عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Fehm_deen_masdar_2nd آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
صراطِ مستقیم کا ذکر ہو جانے کے بعد صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيهِمْ کی تصریح اور تاکید
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف
 

صراطِ مستقیم کا ذکر ہو جانے کے بعد

صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيهِمْ

کی تصریح اور تاکید

وحی کی طرف رجوع کس طرح؟

پیش ازیں ہم اس سوال پر غور کر آئے ہیں کہ ہر آنے والے شخص کو دین کی تعبیر اور تفسیر کیا ’خود‘ کرنی ہے اور اس عمل کا ’ازسرنو‘ آغاز کرنا ہے یا پہلے سے موجود کسی ’’تسلسل‘‘ کا حصہ بننا ہے؟ اور پھر اس کیلئے کسوٹی کیا ہے؟ ’’دین کے حقائق‘‘ اور’’دین کے فرائض‘‘ کے فہم میں اگر لوگوں کا کچھ فرق ہو گیا ہو، اور کسی حد تک تو یہ ایک انسانی واقعہ ہے، تو لوگوں کے اس اختلاف یا تنوع کے ساتھ کیونکر پیش آیا جائے؟ کیا ’ذرہ بھر‘ اختلاف کی گنجائش نہ دی جائے؟ یا اختلاف کے دروازے ’چوپٹ‘ کھول دیے جائیں؟ توازن کی کیا صورت ہو؟

اس معاملے میں کسی ’کسوٹی‘ کی ضرورت ہے تو وہ کیا ہر آدمی خود تجویز کرے گا؟ ’کسوٹی‘ اگر ہر آدمی خود تجویزکرے گا تو کیا سب سے پہلے ’’کسوٹی‘‘ کے تعین میں ہی اختلاف نہ ہوجائے گا؟ پھر وہ ’’کسوٹی‘‘ کیا ہوئی؟ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ سے لئے جانے والے ’’فہم واستنباط‘‘ کی صحت جانچنے کیلئے لوگوں کے مابین آخر کوئی تو حوالہ refering point ہو!

کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ سے درست رہنمائی لینے کا عمل اُمت میں ایک معلوم تاریخی واقعہ رہا ہے۔ اس میں اچھا خاصا ایک تنوع ضرور پایا گیا لیکن اس کی بھی بہرحال کچھ معین حدود ہیں۔ پھر آپ جانتے ہیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ کی غلط تاویل اور باطل تشریح بھی اُمت کی تاریخ میں ایک واقعہ رہا ہے اور اُس کی شدید مذمت ہونا ریکارڈ پر ہے۔

’’أھواء‘‘: صحابہؓ کی راہ سے ہٹنا

نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ: نصوصِ وحی کی جو باطل تفسیرات ہوئیں، دورِ اول میں ان کی بے حدوحساب مذمت ہوتی رہی تو وہ کچھ اِس حوالے سے نہ تھی کہ ایسی باطل تشریح کرنے والے شخص نے فلاں جگہ پر یہ ’’فنی غلطی‘‘ کی ہے اور فلاں مقام پر یہ ’’ٹیکنیکل فالٹ‘‘ کیا ہے اور فلاں مقام پر ’’عربیِ مبین‘‘ کا فلاں قاعدہ توڑ لیا ہے لہٰذا امت کو اب اُس کے شر سے خبردار کرنا ضروری ہو گیا ہے! کوئی ایسا سوچتا ہے تو وہ اِس معاملے کی بالکل غلط تصویر کشی ہو گی۔ ایسا کوئی بھی حوالہ کسی کو ’’منحرف‘‘ اور ’’گمراہ‘‘ کہنے کے حوالے سے کبھی بھی تو دیا گیا ہو! یقیناًان باطل پرستوں کی پیر پیر پر برائی اور مذمت ہوتی رہی، مگر اس کا حوالہ یہی ہوتا تھا کہ وہ کتاب اللہ کو وہ معانی اٹھواتے ہیں جو اس امت کیلئے بالکل نئے تھے اور قرآن کا وہ فہم جو امت کو اصحابِؓ رسول اللہؐ سے ملا تھا وہ اِن نئے معانی کو قبول کرنے سے صاف اِبا کرتا تھا۔ ساری چوٹ تو تھی ہی اِس بات پر کہ یہ اصحابِ رسول اللہ کے طریق سے ہٹ کر کتاب اللہ کی تفسیر کرتے اور نئی نرالی باتیں نکال کر امت کو دیتے ہیں۔ اُن کو ’’اھل الاھواء‘‘ کہا ہی اس لئے گیا کہ وہ اصحابِؓ رسول اللہؐ کی راہ سے ہٹے ہوئے اور بہکے ہوئے لوگ ہیں۔ ان کو ’’مبتدع‘‘ کہا گیا، مراد یہ کہ ان لوگوں نے راستہ ہی ایک نیا نکال لیا ہے۔ سارا زور ہی اِس کے ’’نیا‘‘ ہونے پر تھا؛ کہ اس سے پہلے امت میں اس کی ’’نظیر‘‘ نہیں ملتی۔ چنانچہ ’’اھواء‘‘ اور ’’ابتداع‘‘ کا سارا تصور ہی اس کے ’’بہکے پن‘‘ اور اس کے ’’نرالے پن‘‘ کے ساتھ جڑا ہوا ہے نہ کہ تفسیر و تاویل کے ’’فنی محاسن‘‘ یا ’’ٹیکنیکل باریکیاں‘‘ چھوٹ جانے کے ساتھ!

اور جہاں تک اِس ’’اھواء‘‘ (بہکے پن) اور ’’ابتداع‘‘ (نرالے پن) کا تعلق ہے تو اُس کو جانچنے کا آخر کیا حوالہ تھا؟ علمی نکتے تو وہ بھی بہرحال کچھ کم بیان نہ کرتے تھے، نیز ان کے اخلاص پر شک کرنے کی بھی کوئی وجہ نہ تھی۔ قرآن حدیث کے حوالے پیر پیر پر وہ بھی دیتے ہیں۔ اِس بہکے پن، اِس نرالے پن، اور اِس ٹیڑھ کو جانچنے کا یہاں صرف ایک ہی حوالہ ہے: ’’صحابہؓ کا راستہ‘‘۔ سادہ لفظوں میں، یہ صحابہؓ اور تابعینؒ تھے جو اُن لوگوں سے کہتے تھے کہ یہ جو معانی تم بیان کر کے دے رہے ہو ہم ان سے واقف نہیں؛ اور یہ چیز کسی بات کو رد کرنے کیلئے نہایت کافی تھی۔

یہ نوٹ کرنا بھی نہایت ضروری ہو جاتا ہے کہ قرونِ سلف میں ’’ابتداع‘‘ کا لفظ کس چیز کیلئے زیادہ مستعمل رہا۔ ہمارا مشورہ ہو گا کہ اِس لفظ کے حوالے سے آپ دورِ سلف کے استعمالات کا ایک استقراء کر لیجئے، عملاً اِس کا اطلاق آپ کو ’’صحابہؓ سے ملنے والے طریقے سے ہٹ کر کوئی راستہ نکالنا‘‘ پر ہی زیادہ نظر آئے گا۔ آپ کہیں گے ’’ابتداع‘‘ تو ’’سنت‘‘ سے ہٹ کر کوئی راستہ نکالنا ہے۔ ہم کہیں گے یہ بات سوفیصد درست ہے؛ مگر ’’سنت‘‘ کو جاننے کا مقیاس کیونکہ اصحابِ رسول اللہؐ ہیں، بلکہ ’’سنت‘‘ کا ایک حوالہ ہی یہ ہے کہ ’’وہ پٹا ہوا راستہ جس پر رسول اللہ ا نے اپنے اصحابؓ کو چھوڑا تھا‘‘، اس لئے ’’صاحبِ ھویٰ‘‘ اور ’’مبتدع‘‘ کے سب حوالے عملاً صحابہؓ کی راہ کی نسبت سے ہی متعین ہوتے تھے(۱)۔ قرآن وحدیث کے الفاظ اور دلالت سے استدلال ایک لمبا کام تھا اور خاص اصحابِ علم کے کرنے کا تھا، البتہ اصحابؓ کو دیکھ دیکھ کر ہر نئے عقیدے، ہر نئی روش اور ہر نئے دستور کی حیثیت متعین کر لینا اور اس سے چوکنا ہو جانا ایک نہایت آسان کام تھا اور وقت طلب بھی نہ تھا۔ نوبت یہاں تک آئی رہی تھی کہ اصحابِؓ رسول اللہؐ کی راہ سے ہٹ کر اگر کوئی شخص ’دلائل‘ دینے کی کوشش کرتا تو عوام ہی نہیں علماء تک اُس کی بات سننا درست نہ جانتے تھے، یہاں تک کہ اُس کو مجلس سے اٹھا دیتے رہے تھے، جیسا کہ آئندہ ایک فصل میں آپ دیکھیں گے۔ جب ایک بار پتہ چل گیا کہ یہ شخص ’’اصحابِ اھواء‘‘ میں سے ہے؛ یعنی بہکا ہوا ہے؛ اور اُس راہ سے ہٹا ہوا ہے جس پر لوگوں نے اصحابِؓ رسول اللہؐ کو پایا تھا (قطع نظر اس سے کہ وہ کتنا مخلص ہے اور دلیل لانے کی کیسی مہارت رکھتا ہے)، تو اُس کو سننا ہی ایک نادرست بات تھی اور اس میں آدمی کا وقت ہی نہیں بلکہ دین جانے کا اندیشہ تھا۔

یقیناًرسول اللہ ا نے ایسے ہی ایک روشن بین مقام پر امت کو چھوڑا تھا:

قد ترکتکم علی البیضاء، لیلہا کنہارہا، لا یزیغ عنہا بعدی إلا ہالک(۲)

یقیناًمیں نے تمہیں ایک چمکتی دمکتی شاہراہ پر (پہنچا کر) چھوڑا ہے، جس کی راتیں بھی اُس کے دنوں کی طرح (روشن) ہیں۔ نہیں بہکے گا میرے جانے کے بعد اس سے کوئی مگر وہ جس کو ہلاک ہی ہونا ہو‘‘

*****

’’راستہ اُن لوگوں کاجن پر تو نے انعام کیا، نہ اُن لوگوں کا جن پر غضب ہوا، اور نہ اُن کا جو راہ بھٹکے

وحی سے رہنمائی لینا چنانچہ ایک ’’مسلسل عمل‘‘ رہا ہے۔ یہ کام اُمت کی تاریخ میں آپ ’پہلی بار‘ نہیں کریں گے۔ باطل میں آپ کچھ یکسر نیا متعارف کرائیں تو اس کا ضرور امکان ہے کیونکہ باطل کسی خاص متعین صورت میں محصور نہیں۔ البتہ حق کے معاملہ میں وہ جو آپ سے پہلے ہیں آپ کو انہی کے پیچھے کھڑا ہونا، انہی کے پیچھے صف بنانا اور انہی کے نشاناتِ راہ ڈھونڈنا ہے۔ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ(۳)۔ پس لازم ہے کہ جس راستے پر آپ چل رہے ہیں، وہ پہلے سے ہی چلا ہوا ہو۔ ’’دین‘‘ کے حوالے سے ’’تلاشِ حقیقت‘‘ کا یہ ایک نہایت عظیم اور سچا مبحث ہے۔ اس راستے میں اگر کچھ تنوع ہے تو یہ انسانی فطرت کی رعایت ہے اور اس کی گنجائش ہونا بے شمار پہلوؤں سے فائدہ مند ہے۔۔۔ مگر ایک مجموعی معنیٰ میں آپ اسی راستے پر رہنے کے پابند ہیں اور دوسری طرف اُن اہل زیغ سے جو اِس راستے کو چھوڑ بیٹھیں، کوسوں دور رہنے کے مامور۔ یہ معاملہ اس حد تک واضح ہے کہ ’’اہل زیغ‘‘ کا تعین ہی ’’اہل اتباع‘‘ کے تعین کے بعد اور اسی کے حوالہ reference سے ہوگا؛ جیسا کہ پیچھے بیان کیا جا چکا۔

واتبع سبیل من أناب الي (۴)

صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيهِمْ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ (۵)

سلف کی راہ ہمیں وہ مستحکم بنیاد فراہم کرتی ہے جس میں علم، ایمان، عبادت، تزکیہ، تربیت، معاشرہ، تہذیب، سیاست، خلافت، جماعت، وحدت، اصلاح، جہاد، دعوت، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، اہل بدعت سے تعامل، اُمت پر آنے والے مختلف ادوار اور متغیر حالات کی نسبت سے متغیر احکام اور مسائل، اور اس میں مدنظر رکھے جانے والے اصول اور ضوابط سب کچھ آتا ہے۔

’’اصول اہلسنت‘‘ اِن سب امہات المسائل میں ہمیں ایک راہ بنا کر دیتے ہیں۔

*****

ہماری اِس بات کا البتہ یہ مقصد نہیں کہ:

۔ اب ہر ’نئی بات‘ اور ہر ’نیا کام‘ کرنے پر پابندی لگ جائے گی،

۔ یا یہ کہ اپنے دور کے مطابق کوئی لائحہ عمل تجویز کرنے پر سرکھپانا یا اپنے دور کے کسی فقہی مسئلے، یا کسی سماجی الجھن، یا کسی معاشی اشکال، یا کسی سیاسی بحران کا حل پیش کرنا ہی غلط ہو جائے گا،

۔ یا یہ کہ اپنے دور کے مطابق لائحہ عمل اختیار کرنے یا وقت کے کسی مسئلے کا حل پیش کرنے کے معاملہ میں ’’اجتہاد‘‘ کرنا ممنوع ہوگا،

۔ یا یہ کہ کسی دوسرے کو اجتہاد کا حق دینا یا حتی کہ اجتہاد میں غلطی کر لینے پر کسی کو عذر دینا اور اس باب میں اختلاف کو قبول کرنا ممنوع ٹھہرے گا!

ایسے مسائل جو امت کو اس سے پہلے پیش نہ آئے ہوں فقہائے اہلسنت کی اصطلاح میں ’’نوازل‘‘ کہلاتے ہیں اور جوکہ اسی دور کے فقہاء کو ہی حل کرنا ہوتے ہیں جس کے اندر وہ مسائل پیش آتے ہیں، البتہ اس پورے عمل میں ’’پہلوں‘‘ کے فقہی نظائر ان کے پیش نظر رہتے ہیں۔ یعنی سلف کے منہج کو قبول کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ کسی دور کے فقہاء کو فارغ ہو کر بیٹھنا ہوتا ہے؛ ان کے کرنے کا کام پھر بھی ڈھیروں کے حساب سے ہوتا ہے۔ اتباعِ سلف کا یہ جو پورا مبحث ہے، اس کو یہاں لانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ’’فہم دین‘‘ کے حوالے سے آپ اُسی کا ہی ایک تسلسل بنیں، نہ یہ کہ اجتہاد کو معطل کر دیں اور فقہ اسلامی کو آگے بڑھانے اور اس میں نئے سے نئے اضافے کرنے کا عمل موقوف کر دیں۔ اس سے کوئی اگر یہ مطلب لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ درست نہیں۔ بلکہ یہ بات خود ’’اصول اہلسنت‘‘ سے ہی متصادم ہے؛ خود صحابہؓ نے رسول اللہ ا کے چھوڑے ہوئے کتاب وسنت کے اصولوں کی بنیاد پر، اور آپؐ کے دیے ہوئے سانچوں میں قید رہتے ہوئے، نئے پیش آنے والے مسائل کا بہترین حل پیش کیا۔

اپنے دور کے مسائل اور تقاضوں اور چیلنجوں کو سامنے رکھتے ہوئے، اور نئے نئے انحرافات اور مبنی بر بدعت رجحانا ت کے بالمقابل، جہاں جہاں فقہی مواقف اختیار کرنے کی ضرورت تھی وہاں وہاں صحابہؓ نے فقہی مواقف اختیار کئے اور اگر اِس عمل کے دوران ان کے مابین اختلافِ فہم واجتہاد ہوا تو اُس کو بھی کھلے دل سے قبول کیا۔ اور جہاں جہاں عقائدی مواقف اپنانا ضروری تھا وہاں وہاں صحابہؓ نے عقائدی اور اصولی مواقف اپنائے اور اُن مقامات پر وہ سب کے سب یک آواز دیکھے گئے (اور وہاں صحابہؓ نے اپنے مابین اختلاف نام کو بھی نظر نہ آنے دیا)۔ یوں اصول اور فروع کو شریعت سے لینے اور ان کو بنیاد بنا کر آگے چلنے کے معاملہ میں بعد کی نسلوں کیلئے صحابہؓ نے ایک باقاعدہ رخ متعین کردیا۔

*****

’’انقطاع‘‘ کسی راستے کے باطل ہونے کی دلیل ہے

اور پھر کوئی یہ بھی دیکھے کہ صحابہؓ کے دیے ہوئے اُس رخ کو آگے تابعینؒ نے کس طرح لیا۔ کبھی ایک بار تو ایسے ہوا ہو کہ تابعینؒ اور تبع تابعینؒ یہ کہتے سنے گئے ہوں کہ فلاں مسئلہ میں صحابہؓ نے یہ غلطی کر لی اور یہ مسئلہ اب آئندہ سے یوں نہیں بلکہ ووں ہونا چاہیے! کسی ایک مسئلہ میں بعد والوں نے کہا ہو کہ اُن سے ’’پہلے والے‘‘ فلاں فلاں مقام پر ’دلیل‘ اور ’حق‘ کا دامن چھوڑ بیٹھے ہیں؛ لہٰذا اُن کے زمانے سے چلے آنے والے فلاں فلاں مسئلہ کی ’تصحیح‘ کر کے اور ان سے ماثور قاعدوں اور کلیوں میں سے فلاں فلاں بات کی ’درستی‘ کر کے اب مسئلہ یوں اور یوں بیان ہو گا اور ’’پہلوں‘‘ کی فلاں اور فلاں بات متروک ٹھہرائی جائے گی!

’’پہلوں کی پیروی‘‘ کی جو کوئی شدید ترین اسپرٹ ہو سکتی ہے وہ ہمیں اُن سب لوگوں کے ہاں بدرجۂ اتم ملتی ہے۔ جہاں پہلوں کے پیر پڑے، بعد والوں نے کمال دِقت اور باریکی کے ساتھ عین وہیں پر پیر رکھنے کا اپنے آپ کو پابند جانا۔ بلکہ اس کیلئے اُن کے ہاں جو لفظ مستعمل ہوا وہ ’’اثر‘‘ تھا۔ ’’اثر‘‘ تلاش کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ پہلے والوں کا پیر کہاں پڑ چکا ہے تاکہ ہم بھی وہیں پیر دھریں۔ اور ’’اقتفاء الاثر‘‘ کا مطلب ڈھونڈ ڈھونڈ کر پیر وہاں دھرنا جہاں پر پہلوں کے نشانات ہوں۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں ’’والذین جاؤوا من بعدھم‘‘ محض کوئی تاریخی وقوعہ chronical sequence نہیں بلکہ باقاعدہ ایک منہج بھی ہے؛ یہاں ہر شخص آتا ہے اور اپنے سے پہلوں کے پیچھے جا کھڑا ہوتا ہے۔ اِس کے تاریخی و علمی عمل میں وہ بہترین اضافے کر کے جاتا ہے، مگر ایک ایسے تربیت یافتہ کاریگر کی طرح جو پہلے سے چلی آنے والی عمارت ہی کو اوپر سے اوپر اٹھاتا ہے نہ کہ ایک ایسے اجنبی شخص کی طرح جو سب سے پہلے اس کی بنیادوں کو ’درست‘ کرنے کی فکر ظاہر کرتا ہے!

ایک عدالت میں آنے والا ہر کیس اپنی نوعیت میں گو دوسرے ہر کیس سے مختلف ہو سکتا ہے اور اس کے باعث ہر نئے کیس کا فیصلہ دوسرے سے مختلف اور نیا ہونا متوقع ہو سکتا ہے؛ اور اس لحاظ سے حاضر وقت عدالتوں اور قاضیوں کا کردار کبھی بھی اور کسی بھی دور میں حاشیائی نہیں ہو سکتا پھر بھی نئے آنے والے مقدمات کی بابت وقت کی عدالتیں گزشتہ عدالتوں کے کئے ہوئے مقدموں کے فیصلوں کو مدنظر رکھنے کی پابند ہوتی ہیں جن کو کہ نظائر Precedents کہا جاتا ہے۔ ’’قانون‘‘ کتابوں میں بے شک موجود ہو مگر عدالتی نظام اس مفروضہ کو درست نہیں سمجھتا کہ کوئی جج دنیا میں آج پہلی بار ’عدل‘ قائم کرے گا اور یہ کہ کوئی شخص آج پہلی بار ہی قانون کا ’صحیح فہم‘ پائے گا! بلکہ عدالتی نظام ایک ایسے جج کے تو تیور دیکھ کر ہی اس کو رخصت کر دے گا جو ’’قانون‘‘ کو پہلی بار سمجھ کر دکھانے یا ’’عدل‘‘ کو پہلی بار قائم کر کے دکھانے کا عندیہ ظاہر کرے گا۔ عدالتی نظام جج کا تعین کرے گا ہی اس صورت میں جب وہ اس میدان میں ’’اپنے سے پہلوں‘‘ predecessors کی حیثیت کا اعتراف کرے اور ان کے تسلسل کو لے کر چلنا قبول کرے ۔۔۔ ورنہ وہ عدالتی نظام ’نظام‘ نہیں کہلائے گا۔ اس کو ’سلسلہ‘ نہیں کہا جائے گا۔

’’نئے‘‘ کا امکان بھی ختم نہ ہو اور ’’پرانے‘‘ کی حیثیت بھی مسلم رہے، ایک ’’تسلسل‘‘ سے ہماری یہی مراد ہے۔۔۔ افکار کی دنیا میں اور شریعت کے فہم و تطبیق کے معاملہ میں یہ حُسن صرف منہجِ اہلسنت کو میسر ہے۔

اب یہ ’’سلف‘‘ جس چیز کانام ہے لغوی طور پر بھی وہ اس Predecessors ہی کا ترجمہ ہے جس کا عدالتی تشریح judicial interpretation کے ضمن میں اوپر ذکر ہوا۔ حق یہ ہے کہ ایک سلسلہ کو جو چیز ’’سلسلہ‘‘ بناتی ہے وہ Predecessors کا ہی التزام ہے۔ ’’قانون‘‘ تو ہمارے لئے اور رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کیلئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ ہے مگر ہر دور میں سلف کی راہ پر چلتے آنے والوں کی راہ پر چلنا اور ان کے فہم و فقہ کا التزام کرنا دراصل نظائر Precedences کی اتباع ہے جو کہ ’’بعد والوں‘‘ کو ’’پہلوں‘‘ کے ساتھ جوڑ دیتی ہے اور سب کو ایک ہی آسمانی حقیقت کا مجموعی تسلسل بنا دیتی ہے۔

وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ ۔۔۔ (التوبۃ: ۱۰۰)

’’اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا۔۔۔‘‘ (۶)

کیا یہ بات بے انتہا قابل توجہ نہیں کہ تاریخ اسلام میں ایک پوری نسل کا نام ’’تابعین‘‘ رکھ دیا جاتا ہے اور قیامت تک ہم ان کو اسی نام سے یاد کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد کی نسل کو ’’اَتباعِ تابعین‘‘ کہتے ہیں؟ کیا اپنے دین کی فطرت اور مزاج کو سمجھنے کیلئے یہ ایک بہت کافی بنیاد نہیں؟

کتاب وسنت کو ’’سمجھنا‘‘ بلاشبہ ہم نے بھی ہے، کہ اس کو سمجھے بغیر ہدایت پانا ممکن ہی نہیں۔ مقصد یہ نہیں کہ کتاب وسنت کو پہلوں نے سمجھ لیا تو اب ہمیں اس کی ضرورت نہیں، ہم خیر سے کوئی اور کام کریں! دین کا فہم لئے بغیر ہرگز کوئی چارہ نہیں مگراس کا ’’فہم‘‘ ہمیں ’’سلف‘‘ سے اور ’’سلف کی راہ پر چلتے آنے والوں‘‘ سے لینا ہے۔ انہی کے اصولوں سے مدد لینی ہے اور اُمت کے اندر انہی کے ’’تسلسل‘‘ کا حصہ بننا ہے۔

صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيهِمْ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ

یہ ہے اصل منہج۔ راستے کے بہت سے گڑھوں میں گرنے سے بچاؤ کا پیشگی بندوبست اسی کو اختیار کرنے میں مضمر ہے۔ بہت سے ’دلکش‘ مناہج اس کے سوا آپ کو ’قائل ‘ بلکہ اپنے ’دلائل‘سے گھائل کرنے کو ہر زمانے میں موجود ہوں گے، بڑا کچھ یہاں بنتا اور بگڑتا رہے گا اور کئی عمارتیں یہاں کچھ دیر کیلئے بڑی اونچی جاتی اور پھر کسی نئے تعمیر ساز کی عمارت کو جگہ دینے کیلئے بڑی بے چارگی سے ملبہ بنتی دیکھی جائیں گی، کئی ایک فتنے زبان زد عام ہوجانے کے بعد بالآخر زمانے کی گرد میں روپوش ہو رہیں گے اور بڑا غلغلہ کرالینے کے بعد زیادہ ہوا تو لائبریریوں کی شیلفوں میں’مطالعہ نگاروں‘ کے منتظر رہ جائیں گے، مگر وہ چیز جس کو چودہ صدیوں سے دوام حاصل ہے او رکبھی اس کا سر نگوں ہونا ممکن نہیں اور جس سے ٹکرانے والا ہر شہ زور بالآخر چت ہوا، وہ اہلسنت کا منہجِ فہم و اتباع ہے جس میں اصول اور فروع، التزام اور اجتہاد، اتفاق واجماع اور تعدد آراء، وحدت و یکسانیت اور تنوعِ افکار سب کی حدود متعین ہیں اور جن کو اصحاب رسول اللہ ا سے نہ صرف باقاعدہ تلمذ بلکہ سندِ توثیق پارکھنے کا شرف حاصل ہے۔

کسی راستے کا ’’نیا‘‘ ہونا، اس امتِ بیضاء کے اندر، اُس کے ٹھکرائے جانے کیلئے ایک بہت کافی اور معقول بنیاد ہے۔ اس کے سوا، اس کو مسترد کردینے کیلئے، کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں؛ ’’نیا‘‘ ہونے کے سوا اگر اس کے رد کردینے کیلئے کوئی اور دلیل دی جائے گی تو وہ نفل کے باب سے ہوگا نہ کہ فرض کے باب سے۔ ’’اتباعِ حق‘‘ کا عمل اس امت کے اندر اس قدر تسلسل کے ساتھ ہوا ہے اور نسل در نسل اور کڑی در کڑی اس شدید حد تک مربوط ہے اور کہیں رکے یا روپوش ہوئے بغیر اصحابِؓ رسول اللہؐسے سیدھا بے ساختہ یوں جا ملتا ہے، کہ ’پہلوں‘ کے ذخیروں سے ایک بات کا ثبوت نہ دیا جا سکنااور ایک مکتبِ فکر کا محض ’تحقیق‘ کے نتیجے میں سامنے آجانااس کے محدَث اور ’فَہُوَ رَدٌّ‘ ہونے پر مہرِ تصدیق کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ امتِ محمد ﷺ ہے کوئی مذاق نہیں!!

ائمۂ اہلِ سنت نے کیا سچ کہا، انقطاع _ یعنی دین کی کسی تعبیر کا پورے ایک تسلسل کے ساتھ پیچھے نہ جاسکنا _ اس کے باطل ہونے کیلئے کافی اور بجائے خود ایک دلیل ہے۔

*****

درست ہے کہ اُمت پر اِس بار جو زوال آیا اور جس کی کہ پہلے کوئی نظیر ہی نہیں ملتی، امت کا بہت کچھ بہا لے گیا۔ اس کے باعث ’’اہلِ اتباع‘‘ کا وجود شدید حد تک متاثر ہوا اور اس انحطاط کے خود ان پر طرح طرح کے اثرات مرتب ہوئے۔ یہاں تک کہ اب وہ نشاناتِ راہ جس پر یہ مجتمع قافلہ صدیوں تک کامیابی کے ساتھ چلتا اور علم وشعور، فکر وبصیرت اور تہذیب ومعاشرت کے سب میدانوں میں دنیا کو متاثر کرتا رہا۔۔۔ اسکے یہ نشاناتِ راہ اب ایک بڑی حد تک اور ایک بڑی سطح پر ازسرنو متعارف کرائے جانے کی ضرورتمند ہو چکے ہیں اور اس کے وابستگان کو اس راہ پر چلانا اب ایک محنت طلب کام ہو گیاہے۔ یوں بھی زوال سے نکل کر عروج کی جانب بڑھنے کا یہ تقاضا ہونا ہی چاہیے ورنہ ہم اسکو زوال مانیں ہی کیوں؟ ۔۔۔ کہ دورِ زوال کی اپنی یادگاریں ہوا کرتی ہیں اور دورِ عروج اپنی مثالیں رکھتا ہے۔۔۔

یہ سب صحیح ہے اور اس بحران کا اعتراف کرنے میں ہرگز ہمیں تامل نہیں بلکہ یہ بھی ہمارے مقدمے case کا ہی ایک حصہ ہے۔ لیکن یہ بات کہ ہمیں اس تسلسل کا حصہ بننے کی ہی اب ضرورت نہیں رہی ۔۔۔ اتباع کا وہ نمونہ.. اُمت کے اجتماع کا وہ یادگار نقشہ جس میں اختلافات کی حدود بھی طے تھیں اور شقاق وانحراف و تاویل کی سرحدیں بھی خط کشیدہ تھیں، تالیفِ داخلی کا تصور بھی واضح تھا اور جہادِ خارجی کا میدان بھی طے تھا۔۔۔ ’’اتباع‘‘ کا وہ پورا پیکیج جس کی ایک ایک تفصیل طے تھی، کوئی یہ کہے کہ اب وہ ہماری ضرورت نہیں.. اور یہ کہ اپنا راستہ اب ہم اس تاریخی تسلسل سے بے نیاز رہ کر بھی بنا سکتے ہیں ۔۔۔ تو یہ سوچ اور ذہنیت دراصل اس دورِ انتشار ہی کی عکاس ہے۔ اور اس بحران کا ہی ایک تسلسل۔ اور اِس انحطاط اور زوال ہی کا ایک منہ بولتا ثبوت۔

من یہدہ اللہ فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ہادی لہ


(۱) دیکھئے آئندہ فصل میں امام شاطبیؒ کا قول جو انہوں نے ’’سنت‘‘ کے مفہوم کے سلسلہ میں بیان کیا ہے۔

(۲) (مسند أحمد ۱۶۶۹۲، و سنن ابن ماجۃ ۴۴، عن العرباض بن ساریۃ، }وصححہ الألبانی، صحیح ابن ماجۃ رقم الحدیث ۴۱، ص ۱۳، وأیضا السلسلۃ الصحیحۃ رقم الحدیث ۹۳۷، ص ۶۱۰ ج ۲{ )

(۳) التوبہ: ۱۰۰ ’’اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں‘‘ (ترجمہ: مولانا محمد جونا گڑھی)

’’اتبعوھم‘‘۔۔۔ یہاں ضمیر ملاحظہ ہو۔ یہاں یہ ضمیر خدا اور رسولؐ کی طرف نہیں جاتی بلکہ سابقین اولین کی طرف یعنی ان لوگوں کی طرف جاتی ہے جو ’نئے آنے والوں‘ سے پہلے وحی کے متبع اور دین کے پیروکار تھے۔ (اِس آیت پر امام ابن قیم کی بحث میں آگے تفصیل سے بات آ رہی ہے)۔

(۴) سورۃ لقمان (۱۵) ’’اور پیروی کر ان لوگوں کے راستے کی جو میری طرف رجوع کر چکے‘‘

(۵) الفاتحۃ: ۶ ’’راستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے انعام فرمایا، نہ ان لوگوں کا راستہ جن پر (تیرا) غضب ہوا اور نہ وہ جو راہ ہی بھٹک گئے‘‘۔

(۶) ترجمہ مولانا محمد جونا گڑھی

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز