دین کے فہم و تفسیر کے معاملہ میں اہل سنت کی پوری عمارت مدرسۂ صحابہؓ کو بنیاد مان کر آگے چلتی ہے۔ اِس مدرسہ کا فہم، اِس کے معیارات، اِس کے ہاں پائے جانے والے قاعدے اور دستور، اِس کے پریکٹس، اِس کے اتفاقات، یہاں تک کہ اِس کے اختلافات، یہاں تک کہ اِس کا بعض اشیاء کی ٹوہ میں جانے سے دستکش رہنا۔۔۔ سب ہمارے فہم کیلئے ایک فریم ورک کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اہل سنت کا اعتقاد ہے کہ جو ضروری بنیادیں تھیں وہ سب کی سب ’’فہم صحابہؓ‘‘ کی صورت میں ہمارے لئے باقاعدہ طور پر ڈال دی گئی ہیں؛ اور یہ کہ تیئیس سال کی محنت سے مبعوثِؐ خداوندی نے قیامت تک کی انسانی ضرورت کے جو بنیادی ترین کام سر انجام دیے اُن میں سے ایک یہی تھا کہ: عظیم نفوسؓ کی ایک عظیم تعداد کو ربع صدی تک رات دن کی ٹریننگ دے کر اور اپنی نگرانی میں (اور درحقیقت خدائی نگرانی میں) کچھ نہایت خاص مراحل سے گزار کر ان کو وحی کے فہم اور استیعاب کے قابل بنایا اور اپنی تیار کردہ اِس خصوصی جمعیت کو بعد کی نسلوں کیلئے ایک ’’فاؤنڈیشن‘‘ کی صورت دے گئے۔ وحی کے ساتھ تعامل کے معاملہ میں اب جو پیمانے آگے چلیں گے اِس کو بنیاد مان کر چلیں گے۔
’ہم کیا صحابہؓ سے کم ہیں‘؟! |
یہاں اب کچھ ایسی بولیاں بھی بولی جانے لگی ہیں کہ صحابہؓ کی اتباع کا مطلب ہے کہ جس طرح وہ ہر مسئلہ دلیل سے لیتے تھے ویسے ہی ہم بھی دلیل سے لیں، اور بس۔ اِس معنیٰ میں کہ خود صحابہؓ کے اپنے فہم کی کوئی بائنڈنگ حیثیت نہیں! اور یہ کہ دین کی تفسیر وتاویل کے معاملہ میں صحابہؓ کے یہاں جو قاعدے اور دستور اور جو پریکٹس پائے جاتے تھے ان کی اپنی کوئی الزامی خصوصیت نہیں! دین کے معانی اور مفاہیم بنیاد سے اخذ کر کے امت کو دینے کے معاملے میں جو شہسوار حیثیت صحابہؓ کو حاصل تھی، ہم کچھ محنت اور مالش کر لیں تو وہی حق ہمارا بھی ہے؛ ہم رجالٌ ونحن رجال! خاصی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ صحابہؓ کے نقش قدم پر تو ہم چلتے ہیں کہ جس طرح اُنہوں نے رجال کو کوئی حیثیت نہیں دی (گویا اُن کے سوا دنیا میں کوئی رجال بھی پائے جاتے تھے!) اور ہر چیز ابتدا سے خود کتاب و سنت سے نکال کر دکھائی وہی کام تم لوگوں کے سامنے ہم بھی کر کے دکھاتے ہیں؛ لہٰذا صحابہؓ کے نقش قدم پر چلنے والے تم ہوئے یا ہم؟ تم تو ہر چیز صحابہؓ سے جا کر لیتے ہو، حالانکہ صحابہؓ ہر چیز کتاب و سنت سے لیتے تھے، لہٰذا تم صحابہؓ کے نقش قدم پر چلنے والے کیسے ہوئے؟! صحابہؓ کے نقش قدم پر چلنا ہے تو وہی کام کرو جو صحابہؓ نے کیا، یعنی ہر چیز ابتداء سے اور براہِ راست کتاب و سنت سے لینا، یہاں تک کہ ’کتاب‘ اور ’سنت‘ ایسے مصادر کی تعریف definition اور تعین specification بھی ابتداء سے کرنے کو جی چاہے تو کر لینا، اور جوکہ ہم آئے روز کرتے ہیں!
یعنی شریعت کے ساتھ ایک کھلواڑ۔ جس کی کچھ وضاحت آگے آ رہی ہے۔
مختصر یہ کہ صحابہؓ نے فہمِ دین کی ابتداء کی تھی اور تفسیرِ شریعت کی اساس رکھی تھی؛ یہی کام جب تک ہم نہ کر لیں چین نہ لیں گے۔۔۔؛ اور ’’صحابہؓ کے نقش قدم پر چلنا‘‘ تمہارے تئیں اگر کوئی دین کا مسئلہ ہے تو اس کی بھی درحقیقت یہی تفسیر ہے!
*****
’’صحابہؓ‘‘ اسلام کی محض ایک نسل کا نام نہیں، ’’صحابہؓ‘‘ دین کا بنیادی مدرسہ ہے۔ ’’صحابہؓ‘‘ تاریخ کے اُس خوبصورت ترین علمی واقعہ کا نام ہے جومعلم اعظمؐ و مربیِ اعظمؐ __ کے اپنے زیر نگاہ بلکہ اپنے ہاتھوں پروان چڑھا، اور جس کی ایک ایک اینٹ آپؐ کے اپنے دست مبارک سے لگی۔
نہ اِس مدرسہ کے استاد جیسا کوئی استاد اور نہ اِس میں پڑھنے والوں جیسا کوئی پڑھنے والا۔ ہو بھی کس طرح، اسلام کی اگر کوئی ایک نسل ایسی ہے کہ جس کے بارے میں کہا جا سکے کہ اُس کے فہمِ دین کو نبی ا نے اپنے ہاتھوں بنایا اور خود تراشا اور جیسی چاہی اُس کو صورت دی اور اپنے جیتے جی یہ تسلی کی کہ اللہ کے دین کو زمین پر جس طرح سمجھا جا رہا ہے وہ بالکل صحیح سمجھا جا رہا ہے، تو صرف اور صرف وہ صحابہؓ کی نسل ہے۔
اسلام کی کوئی ایک نسل جس کی بابت بالیقین کہا جا سکے کہ دین اتارنے والے نے صرف یہی تسلی نہیں کی کہ اُس نسل کو جو دین پہنچا وہ بالکل صحیح پہنچا بلکہ __ اپنے رسولؐ کے ان کے مابین ہونے کے ناطے __ اِس بات کو بھی یقینی بنایا کہ وہ جو کچھ اتار رہا ہے وہ زمین پر صحیح طرح سمجھا بھی جا رہا ہے، تو وہ صحابہؓ کی نسل ہے۔
ایک ایسا دور جب زمین پر ہونے والے واقعات کی تصحیح اور تصویب آسمان خود کرتا رہا تھا۔۔۔!
’’آسمانی تصحیح اور تصویب‘‘ کی یہ ضمانت اصحابِ رسول اللہؐ کے سوا اِس امت کی کس نسل کو حاصل ہے؟ اُن کو ٹوکنے کو اور اُن کی تصحیح کرنے کو تو آسمان سے آیات اتر آیا کرتی تھیں!
تو پھر اہل سنت یہ اعتقاد کیوں نہ رکھیں کہ فہم و تفسیرِ دین کے معاملہ میں صحابہؓ معیارِ حق ہیں؟
صحابہؓ کے فہم دین کو اور آج کے کچھ محققین کے فہم دین کو ایک ہی سطح پر رکھنا آخر کیونکر روا ہونے لگا؟ ما لکم کیف تحکمون؟
تورات کے برعکس، قرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کے تیئیس برس کے عرصے میں اتارا گیا۔۔۔تو اِس امتِ بیضاء کو اس سے جو فائدہ ہوا وہ یہ کہ: وہ باہمت نفوس جن کو اصحابِ رسول اللہؐ کہا جاتا ہے، اِس وحی کا ایک ایک سبق ساتھ ہی ساتھ اُس معلم اعظمؐ سے پڑھتے اور سمجھتے جائیں اور اِس کے ایک ایک اشارہ کو پا لینے میں وقت اور مواقع کے حساب سے بھی کوئی دِقت نہ پائیں؟ اندازہ کیجئے تیئیس سال کا کورس اور صبح تا شام کلاسیں! جبکہ وہ معلم اعظم ا ان کے مابین ہو ہی اِس لئے کہ وہ انہیں قرآن کے معانی اور مفاہیم پڑھا کر جائے اور اپنے اوپر اترنے والی حکمت کو ان کی گھٹی میں اتارے؟!جس کا منصب ہی یوں بیان کیا گیا ہوکہ: یعلمہم الکتاب والحکمۃ۔ جبکہ اُن برگزیدہ نفوس کی سب سے بڑی ترجیح ہو ہی یہ کہ وہ علم کے اِس پاکیزہ ترین اور خالص ترین سرچشمہ ا سے اُس کے جیتے جی خدا کا دین سمجھ لیں؟!
ایک ایسے مدرسہ کے نامور ائمہ و اساتذہ کو فہمِ دین کا ’’معیار‘‘ نہ مانا جائے.. اور ہر شخص ہی کو، جو اپنے تئیں ’دلیل‘ دے لے، اُن کے برابر منصب پر لا بٹھایا جائے! ؟
وہ مدرسہ جس میں صحابہؓ نے دین خداوندی پڑھا اور پھر پڑھایا، فہم دین کی وہ عین صحیح سمت ہے جو اِس امت کی بالکل ابتدا میں رکھ دی گئی (اور آپ تسلیم کریں گے کہ وہ ابتدا میں ہی رکھی جانی چاہیے تھی)۔ فہم دین کی یہ سمت جس کا نام ’’مدرسۂ صحابہؓ‘‘ ہے، اور جس کی اساس دورِ تنزیل میں رکھی گئی؛ اِس میں کوئی غلطی اور کجی ہوتی تو وحی اِس کو خود ہی سیدھا کر دیتی۔ آخر کتنے ہی مواقع ایسے ہوئے جہاں صحابہؓ کی تصحیح کرنے کو قرآن کی آیت اترتی یا پھر رسول اللہ ا بنفس نفیس وضاحت فرماتے۔ غرض وحی کے دونوں مصدر صحابہؓ کو صرف دین پہنچاتے نہیں رہے، بلکہ جہاں ضرورت ہوئی ان کے فہم و عمل کو درست بھی کرتے رہے۔
چنانچہ ایک طرف صحابہؓ کی حرص کہ وہ دین خداوندی کو اُس کی صحیح ترین روح کے ساتھ اس کے مصدر __ رسالت مآب ا __ سے سمجھ لیں اور دوسری طرف رسالت مآب ا کی حرص کہ وہ ان کو دین کی ایک ایک بات صحیح طرح سمجھا دیں اور ان کی ایک ایک غلطی درست کر دیں.. کیا اِن ہردو پہلو سے ’’مدرسۂ صحابہؓ‘‘ تاریخ کے ہر ’دبستان‘ سے منفرد نہیں ہو جاتا؟
صحابہؓ کے ایمان اور صحابہؓ کی اتباع کو بعد والوں کیلئے ایک معیار بنا دیا جانا اللہ کے فضل سے دین کے اندر اظہر من الشمس ہے اور اِس بات کو وہی شخص ’متنازعہ‘ جانے گا جس کو اللہ نے بصیرت سے آخری حد تک محروم کر رکھا ہو۔
وہ شخص جو رسول اللہ ا کے پیچھے سالہا سال صف بنا کر کھڑا ہوتا اور نماز پڑھتا رہا ہو.. جو برس ہا برس رسول اللہ ا کی نگاہوں کے سامنے نمازیں پڑھ چکا ہو، جبکہ رسول اللہ ا اپنے زیر تربیت اصحابؓ کی تصحیح اور تصویب کے معاملہ میں آخری درجہ کے حریص ہوں، وہ خوش نصیب اُس شخص کی طرح کیونکر ہو سکتا ہے جو نماز کو کچھ نصوصِ شریعت سے از راہِ استدلال و استنباط سمجھ رہا ہو؟! یہی مثال درحقیقت دین کے دیگر امہات المسائل کی ہے۔ مثلاً رسول اللہ ا کے زیر تعلیم وزیر تربیت پروان چڑھنے والے مبارک نفوس، جوکہ لسانِ عرب کے ماہر، ذہانت وفطانت میں یکتا، تقویٰ میں بے مثال اور علم کے پہاڑ ہیں، ’’سنت‘‘ کا ایک مفہوم رکھتے ہوں اور آج کا کوئی شخص اپنی ’تحقیق‘ کی بنیاد پر ہمیں ’سنت‘ کا ایک مفہوم تجویز کر کے دے؟! ’’ایمان‘‘ کی تعریف ایک وہ ہو جو ہمیں اُس مدرسہ سے ملے جس نے ’’ایمان‘‘ کو براہِ راست نبی ا سے لیا، جبکہ ’ایمان‘ کی ایک تعریف وہ ہو جو کوئی صاحب ہمیں آج کر کے دیں؟! مسئلۂ ’’تقدیر‘‘ پر نصوص کا اقتضاء اور نصوص کے مابین توفیق اور تطبیق ایک وہ ہو جو ہمیں مدرسۂ اصحابِ رسول اللہؐ سے ملے اور مسئلۂ تقدیر کی ایک وضاحت وہ ہو جو ہمیں آج لاہور یا کراچی کا کوئی شخص کر کے دے! ’’اللہ کی صفات‘‘ ایسے نازک ترین مسئلہ پر ایک وضاحت اور تفہیم ہمیں مدرسۂ اصحابِ رسول اللہؐ سے میسر ہو اور ایک تفہیم ہمیں آج کا کوئی ’genius‘ کر کے دے اگرچہ وہ اپنے فہم پر اپنے تئیں ’شرعی دلائل‘ کا انبار کیوں نہ رکھتا ہو (قدریہ، جہمیہ اور معتزلہ بھی اپنے تئیں ’دلائلِ شریعت‘ کا ایسا ہی ایک انبار رکھتے تھے جن کو کہ صحابہ و سلف کے مدرسہ سے بربادی کی وعیدیں سنائی گئیں۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ صحابہ کی راہ سے ہٹے ہوئے ہر شخص ہی کو اپنی بات شریعت سے ’نہایت واضح انداز‘ میں ثابت ہوتی نظر آتی ہے)۔
اصحابِ رسول اللہؐ کے تلامذہ کا یہ مدرسہ تاریخ میں ’’سلف‘‘ کے نام سے منسوب ہے۔ اِس کے ہاں چلنے والے علمی معیارات اور فہم قرآن وسنت کے نظائر precedents بعد والوں کیلئے حجر اساس کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کا التزام امت کی آئندہ نسلوں کیلئے ایک لازمی مضمون کی حیثیت رکھتا ہے۔
اِس مدرسہ کی فکری اساس ہے: صحابہؓ کی امامت اور ان کے فہم کی حجیت۔ جہاں متبوع کے طور پر معیار رسول اللہ ا ہوئے وہاں تابع کے طور پر معیار اصحابِ رسول اللہؐ ہیں۔ مقتدیٰ کے طور پر معیار رسول اللہؐ اور مقتدِی کے طور پر معیار صحابہؓ۔
فَإِنْ آمَنُواْ بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَواْ (البقرۃ: ۱۳۷)
’’اب اگر یہ بھی ویسا ہی ایمان لے آئیں جیسا ایمان تم (صحابہ) لے کر آئے ہو، تو یہ بھی ہدایت پا گئے‘‘
*****
کسی مبحث کو جاننے اور پڑھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ایک باقاعدہ انداز میں یہ دیکھ اور سمجھ لیا جائے کہ اُس مسئلہ پر علم کے پہاڑ ائمہ کیا کہتے گئے ہیں۔ اُسی مبحث کو جاننے اور پڑھنے کا ایک دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ دیکھیں اُس موضوع پر جہلاء کیا کہتے ہیں۔ فتنوں سے بھرے ہوئے اِس دور میں آپ اپنے لئے کیا اختیار کرتے ہیں، یہ آپ پر ہے، مگر ہم یہ واضح کر دینا چاہیں گے کہ صحابہؓ کے منہج اور صحابہؓ کے فہم کی اتباع کے وجوب پر ہم یہاں ائمۂ علم کے جو اقوال اور تقریرات دیں گے وہ کوئی ’شاذ‘ کی قبیل سے نہیں جو کسی سے زبان یا قلم کی ’لغزش‘ کے طور پر صادر ہو گیا ہو! یہ سب اقول اور نقولات جو آپ یہاں دیکھیں گے، اہل سنت کا ایک نہایت معروف مبحث ہے، اور یہ بات آپ اہل علم کے ہاں یقیناًچیک کر سکتے ہیں:
*****