برصغیر میں ہمارا اصل سرمایہ |
| | |
یہاں(۱) سے ہمارے اصل مقصود طبقہ کا تعین ہو جاتا ہے۔۔۔ یعنی:
وہ حلقے جو ایک تو اپنی ’’تاریخی وابستگی‘‘ کے لحاظ سے، اور دوسرا ’’مصادرِ دین‘‘ کے لحاظ سے۔۔۔ ’’اہل سنت‘‘ شمار ہوتے ہیں...
یہی ہے طائفۂ حق۔۔۔، اور اسی کے عمل میں وحدت اور یکسوئی لانا ہماری تالیف کی اصل غرض و غایت۔
*****
رہ گئے وہ طبقے جو نصوصِ وحی کو __ اُن معیارات کا پابند رہتے ہوئے جو اہلسنت کے معروف مدارس کے یہاں قائم چلے آئے ہیں __ اپنے لئے ہدایت اور تلقی کا مصدر نہیں مانتے.. مانند روافض، خوارج، معتزلہ، صوفیہ کے باطنی مذاہب(حاشیہ۱)، منکرین حدیث (وجدت پسند)، نیچرسٹ اور سیکولر وغیرہ.. اور جوکہ ’’مصادرِ دین‘‘ پر ہی درحقیقت(۲) ہمارے ساتھ متفق نہیں۔۔۔
تو یہ طبقے ہماری گفتگو کے اولین مخاطب تو بہرحال نہیں ہیں۔ کیونکہ ہمارے اور ان کے مابین ایک اصولی و بنیادی اختلاف کی دیوار حائل ہے (صحابہؓ سے چلی آنے والی ایک حقیقت کو ہمارا ماننا اور اُن کا نہ ماننا) اور کسی ایک فریق کے اس دیوار کو پار کئے بغیر مفاہمت ممکن نہیں۔ اس فریق کے ساتھ گفت وشنید کی ضرورت و افادیت اپنی جگہ مسلم ہے؛ مثبت سوچ کے حامل افراد کی ایک کثیر تعداد اس طبقہ میں بھی یقیناًپائی جاتی ہے؛ نیز بہت سے اسباب ایسے ہوئے ہیں کہ ہمارا اور اُن کا تبادلۂ افکار آج خاص طور پر ضروری ہو گیا ہے۔ پھر بھی ’’مصدرِ دین‘‘ کو باقاعدہ موضوع بنا کر اس طبقہ کے ساتھ بات چیت کرنے کیلئے.. ایک قدرے مختلف اپروچ درکار ہو گی؛ جو کہ حالیہ کتاب میں ممکن نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ہمارے بیان میں ان حضرات کے غور وفکر کیلئے بھی بہت کچھ ہوگا۔
*****
اِس کتاب کا اصل مخاطب پس یہاں کے اہلسنت طبقے ہوئے۔
اِنہی کو __ ان کے اندرونی اختلاف کو چھیڑے بغیر، مگر کچھ اساسی امور پر کھڑا کر دینے کی صورت میں __ ایک بڑی سطح پر متحد و صف آرا کر دینا اِس کتاب کا اصل ہدف ہے۔
تاہم ایک خاص صنف اس پورے طبقہ کے اندر ایسی ہے جو ہماری توجہ سب سے بڑھ کر لے گی، اور یہ ہیں:
یہاں کے وہ سنجیدہ، تعلیمیافتہ، دیندار اصحاب۔۔۔ جن کیلئے، برصغیر کے روایتی دیندار حلقوں کے اندر پایا جانے والا جمود، غیر معمولی حد تک پریشان کن ہے۔
سچ یہ ہے کہ اپنے تعلیمیافتہ طبقوں کی یہ پریشانی کچھ ایسی بے جا نہیں۔
ہمارے یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے اسلام کے ساتھ آج بھی وہ لگاؤ رکھتے ہیں کہ دین اور دینی حلقوں سے جڑے رہنا اِن کی سب سے بڑی خواہش ہو گی۔ مگر یہاں کے بیشتر روایتی طبقوں کی پسماندگی اور جمود اور تنگ نظری جوکہ ’’دین‘‘ کے نام پر اختیار کر رکھی گئی ہوتی ہے، اِن کی اِس خواہش کا سو سو بار خون کرتی ہے۔
نوبت اِس وقت یہاں پہنچی ہوئی ہے کہ:
۱۔ دین سے لگاؤ رکھنے والے اِس اعلیٰ تعلیمیافتہ طبقے کی ایک خاصی بڑی تعداد ایسی ہے جو __ ایک نیم مردہ دلی کے ساتھ، اور وقت پاٹنے کیلئے __ اس جامد طبقے کا ہی دامن تھام کر کھڑی رہنا چاہتی ہے، کیونکہ اِس روایتی مذہبی طبقے کا متبادل، جدت پسندوں کے سوا، بالعموم نہیں پایا جاتا۔
۲۔ البتہ ایک تعداد اب ایسی ہے جو اِن جدت پسندوں کو __ متبادل کے طور پر __ کچھ نہ کچھ توجہ دینے بھی لگی ہے۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ یہ جدت پسند، یہاں کے جامد روایتی حلقوں کے پیدا کردہ اِس خلا کا ہی ایک بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
۳۔ اِس موخر الذکر صنف میں سے کوئی فرد اِس وقت کہیں پر کھڑا ہے تو کوئی کہیں پر۔۔۔ شاید اِن میں سے کوئی دو شخص ایسے نہ ہوں گے جو فکری معاملہ میں ایک ہی جگہ پر کھڑے ہوں۔ یعنی ایک آخری درجے کی فکری طوائف الملوکی۔
۴۔ البتہ اِن میں کی ایک بڑی تعداد اِس کیفیت سے دوچار ہے کہ یہ ’روایتی طبقوں‘ کو چھوڑ دینے پر شرح صدر بھی نہیں پاتی اور ’جدت پسندوں‘ کو گلے لگا لینے میں ایک دھڑکا محسوس کئے بغیر بھی نہیں رہتی۔ بلکہ اپنی سلامتیِ فطرت کے بموجب، اسلام کی ایک نرالی unprecedented تعبیر سن کر ایک جھرجھری سی بھی بہرحال لیتی ہے۔ چاہے اِن جدت پسندوں کے ’دلائل‘ اِن کو مسحور کن لگیں اور چاہے ان ’دلائل‘ کا کوئی جواب بھی فوری طور پر اِن کے پاس نہ ہو، پھر بھی کوئی چیز اندر سے بول کر کہہ رہی ہوتی ہے کہ اِن جدت پسندوں کا معاملہ کہیں نہ کہیں گڑبڑ ضرور ہے اور عاقبت خراب ہو جانے کا قوی تر اندیشہ بھی۔ چنانچہ وہ ’’مصادرِ اَدِلَّہ‘‘ جو اہل سنت کے ہاں از عہد صحابہؓ تا امروز حجت اور سند چلے آتے ہیں اُن ’’مصادرِ اَدِلَّہ‘‘ کے ساتھ ہمارے اِن لوگوں کی وابستگی تو الحمد للہ ختم نہیں ہو پائی، تاہم اِن مصادر پر اعتماد اور وثوق کی وہ کیفیت جو ہونی چاہیے بہرحال متاثر ہوئی ہے۔ مختصر یہ کہ: ہمارے یہ سلیم الفطرت اصحاب، یہاں کے جدت پسندوں سے مطمئن بھی نہیں ہیں تاہم ان سے متاثر ہوئے بغیر بھی نہیں رہے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ حق کی راہ میں آگے بڑھنے کیلئے جو ایک زور اور یکسوئی درکار ہوتی ہے، اُس پُر عزم کیفیت کے رکھنے میں تو بہت پیچھے ہیں۔
یہ پورا طبقہ۔۔۔ سمجھئے ہماری اس گفتگو کا اہم ترین مخاطب ہے۔
(حاشیہ ۱)
دوبارہ عرض کر دیا جائے: مراد ہے صوفیہ کے وہ طبقے جو ’شریعت اور طریقت‘ میں فرق کرتے ہوئے ’طریقت‘ کو ’شریعت‘ پر مقدم کرتے ہیں۔ البتہ وہ صوفیاء جو پابند شریعت ہیں اور جو ’’وحدۃ الوجود‘‘ اور ’’حلول‘‘ وغیرہ ایسے عنوانات کے تحت خالق اور مخلوق کی حقیقت کو خلط نہیں کرتے اور عابد اور معبود کو یکجا نہیں ٹھہراتے اور توحیدِ عبادت کو بعثتِ انبیاء کا مقصد جانتے ہیں، بلاشبہ اہلسنت میں آتے ہیں۔
’’مصدرِ تلقی‘‘ کے حوالے سے ’’اہل انحراف‘‘ اور ’’ہل اتباع‘‘ کے مابین تمییز پر پچھلی فصل میں ایک بیان گزر چکا ہے۔
(۱) یعنی پچھلی فصل میں ہم جو گفتگو کر آئے ہیں۔
(۲) اگرچہ وہ کتاب و سنت کی اپنی خود ساختہ تعریف کی رو سے یہ دعویٰ کریں کہ وہ تو کتاب وسنت کو مانتے ہیں