منہجِ سَلَف کو لازم پکڑنا |
| | |
’دِین‘ کی تحقیق یا ’دِین‘ کی بابت بحث یا تبادلۂ آراء کا سَلَفِی منہج کیا ہے؟
جہاں تک دِین کی بنیادوں کا تعلق ہے: }جیسے دِین کے عقائد، دِین کے بنیادی فرائض، دین کے وہ حلال وحرام، اور وہ اوامر ونواہی، جو روزِ اول سے امت میں معروف چلے آتے ہیں اور قرونِ ثلاثہ میں اُن پر کوئی نزاع نہیں ہوا __اور ظاہر ہے کہ دِین کے ایسے معلوم مسائل ایک بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں (دِین کے اِس حصہ کو ’’اُصول دِین‘‘‘ بھی کہا جاتا ہے)۔۔۔ { تو دِین کے اِن معلوم اُمور کی بابت:
۔ نہ تو بحث جائز ہے،
۔ نہ اختلاف،
۔ اور نہ ’ازسرنو تحقیق‘۔
’’اصول دِین‘‘ کے معاملہ میں نصوصِ شریعت کے ’فہم‘ کی بابت جو کچھ سلف سے منقول ہے وہی حق ہے اور اسی کو ماننا واجب۔ اس کے ماسوا باطل ہے اور بدعت وضلالت۔ ان معاملات میں ’بعد والوں‘ پر کچھ فرض ہے تو وہ یہ کہ ’پہلے والوں‘ کی راہ پر چلیں۔ بقول عبداللہ بن مسعودؓ: علیکم بالأمر العتیق(۱)۔
بہت سے بکھیڑے تو اپنے یہیں سمٹ جاتے ہیں۔
رہ گئے وہ اُمور جو بنیادی عقائد اور بنیادی فرائض میں نہیں آتے نیز حلال وحرام اور جائز وناجائز کے وہ اُمور جو بہت معروف نہیں رہے یا جن میں صحابہ و تابعین وائمۂ اتباع تابعین کے ہاں تعدد آراء پایا گیا، اور جوکہ ’’فروعِ دین‘‘ شمار ہوتے ہیں، تو اختلاف کی جتنی گنجائش ان (سلف) کے ہاں پائی گئی گنجائش کا وہی دائرہ ہمارے اختلاف اور ہماری تحقیق اور تنقیح کیلئے بھی باقی رہے گا۔ اِس دائرہ میں:
۔ تحقیق اور بحث کی گنجائش ہے،
۔ راجح ومرجوح اور صحیح و غیر صحیح کا تعین بھی دلیل کی قوت کی بنیاد پرکیا جاسکتا ہے، اور
۔ کسی قابلِ اعتماد شخص (امام، عالم) کی تحقیق پر بھی اعتماد کیا جاسکتا ہے، خواہ اس ’’اعتماد کرنے‘‘ کو آپ تقلید کہیں یا کسی اور نام سے پکاریں۔
ہاں یہ بات واضح رہے کہ اس ’’فروع دِین‘‘ والے دائرہ میں بھی جو ’’تحقیق‘‘ جائز ہے، اُس کیلئے یہ دو باتیں مطلوب ہیں:
۱) ایک خاص درجہ کی فقہی اہلیت۔
۲) ائمۂ صحابہؓ وتابعینؒ و تبع تابعینؒ کے علمی و فقہی منہج کا عمومی التزام۔
لہٰذا ایک عام آدمی تو __ جو اِس مطلوبہ اہلیت اور منہج کا حامل نہیں __ بہرحال یہ تکلیف نہ کرے کہ وہ اپنی ’تحقیق‘ کے نتائج اُمت کے سامنے لائے اور اپنی اِس ’محنت‘ سے اُمت کو پریشان اور خراب کرے، خواہ مسئلہ ’فروع‘ سے متعلق کیوں نہ ہو۔ اس کو چاہیے کہ اِفتاء یا اِظہارِ آراء کا یہ کام ان لوگوں پر چھوڑ دے جو اس کے اہل ہوں۔ علاوہ ازیں، جب وہ کسی اہل علم سے رجوع کرے تو بھی یہ دیکھے کہ اُس کی وہ معتمدہ علمی شخصیت، اصول اور فروع کے معاملہ میں، قرونِ ثلاثہ کے اُس علمی دائرہ کی پابند ہے یا نہیں۔ جو نام نہاد مجتہد یہ کہے کہ وہ صحابہؓ و تابعینؒ و تبع تابعینؒ کے فہم کا پابند نہیں، اُس کے تو سائے سے بھی آدمی دور رہے۔
خلاصہ یہ کہ ’’اصول دِین‘‘ میں تو کسی کے کلام کرنے کی گنجائش ہی کیا ۔۔۔ فروع تک میں، وہ شخص جو ایک خاص درجہ کی فقہی اہلیت نہیں رکھتا، دِین خداوندی میں کلام کرنے کا مجاز نہیں۔ ایک عام آدمی کو تو بس یہ کرنا ہے کہ:
۱) جہاں تک ’’اصولِ دین‘‘ کامعاملہ ہے تو وہاں صرف اور صرف سلف سے ماثور ایک ثابت و معلوم فہم ہی کو اختیار کرے۔ اُسی کو ڈھونڈے اور اُسی سے تمسک کرے۔
۲) اور جہاں تک ’’فروع‘‘ کا معاملہ ہے تو اس میں کسی صاحبِ علم پر اعتماد کرے اور اگر ہو سکے تو اس صاحبِ علم کی دلیل اور حجت کا بھی علم لے، نہ ہوسکے تو اللہ کسی کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر مکلف نہیں ٹھہراتا۔ البتہ سب لوگوں پر ’اپنے‘ اُسی صاحبِ علم سے رجوع کرنے کو ضروری نہ ٹھہرائے بلکہ دوسرے اگر کچھ دیگر ائمۂ علم پر سہارا کرتے ہیں (بات فروعِ دین کی ہورہی ہے) تو اُنہیں اُن دیگر ائمۂ علم پر اعتماد کرنے دے۔
اوپر جو ایک منہج بیان ہوا، اُس پر استشہاد کیلئے ائمۂ سنت سے چند اقتباسات نقل کئے جاتے ہیں:
ترجمانِ مذہبِ سلف حافظ ابن عبدالبرؒ (۳۶۸ھ ۔۔۔ ۴۶۳ھ) کی مشہور تصنیف ’’جامع بیان العلم وفضلہ‘‘(۸) سے چند اقتباسات:
’’سلف نے اس بات سے ممانعت فرمائی ہے کہ خدا تعالیٰ کے بارے یا اس کے اسماء وصفات کے بارہ میں بحث اور اختلاف ہو۔ البتہ جہاں تک فقہی مسائل کی بات ہے تو سلف کا اتفاق ہے کہ ان امور میں بحث اور لے دے ہو سکتی ہے۔ کیونکہ یہ (فقہ) ایک ایسا علم ہے جس میں اس بات کی احتیاج ہے کہ بوقت ضرورت فروع کو اصول کی جانب لوٹایا (قیاس کیا) جائے۔ جبکہ اعتقادات کا معاملہ ایسا نہیں کیونکہ اہلسنت وا لجماعت کے نزدیک اللہ عزوجل کی بابت کوئی بات کی ہی نہیں جا سکتی سوائے اس بات کے جو وہ خود ہی اپنی ذات کے بارے میں بیان کردے، یا جو رسولؐ اس کی بابت بیان کردے، یا جس پر اُمت نے اجماع کرلیا ہو۔ خدا کی مثل کوئی چیز ہے ہی نہیں جس کا کہ، قیاس کے ذریعے یا گہرے غور وخوض کے نتیجے میں، ادراک ہو جایا کرے ۔۔۔
’’دِین اس معنی میں کہ وہ اللہ پر ایمان ہے، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور بعث بعد الموت اور یوم آخرت پر ایمان ہے تو اس تک رسائی تو خدا کے فضل سے اس کنواری دوشیزہ کو بھی حاصل ہے جس کو کبھی گھر سے باہر کی ہوا تک نہ لگی ہو۔
(دِین کے اسی پہلو، یعنی ’’اصولِ دین‘‘ کی بابت) عمر بن عبدالعزیزؒ کا قول ہے: جو شخص اپنے دین کو بحثوں کا موضوع بناتاہے پھر وہ اکثر نقل مکانی کرتا ہے‘‘
(صحیح جامع بیان العلم وفضلہ ص ۳۸۳)
کچھ آگے چل کر ابن عبدالبر صحابیِؓ رسولؐ حذیفہ بن الیمانؓ کا قول نقل کرتے ہیں:
’’تمہارا بھٹک جانا اور صحیح معنوں میں بھٹک جانا یہ ہے کہ پہلے جس بات کو تم منکر جانتے تھے اب اس کو معروف جاننے لگو اور پہلے جس بات کو معروف جانتے تھے اس کو اب منکر جاننے لگو۔(۲) خبردار خدا کے دین میں نئے نئے رخ اختیار نہ کرو۔ کیونکہ خدا کا دِین ایک متعین چیز ہے۔ (صحیح جامع بیان العلم وفضلہ ص ۳۸۴)
یہ ہوا اصول دِین کا معاملہ۔ رہ گئے فروع دِین تو یہاں استدلال اور استخراجِ مسائل ہو سکتا ہے تاہم کچھ خاص اصول اور قواعد کے بغیر نہیں۔ ایک خاص درجے کی فقہی اہلیت بھی یہاں درکار ہے اور صحابہؓ سے چلے آنے والے ایک خاص علمی تسلسل کی ایک باقاعدہ پابندی بھی:
امام محمد بن الحسنؒ فرماتے ہیں:
’’جو شخص کتاب اور سنت کا علم رکھتا ہے، اصحاب رسولؐ کے اقوال سے آشنا ہے، اور اُن ترجیحات سے آشنا ہے جنہیں فقہائے مسلمین نے مستحسن مانا ہے، وہی اس بات کا مجاز ہے کہ کوئی مسئلہ اس کے سامنے پیش آئے تو وہ اجتہاد کرکے کوئی رائے اختیار کرے اور اپنی اس رائے کو اپنی نماز یا اپنے روزے یا اپنے حج یا شرعی اوامر و نواہی کے کسی معاملہ میں قابل عمل جانے‘‘ (جامع بیان العلم وفضلہ ج ۲، ص ۸۵۷)
رہ گیا وہ شخص جو علم کے اس درجے پر نہیں، وہ یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ قرآن یا حدیث کی کتب کھول کر __ خواہ معاملہ فروع دِین ہی کا کیوں نہ ہو __ خاص اپنے فہم اور اندازے سے لوگوں کو دِین کے مسئلے بتائے۔ ہاں وہ اہل علم کا فہم نقل کر سکتا ہے۔
عن ابن بریدۃ عن أبیہ، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: القضاۃ ثلاثۃ: قاض فی الجنۃ واثنان فی النار۔ قاض عرف الحق فقضی بہ فذلک فی الجنۃ۔ وقاض قضی بالجہل فذلک فی النار، وقاض عرف الحق وجار فی الحکم فھو فی النار(ابن ماجۃ ۲۳۸۱، ومثلہ فی ابی داؤد ۳۵۷۴، وفی الترمذی ۱۳۲۰)
ابن بریدہؒ سے روایت ہے، وہ اپنے والد (بریدہؓ)سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قاضی تین طرح کے ہیں۔ ایک جنتی اور دو دوزخی۔ ایک قاضی وہ ہے جو حق کا علم رکھتا ہے اور پھر اسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔ یہ جنتی ہے۔ ایک قاضی وہ ہے جو جہالت کی بنا پر فیصلہ دیتا ہے۔ یہ دوزخ میں جائے گا۔ ایک قاضی وہ ہے جو حق کا علم تو رکھتا ہے مگر فیصلہ (پھر بھی) ظلم پہ کرتا ہے۔ یہ بھی دوزخی ہے‘‘۔
مذکورہ حدیث کے حوالہ سے قتادہؒ کہتے ہیں:
میں نے ابوالعالیہؒ سے دریافت کیا: آخر اس شخص کا کیا قصور جس نے اجتہاد کیا اور اجتہاد میں غلطی کرلی؟ ابوالعالیہؒ نے جواب دیا: اس کا قصور یہ ہے کہ جب اس کو علم نہیں تو وہ فیصلہ دینے ہی کیوں بیٹھا‘‘۔ (السنن الکبری للبیھقی ج ۱۵ ص ۹۸)
امام ابن تیمیہؒ مجموع فتاوی میں کہتے ہیں:
’’فرمان الٰہی ہے:
وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (التوبۃ: ۱۰۰)
’’مہاجرین وانصار کے سابقین اولین اور وہ لوگ جو راستبازی سے انکے پیچھے چلے اللہ ان سب سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ہیں، اللہ نے ان کیلئے باغات تیار کئے ہیں، جن کے نیچے نہریں چلتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی عظیم کامرانی ہے‘‘۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے پیچھے چلنے والوں کو بھی اپنی خوشنودی اور جنت کی نعمتوں میں شریک کردیا ۔۔۔ پس جو لوگ سابقینِ اولین کی اتباع کریں گے وہ انہی میں شمار ہوں گے جبکہ یہ لوگ انبیاء کرام کے بعد افضل ترین لوگ ہیں، کیونکہ اُمت محمد ا افضل ترین اُمت ہے جولوگوں کیلئے نکالی گئی ہے اور یہ لوگ اُمت محمد امیں افضل ترین ہیں۔
اس لئے علم اور دین میں ا ن کے اقوال واعمال کی معرفت رکھنا، دین کے جملہ علوم اوراعمال میں متاخرین کے اقوال واعمال کی معرفت سے صد مرتبہ افضل اور مفید تر ہے۔ کہ یہ لوگ اپنے بعد والوں سے افضل ہیں جیسا کہ کتاب اور سنت سے ثابت ہے، پھر جب ایسا ہے تو ان لوگوں کی اقتدا بعد والوں کی اقتدا سے بہتر ہے۔ علم ودین کے سلسلے میں دوسروں کے اجماع ونزاع کی نسبت صحابہ کے اجماع و اتفاق اور انہی میں ہونے والے اختلاف کی معرفت و دریافت بہتر اور افضل ہے ۔۔۔
اسکی وجہ یہ ہے کہ انکا اجماع بہرحال معصوم ہوتا ہے، صحابہ نے اگر اختلاف کیا ہو تو بھی حق انکے اقوال ہی میں سے کسی ایک میں ہوتا ہے۔ بنا بریں انکے اقوال ہی میں حق کی تلاش کی جا سکتی ہے، (جہاں انکا اختلاف ہوا ہو وہاں بھی) انکے اقوال میں سے کسی قول کو اس وقت تک غلط نہیں کہا جا سکتا جب تک کتاب اور سنت سے اسکا غلط ہونا ثابت نہ ہو جائے۔
کیونکہ متاَخرین کے بہت سے اصول، اسلام میں محدث اور بدعت شمار ہوتے ہیں جبکہ سلف نے اس سے پہلے اسکے برعکس اجماع کر رکھا ہوتا ہے، پھراجماعِ سلف کے بعد جو اختلاف پیش آئے تو وہ قطعی غلط اور بے جا ہوتا ہے مثلا خوارج، روافض، قدریہ، مرجیہ ایسے دوسرے فرقے جنکے اقوال وآراء مشہورو معلوم نصوص کے اور اجماعِ صحابہؓ کے صریح مخالف ہیں۔
اسی طرح دین میں کوئی بھی ایسا مسئلہ نہیں رہ جاتا جس کے بارے میں سلف نے کلام نہ کیا ہو اس لئے اسکی مخالفت یا موافقت میں سلف سے ضرور کوئی نہ کوئی قول مل جاتا ہے‘‘۔
(مجموع فتاویٰ ص ۱۳، ص ۳۳، ۲۷)
امام اوزاعیؒ اس پورے منہج کو یوں بیان فرماتے ہیں:
’’جی مار کر اس سنت راہ پر جمے رہو۔ ان پہلوں کے قدم جہاں رک گئے ہوں وہاں تم بھی ضرور رُک جاؤ۔ جس بات کے وہ قائل ہوئے ہوں تم بھی اسی کے قائل رہو۔ جس بات سے وہ خاموش اور دستکش رہے ہوں تم بھی اس سے دستکش ہی رہو۔ چلو تو اپنے ان سَلَفِ صالح کی راہ پر چلو۔ اس لئے کہ گنجائش کا جو دائرہ ان کیلئے رکھا گیا ہے تمہارے لئے بھی بس اُتنا ہی ہے‘‘۔
(شرح اصول اہل السنۃ والجماعۃ للالکائی ۱:۱۵۴)
اور امام احمد بن حنبلؒ اِسی بات کو اِن الفاظ میں رکھتے ہیں:
’’اصول (اہل) سنت ہمارے ہاں یہ ہیں کہ اصحاب رسول اللہؐ جس چیز پر تھے، اس سے تمسک کریں۔ انکی اقتدا کریں؛ اور نئی ایجادات کو ترک کریں۔ کیونکہ ہر نئی اپج ضلالت ہے‘‘ (شرح اصول اھل السنۃ والجماعۃ للالکائی ۱:۱۵۶)
*****
دین کے معاملہ میں صحابہ کا جو ایک عمومی فہم اور منہج ہے، اوپر ہونے والی یہ سب گفتگو اُس چیز سے متعلق ہے۔ رہ گیا ’قولِ صحابی‘ کا مسئلہ جو خاص مالکی اصول فقہ کا مسئلہ ہے، تو وہ بالکل ایک الگ موضوع ہے(۳)۔ صحابہؓ کے عمومی فہم کو دین کے سب اصول اور سب فروع کی بنیاد بنانے پر ائمہ میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں؛ کوئی ایک بھی امام ایسا نہیں جو اِس منہج پر صاد نہ کرتا ہو۔ سبھی کے نزدیک:
استدلال کے اصول، اعتقاد کے امور، اصول اور فروع میں امتیاز، اجتہاد کے دائرہ کا تعین، سنت اور بدعت میں فرق، ثوابت اور متغیرات میں توازن، اجتماع اور افتراق کے ضوابط، اہل بدعت سے تعامل کی حدود، پھر عبادات، معاملات، حدود، تعزیرات، اخلاق، سماجیات، تہذیب، حلال وحرام، فرائض و اوامر ایسے سب کے سب امور میں فہمِ دین کی بابت صحابہ کی اتباع لازم ہے۔
ان سب کے سب امور میں، حتیٰ کہ ان امور کی تفصیلات میں:
۱) یا تو صحابہ نے اتفاق کیا ہے اور وہاں ان سے اختلاف جائزنہیں خواہ وہ فقہی مسائل کی بابت کیوں نہ ہو ۔۔۔
۲) یا پھران امور میں صحابہ نے کہیں اختلاف کیا ہے (جو کہ فروع میں ہی کیا ہو سکتا ہے نہ کہ اصول میں) وہاں صحابہ کے اقوال(۴) میں سے قولِ راجح اختیار کیا جائے گا۔ (۵) یوں مجموعی طور پر اقوالِ صحابہ سے خروج پھر بھی نہ ہوگا۔۔۔
۳) اور یا پھر صحابہؓ نے خاموشی اختیار کی ہے جس کی دو صورتیں ہیں: (الف) صحابہ کی خاموشی اگر عقائد اور ’’اصولِ دین‘‘ میں سے کسی امر کی بابت ہے مثلاً خدا کی صفات یا عقیدہ کی تفصیلات وغیرہ۔ تو صحابہ ہی کی طرح اس معاملہ پر خاموش رہنا اور اس کی ٹوہ میں جانے سے احتراز کئے رہنا بعد والوں پر لازم ہو گا (ب) اور اگروہ مسئلہ فروعی اور فقہی ہے اور اس کاحل پیش کرنے کی کسی دور میں ضرورت پیش آچکی ہے تو اس کا حل صحابہ ہی کے اصولِ استدلال اور انہی کے دیے ہوئے ضوابطِ قیاس واجتہاد کوسامنے رکھ کر، وقت کے فقہاء اپنے دور کے اندر تلاش کریں گے۔(۶)
ائمۂ اربعہ ابو حنیفہؒ ، مالکؒ ، شافعیؒ و ابن حنبلؒ ودیگر ائمہ اہلسنت کے ہاں مختلف پیرایوں میں یہی بات دیکھنے کو ملتی ہے۔ اسی منہج پر (انکے اساتذہ) تابعینؒ نے صحابہؓ سے تربیت پائی اور پھر آگے (انکو)تربیت دی تھی۔ جبکہ اس منہج سے خروج کر لینے والوں کی مذمت میں صحابہ آخری حد تک چلے جاتے رہے اور انکو اہل بدعت وتفرقہ قرار دیتے رہے تھے۔ یہاں تک کہ عبد اللہ بن عمرؓ نے قدریہ کے کچھ لوگوں کو، جوکہ قرآن سے استدلال کا اپنے تئیں خوب خوب اہتمام کرتے تھے، پیغام بھیجا تھا کہ اگر وہ پوری زمین کی دولت بھی راہِ خدا میں خرچ کرڈالیں تو اس انحراف کے ہوتے ہوئے جسکو وہ لے کر چل رہے ہیں، یہ عمل انکو کچھ فائدہ دینے والا نہیں۔ یہ واقعہ عقیدہ کی بیشتر کتب میں مذکور ہے۔
یوں صحابہؓ کے اس تعامل نے ہی سب سے پہلے ایک طرف ’’اہلِ سنت وجماعت‘‘ اور دوسری طرف ’’اہلِ بدعت وتفرقہ‘‘ کے مابین ایک واضح لکیر کھینچ دینے کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے ہی ’’اجتہاد‘‘ اور ’’انحراف‘‘ کو ضبط میں لانے کی اساس فراہم کی اور ’’اِتِّباع‘‘ اور ’’شقاق‘‘ میں تمییز کرائی۔ پس اس امر کی تاسیس خود صحابہؓ کے ہاتھوں ہوئی۔ اسی منہج پر تابعینؒ نے صحابہؓ سے تربیت پا کر پھر آگے اَتباعِ تابعینؒ کو تربیت دی۔ فقہاءِ اربعہ، اور کتبِ ستہ (جنکو صحاحِ ستہ کہا جاتا ہے) کے مصنفین سمیت بیشتر مشہور محدثین، فقہاء اور مؤلفین اسی اَتباعِ تابعین کے دور سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔
اَتباعِ تابعین کا یہ وہ زمانہ ہے جب شریعت کے تقریباً سب علوم کی تدوین ہوئی۔ حدیث، تفسیر، فقہ، مغازی، اصول اعتقاد، ادب، اخلاق، موضوعاتِ ایمان، اصولِ لسان سب کچھ مدون ہوا اور بعدکی نسلوں کیلئے محفوظ کردیا گیا۔ یہ خدا کی رحمت تھی کہ صحابہ کا وہ علم جو اطرافِ عالم میں پھیل چکا تھا اور، فتوحات اور نئی اقوام کی تربیت ایسی کچھ خاص ضروریات کے تحت، عالمِ اسلام کے سب ملکوں، شہروں اور بستیوں میں منتشر تھا __ تابعین واتباع تابعین کی تابڑ توڑ علمی رحلتوں اور طویل مذاکروں اور شبانہ روز مراجعوں کے اس دیوانہ وار عمل کے نتیجے میں __ صحابہ کا چھوڑا ہوا یہ علم اپنی تنقیح، چھان پھٹک اور اپنی نقل وروایت اور ذکر و مراجعہ اور شہرہ وتذکرہ میں جب اپنے عروج کو پہنچ چکا اور اس کو جمع و حفظ اور تاصیل وتبویب کیلئے جب بہترین امکانات اور تاریخ کے بہترین اور صالح ترین دماغ حاصل تھے اور اس کثرت سے اور اس وافر انداز میں میسر تھے تو دھڑا دھڑ اس کی تدوین ہوئی اور قیامت تک کی نسلوں کیلئے کمال دیانت اور خوبصورتی سے اس امانت کو محفوظ کر لیا گیا۔جبکہ اس نسل کے گزرنے کے ساتھ ہی فتنوں اور گمراہیوں کا وہ طوفان آیا کہ اہلسنت کا وجود غیر معمولی حد تک سمٹ جانے اور معاشرے کی سطح پر پسپائی اختیار کر جانے پر مجبور ہوا۔ یہاں تک کہ تیسری صدی ہجری کے اواخر میں اور چوتھی صدی ہجری تقریباً ساری ہمیں عالم اسلام پہ ہر طرف باطنی فرقوں، روافض، زنادقہ اور موقعہ پرستوں کی ہی ریاست اور سیادت نظر آتی ہے۔
اس پسپائی کا ذکر ہم ایک الگ فصل (’’منہج سلف قرونِ ثلاثہ کے بعد‘‘) میں کریں گے۔ البتہ قرونِ ثلاثہ کے سرے لگنے سے پہلے پہلے دین کو اسکے مستند مصادر سے لینے اور بدلتے حالات میں اسکے اصولوں کی تطبیق کرنے اور پھر معاشرے کے اندر اس کو لے کر چلنے کا پورا ایک منہج سامنے آچکا تھا(۷)، نہ صرف سامنے آچکا تھا بلکہ ایک معلوم روشن شاہراہ کی صورت دھار گیا تھایوں کہ جب اس سے انحراف ہو تو فورا معلوم ہونے لگے اور طبیعتیں صاف اس سے ابا کرنے لگیں۔ نہ صرف دین پر چلنے اور وحی سے ہر ہر معاملے میں راہنمائی لینے کا ایک منہج ان تین زمانوں کے اندر ایک کامل شامل انداز میں سامنے آچکا تھا اور تنوعِ آراء کی حدود تک اسکے اندر واضح ہو چکی تھیں اور وہ ’سرخ لکیر‘ تک پوری طرح واضح ہوگئی تھی جس کو پار کرنا اختلاف کی وہ قسم کہلائے جسے ’’انحراف‘‘ اور امت کے اندر ’’ناقابلِ قبول‘‘ اور ’’ناقابلِ برداشت‘‘ سمجھا جائیگا۔۔۔ نہ صرف یہ، بلکہ دین سے ’’انحرافات‘‘ (بدعات) کی درجہ بندی کرنے حتیٰ کہ دین سے انحراف اور ابتداع کے مرتکب طبقوں کے ساتھ تعامل اختیار کرنے کی جو جو صورتیں اپنائی جانا ہیں انکو واضح کردینے تک کا عمل پوری کامیابی کے ساتھ ہوگیا تھا۔
اب، یعنی تبع تابعین کا دور گزر جانے کے بعد، معاملہ اگر اُسی زور اور قوت کے ساتھ نہ بھی جاری رہ سکا __ اور واقعتا تبع تابعین کے بعد عالم اسلام کے اطراف واکناف میں اہلسنت کا معاملہ اُس زور وشور سے اوراُس بڑی سطح پر اور اُس عوامی پزیرائی کے ساتھ جاری نہ رہا __ تو بھی بہر حال یہ خدشہ نہ رہا تھا کہ اس راستے کا سِرا ہی روپوش ہوجائے گا۔ ذرہ بھر کوشش کر کے معاملے کا سرا پالینا ہر شخص کیلئے ممکن تھا اور آج تک ہے۔
یہ وہ کام تھا جو اسلام کے تین ابتدائی زمانوں میں، کہ جس کی بابت ہم ہر خطبے میں سنتے ہیں: خیر القرون قرنی، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم۔۔۔
یہ وہ کام تھا جو اسلام کے تین ابتدائی زمانوں میں، کہ جنکو ’’قرونِ سلف‘‘ بھی کہا جاتا ہے، ’’قرونِ خیِّرہ‘‘بھی، ’’قرونِ نیِّرہ‘‘ بھی اور ’’قرونِ ثلاثہ‘‘ بھی، بصورتِ اتم تکمیل پاچکا تھا۔۔۔
’بعد والوں‘ کو اب انہی کے پیچھے کھڑے ہونا ہے ، ورنہ اِن کی جہت آپ سے آپ ’’انحراف‘‘ مانی جائے گی اور صریحا ’’شقاق‘‘۔
’جہت‘ کے تعین کے معاملہ میں اسلام کی پہلی تین نسلوں کے اس برگزیدہ عمل نے، جوکہ ڈھائی تین صدیوں پر محیط ہے، مسئلہ کو اتنا ہی سادہ اور آسان کردیا ہے۔
*****
کتاب وسنت کے فہم کا یہ اصولی طریقہ نہ اپنایا جائے تو پھر دین کے ہر معاملے میں ہروقت بات کرنے کی گنجائش باقی ہے اور کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ ہر کوئی ہی تب اس پر طبع آزمائی کرے گا، جیسا کہ اس وقت عملاً ہو بھی رہا ہے۔
دِین کے باب میں کیاکسی بھی بات اور کسی بھی مسئلے کو کوئی بھی شخص کسی بھی وقت چیلنج کردے اور شرعی نصوص کے کچھ حوالے دے کر اپنے تئیں اس پر کچھ ’دلیلیں‘ لے آئے تو سب کام چھوڑ کر ہم اس پر بحث کرنا شروع کر دیا کریں؟
ایک ایسی زمین جس پر ہم قدم جما کر چل لیں اور پیر پیر پر لامتناہی بحثوں کے سلسلے لے کر نہ بیٹھ جایاکریں، ہماری سب سے پہلی ضرورت ہے۔
منہج سلف اور اصول اہلسنت دراصل ہماری اسی ضرورت کا نام ہے۔
یہ ایک متوازن ترین منہج ہے۔ یکسانیت uniformity اور تنوع diversity کے مابین جو کوئی بہترین توازن ہو سکتا ہے وہ اس منہج میں بدرجۂ اتم پایا جاتا ہے۔ اتباع اور اجتہاد میں جو کوئی بہترین نسبت تناسب ممکن ہے، وحی اور عقل کا جو کوئی بہترین سنگم ہو سکتا ہے وہ آپکو منہج سلف اور اصول اہلسنت میں ملتا ہے۔ بیک وقت ایک جانب ابداع novelty اور ابتکار creation اور دوسری جانب تسلیم submissionاور اذعان surrender اپنی بہترین حالت میں پائے جاتے ہیں۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ آپ سے آپ اور بے ساختہ پائے جاتے ہیں اور دور اول سے لے کر آج تک بغیر کسی انقطاع کے پائے جاتے ہیں۔
حیرانی اور سرگردانی واقعتا قوموں کوناکارہ کرکے رکھ دیا کرتی ہے۔ اس کا سدباب ہمارے دِین میں ہم کو منہج سلف کا پابند کرکے باحسن طریق کر دیا گیا ہے۔
حواشی:
(حاشیہ: ۱)
علیکم بالأمر العتیق ’’پرانے ترین دور والی چیز ہی کو لازم پکڑے رہو‘‘
(حاشیہ: ۲)
یعنی صحابہ کے ماحول میں جس چیز کو حق جانا جاتا تھا، آدمی کا بزعم خود کسی ’دلیل‘ کی بنیاد پر، یا کسی کے بہکانے کے زیر اثر،اسے غلط جاننے لگنا اور جس چیز کو صحابہ کا علم وعمل غلط قرار دیتا رہا ہو، اس کو درست جاننے لگنا۔
(حاشیہ: ۳، ۴)
گو عمر بن عبدالعزیزؒ کے نزدیک صحابہ کے اقوال میں عندالاختلاف کوئی سا بھی قول اختیار کیا جا سکتا ہے۔ یہی مذہب احمد بن حنبلؒ کا ہے۔مگر جمہور کے نزدیک صحابہؓ کے اقوال میں اختلاف ہو تو ان میں سے قول راجح اختیار کیا جائیگا نہ کہ کوئی سا بھی قول، یعنی دلیل کی بنیاد پر ایک قول کو چھوڑ بھی دیا جاسکتا ہے۔ (دیکھئے جامع بیان العلم وفضلہ ص ۳۶۶ تا ص ۳۷۱) کیونکہ اس طرف صحابہ کا قول ہے تو اس سے متعارض دوسری طرف بھی صحابہ ہی کا قول ہے۔ نیز دیکھئے فصل ’’مدرسۂ صحابہ‘‘ کا حاشیہ ۱۔
(حاشیہ: ۵)
اس قول راجح کے اختیار میں اگر کوئی اختلاف ہو تو اسکو اختلاف سائغ کہا جائے گا۔ یعنی وہ اختلاف جس کیلئے دِین میں گنجائش ہے اور جس کو باقی رکھتے ہوئے بھی مسلمانوں کا اجتماع و اخوت اور انکے باہم مل کر جہاد کرنے اور اسلامی معاشرہ تشکیل دینے کا عمل متاثر نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ فقہی امور میں اختلاف ہو جانے کے باوجود اگر صحابہ میں وحدت اور اخوت برقرار رہتی ہے تو اسی اختلاف کے رہتے ہوئے ہمارے مابین اخوت اور وحدت کیوں باقی نہ رہنی چاہیے؟!
(حاشیہ: ۶)
دِین کے اس حصہ میں اگر اختلاف ہو جاتا ہے (یعنی وقت کے اہل علم کا اپنے دور کے کسی معاملہ میں اجتہاد مختلف ہو جانا) تو یہ بھی اختلافِ سائغ شمار ہوگا۔ اختلافِ سائغ، یعنی جس کے ہوجانے پر ایک دوسرے کے سر آنا جائز نہیں۔
(حاشیہ: ۷)
نصوصِ دین میں صحابہ کو جو احکام دیے گئے ہیں، ان احکام کی ایک خاصی بڑی تعداد اگر ’شریعت‘ سے ہٹ کر تھی اور صحابہؓ کی موت کے ساتھ ہی اُن احکام کو ہمیشہ کی موت مر جانا تھا، جیسا کہ آج کچھ جدت پسندوں کو وہم ہوا ہے۔۔۔ تو ائمہ اربعہ (تبع تابعین) کے زمانۂ اختتام (شافعیؒ اور ابن حنبلؒ تیسری صدی ہجری میں وفات پاتے ہیں) اور صحابہؓ کے زمانہ کے مابین سو سال سے زیادہ کا عرصہ ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب اسلامی علوم اپنے معراج پر پہنچے ہوئے ہیں؛ اور شریعت کا ایک عظیم الشان مسئلہ (صحابہ کی موت کے ساتھ ہی قرآن کے کچھ نہایت عظیم احکام کی موت) ہے جسکے سامنے آنیکا وقت ’شرعاً‘ آیا ہوا ہے، لیکن یہ کسی کو سوجھتا تک نہیں، اور یہ ’شرعی حقیقت‘ اپنے انکشاف کیلئے زمانۂ استشراق تک کیلئے بچا رکھی جاتی ہے (کہ جس کی بابت کسی پر اوجھل نہیں: استعماری لشکروں کے زیرِنگاہ ’ادیان کی ریفارمیشن‘ کا زمانہ ہے)، یوں ’دو ہزار کچھ ‘ میں جا کر وہ ’شرعی حقیقت‘ لاہور یا شیخوپورہ کے کسی ’محقق‘ کی میز سے نکل آتی ہے!
(۸) صحیح جامع بیان العلم وفضلہ۔ تالیف الامام أبی عمر یوسف بن عبدالبر۔ اختصار وتہذیب ابوالاشبال۔ ط: دار ابن الجوزی