی آئی ہے:
ان السلف والخلف من التابعین ومن بعدہم یہابون مخالفۃ الصحابۃ ویتکثرون بموافقتہم وأکثر ما تجد ہذا المعنیٰ فی علوم الخلاف الدائر بین الأئمۃ المعتبرین فتجدہم إذا عینوا مذاہبہم قووہا بذکر من ذہب إلیہا من الصحابۃ وما ذاک إلا لما اعتقدوا فی أنفسہم وفی مخالفیہم من تعظیمہم وقوۃ مآخذہم دون غیرہم وکبر شأنہم فی الشریعۃ وأنہم مما یجب متابعتہم وتقلیدہم۔ (الموافقات: ۴: ۷۷)
تابعین سے لے کر بعد کے لوگوں تک، سلف تا خلف، علماء اس بات کی ہیبت محسوس کرتے آئے ہیں کہ آدمی کہیں پر صحابہؓ کے مذہب کا خلاف کر بیٹھے۔ اور اس بات کو اپنے حق میں بڑی بات جانتے آئے ہیں کہ ان کی بات صحابہؓ کی بات کے موافق ہو۔ اس بات کے مظاہر سب سے زیادہ آپ کو علوم کے اُن فروع میں نظر آئیں گے جن کے اندر امت کے معتبر علماء کے آپس میں اختلاف ہوا ہے۔ چنانچہ یہاں آپ دیکھیں گے کہ علماء کا ہر فریق اپنے اپنے موقف کا تعین کر لیتا ہے تو اپنے اُس موقف کو اُن صحابہؓ سے تقویت دیتا ہے جو اُس موقف کے حق میں گئے ہوں۔ اس کی کوئی اور وجہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ اِن علماء کا خود اپنی بابت ہی نہیں اپنے مخالف فریق کی بابت بھی یہی اعتقاد ہوتا ہے کہ یہاں صحابہؓ کی تعظیم پائی جاتی ہے اور یہ کہ ہردو اس بات کے معتقد ہیں کہ صحابہؓ کے علمی مآخذ میں وہ جان ہے جو کسی دوسرے میں نہیں اور یہ کہ شریعت میں صحابہؓ کو خصوصی شان حاصل ہے اور یہ کہ صحابہؓ وہ ہستیاں ہیں جن کی متابعت اور تقلید کرنا واجب ہے۔
علائی اور شاطبی کی ذکر کردہ یہ حقیقت واقعتا ہر دل پر نقش ہے اور اس کا انکار نرامکابرہ۔ مقرراتِ صحابہؓ کی ایک ہیبت دلوں پر پائی جانا سلف تا خلف ایک نہایت معلوم امر ہے۔ کوئی شخص دین کی کوئی ایسی تفسیر لے کر آتا ہے جو صحابہؓ کی تفسیر سے ہٹ کر ہو، ہر دور کا عالم کیا عامی اس کو شدید حد تک خطرناک چیز ہی جانے گا۔ یہ تو استشراق کی دو سو سال کی شبانہ روز محنت ہے (دو سو سال سے ہزارہا یونیورسٹیوں اور کالجوں اور ’ریسرچ انسٹی ٹیوٹوں‘ کے ’ورکنگ آورز‘ کا ذرا اندازہ کرلیں جو عالم اسلام کے اعلیٰ ترین دماغوں پر محنت کے عمل میں صرف ہوئے ہیں) کہ اب جا کر ایسی بات مسلم معاشرے میں کرنا اور سننا آسان ہو گئی۔ ورنہ اس سے پہلے یہ کب ممکن تھا۔ استشراق نے بڑی کامیابی کے ساتھ معاملہ جہاں پہنچا دیا ہے، حالیہ دجالی گلوبلائزیشن کی تحریک ایسے ’سنہری‘ موقعہ کو عالم اسلام میں کیونکر ضائع جانے دے گی؟
*****
کتاب وسنت کے بعد ابو بکر وعمر |
إجمال الإصابۃ فی أقوال الصحابۃ ہی کے مصنف (خلیل العلائی) اپنی کتاب میں امام شافعیؒ کا ایک مشہور ومعروف واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قول إمامنا الشافعی فیما روینا عنہ من طریق عبد اللہ بن محمد الفریابی قال: سمعت محمد بن إدریس الشافعی رحمہ اللہ ببیت المقدس یقول: سلونی عم شئتم أخبرکم بہ عن کتاب اللہ وسنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم. قال: فقلت إن ہذا لجریء. ما تقول أصلحک اللہ فی المحرم یقتل الزنبور. فقال: نعم بسم اللہ الرحمن الرحیم قال اللہ تعالی وما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتہوا وحدثنا سفیان بن عیینۃ عن عبد الملک بن عمیر عن ربعی عن حذیفۃ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: اقتدوا بالذین من بعدی أبی بکر وعمر رضی اللہ عنہما. وحدثنا سفیان عن مسعر عن قیس بن مسلم عن طارق بن شہاب أن عمر رضی اللہ عنہ أمر المحرم بقتل الزنبور. (إجمال الإصابۃ: ص ۶۸)
ہمارے امام، شافعیؒ ، جس کو ہم نے عبد اللہ بن محمد فاریابی کے طریق سے روایت کیا ہے، کہا:
میں نے محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ کو بیت المقدس میں سنا، کہہ رہے تھے، مجھ سے جو چاہو پوچھ لو، میں تمہیں اُس کا جواب کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ا سے دے سکتا ہوں۔ فاریابی کہتے ہیں، میں نے (دل میں) کہا، اس شخص میں بڑی جرأت ہے۔ میں نے پوچھا: اللہ تمہیں صالح کرے، اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو جو حالت احرام میں زنبور (ڈیمو) کو قتل کر بیٹھا۔ شافعی جواب دینے لگے: جی ہاں، بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے: وما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتہوا ’’اور رسول تم کو جو دے اُس کو اختیار کرو، اور جس چیز سے روکے اُس سے رک جاؤ‘‘۔ اور جبکہ بیان کیا ہم سے سفیان بن عیینہ نے عبد الملک بن عمیر سے، اُس نے ربعی سے، اُس نے حذیفہؓ سے، اُنہوں نے نبی ا سے، کہ آپؐ نے فرمایا: اقتدوا بالذین من بعدی أبی بکر وعمر رضی اللہ عنہما ’’پیروی کرو اِن دو میرے بعد والوں کی، ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما‘‘۔ اور جبکہ بیان کیا ہم سے سفیان نے مسعر سے، اُس نے قیس بن مسلم سے، اُس نے طارق بن شہاب سے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے حالت احرام والے شخص کو اجازت دی کہ وہ زنبور (ڈیمو) کو مار لے‘‘۔
*****
یہاں واضح رہے، یہ مبحث جو ابھی گزرا ہے، اور جوکہ ائمۂ علم کے اقوال واقتباسات سے نقل ہوا ہے، اِس میں کچھ ٹیکنیکل بحثیں مسئلۂ ’’قولِ صحابیؓ‘‘ کے گرد بھی پائی جاتی ہیں جس کی اپنی ایک تفصیل(۱) ہے اور جوکہ ہمارے اِس موضوع سے متعلق نہیں۔