مصدرِ تلقِّی |
اہل سنت و اہل بدعت کے مابین اصل فارِق |
کتاب اللہ و سنت رسول اللہؐ کو
تلقی کا مصدر نہ ٹھہرانے والے طبقے:
وہ کونسے طبقے ہیں جو ’’وحی‘‘ کی ایک یا ہر دو صورت (متلو وغیر متلو) کو ’’دین کا مصدر‘‘ نہیں مانتے؟ (’’دین کا مصدر‘‘ ایک مطلق معنیٰ میں، نہ کہ اپنی اگرمگر کے ساتھ)۔ اور اس کو اپنے شرعی استدلال و استنباط کے معاملہ میں حتمی ’’حجت‘‘ نہیں ٹھہراتے؟ یہاں ہم ایسے گروہوں کی چند مثالیں ذکر کریں گے۔
یہ چند مثالیں ہی ہیں نہ کہ اُن فرقوں کا مفصل بیان جو وحیَین کی حاکمانہ حیثیت کو اپنے دین کی بنیاد نہیں بناتے۔ اِن چند مثالوں کا ذکر بھی محض اس لئے کہ وہ فرقے جو اس باب میں بھٹکے ہیں اُن کی شناعت اور ان کے حق سے دور ہونے کی نوعیت واضح ہو سکے: کہ یہ کسی ایک آدھ نص کے ساتھ اُن کا رویہ نہیں جو ان کو ’’غیر اہل سنت‘‘ شمار کرواتا ہے بلکہ کھلم کھلا انحراف اور باقاعدہ طریق عمل ہے۔ نیز یہ وہ فرقے ہیں جن کا دین سے منحرف ہونا کسی ایک آدھ متبع سنت گروہ کا خیال نہیں، بلکہ اِن کے راستے کو ضلال اور انحراف کہنا سبھی طوائفِ حق کے یہاں ثابت و طے شدہ امر ہے۔
حق اور سنت کے دائرہ سے خروج کر لینے والے طبقوں کی یہ کنکریٹ مثالیں ہم اِس لئے بھی دینا چاہیں گے کہ لفظ ’’گمراہ فرقوں‘‘ کے استعمال اور تصور کو ایک ضبط مل جائے؛ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں ایسے شنیع الفاظ پر مشتمل گولہ باری کسی کسی وقت طوائفِ حق کے اپنے مابین بھی ہونے لگتی ہے۔ یہ خبط جس چیز کا پیدا کردہ ہے وہ ہے دائرہ اہلسنت (وابستگانِ صحابہؓ) سے جہالت۔ ’’اہل سنت‘‘ وہ دائرہ ہے جس سے باہر کے لوگوں کا اختلاف ’’شقاق‘‘(۱) اور ’’افتراق‘‘(۲) کہلاتا ہے، البتہ اِس دائرہ کے اندر کے لوگوں کے مابین اختلاف ہو تو اُس کو ’’اختلافِ آراء‘‘ مانا جاتا ہے۔ جبکہ ’’گمراہ‘‘ اور ’’منحرف‘‘ اور ’’مبتدع‘‘ ایسے الفاظ مخالف کیلئے وہاں استعمال ہوتے ہیں جہاں ’’شقاق‘‘ ہو نہ کہ وہاں جہاں ’’اختلافِ آراء‘‘ ہو۔
پس چند مثالیں اُن طبقوں کی جن کی راہ شقاق، انحراف اور گمراہی شمار ہوتی ہے:
۱) مصدرِ تلقی کے موضوع پر دائرۂ سنت سے باہر ہونے میں، سب سے نمایاں طبقہ روافض کا ہے۔
’’حجیتِ قرآن‘‘ کے حوالے سے روافض کے عقیدہ و منہج پر بات نہ بھی کی جائے.. تو ’’سنت‘‘ کے سب کے سب ذخیرے تو جو ہمارے یہاں پائے جاتے ہیں اور جن کے علاوہ سنت کا کوئی مستند ذخیرہ کہیں پایا ہی نہیں جاتا، روافض کی نظر میں بہرحال قابل اعتناء نہیں۔ یہ سب مرویات چونکہ عائشہؓ، حفصہؓ، ام سلمہؓ، عمرؓ، عثمانؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، سعد بن ابی وقاصؓ، ابو ہریرہؓ، انسؓ، ابو سعید خدریؓ، ابن مسعودؓ، ابن عمرؓ، ابن عباسؓ، ابن عمروؓ اور جابر بن عبداللہؓ وغیرہ وغیرہ ایسے اصحابِؓ رسول اللہؐ کی راہ سے آتی ہیں لہٰذا یہ سب مرویات روافض کیلئے قابل اعتناء نہیں۔ آپ تو ’’صحیح بخاری‘‘ کی کسی ایک ہی حدیث کو رد کر دیا جانے پر برانگیختہ ہو جاتے ہوں گے، مگر روافض وہ طائفہ ہیں جن کے ہاں آپ کی پوری کی پوری ’’بخاری‘‘ ہی رد ہے، اور یہی حکم ان کی نظر میں حدیث کی اُن باقی سب کتب کا ہے جن سے آپ رسول اللہﷺ پر اتری ہوئی وحیِ غیر متلو کی نصوص حاصل کرتے ہیں۔ یعنی روافض وہ طبقہ ہے جن سے ہم ’’اصول‘‘ میں ہی الگ ہیں۔ مرویاتِ صحابہؓ کو قبول کرنا ہمارے دین کا ایک نہایت اہم اصل ہے اور اس کو گرانے سے پورا دین گر جاتا ہے۔
۲) روافض کے بعد۔۔۔ اخبارِ وحی کو حجت نہ ماننے والوں میں معتزلہ آتے ہیں، قدیم بھی اور جدید بھی۔ جہاں اخبارِ وحی ان کی عقل کے خلاف پڑیں، وہاں یہ (معتزلہ) اخبار و آثار کو رد کر دیں گے، یا پھر ان کے معانی کو اِس قدر توڑ مروڑ دیں گے __ اور جس کو یہ لوگ ’’تاویل‘‘ کہتے ہیں __ کہ اخبارِ وحی ان کی عقل کے تابع ہو جائیں۔ غرض کتاب اور سنت کی نصوص کو اپنے بے ساختہ معانی رکھتے ہوئے یہ حیثیت حاصل ہی نہیں کہ وہ مطلق طور پر قبول ہوں اور لوگوں کی عقول اور اَذواق پر مطلق طور پر حاکم ہوں!
جیسا کہ ائمہ سنت نے واضح کیا، معتزلہ وغیرہ کا مسئلہ یہ نہیں تھا کہ وہ کتاب اور سنت کے معانی سمجھنے کی کوشش کے دوران اور کتاب اور سنت کے اندر حق کے تلاش کے کسی عمل کے دوران لغزش کھا بیٹھتے تھے۔ اِن کا معاملہ یہ تھا کہ یہ لوگ حق کا تعین پہلے خود اپنی عقول سے کرتے تھے اور پھر کتاب اور سنت کو اپنے اُس مزعومہ حق کے تابع کرتے تھے اور اس کیلئے نصوص شریعت کو جتنا بھی مروڑنا یا کھینچنا پڑے، کھینچتے تھے۔ یہ گویا ان کا شریعت کو ایک طرح کی ’توقیر‘ دینا تھا کہ وہ اس کو کچھ نہ کچھ خاطر میں بہرحال لاتے ہیں (ورنہ کام تو اس کے بغیر بھی کوئی نہیں رکا ہوا!)۔ چنانچہ الٰہیات اور غیبیات کے موضوع پر یہ اپنے ہی عقلی پیمانے رکھتے تھے اور کتاب و سنت کے وہ سب حصے جو ان پر پورا ترتے قبول ہوتے چلے جاتے اور وہ حصے جو ان پر پورا نہ اترتے الگ کر کے رکھ دیے جاتے اور پھر ’’تاویل‘‘ کی سان پر چڑھا دیے جاتے۔ مثلاً قیامت کے روز اللہ کے دیدار کا انکار، باوجود اس کے کہ نصوص شریعت میں یہ بات تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور صحابہؓ و تابعینؒ میں سے اہل تفسیر کا اس پر مکمل اتفاق ہے، مگر چونکہ یہ بات معتزلہ کے ’’تصورِ خدا‘‘ کے ساتھ فٹ نہیں بیٹھتی لہٰذا رد ہو جاتی ہے۔ اسی طرح خدا کا بولنا اور کلام فرمانا، کتاب اور سنت سے ثابت ہونے کے باوجود کسی ارسطو کے ’’تصورِ خدا‘‘ کے ساتھ لگا نہیں کھاتی لہٰذا کتاب اور سنت کی نصوص اس موضوع پر یا تو رد ہوں گی اور یا توڑی مروڑی جائیں گی، چاہے خدا کی صفتِ کلام کا انکار کرتے ہوئے قرآن کو مخلوق کیوں نہ کہنا پڑے۔ علیٰ ہٰذا القیاس۔
پس ہم نے دیکھا، معتزلہ کا اختلاف اہل سنت کے ساتھ ’’اصولِ دین‘‘ کے اندر تھا اور وہ اِس میدان میں ہی نصوصِ شرع کو (نصوص کے اُس بے ساختہ مفہوم کے ساتھ جو اہل اسلام کے ہاں روزِ اول سے چلا آیا ہے)، تلقی کا اولین مصدر مانتے تھے اور نہ اپنے اُن مزعومہ عقائد و تصورات پر مطلق حاکم۔
یہ کچھ وضاحت اس لئے ہوئی کہ جب ہم یہ کہیں کہ ’’کچھ گمراہ فرقے مانند معتزلہ و عقلانیہ وغیرہ کتاب اور سنت کو اپنے لئے تلقی کا علی الاطلاق مصدر نہیں مانتے‘‘، تو ہماری اس بات کا صحیح مدعا واضح ہو جائے اور ہرگز ہرگز ہمارے ان ائمۂ سنت کے ساتھ خلط نہ کر دیا جائے جو کچھ فقہی مسائل کے استنباط و استدلال کی غرض سے اخبار وحی کی تحقیق اور چھان پھٹک کے معاملہ میں، یا قبولِ روایات کے وقت کچھ علمی شروط عائد کرنے کے معاملہ میں، اور یا پھر تعارضِ ادلہ کو رفع کرنے کے معاملہ میں، ہو سکتا ہے آپ کے یا آپ کے ائمہ کے طریقے کی نسبت قدرے ایک مختلف طریقہ رکھتے ہوں، مگر امت میں وہ اہل سنت ہی گنے گئے ہیں بلکہ اہل سنت کے ائمہ اور اَعلام مانے گئے ہیں، مانند ائمہ اَربعہ وغیرھم۔ یہ ائمہ اور ان کے دیے ہوئے علمی خطوط پر چلنے والے طبقے __ ’’نصوصِ شریعت‘‘ کے قبول اور مطالعہ کے حوالہ سے __ جس دائرہ کے اندر رہ کر اختلاف کرتے ہیں وہ بھی یقیناًایک وسیع دائرہ ہے اور اس کے اندر بھی نہایت زبردست علمی مباحثے پائے جاتے ہیں اور ایک دوسری پر نقد اور علمی گرفت بھی بڑی کھل کر لی جاتی ہے اور ایک دوسرے کے موقف کو رد اور باطل بھی ٹھہرا لیا جاتا ہے، کیونکہ مطلق وفاداری اہل سنت کے یہاں اللہ اور رسولؐ کے قول کے ساتھ رکھی جاتی ہے اور باقی ہر کسی کو اللہ اور رسولؐ کے قول کی روشنی میں قبول بھی کیا جاتا ہے اور رد بھی کیا جاتا ہے۔۔۔، تاہم یہ دائرہ علمی وفقہی اختلاف کا دائرہ ہے۔
اِس خلط کی مثال دیکھنا ہو تو آپ یہاں کے اُن کم علم طبقوں کو دیکھ سکتے ہیں جو آپ کو امت کے بعض معتبر ائمہُ فقہاء کے اقوال اور استنباطات کی بعض ایسی مثالوں کو، جن میں ہو سکتا ہے ان ائمۂ فقہاء سے کوئی غلطی بھی ہوئی ہو، اتنا بڑا اور گھناؤنا بناکر دکھائیں گے گویا یہ فقہاء تو نصوصِ کتاب وسنت کی حاکمانہ حیثیت ہی کو تسلیم نہیں کرتے! اور پھر ان فقہاء کی اور ان سے منسوب علمی طبقوں کی وہ مذمت اور وہ برائی کریں گے جو ہمارے ائمہ سنت کسی وقت جہمیہ، معتزلہ اور کلابیہ وغیرہ ایسے گمراہ فرقوں کی کرتے رہے ہیں! اِس مسئلہ کی کچھ وضاحت اِسی فصل کے اندر آگے چل کر بھی آئے گی۔
۳) اَخبارِ وحی کو تلقی کا علی الاطلاق مصدر نہ ماننے میں۔۔۔ پھر صوفیہ کے وہ طبقے آتے ہیں جو ’’طریقت‘‘ کو ’’شریعت‘‘ پر مقدم ٹھہرانے والے ہیں (واضح رہے صوفیاء کے وہ طبقے جو رسول اللہ ؐ کی لائی ہوئی شریعت کو اور آپؐ سے وارد اخبارِ وحی کو ہر ہر چیز پر مقدم مانتے ہیں اور جوکہ صوفیاء کی ایک بڑی اکثریت ہیں، وہ یقینی طور پر اہل سنت میں شامل ہیں)۔ صوفیہ کے یہ منحرف طبقے (یعنی طریقت کو شریعت پر مقدم ماننے والے طبقے) وہ ہیں جن کیلئے ہدایت اور آگہی اور علم کا مصدر کتاب و سنت کی نصوص نہیں، بلکہ ان کے اپنے یا ان کے بڑوں کے کشف و الہام ہیں اور کوئی خاص قسم کا علم لدنی و کسبی وغیرہ ہے۔ کم از کم بھی یہ کہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہؐ علم اور ایقان کا مطلق وآخری مصدر نہیں اور ’’غیب‘‘ پر مرجع ہونے کی حیثیت ان کے یہاں کتاب اور سنت کے ماسوا اشیاء کو بھی حاصل ہے۔ ان کے کثیر طوائف ایسے بھی ہیں جو کتاب و سنت کی نصوص کی باطنی تفسیر کرتے ہیں، اور اس طرح نصوص وحی کو توڑ مروڑ کر اپنے اوہام اور خرافات کے تابع کر لیتے ہیں، یہاں سے ان کا یہ بھرم بھی قائم رہتا ہے کہ دیکھیں جناب یہ تو ’’شریعت‘‘ کو مانتے ہیں، جبکہ درونِ خانہ وہ سب خرافات بھی محکّم مانی اور منوائی جا رہی ہوتی ہیں۔
۴) اخبارِ وحی کو حجت اور مصدرِ دین نہ ماننے والوں میں پھر وہ نیچرسٹ آتے ہیں جو اپنے زعم میں ’’نیچر‘‘ سے تصادم کی بنیاد پر اُن اخبارِ غیب کو جو کلام اللہ یا زبانِ نبوی سے صادر ہوئیں رد کر دینے کے قابل مانتے ہیں۔ یا پھر ان اخبارِ غیب کو معانی کے لحاظ سے اس قدر توڑ مروڑ دینا ضروری جانتے ہیں کہ وہ ان کی مزعومہ ’نیچر‘ کے ساتھ فٹ بیٹھ جائیں اور بہر صورت ’نیچر‘ کے تابع رہیں۔ یعنی معتزلہ اخبارِ شریعت کو ’’عقل‘‘ کے تابع رکھتے تھے تو یہ لوگ ’’فزیکل لاز‘‘ کے تابع۔ دونوں کا میدان بالعموم غیبیات ہیں۔ اخبارِ غیب کی کھینچ تان اور توڑ مروڑ دونوں کے یہاں اِس قدر واضح نظر آتی ہے بلکہ بھونڈاپن کی حد کو پہنچتی ہے، کہ آدمی پوچھ اٹھتا ہے نصوص پر ’ایمان‘ کے اِس تکلف کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟
۵) اخبارِ وحی کو ’’مصدرِ دین‘‘ نہ ماننے والوں میں پھر منکرین حدیث آتے ہیں۔ ’’منکرین حدیث‘‘ کوئی ایک طائفہ نہیں بلکہ بے شمار کنبے اور قبیلے ہیں۔ ان کا کوئی کنبہ کسی وقت اگر یہ بھی کہہ دے کہ ’ہم تو سنت کو مانتے ہیں‘ تو اس سے دھوکہ نہ کھانا چاہیے، بالکل ویسے ہی جیسے کوئی رافضی کسی وقت آپ کو یہ کہہ دے کہ ’ہم تو سنت کو مانتے ہیں‘ مگر اس کی مراد اُس ’سنت‘ سے ہو جو اُس کے ’معصوم‘ مصادر سے پاس ہوتی ہو، یعنی اُس تصور کے مطابق جس کی مغایرت اہلسنت کے متفقہ تصور و مصادرِ سنت کے ساتھ واضح بھی ہے اور معلوم بھی۔
انکارِ حدیث کے مسلک پر پائے جانے والے قبیلے اور گوتیں اِس قدر کثیر کیوں ہیں اور کسی ایک رنگ میں کیوں نہیں رہتے.. یہاں تک کہ مختلف ملکوں کے اندر تو اِن میں رنگوں اور لیبلوں کا جو فرق ہے وہ ہے ہی، ایک ہی ملک کے اندر ہر دس بیس سال بعد کوئی نئی صورت پائی جاتی ہے؟
اِس لئے کہ ایک تو یہ کسی واضح بنیاد پر نہیں، لہٰذا ان کا سفر ہر دم جاری رہتا ہے اور ادھیڑ بن کبھی ختم ہونے میں نہیں آتی۔ (اپنی اِس مسلسل جاری نقل مکانی کے باعث... جہاں ان کے کچھ طبقے طریقِ حق سے دورتر ہوتے چلے جاتے ہیں وہاں اِن کے کچھ دوسرے طبقے حق سے قریب تر بھی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ غرض ان کے ارتقاء کی، جوکہ کسی بھی وقت نہیں تھمتا، کوئی بھی سمت ہو سکتی ہے؛ حق سے بعد کی بھی اور حق سے قرب کی بھی۔ اور جب ایسا ہے تو اِن کے سب طوائف کے ساتھ معاملہ ایک سا نہیں رکھا جاتا(حاشیہ۱))۔
دوسرا یہ کہ معاشرے کے اندر بیانِ حق جس قدر زور سے ہوتا ہے اُس کا بھی یہ طبقے یا ان میں سے کئی ایک، خصوصاً خیر پسند، براہِ راست اثر لیتے ہیں؛ اور بلاشبہ پچھلے کچھ عشروں میں یہاں پر یہ پیشرفت بھی ہوئی ہے۔ ’’سنتِ رسول اللہؐ‘‘ ایک ایسی زبردست اور روشن بین چیز ہے کہ اس کا بالکلیہ انکار اور رد کر دینا خاصی جرأت اور دل گردے کا کام ہے۔ قریباً ہر آدمی کا جی چاہتا ہے کہ اِس کو کچھ نہ کچھ تو مان ہی لے۔ مگر اِس کا دائرہ کیا ہو؟ یہ وہ چیز ہے جس کے دائرہ کو اِن کا کوئی فریق کھینچتا چلا جاتا ہے اور کوئی فریق سکیڑتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ ایک ہی فریق خود بھی اِس کو کئی کئی بار ’ایڈجسٹ‘ کرتا ہے۔ غرض اِسکی کوئی متعین شکل ان کے ہاں ہے ہی نہیں؛ اور یہ ایک ایسا معلوم واقعہ ہے جس کو جھٹلانا نرا مکابرہ ہے۔ خود اِن میں سے کئی ایک مانتے ہیں کہ یہ ایک ارتقائی عمل ہے اور اِس معاملہ میں نہ صرف کوئی اور، بلکہ یہ خود بھی کوئی آخری بات نہیں کہہ سکتے!(ایسی امت کا خدا حافظ جو اپنے نبیؐ کی ’’سنت‘‘ ایسی (اپنے دین کی) بنیادی ترین چیز کے تعین کی بابت کوئی حتمی ویقینی بات نہ تو جانتی ہو اور نہ کہہ سکتی ہو!۔۔۔ یعنی گم گشتگی اور سرگردانی کی انتہا!)۔ اِس سرگردانی کو امت کے حق میں تو ہرگز قبول نہیں کیا جا سکتا، البتہ اگر بیانِ حق کو ایسے کسی ماحول میں زیادہ سے زیادہ زوردار بنا دیا جائے توخود اِن (جدت پسندوں) کے کچھ طوائف کو حق سے قریب تر کرنے کا امکان ضرور بڑھ جاتا ہے۔ کم از کم بھی یہ کہ اِنکے جو آئندہ ورژن آئیں وہ سنت کو ’’وزن‘‘ دینے کے معاملہ میں حالیہ ورژن سے بہتر ہوں۔ تاہم اگر بیانِ حق کا عمل یہاں پر کسی کمزوری یا ابتری کا شکار ہوتا ہے تو آپ دیکھیں گے نقل مکانی کے عادی اِن قبائل کا رخ کسی دوسری سمت کو زیادہ ہونے لگا ہے۔
جیسا کہ ابھی کہا جا چکا، اِس صنف میں آنے والے مختلف گروہوں کے مابین تفاوت حد سے بڑھ کر ہے اور سب کے ساتھ ایک سا معاملہ ممکن نہیں، پھر بھی ’’انکارِ حدیث‘‘ کی توصیف اِن پر سب سے بڑھ کر فٹ آتی ہے اور یہی ان کے سبھی طوائف کے مابین ایک قدرِ مشترک۔
’’مصدرِ تلقی‘‘ کے حوالے سے آج کے بیشتر جدت پسندوں کو یہ ایک ہی وصف کفایت کر جاتا ہے، یعنی ’’ردِ حدیث‘‘۔(حاشیہ۲)ظاہر ہے سنت رسول اللہؐ سے ہماری __ اور سب اہلسنت طبقوں کی __ مراد ہے رسول اللہﷺ کی قولی و فعلی و تقریری احادیث۔ لہٰذا ہمارے اِس ماحول میں پائے جانے والے کسی ایسے فریق کے دعوائے قبولِ سنت سے فریب نہ کھانا چاہیے جو قبولِ حدیث کے معاملہ میں صاف صاف اہل حدیث و مذاہب اربعہ کے ایک معلوم اور معروف منہج کو اختیار کرنے پر آمادہ نہیں۔
یہ ایک واقعہ ہے کہ اِن کے بعض طبقے، نبیﷺ کی چند ایک باتوں کی آئینی حیثیت کو تسلیم کر کے اپنے اوپر سے ردِ سنت کا پورا الزام دھو دینا چاہتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں ’’احادیثِ رسول اللہؐ‘‘ کے ایک نہایت وسیع ذخیرہ سے، لے دے کر، کوئی بیس تیس باتیں ہی ہیں جو ’’سنت‘‘ کے نام سے اِن کے ہاں ’شرفِ قبولیت‘ پاتی ہیں۔ یوں سمجھئے، اپنے انکارِ حدیث میں کوئی بیس تیس جگہوں پر استثناء کر کے اب یہ امت کو جھانسہ دینے لگے ہیں کہ ’’سنت‘‘ تو ان کے ہاں بھی حجت ہی ہے۔
۶) نصوصِ شریعت کی مصدریت اور حاکمانہ حیثیت کو مسترد کر دینے کی ایک اور برہنہ مثال یہاں کے نام نہاد ’کلمہ گو‘ سیکولر ہیں۔ ’’دین‘‘ کو ’’مذہب‘‘ میں محصور کر دینے والے یہ طبقے کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہؐ کی اُن واضح بین نصوص کو جو معیشت، سیاست اور دیوانی و فوجداری امور سے متعلق ہیں یہ حیثیت دینے کے ہی روادار نہیں کہ خدا کی نازل کردہ یہ نصوص ہی اِن سب کے سب امور میں فیصل اور حکم ٹھہریں اور مسائلِ جہانی کے اندر حرفِ آخر قرار پائیں۔
ان (سیکولرز) میں سے کچھ ایسے ہوں گے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ کی نصوص کو معانی و مفہومات کے لحاظ سے اتنا توڑ مروڑ لیں کہ وہ ان کی اہواء کے مطابق ہو جائیں اور دینِ اینگلوسیکسن کے ساتھ لگا کھا جائیں۔ نیز جہاں کتاب و سنت کی نصوص کا اقتضاء ان کی اہواء کے موافق ہو وہاں کتاب و سنت کی نصوص کا کچھ تھوڑا بہت حوالہ دے لیں اور وہ بھی زیادہ تر آنکھوں میں دھول جھونکنے کے باب سے اور ’سیاست‘ کی کچھ ضرورتوں اور مجبوریوں سے۔ مگر ان میں سے بیشتر ایسے ہوں گے جو شخصی دائرہ سے باہر، یعنی امورِ مملکت کے باب میں، کتاب اللہ کے کسی ایک بھی لفظ اور سنت رسول اللہؐ کی کسی ایک بھی بات کو ’’حجت‘‘ ماننا تو درکنار ’’قابل اعتناء‘‘ ہی نہ جانیں گے۔ کیونکہ ’’شخصی امور‘‘ سے باہر کے دائرہ میں حکم دینا، خصوصاً امورِ مملکت کی بابت حکم اور ہدایت دینا نصوصِ شریعت کا منصب ہی نہیں؛ نصوصِ شریعت کا دائرہ ہی ان لوگوں کے نزدیک خاص ’مذہبی و روحانی‘ معاملات ہیں۔ تعالیٰ اللہ عما یقولون علوا کبیرا۔
*****
یہ ہوئیں چند مثالیں کتاب اور سنت کو تلقی کا مصدر ہی نہ ماننے کے حوالے سے۔ ظاہر ہے یہ وہ طبقے ہیں جو وحی کی اُن اخبار کو جو عہدِ صحابہؓ سے لے کر امت کے ہاں تسلیم ہوتی چلی آئی ہیں، حجت ماننے پر ہی تیار نہیں۔ ظاہر ہے، یہاں فہم اور استنباط اور استدلال ایسی کسی ’’مخلصانہ کوشش‘‘ کا مسئلہ نہیں کہ جس میں بھول چوک معاف ہو سکتی ہے، سرے سے یہ اس کو حجت اور تلقی کا مصدر ہی ماننے پر آمادہ نہیں۔ بہت سے مسائل میں اہنت کے اپنے مدارس کے مابین بھی اختلاف ہوا ہے، یہاں تک کہ خود ایک ہی مدرسہ کے فقہاء کے مابین اختلاف ہوا ہے، کسی وقت نصوصِ شریعت کے ثبوت کے حوالے سے تو کسی وقت اِن نصوص کی دلالت کے حوالے سے۔ بلکہ اختلاف کی یہ ہر دو صورت کسی نہ کسی حد تک اصحابِؓ رسول اللہؐ کے اپنے مابین بھی پائی گئی ہے۔
تو پھر لازم ہے کہ کوئی ایسا دائرہ ہو، جس کے اندر اندر یہ چیز قابل برداشت بھی ہو۔ اور ایسا تو بہرحال نہ ہو کہ کسی ایک بھی نص کے ثبوت کے معاملہ میں یا اُس نص کی دلالت کے معاملہ میں کسی فقیہ کے یہاں اگر ہم کوئی دوسرا قول پا لیں یا حتیٰ کہ اس کو (ہم اپنے خیال میں) کسی وقت غلطی پر پائیں تو اِس بات کو ’’مصدرِ تلقی‘‘ کا ہی مسئلہ بنا ڈالیں، جس کی بنیاد پر اُس فقیہ کا یا اُس کی تحقیق پر اعتماد کرنے والے کسی سنی طبقے کا شمار ہی آئندہ سے ہم اہل زیغ و ضلال میں کیا کریں۔۔۔! یوں ایک ایک مسئلہ پر اہل سنت کے اپنے ہی مدارس کے مابین، بلکہ ہر ہر مدرسہ کے اپنے ہی اصحاب کے مابین، ایک محاذ کھڑا ہو جایا کرے!
آپ بھی اتفاق کریں گے کہ ایسا کوئی دائرہ ہونا تو چاہیے، مگر سوال یہ آجاتا ہے کہ اِس دائرہ کی حدود کیا ہوں؟ اور کیا یہ محض ہماری اپنی مرضی پہ ہو کہ جس قدر چاہا اِس دائرہ کو وسیع کردیا اور جس قدر چاہا سکیڑ دیا؛ جس کو چاہا اُس میں شامل کر دیا اور جس کو چاہا اُس سے باہر کر دیا!۔۔۔ یا اس کیلئے کوئی پیمانہ بھی ہے؟
یہ ایک نہایت اہم سوال ہے اور در حقیقت بہت سے راستے یہیں سے پھوٹتے اور یہیں سے الگ ہوتے ہیں۔
اِس سوال کے جواب میں ہم کہیں گے: کہ وہ ’’پیمانے‘‘ کیا ہوئے جن کو ہم خود بنائیں؟! اور اگر کوئی پیمانہ ہمیں بنانا بھی ہو تو آپ جانتے ہیں ہر پیمانہ ہی اپنے وجود میں آنے کیلئے کسی اور پیمانے کا ضرورت مند ہوتا ہے۔
*****
جہاں تک اس ’’دائرہ‘‘ کا تعلق ہے جس کی بابت اوپر سوال اٹھایا گیا ہے۔۔۔، تو دراصل یہاں ایک ہی پیمانہ ہے جس سے، آگے چل کر، پھر ہزاروں پیمانے وجود میں آئے ہیں۔ پس یہ سب پیمانے، پورے ایک تسلسل کے ساتھ پیچھے جاتے جاتے، اگر اُس ’’مثالی پیمانے‘‘ کے ساتھ جا ملیں تو یہ ہمارے لئے درخورِ اعتناء ہوتے ہیں، ورنہ رد۔
یہ ’’مثالی پیمانہ‘‘ جو پھر آگے چل کر ہزاروں پیمانوں کیلئے مطلق بنیاد بنا۔۔۔ یہ در اصل وہی پیمانہ ہے جس کو رسول اللہﷺ نے اپنی تیئیس سال کی محنت سے مالکِ آسمان کی ہمہ وقت نگرانی کے تحت ایک جیتے جاگتے انسانی واقعہ کی صورت میں تشکیل دیا اور پھر رہتی دنیا تک کیلئے خود آپ اپنی زبان سے اس کو ’’حق‘‘ ہونے کی سند عطا فرمائی۔
ہماری مراد ہے مدرسہُ اصحابِ ؐرسول اللہﷺ۔
یہ ایک باقاعدہ مدرسہ ہے جو وحی اور صاحبِ وحیؐ کے رموز و اشارات تک کو جان گیا تھا۔ اور یہ صلاحیت اِس نے خود صاحب وحیؐ کے زیر تعلیم اور زیر تربیت رہ کر اور طویل سالوں تک ایک ایک پل اُسؐ کی صحبت میں گزارنے کے نتیجے میں حاصل کی تھی۔ (اور یہ وہ بات ہے جس کا دعویٰ کوئی اور شخص یا دبستان کر ہی نہیں سکتا)۔ جلد ہی اِس مدرسہ میں پڑھنے والے پھر آگے پڑھانے لگے۔ خدا کا کرنا اِس مدرسہ کے جیتے جی آدھی دنیا اسلام کے قدموں میں ڈھیر ہو گئی؛ جس سے اِس مدرسہ کو ایک بڑی دنیا کو پڑھانے سدھانے اور چلانے کا موقعہ ملا اور شاید ہی کوئی اصولی معاملہ ہو جو اِس کے جیتے جی اِس امت کو پیش نہ آگیا ہو۔
یہاں تک کہ وہ بڑے بڑے فتنے اور بحرانات turmoils بھی جو اِس قدر تیزی سے پھیلتے ہوئے کسی معاشرے یا کسی قلمرو کو پیش آ سکتے ہیں، اِس مدرسہ کی زندگی میں ہی رونما ہوئے۔ اب اِن فتنوں اور اِن بحرانات turmoils کے ساتھ یہ مدرسہ جس انداز سے پیش آیا وہ بھی اُن معیارات کا حصہ بنا جنہیں اِس مدرسہ میں پڑھنے والوں نے باقاعدہ ’’علم‘‘ کی طرح سیکھا اور اس کو ’’پیمانہ‘‘ باور کرتے ہوئے اپنے مابعد نسلوں کو منتقل کیا۔
یہ تابعینؒ تھے جنہوں نے سب علوم کو اور علوم کی سب فروع کو بے حد و حساب ترقی دی اور کمال انداز میں ان کی تطبیقات کیں مگر اُس پیمانے کی شدید ترین پابندی کرتے ہوئے جو ان کو اصحابِ رسول اللہؐ سے ملا تھا۔ یہ تابعینؒ تھے جو اپنے وقت کے سب فتنوں اور بحرانوں کے ساتھ پورا اترنے میں عین اُنہی خطوط پر گامزن رہے جن پر انہوں نے صحابہؓ کو پایا تھا، نیز اندرونی وحدت و شیرازہ بندی کو بھی عین اُنہی بنیادوں پر قائم رکھنے پر کاربند رہے جن پر صحابہؓ رہے تھے۔ یہ تابعینؒ بھی تاریخ میں یونہی وجود میں نہیں آگئے تھے۔ اِنہوں نے جس طرح علمائے صحابہؓ میں سے ایک ایک کا دامن تھاما، جس طرح اِنہوں نے علمائے صحابہؓ میں سے ایک ایک کی صحبت و ملازمت اختیار کی، جس طرح یہ اُن کے دروازوں پر ہجوم کرتے رہے، اُن کے جوتے اٹھاتے رہے، اُن کے حلقوں میں دَم مار کر بیٹھتے رہے، اور جس طرح یہ اُن کے رمز شناس بنے، اور جس طرح یہ اصحابِؓ رسول اللہؐ سے اپنے علم و فہم کی تصحیح اور توثیق کراتے رہے، وہ اپنی مثال آپ ہے؛ اور آج کا کوئی دبستان ایسا نہیں ہے جس کے پہلوں نے اس کے بعد والوں کے، اپنے دبستان کے فہمیدہ و رمزشناس ہونے کی، ویسی توثیق کی ہو جیسی توثیق تابعین علیہم الرحمۃ کو علمائے صحابہ رضوان اللہ علیہم سے حاصل ہوتی رہی۔
پھر تابعینؒ کے اِس مدرسہ میں تبع تابعینؒ پڑھے جنہوں نے فکر و عمل کے اُن سب جوانب کو جو اصحابِؓ رسول اللہؐ سے تابعینؓ کو منتقل ہو کر آئے تھے، خواہ یہ وہ جوانب ہوں جو لکھنے اور بولنے میں آتے ہیں اور خواہ وہ جوانب جو لکھنے اور بولنے سے بھی عیاں تر ہوتے ہیں اور باقاعدہ صحبت و رمز شناسی سے ہی مکتسب ہوتے ہیں.. فکر و عمل کے اُن سب جوانب کو یہ باقاعدہ ایک علم کی صورت میں تابعینؓ سے لیتے رہے۔
پس یہ وہی دبستانِ صحابہؓ ہے جس میں پڑھ پڑھ کر تابعینؒ آگے تبع تابعینؒ کو پڑھاتے رہے۔ (واضح رہے، ائمہ اربعہؒ تبع تابعینؒ میں آتے ہیں، یعنی یہ صحابہؓ کے پوتا شاگرد بنتے ہیں)۔ اِسی دبستان کو علمائے سنت کی اصطلاح میں ’’سلف‘‘ کہا جاتا ہے۔
یعنی درحقیقت صحابہؓ کا مدرسہ۔۔۔!
جس شخص کو یہ باقاعدہ ایک تسلسل نظر نہیں آتا اور جس شخص کو اِس مدرسہ کے اختیار کردہ معیارات کوئی معیارات نظر نہیں آتے، اور اسکی ایک ایک چیز دوسری پر بنا کرتی ہوئی اور ایک دوسری کے ساتھ گندھی ہوئی نظر نہیں آتی۔۔۔، وہ اس شخص سے مختلف نہیں جو نصف النہار کے سورج کو سورج ماننے پر تیار نہ ہو۔
نصوص کے قبول و تلقی اور امتثال و اتباع کا معیار اگر کسی کو یہاں سے نہیں ملتا تو پھر اس کیلئے کوئی معیار ہے ہی نہیں۔ ایسے شخص کو واقعتا چاہیے وہ قیامت تک امت کو ’بحثوں‘ میں مشغول رکھے!
پس یہ ہے وہ دبستان جو ہمیں نہایت واضح انداز میں ایک پیمانہ فراہم کرتا ہے۔ اِس دبستان کے اندر پھر آگے(حاشیہ۳) کئی ایک دبستان ہیں۔ (حاشیہ۴)
(واضح رہے، یہاں ہماری گفتگو ’’مصدرِ تلقی‘‘ پر ہو رہی ہے او ر ’’مصدرِ تلقی‘‘ کی بنیاد پر ’’منحرفین‘‘ اور ’’متبعین‘‘ کے مابین تمییز کیلئے درکار پیمانہ پر)۔
پس اِس دبستانِ سلف کو دیکھیں تو:
ا) نصوص کے قبول و تنقیح کے موضوع پر: کچھ باتیں ہیں جو اِس پورے دبستان اور اس کے سب مدارس کے مابین مشترک ہیں، اور یہ ایک بہت بڑا دائرہ ہے..
(اور درحقیقت یہ ہمارے اُس سوال کا جواب ہے جو ہم نے چار صفحات پیشتر اٹھایا ہے، یعنی ’’متبعین حق‘‘ کے اِس دائرہ کی حدود کیا ہونی چاہئیں اور وہ کونسے طبقے ہوں گے جن کو اِس دائرہ سے باہر ہونے پر ہم ایک ’’نئی چیز‘‘ اور ایک ’’انحراف‘‘ قرار دیں گے؟)
ب) پھر نصوص کے قبول و تنقیح سے متعلق: کچھ باتیں ایسی ہیں جن میں اِس دبستان کے معروف و معتمد علیہ مدارس کے مابین کچھ فرق بھی پایا گیا ہے۔ (مثال کے طور پر ’’اخبارِ آحاد‘‘ کے قبول کرنے میں مدرسۂ حجاز یا مدرسۂ عراق کے معیارات کا قدرے مختلف ہونا، یا مدرسۂ مالک اور مدرسۂ شافعی کے مابین نصوص کے اثبات سے متعلق کچھ فرق پایا جانا)(حاشيہ5) اور یہ ایسی چیزیں ہیں جن پر اِس دبستان کے مختلف مدارس نے آپس کے اندر ایک صحت مند اختلاف تو کیا اور بحث و مناقشہ بھی خوب خوب کیا، مگر نہ تو اس پر وہ شدت اپنائی جو اِس دائرہ کے باہر کے لوگوں (مانند روافض، خوارج، قدریہ، جہمیہ، معتزلہ اور باطنیہ وغیرہ) کے ساتھ اپنا رکھنا یہ لوگ دین کا ایک باقاعدہ حصہ جانتے تھے.. اور نہ ان کو بنیاد بنا کر آپس میں ایک دوسرے کے خلاف ویسا کوئی محاذ کھڑا کیا۔
(اور یہاں سے ہمیں اپنے اُس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ نصوص کے قبول و تنقیح سے متعلق اصول رکھنے میں کتنا سا تنوع ہو تو آدمی اُسی ’’دائرے‘‘ کے اندر رہتا ہے جسے ہم ’’اہل اتباع‘‘ کا دائرہ قرار دیں؟)
اِس ’’دبستانِ سلف‘‘ کے مختلف مدارس کے مابین ہونے والے بحث و تنازعہ کے دوران اگر کچھ گرمجوشی بھی پائی گئی، یا حتیٰ کہ کسی وقت اُن کا آہنگ بلند بھی ہو گیا۔۔۔ تو یہاں سے بھی ہمیں کوئی معیار ہی ملا۔ مثلاً کسی کسی وقت ’’اہل الحدیث‘‘ و ’’اہل الرأی‘‘ کے مابین __ خاص علمی ماحول کے اندر، نہ کہ ’عامۃ الناس‘ کی سطح پر اور نہ ہی ’مسجدیں الگ کر لینے‘ والی سطح پر __ بحث و نزاع اور رَدّ و تعقیب کے اندر کبھی کوئی شدت بھی آگئی، یا مثلاً عبداللہ بن عباسؓ کچھ تلامذہ کو حجِ تمتع کے مسئلہ پر حدیث کے حوالہ کے سامنے ابو بکرؓ و عمرؓ کے فتاویٰ کا ذکر کر دینے پر از راہِ تعلیم یہ سرزنش تک کر دیتے ہیں کہ ’’مجھے ڈر ہے تم پر آسمان سے پتھر نہ پڑنے لگیں، میں تمہیں بتاتا ہوں قالَ رسول اللہؐ اور تم مجھے بتاتے ہو قالَ ابو بکرؓ و عمرؓ؟‘‘۔۔۔ تو یہ سب کچھ اُن اسالیب اور آداب کو واضح کرنے کیلئے جو نصوصِ شریعت کی تعظیم کے معاملہ میں خود اہل ایمان کے مابین کسی وقت اختیار کر لئے جاتے ہیں۔
تاہم یہ ایک واقعہ ہے کہ جس طرح یہ لوگ اہل اہواء و بدعات (مانند خوارج، روافض، قدریہ اور معتزلہ وغیرہ) کے خلاف باقاعدہ برسر جنگ ہو جاتے رہے اور اُنکے خلاف اپنی اس جنگ کو عامۃ الناس کی سطح تک لے جاتے رہے یہاں تک کہ اُن کے ساتھ مجالست اور مؤاکلت تک کو ممنوع ٹھہرا دیتے رہے، یہاں تک کہ اُن کو دھکے دے دے کر مساجد سے نکال دیتے رہے اور برسر محفل ذلیل و بے عزت کر کے اپنی مجالس سے اٹھا دیتے رہے۔۔۔ یہ اسلوب دبستانِ سلف کے یہاں خود اپنے آپس کے فقہی مدارس کے مابین بہرحال روا نہیں رکھا گیا۔ خوارج اور روافض اور معتزلہ وغیرہ کے خلاف فقہائے عراق (اصحابِ ابوحنیفہؒ و ابویوسفؒ و محمدؒ ) بھی برسر جنگ ہوئے، فقہائے حجاز (اصحاب مالکؒ ) بھی اور فقہائے شام ومصر (اصحاب لیثؒ و اوزاعیؒ و شافعیؒ ) بھی اور بغداد کے حنابلہ بھی۔ یعنی مبتدعہ کے خلاف یہ سب کے سب مدارس ایک صف اور ایک محاذ بن کر رہے اور شدت اپنانے میں بھی حد کر دیتے رہے، اور اِس (بدعات والے) محاذ پر ہم دیکھتے ہیں ہمیشہ ایسا رہا۔
لیکن جہاں تک اِن (اہل سنت مدارس) کے آپس کا معاملہ ہے تو اِن کے آپس کے مابین ایک وحدت اور یگانگت ہی رہی اور بحث و تنازعہ کا دائرہ خاص علمی مجالس اور علمی ماحول سے باہر نہیں جانے دیا گیا۔ کہاں اہل بدعت و اہل ضلال کے ساتھ وہ شدید ترین اور درشت ترین رویے اور کہاں آپس کا یہ معاملہ کہ امام بخاریؒ کسی وقت فقہائے عراق کے خلاف اپنا پوائنٹ لائیں تو ’’قال بعض الناس‘‘ سے بڑھ کر کوئی ایک لفظ نہ بولیں!
صحابہؓ کا یہ مدرسہ اپنے پہلے تین ادوار میں، کہ جب اِس کی آب و تاب آسمان تک پہنچتی تھی، ’’سلف‘‘ کے نام سے تعبیر ہوتا ہے۔ بعد ازاں یہی مدرسہ ’’اہلِ سنت‘‘ کے عنوان سے اپنا تسلسل قائم کر کے رہا۔ تاہم اِس مدرسہ کے معیارات سامنے آنے کا بہت بڑا کام ’’دورِ سلف‘‘ میں ہی اِس کامیابی کے ساتھ پایۂ تکمیل کو پہنچ چکا تھا کہ بعد ازاں اِس کے اندر کوئی بہت اساسی کام نہیں کرنا پڑا۔ بعد کے اِن تمام ادوار میں ’’اہل سنت‘‘ کو کوئی چیلنج رہا تو وہ یہی کہ وہ ’’سلف‘‘ کے قائم کردہ معیارات پر کوئی آنچ نہ آنے دیں اور زمانے کی آندھیوں کو ان پر اثر انداز نہ ہونے دیں۔ یعنی اصل اور بنیادی کام جو بھی ہوا دورِ سلف میں ہی انجام پا گیا۔
اب ’’دورِ سلف‘‘ سے گزر کر بعد کے ’’ائمۂ سنت‘‘ کے دور میں بھی آجائیے۔۔۔ اہل بدعت کے خلاف محاذ بدستور گرم رہا بلکہ کسی کسی وقت اور بھی شدت اختیار کر گیا، جبکہ اہل سنت کے اپنے مدارس کے مابین معاملہ علمی بحث و رَدّ کے دائرہ سے باہر نہیں گیا۔ یعنی آپس کے اِن علمی نزاعات کے معاملہ میں نہ ایک دوسرے کو ’’دائرۂ حق‘‘ سے باہر ٹھہرایا گیا اور نہ ایک دوسرے کے خلاف کوئی ایک بھی فریق اپنا کیس ’عوام‘ کی عدالت میں لے کر گیا۔ بدعتی ٹولوں کو ضرور وعیدیں بھی سنائی گئیں اور تائب ہو جانے کی تاکیدیں بھی؛ مجالس کے اندر بھی اور بر سر منبر بھی۔ مگر آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ یہ اسلوب نہیں اپنایا گیا۔ تیسری صدی ہجری سے لے کر آٹھویں، نویں اور دسویں صدی ہجری تک اتنے بڑے بڑے علم کے پہاڑ ائمۂ سنت ہو گزرے ہیں، کبھی کسی کے ہاں حنفیوں کو اُن کے مذہب سے ’’تائب‘‘ کروانے کی تحریک چلائی گئی ہو، شافعیوں کو اُن کی ’’گمراہی‘‘ سے نکل آنے کی کوئی صدا گلی گلی لگائی ہو، مالکیوں اور حنبلیوں کو ’’ضلالت‘‘ کی وعیدیں سنانے کا کوئی صبح شام کا مشغلہ اختیار کیا گیا ہو، غیر مقلدوں کو ایک ’’گالی‘‘ بنا کر پیش کرنے اور امام ابو حنیفہؒ یا امام شافعیؒ وغیرہ کی ’’نافرمانی‘‘ پر ان کو ’’راہِ حق سے برگشتہ‘‘ قرار دینے کی کوئی دعوتِ عام برپا کی گئی ہو۔۔۔ ایسی کوئی بھی چیز آپ کو اِن ائمہ فقہاء ومحدثین اور اِن علمائے عقیدہ کے ہاں نہ ملے گی۔
اب جب ائمۂ سنت کے یہاں ایسی کوئی تحریک نہیں چلائی گئی۔۔۔ تو یا تو یہ سب کے سب ائمہ ’رواداری‘ کے کسی ایسے منہج پر ہوں جو ہمیں آج کے دانشور ٹولوں کے ہاں ملتا ہے؛ کہ کسی کو گمراہ کہنا ہی نہیں۔ ظاہر ہے ایسی بھی بات نہیں ہے؛ اہل بدعت کے خلاف یہ ائمہ ننگی تلوار ہی بن کر رہے ہیں۔ جبکہ ’حنفی Vs شافعی‘ اور ’مقلد Vs غیر مقلد‘ ایسی جنگوں کی حوصلہ افزائی بھی اِن ائمۂ علم نے کبھی نہیں کی ہے، بلکہ جس حد تک ہو سکا اِن داخلی جنگوں کی حوصلہ شکنی ہی کی۔ اہل سنت کی اِن داخلی جنگوں کو ’’تعصب‘‘ سے تعبیر کیا، اور ہاں اِس ’’تعصب‘‘ کے خلاف البتہ ضرور ایک شدید ترین جنگ کی۔ یہ سب بلا وجہ نہ تھا۔ یہ دراصل اُس ’’معیار‘‘ کی عملی تطبیق تھی جو اِس باب میں ’’دورِ سلف‘‘ سے لے کر چلا آیا تھا، اور جو ہر دور کے اہل حق پر یہ نہایت واضح کر دیتا رہا ہے کہ ان کو جنگ کرنی ہے تو کس محاذ پر اور وحدت و اُلفت قائم کرنی ہے تو کس دائرہ کے اندر۔
*****
’’فہم دین‘‘ کے معاملہ میں ’’سلف کی اتباع‘‘ کی اہمیت اور لزوم پر ابھی ہم آگے چل کر بات کریں گے (کتاب کے حصہ دوم و سوم میں)۔ یہاں پر جتنی گفتگو ہوئی وہ اسلئے کہ اُس ’’دائرہ‘‘ کا تعین ہو جائے جس کے اندر نصوص کے قبول اور تنقیح (تلقی) کے معاملہ میں اگر کوئی ’’تعددِ آراء‘‘ پایا گیا ہے تو اس کو باعث تفرقہ نہ جانا جائے؛ یعنی ’’اہل سنت‘‘ کے دائرہ میں آنے والے اِس ’’تعددِ آراء‘‘ یا ’’تعددِ مدارس‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے ہی ’’اہل اتباع‘‘ کے ایک وسیع تر دائرہ کا تعین اور شناخت کی جائے۔
اِس دائرہ کے اندر آپ ضرور اپنے لئے خوب سے خوب تر کی تلاش کیجئے اور اپنی علمی و فکری ترجیحات کو دیگر فریقوں کے ساتھ بھی کھل کر شیئر کیجئے؛ بحث و نقاش کی راہ بھی پوری طرح کھلی ہے؛ صحت مند تبادلۂ افکار جتنا چاہیں کریں، مگر اِس دائرہ کے اندر پائے جانے والے فریقوں کے اختلاف کیلئے ’’ہدایت Vs ضلالت‘‘ اور ’’نجات Vs بربادی‘‘ ایسے الفاظ پر مشتمل ایک عمومی قاموس سے بہر صورت اجتناب فرمائیں۔۔۔۔ قصہ کوتاہ، یہ وہ دائرہ ہے جو ایک وسیع تر معنیٰ میں ایک ہی جماعت ہے، جسے ہم ’’اہل سنت‘‘ یا ’’اہل اتباع‘‘ کہتے ہیں اور جس کا مصدرِ تلقی اللہ کی کتاب ہے اور رسول اللہؐ کی سنت ہے۔ اِس ’’جماعت‘‘ کا ہر فریق اپنے تمام استنباطات و استدلالات، یہاں پر پائے جانے والے تمام تر تنوع کے علی الرغم، اِنہی دو بابرکت مصادر سے کرتا ہے۔
اِس بیان کے بعد یہ واضح ہو جانا کچھ مشکل نہیں کہ: آج آپ کے سامنے مذاہب اربعہ کی صورت میں جو طوائف پائے جاتے ہیں یعنی احناف، شوافع، مالکیہ اور حنابلہ (جبکہ ہمارے برصغیر میں مذاہب اربعہ میں سے ایک بڑی سطح پر صرف احناف پائے جاتے ہیں اور یا پھر محدود سی سطح پر، خصوصاً ہمارے جنوبی ساحلوں پر، شوافع).. پھر اِن مذاہب اربعہ کے علاوہ بھی جو طوائف کتاب اور سنت کو اپنے تلقی کی بنیاد ماننے والے پائے جاتے ہیں، چاہے ان کا کوئی خاص نام ہے مانند اہل حدیث و اہل الظاھر وغیرہ (جن کی ایک معتد بہٖ تعداد برصغیر کے اندر پائی جاتی ہے) یا ان کا کوئی خاص نام نہیں ہے۔۔۔ یہ سب گروہ ’’مصادرِ دین‘‘ کی بابت کوئی بہت بنیادی و جذری اختلاف نہیں رکھتے، اور اس بنا پر یہ سب کے سب اصحابِ اتباع میں آتے ہیں(حاشیہ ۶)۔ ان سب طوائف کے مصادرِ دین کتاب اللہ، سنت رسول اللہؐ اور اجماعِ امت ہیں۔ البتہ ان مصادر سے فہم و فقہ لینے میں ان طوائف کے مابین ضرور ایک تنوع پایا جاتا ہے.. جوکہ جب تک صحت مند رہا، اور بلاشبہہ کئی صدیاں ایسا رہا،امت کی فقہی تاریخ کے ایک قابل رشک واقعے کے طور پر دیکھا گیا۔ ہاں اس ’’تنوع‘‘ کے اندر ان آخری زمانوں میں آکر اب بڑی سطح پر ایک اضطراب بھی پایا جانے لگا ہے؛ جس کے باعث یہ ’’تنوع‘‘ بڑی حد تک اب ایک ’’تضاد‘‘ کی صورت دھار گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی صورت درست کرنا اب بے حد ضروری ہوگیا ہے۔۔۔ اور یہی وہ ضرورت ہے جس نے ہمیں اپنی یہ ناچیز تالیف سامنے لانے پر آمادہ کیا ہے۔
المختصر، یہ سب طبقے معتبر علمائے امت کی نگاہ میں اہل سنت کے اندر آتے ہیں۔ نیز یہ سب طوائف آج پیدا نہیں ہوئے بلکہ کوئی ہزار بارہ سو سال سے امت کی تاریخ میں ’’ایک جماعت‘‘ اور ’’ایک محاذ‘‘ چلے آتے ہیں۔ ہمیشہ، یہی __ مل کر __ باہر سے حملہ آور دشمن کے خلاف جہاد کیلئے صف آرا ہوتے رہے ہیں.. اور یہی، اپنے گھر کے اندر نقب زن اہل بدعت و اہل زندقہ کے خلاف، __ مل کر __ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے رہے ہیں۔۔۔۔ اور آج بھی امت کے سب اندرونی و بیرونی محاذوں پر اِسی ایک جماعت ہی کے __ مل کر __ صف آرا ہونے کی دیر ہے، کہ وہ خوبصورت کہانی جو کچھ دیر سے رک سی گئی ہے، بلکہ اِس جماعت کے اپنے ہی فریقوں کے مابین ایک جنگ کھڑی ہو جانے کے باعث بد صورتی کا بھی شکار ہو چکی ہے، پھر سے اپنی اُسی آب و تاب کے ساتھ شروع ہو جانے والی ہے اور آسمانی نصرت کو بھی منا کر ایک بار پھر اپنی پشت پر لے آنے والی ہے۔۔۔ بلکہ کوئی دیکھنا چاہے تو اِس کی شروعات دیکھ بھی سکتا ہے!
_________________________________________________
(حاشیہ ۱)
برصغیر کے اہل علم کی معتد بہ تعداد نے انکارِ حدیث کے حوالہ سے یہاں پر پائے جانے والے ایک نہایت مشہور طائفہ، جو ’’پرویزیوں‘‘ کے نام سے معروف رہا ہے، کی تکفیر کی ہے۔ ’’رد حدیث‘‘ کے حوالے سے یہ ایک نہایت صریح وبدزبان طائفہ رہا ہے اور وہ باتیں جو آدمی زبان پر لا تک نہیں سکتا اِس طائفہ کے ہاں محاوروں کی حیثیت اختیار کئے رہی ہیں۔ پس واضح رہے، تکفیر ایسا شدید حکم ’’پرویزیت‘‘ ایسے ہی کسی صریح الکفر طائفہ کیلئے ہی روا ہے۔ البتہ ’’رد حدیث‘‘ کا فنامنا اِس سے کہیں زیادہ وسیع ہے اور ہزار شکلوں میں پایا جاتا ہے؛ اور سب پر اِس قسم کا شدید حکم لگانا اہل علم سے ثابت نہیں۔
(حاشیہ ۲)
یہاں بات ’’مصدرِ تلقی‘‘ کے حوالے سے ہو رہی ہے جوکہ اہلسنت کے ہاں شدید سختی کا متقاضی ایک مبحث ہے۔ تاہم ایسا نہیں ہے کہ نصوص کی تفسیر اور تعبیر کے میدان میں جدت پسندوں نے مصائب کھڑے کر کے نہ دیے ہوں۔ لہٰذا فہم اور تفسیر کے حوالے سے بھی بہت سی باتیں ہیں جو جدت پسندوں کے پیدا کردہ مصائب کے حوالے سے اس کتاب میں آگے چل کر واضح کی جائیں گی۔
(حاشیہ ۳)
مراد ہے اسلام کے وہ اولین فقہی مدارس جن کی بنا دورِ صحابہؓ ہی کے دوران پڑ گئی تھی۔ خلفائے راشدین کے ابتدائی عہد میں معاملہ اور تھا؛ جب ’’نصوص‘‘ کا سرمایہ بھی سب کا سب مدینہ ہی میں پڑا تھا اور ’’قلوب‘‘ کا سرمایہ بھی۔ البتہ بعد ازاں، جیسے ہی اِس مدرسہ کے درخشاں ستارے مفتوحاتِ اسلام میں اپنی اپنی روشنی بکھیرنے کیلئے جہان بھر کے اندر پھیل گئے، وہ پہلے والا معاملہ کہ جب سارے کا سارا علم اور اِس علم کے مخزن وہ سب کے سب پاکیزہ قلوب مدینہ کے اندر یکجا پائے جاتے تھے، باقی نہ رہا.. چنانچہ اب ایک دوسرا عہد شروع ہوا جوکہ ’’فقہی مدارس‘‘ کے وجود میں آنے، پروان چڑھنے، اور بالآخر ہر مدرسہ کے اپنے اپنے اصول اور امتیازات سامنے آنے پر منتج ہوا۔
یہ جو دوسرا عہد ہے، اور جوکہ دورِ صحابہؓ ہی میں شروع ہو جاتا ہے، اپنی نوعیت و ماہیت کے اعتبار سے ایک نئی ڈویلپمنٹ تھی۔ ہمارے وہ سادہ لوح طبقے جن پر (صحابہؓ کے بلادِ عالم میں متفرق ہونے سے پیداشدہ) یہ نئی علمی تصویر واضح نہیں، وہ بہت سی الجھنیں پیدا کر کے لوگوں کو دے دیتے ہیں۔
اِس کی کچھ وضاحت آپ کو اِس بات سے ہو جاتی ہے کہ خلیفہ منصور (بعض روایات کی رو سے رشید) (۳)نے جب امام مالکؒ کے سامنے اپنے اِس ارادہ کا اظہار کیا کہ وہ مؤطا مالک کو سب مسلم خطوں میں لاگو کر دے، تو امام مالک نے خلیفہ کو اِس سے منع کرتے ہوئے اس کی جو وجہ بیان کی وہ آج بھی ہمارے لئے قابل غور ہے۔ امام مالک کی اِس بات کا لب لباب یہ تھا کہ: اصحابؓ رسول ا مختلف امصار (خطوں) کے اندر پھیل گئے تھے؛ نتیجتاً ایک خطہ کے لوگ جن اقوال اور روایات اور فتاویٰ کو ایک بار اپنا معمول بنا چکے، لوگوں کو اُس سے ہٹا کر ایک دوسری چیز تھمانا اُن کو مشقت میں ڈال دینے کا موجب ہے۔ کسی خطے کا جو معمول (عہد صحابہؓ سے لیکر) چل گیا، اب اُسی کو چلنے دیا جائے۔
ابن تیمیہؒ نے امام مالکؒ کے جو الفاظ نقل کئے وہ یہ ہیں:
إن أصحابَ رسولِ اللہ ﷺ تفرقوا فی الأمصار، وقد أخذ کل قوم من العلم ما بلغہم۔
(مجموع الفتاویٰ، ج ۳۰، ص ۷۹، کتاب الفقہ، باب الشرکۃ، فصل سئل عمن ولی أمرا)
’’اصحابِ رسول اللہؐ ملکوں کے اندر بکھر گئے تھے۔ اب ہر قوم (اُنکے) علم سے وہ چیز لے چکی ہے جو اُنکو (اُن صحابہؓ سے) پہنچی ہے‘‘
ذہبیؒ نے امام مالکؒ کے الفاظ کچھ زیادہ تفصیل سے نقل کئے ہیں:
یا أمیر المؤمنین لا تفعل۔ فإن الناس قد سبقت إلیہم أقاویل، وسمعوا أحادیث، ورووا روایات، وأخذ کل قوم بما سبق إلیہم، وعملوا بہ، ودانوا بہ، من اختلاف أصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہم، وإن ردَّہم عما اعتقدوہ شدید، فدعِ الناس وما ہم علیہ وما اختار أھل کل بلد لأنفسہم۔ ( سیر أعلام النبلاء، ج ۸، ص ۷۸ ط مؤسسۃ الرسالۃ)
امیر المومنین! ایسا مت کیجئے۔ کیونکہ اِس سے پہلے لوگوں کے یہاں اقوال پہنچے ہوئے ہیں۔ لوگوں تک (مختلف) احادیث پہنچی ہوئی ہیں۔ (مختلف) روایات اُنکو ملی ہوئی ہیں۔ اصحابِ رسول اللہؐ و دیگر اہل علم کے اختلاف سے ہر قوم کو جو چیز پہنچی وہ اس کو لے چکی۔ اُس کو معمول بنا چکی، اور اُسکو دین کے طور پر اختیار کر چکی۔ اب وہ جس چیز کے قائل ہو چکے، اُس سے اُن کو ہٹانا ایک شدید بات ہے۔ لہٰذا لوگوں کو اب ان کے حال پر چھوڑ دیجئے، اور ہر ملک کے لوگوں نے جن اشیاء کو اختیار کر لیا اُن کو اُسی پر رہنے دیجئے۔
(حاشیہ ۴)
مثال کے طور پر: دبستانِ مدینہ جس کی گدی عائشہؓ، زید بن ثابتؓ اور ابن عمرؓ سے ہوتی ہوئی، اور پھر سعید بن مسیبؒ ، عروہ بن زبیرؒ اور فقہائے سبعہ وغیرہ سے ہوتی ہوئی، اور آگے زہریؒ اور یحییٰ بن سعیدؒ سے منتقل ہوتی ہوئی مالک بن انسؒ کے پاس آتی ہے۔ دبستانِ مکہ جس کی گدی ابن عباسؓ سے ہوتی ہوئی، اور پھر عکرمہؒ ، مجاہدؒ اور عطاءؒ سے ہوتی ہوئی، اور آگے سفیان بن عیینہؒ اور مسلم بن خالدؒ سے منتقل ہوتی ہوئی محمد بن ادریس شافعیؒ کے پاس آتی ہے (شافعیؒ کے دورِ اول کے لحاظ سے)۔ دبستانِ عراق جس کی گدی علیؓ بن ابی طالب و ابن مسعودؓ سے ہوتی ہوئی، اور پھر علقمہ بن قیسؒ اور قاضی شریحؒ سے ہوتی ہوئی، اور آگے ابراہیم نخعیؒ اور پھر حماد بن سلیمانؒ سے منتقل ہوتی ہوئی ابو حنیفہ النعمانؒ کے پاس آتی ہے۔ دبستانِ مصرجس کی گدی عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے ہوتی ہوئی، اور بعد ازاں یزید بن حبیبؒ ، اور بعد ازاں لیث بن سعدؒ وغیرہ سے منتقل ہوتی ہوئی محمد بن ادریس شافعیؒ کو ملی (شافعیؒ کے دور دوئم کے لحاظ سے)۔ اور اس کے علاوہ کئی دبستان۔
(حاشیہ ۵)
اخبارِ آحاد کے قبول و عدم قبول کے حوالہ سے یہاں ہم کچھ بنیادی امور کو واضح کر دینا چاہیں گے۔۔۔
۱) قرآن تو اللہ کے فضل سے پورے کا پورا متواتر ہے۔ حدیث کا بھی ایک بڑا حصہ ایسا ہے جو اگر متواتر نہیں تو بھی محدثین و فقہائے اہلسنت کے ہاں محل اتفاق ہے۔
جن احادیث کو قرونِ سلف میں بالاتفاق قبول کیا گیا ہے؛ اور مذاہب اربعہ سمیت زمانۂ اول کے سب علمائے سنت نے اُن احادیث کو اپنے استدلال واحتجاج کی بنیاد بنایا ہے۔۔۔ اور جو کہ احادیث کا ایک بے حد بڑا ذخیرہ ہے؛ اگرچہ فنی اعتبار سے وہ احادیث ’متواتر‘ کی تعریف میں نہ آتی ہوں پھر بھی عملی و واقعی اعتبار سے وہ احادیث قطعی طور پر حجت ہیں، بلکہ بقولِ امام ابو العزؒ : وہ متواتر ہی کی ایک قسم ہیں؛ بعد کے ادوار کا ہر وہ جدت پسند جو ان احادیث کو مشکوک ٹھہرانے کیلئے زور لگائے گا، اگرچہ وہ اِس مقصد کیلئے ہمارے اصولِ حدیث ہی کے ساتھ کیوں نہ کھیل رہا ہو اور بے شک وہ اِدھر اُدھر سے اہلسنت کی کتبِ رجال کے حوالے ہی کیوں نہ دے رہا ہو، ایسا جدت پسند الحاد اور زندقہ کا ایک دروازہ کھول کر امت کو دے رہا ہو گا اور اپنی کسی ھوائے نفس کی ہی تسکین کر رہا ہو گا اور اپنے زمانے کے باطل کی ہی کسی نہ کسی خدمت میں لگا ہوگا۔ ایک مسلمان کیلئے ایسے گمراہ شخص کی بات سننا تک صحیح نہیں ہے۔
پس یہ بات سمجھ لی جانا ضروری ہے کہ ایک مجرد انداز میں حدیث کی جو اقسام بیان کی جاتی ہیں مثل ’’مستفیض‘‘ یا ’’عزیز‘‘ یا ’’غریب‘‘ وغیرہ.. حدیث کی اِن اقسام اور اِن تعریفات کا نظری طور پر زیر بحث آنا اور کسی کسی وقت بخاری یا مسلم یا موطا وغیرہ سے ’’مستفیض‘‘ یا ’’عزیز‘‘ یا ’’غریب‘‘ وغیرہ کی مثالیں دے لی جانا محض اور محض ایک طالبعلمانہ عمل ہے اور اس کا کل تعلق سیکھنے سکھانے کے ساتھ ہے۔ البتہ جہاں تک حقیقت کا معاملہ ہے: تو وہ چند ہزار احادیث (برسبیل مثال) جو ایک بار بخاری میں ثبت ہو گئیں اور امت کے ہزاروں کے ہزاروں علمائے محدثین اُس پر اپنے مکمل علمی بھروسہ کا اظہار کر چکے اور امت کے ہزاروں کے ہزاروں علمائے فقہاء ان احادیث کو اپنے احتجاج کی بنیاد بنا چکے (جبکہ اپنے متن اور مضمون کے اعتبار سے یہ عین وہی احادیث ہیں جن کو ہزاروں کے ہزاروں علمائے محدثین وفقہاء نے بخاری میں درج ہونے سے پہلے بھی عین یہی حیثیت دے رکھی تھی؛ یعنی امت کے محدثین اِن احادیث کو صحیح جانتے تھے اور امت کے فقہاء ان کو احتجاج کی بنیاد مانتے تھے؛ بخاری نے اس حوالے سے کوئی بھی نیا کام نہیں کیا)۔۔۔ تو امت کے ہزاروں کے ہزاروں محدثین وفقہاء کی اِس شہادت کے آجانے کے بعد یہ احادیث نہ تو محض محمد بن اسماعیلؒ نامی ایک شخص کی تصنیف رہ گئیں اور نہ ہی مجرد ’مستفیض‘ یا ’عزیز‘ یا ’غریب‘ قسم کی کوئی چیز۔ امت کے اِن احادیث کو قبول کر لینے کے واقعہ نے اِن احادیث کو اب اِس سے ایک بہت اوپر کی حیثیت دے دی ہے؛ یہ احادیث اب امر ہو چکیں؛ یعنی پتھر پر لکیر۔ قیامت تک اب جس کو بھی آنا ہے اُسکو اِن احادیث کو من و عن لے کر آگے چلنا ہے۔ اِن میں مین میخ نکالنے یا ان کو کنڈم ٹھہرانے کیلئے ایسی کسی حدیث کا فائل نئے سرے سے کھولنے کا عمل ابتداءً اور اصولاً باطل ہے؛ ایسے شخص کے ساتھ اُس حدیث پر ’فنی بنیادوں پر‘ جھگڑا کرنا تو بعد کی بات ہے۔ یہی حکم اِس صنف میں آنے والی اُن ہزاروں حدیثوں کا ہو گا جو صحیح مسلم میں آئی ہیں اور یہی حکم موطا یا مسند یا سنن وغیرہ میں آنے والی ہزار ہا ہزار احادیث کا ہو گا۔
دوبارہ عرض کر دیں: یہاں ہم اُن احادیث کی بات کر رہے ہیں جو قرونِ سلف میں امت کے محدثین کے ہاں ثبوت کے معاملہ میں اور امت کے فقہاء کے ہاں احتجاج کے معاملہ میں قبول ٹھہر چکی ہیں، اور جوکہ ذخیرۂ حدیث کا ایک بے حد بڑا حصہ ہے۔
امام ابن ابی العز الحنفیؒ اپنی شہرہ آفاق تصنیف شرح عقیدہ طحاویہ کے اندر رقمطراز ہیں:
وَخَبَرُ الْوَاحِدِ إِذَا تَلَقَّتْهُ الْأُمَّةُ بِالْقَبُولِ عَمَلًا بِهِ وَتَصْدِيقًا لَهُ -: يُفِيدُ الْعِلْمَ الْيَقِينِيَّ عِنْدَ جَمَاهِيرِ الْأُمَّةِ، وَهُوَ أَحَدُ قِسْمَيِ الْمُتَوَاتِرِ. وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَ سَلَفِ الْأُمَّةِ فِي ذَلِكَ نِزَاعٌ
(شرح الطحاویۃ، ص ۳۹۹)
خبر واحد جب ایک بار امت کے ہاں قبول ٹھہر چکی ہو، اُس پر عمل ہو جانے کی صورت میں اور اُس کو سچ مان لیا جانے کی صورت میں.. تو علمائے امت کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ یہی مذہب رکھتے ہیں کہ ایسی خبر علم یقینی کا فائدہ دیتی ہے۔ اور یہ متواتر ہی کی دو قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ سلفِ امت کے مابین اِس معاملہ میں ہرگز کوئی اختلاف نہ تھا۔
۲) رہ گئی اخبارِ آحاد کی وہ صنف: }وہ احادیث: أ { جن کے ثبوت کے معاملہ میں قرونِ سلف کے محدثین کے مابین اختلاف ہوا ہو، } ب { یا جن سے احتجاج کے معاملہ میں قرونِ سلف کے فقہاء کے مابین نزاع ہوا ہو۔۔۔ تو اُن پر علمی مذاکرے کوئی آج بھی جتنے چاہے کر سکتا ہے اور اُن کے ثبوت یا ان سے احتجاج پر فریق مخالف کو غلط ٹھہرانے کا حق بھی وہ یقیناًرکھتا ہے.. مگر یہ اختلاف کا یہ وہ دائرہ ہے جس میں وعید اور شدت کا انداز نہیں اپنایا جائے گا۔ اور نہ اِس کو عداوت اور تفرقہ کی بنیاد بنایا جائے گا۔
اختلاف کا وہ دائرہ جو قرونِ سلف کو حاصل تھا __ خواہ کسی حدیث کے ثبوت کے معاملہ میں ہو یا اُس حدیث سے احتجاج کے معاملہ میں __ اختلاف کا عین وہی دائرہ آج ہمیں بھی حاصل رہے گا۔ یہاں پر علمی اخذ و رد کوئی جتنا چاہے کرے، کہ یہ ایک صحتمند عمل ہے، مگر یہ محاذ آرائی کا میدان بہرحال نہیں۔
اِس دائرہ کے اندر:
کسی ایک حدیث کے ثبوت یا اُس سے احتجاج کے معاملہ میں حنفیہ اور شافعیہ کے مابین ہونے والے علمی مناقشہ پر کتابوں کی کتابیں وجود میں آ سکتی ہیں اور جس میں کوئی حرج کی بات نہیں، البتہ اُس حدیث کے ثبوت یا احتجاج کے معاملہ میں حنفیہ اور شافعیہ دست وگریباں نہیں ہوں گے۔
مالکیہ اور ظاہریہ (واہلحدیث) کسی ایک حدیث کے ثبوت یا عدم ثبوت کے موضوع پر یا اُس سے احتجاج یا عدم احتجاج کے مسئلہ پر اپنا پورا علمی زور صرف کریں گے اور ایک دوسرے کے پوائنٹس کا خوب خوب صفایا کریں گے، جس میں ہرگز کوئی حرج کی بات نہیں؛ مگر ایک دوسرے پر ’حدیث کا منکر‘ یا ’نبیﷺ کا نافرمان‘ ہونے کے فتوے نہیں لگائیں گے اور نہ ہی ایک دوسرے کو ’شرک فی الرسالت‘ کا طعنہ دیں گے۔ نیز اِن علمی اختلافات کو ’عوام کی عدالت‘ میں لے کر بھی نہیں آئیں گے۔
۳) جہاں تک اِس (مؤخر الذکر) صنف میں آنے والی اخبارِ آحاد کے اِسنادی ثبوت کا تعلق ہے __ اور جوکہ زیادہ تر مصطلح الحدیث اور علم الرجال کا موضوع ہے __ تو یہاں پر کسی حدیث کی تصحیح اور تضعیف پر محدثین کے مابین جو کوئی اختلاف ہو جاتا ہے، وہ تو کسی حد تک ہمارے عام نوجوانوں کیلئے قابل فہم ہوتا ہے (گو وہاں پر بھی بسا اوقات ایک علمی اختلاف کو مسلکی افتراق کی بنیاد بنا لیا جاتا ہے، جس طرح کہ (صرف ابتدائی) رفع الیدین پر عبد اللہ بن مسعودؓ کی حدیث جس کو محدثین کی ایک تعداد بشمول شیخ البانیؒ (۴)نے بہرحال قبول کیا ہے، پھر بھی ایک حدیث کے مجرد ثبوت و عدم ثبوت کے مسئلہ کو ’کفر و اسلام‘ ایسا مسئلہ تک بنا دیا جاتا ہے!)۔ یہاں مسئلہ ایک حدیث کو فنی بنیادوں پر صحیح یا ضعیف ٹھہرانے کا ہے اور اس میں محدثین کا اگر کوئی اختلاف ہو جاتا ہے تو یہ بات سمجھ آنا بہرحال کچھ ایسا مشکل نہیں، سوائے کچھ بہت ہی متعصب طبقوں کیلئے۔
۴) البتہ جہاں تک اِس صنف میں آنے والی اخبارِ آحاد سے احتجاج کا تعلق ہے __ اور جو کہ اصولِ فقہ و استدلال کا موضوع ہے __ تو یہاں فقہائے امت کے مابین جو کوئی اختلاف ہو جاتا ہے وہ ہمارے اُن نوجوانوں کیلئے جو اسلامی علوم میں نو آموز ہیں قدرے ناقابل فہم رہتا ہے اور اس وجہ سے ہمارے یہ نوجوان ایک بڑے افراط اور تفریط کا شکار بھی ہونے لگتے ہیں؛ البتہ یہاں کے مسلکی اختلافات اِفراط و تفریط کے اِن رجحانات کو بھڑکانے بھی لگتے ہیں، یہاں تک کہ دورِ سلف کے بعض بزرگوں کی بابت ایک نہایت منفی تاثر بھی پیدا کراتے ہیں۔
اب اِس سلسلہ میں مثال ہم امام ابو حنیفہؒ کی نہیں دیں گے کیونکہ یہاں کے کچھ مفرط رجحانات امام ابو حنیفہؒ کو مدرسہ اہل الرأي کا سرخیل ہونے کی بنا پر ’شک کا فائدہ‘ دینے تک کے روادار نہیں۔ نیز اُن کو حدیث کا عالم ماننے پر بھی تیار نہیں۔ یہاں مثال ہم امام مالکؒ کی دیں گے جو مدرسہ اہل الحدیث کے سرخیل ہیں، بستیِ رسولؐ کے بلا نزاع امام، اور عائشہؓ و ابن عمرؓ کے گدی نشین، وہ ہستی کہ جس کی زندگی حدیث کے تعلیم و تعلم میں گزری، رسول اللہﷺ کا خالی ذکر ہونے پر تعظیم اور عقیدت سے جس کے چہرے کی حالت غیر ہونے لگتی، اور جوکہ اِس مشہورِ عام مقولۂ حق کی اولین قائل ہے: کلٌّ یؤخذ من قولہ ویرد إلا صاحب ھذا القبر یعنی ’’ہر شخص کی بات لی بھی جا سکتی ہے اور رد بھی ہو سکتی ہے، سوائے اِس قبر میں جلوہ افروز ہستیﷺ کے‘‘۔۔۔
یہ امام مالکؒ امامُ اھلِ المدینۃ ہیں جن کے اصولِ استدلال کے حوالہ سے ہر مؤلف آپ کو بتائے گا کہ خبر واحد کے قبول کیلئے وہ یہ شرط ٹھہراتے تھے کہ خبر واحد مدینہ کے اندر معروف چلے آنے والے ایک عمل کے ساتھ نہ ٹکراتی ہو۔ اب یہاں ایک سطحی علم رکھنے والا شخص بولے گا: دیکھا استغفر اللہ، حدیث رد کر دی! جبکہ معاملہ یہ ہے کہ امام مالکؒ مدینہ کے اندر معلوم و معروف چلے آنے والے ایک عمل کو رسول اللہﷺ سے چلی آنے والی روایت ہی کی ایک صورت مانتے ہیں۔ اِسی کو بعض فقہاء روایتِ عملی کہتے ہیں۔ اِس (اہل مدینہ کے تعامل) کو امام مالکؒ اِس حد تک قوی اور قابل بھروسہ جانتے تھے کہ کسی ایک آدھ شخص کی روایت سے اُس کی معارضت کرنے کو درست قرار نہ دیتے۔ اِس سلسلہ میں مالکؒ اپنے استاد ربیعۃ الرأي کا مقولہ دہرایا کرتے تھے: ألف عن ألف خیر من واحد عن واحد یعنی ’’ہزار شخص ہزار شخص سے ایک چیز کو نقل کرے وہ اِس سے کہیں مضبوط ہے کہ کوئی ایک شخص کسی ایک شخص سے روایت کرے‘‘۔
اسی طرح.. اگر ایک چیز شریعت کے عمومی اصولوں سے ثابت ہے (اور یہی چیز کسی وقت قیاس کے باب میں بھی چلی جاتی ہے جہاں پر اصولاً امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ کے مابین کوئی بڑا فرق نہیں رہ جاتا) تو امام مالکؒ اُس چیز کی معارضت میں خبر واحد سے احتجاج کرنا درست نہیں جانتے۔ یہاں بھی؛ ایک فتویٰ باز شخص کہہ سکتا ہے کہ دیکھا امام مالکؒ نے حدیث کو صاف رد کر دیا! حالانکہ مسئلہ یہاں پر تعارضِ ادلہ کا ہے؛ یعنی ایک چیز دلیل ہے تو اس کے مقابلے پر بھی دلیل ہے، اور اِس تعارض کو کوئی فقیہ ایک طریقے سے حل کرے گا تو کوئی دوسرا فقیہ کسی دوسرے طریقے سے۔ نیز یہاں پر، شاطبیؒ کے الفاظ میں، شریعت کی جزئیات کو شریعت کی کلیات کی طرف لوٹانے کا مسئلہ ہے اور شریعت کی (امام مالک کی نظر میں) ایک غیر واضح اور قابل تاویل خبر کو شریعت کی ایک واضح، محکم اور ناقابل تاویل حقیقت کی جانب لوٹانے کا باب ہے؛ جہاں پر مختلف فقہاء مختلف اسلوب اختیار کرتے ہیں۔
اِس کی مثال اور توجیہ پیش کرتے ہوئے شاطبیؓ لکھتے ہیں:
وَلِلْمَسْأَلَةِ أَصْلٌ فِي السَّلَفِ الصَّالِحِ؛ فَقَدْ رَدَّتْ عَائِشَةُ [رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا] حَدِيثَ: "إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عليه" بهذا الأصل نفسه؛ [3:190] لقولہٖ تعالیٰ ألا تزر وازرۃ وزر أخریٰ وأن لیس للإنسان إلا ما سعیٰ۔ ورَدَّت حدیث رؤیۃ النبی ﷺ لربہ لیلۃ الإسراء لقولہ تعالیٰ لا تدرکہ [3: 191]..
وردَّتْ هِيَ وَابْنُ عَبَّاسٍ خَبَرَ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي غَسْلِ الْيَدَيْنِ قَبْلَ إِدْخَالِهِمَا فِي الْإِنَاءِ؛ اسْتِنَادًا إِلَى أَصْلٍ مَقْطُوعٍ بِهِ، وَهُوَ رَفْعُ الْحَرَجِ وَمَا لَا طَاقَةَ بِهِ3 عَنِ الدِّينِ؛ فلذلك قالا: "فكيف يصنع بالمهراس"؟ [3: 192] وَرَدَّتْ أَيْضًا خَبَرَ ابْنِ عُمَرَ فِي الشُّؤْمِ، وَقَالَتْ: "إِنَّمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ عَنْ أَقْوَالِ الْجَاهِلِيَّةِ"1؛ لِمُعَارَضَتِهِ الْأَصْلَ الْقَطْعِيَّ، أَنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ، وَأَنَّ شَيْئًا مِنَ الْأَشْيَاءِ لَا يَفْعَلُ شَيْئًا، وَلَا طيرة ولا عدوى. [3: 194]
۔ ۔
وَلَقَدِ اعْتَمَدَهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ فِي مَوَاضِعَ كَثِيرَةٍ لِصِحَّتِهِ فِي الِاعْتِبَارِ، أَلَا تَرَى إِلَى قَوْلِهِ فِي حَدِيثِ غَسْلِ الْإِنَاءِ مِنْ وُلُوغِ الْكَلْبِ سَبْعًا: "جاء الحديث ولا [3: 195] أَدْرِي مَا حَقِيقَتُهُ؟ "، وَكَانَ يُضَعِّفُهُ وَيَقُولُ: "يُؤْكَلُ صيده؛ فكيف نكره لُعَابُهُ؟ ".
وَإِلَى هَذَا الْمَعْنَى أَيْضًا يَرْجِعُ قَوْلُهُ في حديث خيار المجلس؛ حيث قال [3: 196] بَعْدَ ذِكْرِهِ: "وَلَيْسَ لِهَذَا عِنْدَنَا حَدٌّ مَعْرُوفٌ، وَلَا أَمْرٌ مَعْمُولٌ بِهِ فِيهِ" إِشَارَةً إِلَى أَنَّ الْمَجْلِسَ مَجْهُولُ الْمُدَّةِ، وَلَوْ شَرَطَ أَحَدٌ الْخِيَارَ مُدَّةً مَجْهُولَةً لَبَطَلَ إِجْمَاعًا؛ فَكَيْفَ يَثْبُتُ بِالشَّرْعِ حُكْمٌ لَا يَجُوزُ شَرْطًا بِالشَّرْعِ؟ فَقَدْ رَجَعَ إِلَى أَصْلٍ إِجْمَاعِيٍّ.
وَأَيْضًا؛ فَإِنَّ قَاعِدَةَ الْغَرَرِ وَالْجَهَالَةِ قَطْعِيَّةٌ، وَهَى تُعَارِضُ هَذَا الْحَدِيثَ3 الظَّنِّيَّ. [3: 197]
۔۔ ۔
وَأَنْكَرَ مَالِكٌ حَدِيثَ إِكْفَاءِ الْقُدُورِ الَّتِي طُبِخَتْ مِنَ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ قَبْلَ الْقَسَمِ تَعْوِيلًا عَلَى أَصْلِ رَفْعِ الْحَرَجِ الَّذِي يُعَبِّرُ عَنْهُ بالمصالح المرسلة؛ فأجاز [3: 198] أكل الطعام قبل القسم لمن احتاج إليه، قَالَهُ ابْنُ الْعَرَبِيِّ.
(الموافقات للشاطبی، ج ۳ ص 190 تا 201)
’’اِس مسئلہ کی اصل (مسئلہ کی اصولی بنیاد) سلف صالحین کے ہاں موجود ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ نے حدیث [إن المیت لَیُعَذَّبُ بِبُکاءِ أهلِهٖ ’’یقیناًمردے کو اپنے گھر والوں کے رونے کے سبب سے عذاب ہوتا ہے‘‘] کو رد کیا تو وہ اِسی اصل کی بنیاد پر، کیونکہ قرآن میں اللہ کا فرمان ہے: [ألا تزر وازرۃ وزر أخریٰ وأن لیس للإنسان إلا ما سعی ’’کہ نہیں اٹھائے گی کوئی اٹھانے والی کسی دوسری کا بوجھ، اور یہ کہ نہیں ہے واسطے انسان کے وہی جس کی اُس نے خود سعی کی‘‘]۔ نیز حضرت عائشہؓ نے شب اسراء کو نبیﷺ کے دیدارِ خداوندی کرنے سے متعلق حدیث کو رد کیا، اِس آیت کی بنا پر کہ [لا تدرکہ الأبصار ’’آنکھیں اُس کو پا نہیں سکتیں‘‘]۔
۔۔۔ ۔۔۔
نیز حضرت عائشہؓ اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ دونوں نے حضرت ابو ہریرہؓ کی اِس خبر کو رد کیا جس میں ہاتھوں کو برتن میں ڈالنے سے پہلے دھونے کا حکم ہے۔ عائشہؓ و ابن عباسؓ نے ایسا دین کے ایک اصلِ قطعی کا سہارا لیتے ہوئے کیا، یعنی دین سے حرج کو اور اُس چیز کو جس کی انسان کو طاقت نہیں انسان سے رفع کردینے والا قاعدہ۔ اسی وجہ سے عائشہؓ و ابن عباسؓ نے یہاں پر یہ سوال اٹھایا کہ آدمی (مہراس) پانی کی ہودی پر ہو تو کیا کرے؟نیز عائشہؓ نے عبد اللہ بن عمرؓ کی شؤم (نحوست) والی حدیث رد کی (یعنی مکان میں، اور سواری میں اور عورت میں نحوست ہوتی ہے) اور یہ توجیہ بیان کی کہ اصل میں نبیﷺ اہلِ جاہلیت کی بات نقل فرما رہے تھے (نہ کہ نبیﷺ خود یہ قاعدہ بیان فرما رہے تھے)(۵)۔ یہ اس لئے کہ یہ چیز (مکان میں، یا سواری میں، یا عورت میں نحوست ہونا) ایک اصلِ قطعی کے خلاف جاتی ہے، اور وہ یہ کہ إن الأمر كله لله ’’ معاملہ سب کا سب اللہ کا اختیار ہے‘‘۔ اور یہ کہ کوئی چیز خود اپنے پاس سے کچھ نہیں کرتی، اور یہ کہ اسلام میں [لا طیرۃ ولا عدویٰ ’’نہ کوئی بدشگونی ہے اور نہ چھوت چھات‘‘]۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ (پھر تھوڑا آگے چل کر شاطبی لکھتے ہیں):
’’شریعت میں اِس باب سے
خاصا کچھ ہے۔ اور سلف سے اِس بات کا اعتبار کرنے میں بہت کچھ نقل ہوا ہے۔
’’اِسی چیز کو مالک بن انسؒ نے کثیر مقامات پر بنیاد بنایا ہے،
کیونکہ اِس قاعدہ کا اعتبار کیا جانا (از روئے دین) صحیح وثابت ہے۔ کیا آپ دیکھتے
نہیں وہ حدیث جس میں کتے کے منہ ڈالے ہوئے برتن کو سات بار دھونے کا کہا گیا ہے
اُس کی بابت امام مالک کہتے ہیں: حدیث آئی ہے مگر میں نہیں جانتا اِس کی اصل حقیقت
کیا ہے۔ مالک اِس حدیث کی تضعیف کیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا: اُس کا (یعنی کتے
کا) پکڑا ہوا شکار کھا لیا جائے گا (فکلوا مما أمسکن علیکم) تو اس کا لعاب کیونکر پلید ٹھہرایا جائے گا؟ خیارِ مجلس(۶) سے
متعلق امام مالکؒ کا جو قول معروف ہے وہ بھی درحقیقت اِسی معنیٰ کی جانب لوٹتا ہے۔
چنانچہ مالکؒ نے اِس حدیث کو ذکر کیا تو اُس کے بعد رقمطراز ہوئے: اِس (خیارِ
مجلس) کی ہمارے ہاں کوئی مقررہ حد نہیں ہے۔ نہ ہی اِس پر عمل ہمارے (اہل مدینہ کے)
یہاں کا دستور ہے۔ امام مالک کے اِس قول میں اِس جانب کو اشارہ ہے کہ مجلس ایک
مجہول المدت چیز ہے؛ جبکہ قاعدہ یہ ہے کہ کوئی شخص اگر ایک مجہول (نامعلوم) مدت
کیلئے خیار کی شرط لگائے تو یہ چیز بالاجماع باطل ہو گی۔ تو پھر شرع سے ایک ایسا
حکم کیونکر ثابت ہو سکتا ہے جو ایک باقاعدہ شرط کے طور پر فریقین کے مابین طے ہو
تو بھی وہ از روئے شرع ناجائز ہو؟ چنانچہ یہاں امام مالک کا مرجع ایک ایسا اصل ہے
جو اجماع سے ثابت ہے۔ ’’علاوہ ازیں غرر اور جہالۃ کو ممنوع ٹھہرانے والا شریعت کا
قاعدہ قطعی ہے، جبکہ شریعت کا یہ قاعدہ بھی اِس حدیثِ ظنی کے ساتھ معارض ہے۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ (پھر تھوڑا آگے چل کر شاطبی لکھتے ہیں):
’’اِسی باب سے: امام مالک نے اِس حدیث کو نظر انداز کیا ہے کہ جو شخص
مر جائے اور اُس کے روزے رہتے ہوں تو اُس کے والی وارث اُس کی جانب سے روزے رکھیں۔
’’نیز یہ حدیث (جوکہ حج کی بابت آتی ہے) کہ اگر تیرے باپ پر کوئی قرض
ہوتا تو ادا نہ کرتا؟ (اِن دونوں حدیثوں کو اِس لئے نظرانداز کیا) کیونکہ ان کے
نزدیک یہ قرآن سے ثابت ایک اصل اور ایک قاعدہ کلیہ کے منافی ہیں جوکہ اِس آیت سے
ثابت ہے: [ألا تزر وازرۃ وزر أخریٰ وأن لیس للإنسان إلا
ما سعی ’’کہ نہیں اٹھائے گی کوئی اٹھانے والی کسی دوسری کا بوجھ، اور
یہ کہ نہیں ہے واسطے انسان کے وہی جس کی اُس نے خود سعی کی‘‘] بالکل اُسی طرح جس
طرح حضرت عائشہؓ نے ابن عمرؓ والی حدیث کی بابت موقف اختیار کیا تھا۔
’’علاوہ ازیں اُس حدیث کا بھی اعتبار نہیں کیا جس میں اُن ہانڈیوں کو
الٹ دینے کا حکم ہے جن میں (امیر کے ہاتھوں) تقسیم ہو جانے سے پہلے ہی غنیمت کے
اونٹ اور بکرے ذبح کر کے پکا لئے گئے ہوں۔ امام مالکؒ کا یہ موقف اُس شرعی اصل
(قاعدہ) پر بنا کرتا ہے جس کی رُو سے حرج کو امت سے مرفوع ٹھہرایا گیا ہے اور جس
کو مصالح مرسلہ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ امام مالک نے ایسے شخص کے حق میں
تقسیم غنیمت سے پہلے کھانے کو جائز کہا ہے جس کو کھانے کی احتیاج ہو چکی ہو۔ یہ سب ابن العربی کے بیان میں آیا ہے۔
’’نیز شوال کے چھ روزوں سے منع کیا ہے، باوجودیکہ اس متعلق حدیث ثابت
ہے، ’’سد الذرائع‘‘ کے قاعدہ کو بنیاد بناتے ہوئے۔
’’رضاعت میں پانچ یا دس بار والی بات کو معتبر نہیں جانا، اس قرآنی
اصل کی بنا پر جو قول خداوندی میں آیا ہے: {وَأُمَّهَاتُكُمُ
اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ}
’’یہ چیز امام مالکؒ کے مذہب میں اچھی خاصی ہے۔
جبکہ یہی ابوحنیفہ ؒ کی رائے ہے۔ چنانچہ آپؒ نے نماز میں قہقہہ
والی خبر کو قیاس پر مقدم رکھا ہے، جبکہ مسئلہ میں کوئی اجماع نہیں ہے۔ درحالیکہ قرعہ والی خبر کو رد کیا ہے کیونکہ وہ اصول (قواعد) کے خلاف
پڑتی ہے۔ اس لیے کہ اصول قطعی ہوتے ہیں اور (ان کے مقابلے پر) خبرِ واحد ظنی۔ جبکہ (عتق)
آزاد شدگی ان سب غلاموں پر واقع چکی ہےاور اجماع اس پر منعقد ہے کہ (عتق) آزادشدگی
جب ایک محل پر واقع ہو چکی ہو تو اس کو لوٹایا نہیں جا سکتا۔ اس بنا پر خبر کو
رد کیا۔ (مذہب کے اہل علم) نے ایسا ہی بیان کیا ہے۔
’’ابن العربی (مالکی) کہتے ہیں: جس وقت خبرِ واحد شرع کے قواعد میں
سے کسی قاعدہ کے خلاف آئے تو کیا اس پر عمل کرنا جائز ہے یا نہیں؟ ابوحنیفہؒ کا
کہنا ہے: اس پر عمل جائز نہیں۔ شافعیؒ کا کہنا ہے: جائز ہے۔ جبکہ مالکؒ اس مسئلہ
میں (دونوں جانب) متردِّد ہیں (کچھ بات مالکؒ کے یہاں ابوحنیفہؒ والی پائی جاتی ہے اور کچھ بات شافعیؒ والی)۔ کہا: مالکؒ کا مشہور قول، کہ جس پر (مذہب میں) سہارا
بھی کیا جاتا ہے، وہ یہ کہ: (ایسی) حدیث کو تقویت دینے کےلیے اگر تو کوئی (شرع کا)
دوسرا قاعدہ موجود ہو تب وہ اس کے قائل ہوں گے، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کو چھوڑ
دیں گے۔ ’’اس کے بعد ابن العربی نے برتن میں کتے کے منہ ڈالنے سے متعلق امام
مالک کا مسئلہ ذکر کیا اور کہا: ’’اس لیے کہ یہ حدیث دو اصلوں (قاعدوں) کے
معارض پڑتی ہے:
’’ایک: اللہ کا فرمان: {فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ}
[المائدة: 4] .
’’دوسرا: طہارت کی علت زندگی ہے، جوکہ کتے کے اندر بدستور قائم
ہے۔
’’نیز حدیث العرایا، جس کی معارضت اگر ربا والے قاعدے سے ہوتی ہے تو
معروف (کسی کے ساتھ نیکی کرنے) والے قاعدے سے اس کی تقویت بھی ہو جاتی ہے۔
( شاطبیؒ کی عبارت ختم ہوئی)
ظاہر ہے امام مالکؒ کے سب سے ہونہار شاگرد، جوکہ خود بھی ایک مذہب کے مؤسس ہیں، یعنی امام شافعیؒ ، باوجود امام مالکؒ کی نہایت تعظیم اور توقیر کے اور ان کی شان میں نہایت عظیم الشان کلمات بولنے کے، اِن مسائل میں امام مالک کے ساتھ شدید اختلاف رکھتے ہیں۔ یہ نہ تعامل اہل مدینہ کے ساتھ تعارض کے باعث خبر واحد کو رد کرتے ہیں اور نہ اُن قواعد سے ٹکرانے کے باعث جن کا امام مالک نے اعتبار کیا ہے۔ امام شافعیؒ نے امام مالکؒ اور امام ابو حنیفہؒ کے اِس طرح کے کئی اصولوں کا نہایت زوردار رد کیا ہے، اِسکے باوجود، اشارے کنائے میں بھی امام مالکؒ یا امام ابو حنیفہؒ کو ’حدیث کو رد کرنے والے ٹولے‘ میں شامل نہیں کیا ہے۔ یہاں تک کہ ان بزرگوں کی تعظیم میں کمی تک نہیں آنے دی اور ان کے حق میں تازندگی نہایت عظیم الفاظ بولتے رہے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ جو لوگ مالکؒ یا ابو حنیفہؒ والے اصول اختیار کر کے رہے اُنکے خلاف بھی کبھی کوئی ’تحریک‘ نہیں چلائی۔ یعنی یہ ایک معلوم امر ہے کہ حنفیہ و مالکیہ کے ساتھ اِس باب میں شدید اختلاف رکھنے کے باوجود، شافعیؒ اِس اختلاف کو ایک علمی اختلاف کے دائرہ ہی میں رکھتے تھے اور اِسکو اُس اختلاف کے ساتھ خلط نہ ہونے دیتے تھے جس میں شدید درشت ہو جانا وہ ایمان کا حصہ جانتے تھے۔ مثلاً علم کلام والوں کی بابت شافعیؒ کا اِس حد تک درشت ہو جانا کہ: حُكْمِي فِي أَهْلِ
الْكَلَامِ أَنْ يُضْرَبُوا بِالْجَرِيدِ وَالنِّعَالِ، وَيُطَافَ بِهِمْ فِي
الْعَشَائِرِ وَالْقَبَائِلِ، وَيُقَالُ: هَذَا جَزَاءُ
مَنْ تَرَكَ الْكِتَابَ وَالسُّنَّةَ وَأَقْبَلَ عَلَى الْكَلَامِ. (از مقدمہ شرح عقیدہ
طحاویہ، مؤلفہ ابن ابی العز) ’’اہل کلام کی بابت
میرا فتویٰ ہے کہ کھجور کی چھڑیوں اور جوتوں سے ان کی درگت بنائی جائے اور ان کو
بستی بستی لے کر پھرا جائے، ساتھ یہ اعلان کیا جا رہا ہو: یہ ہے سزا اُس شخص کی جو
کتاب اور سنت کو چھوڑ کر کلام کی طرف رخ کرے‘‘۔
شافعیؒ ہوئے یا احمد بن حنبلؒ یا مدرسۂ اہل الحدیث کا کوئی اور سرخیل، کتاب اور سنت سے منہ موڑنے والوں کی بابت یہ لوگ آخری حد تک بے لحاظ ہو جاتے تھے، جیسا کہ شافعیؒ کے درج بالا قول (بابت اہل کلام) سے مترشح ہے، اور جیسا کہ احمد بن حنبلؒ خلقِ قرآن ایسے ایک مسئلے پر ان متکلمین کے ساتھ پوری ایک جنگ کھڑی کر لیتے ہیں۔ مالکیہ یا حنفیہ کو بھی (اُن اصولوں کی بابت جن میں سے بعض کا اوپر شاطبی کے کلام میں ذکر ہوا) اگر یہ لوگ ’کتاب اور سنت سے منہ موڑنے والی صنف‘ میں باور کرتے تو ان کے ساتھ بھی یہ لوگ ویسی ہی جنگ کھڑی کرتے جیسی جنگ اِن لوگوں نے اہل بدعت کے خلاف کھڑی کر رکھی تھی۔ حق یہ ہے کہ مالکیہ اور حنفیہ کے ساتھ اِن لوگوں کی یہ وحدت اور یگانگت ہمارے آج کے ’دانشوروں‘ کے ہاں پائی جانے والی ’رواداری‘ کے باب سے نہ تھی۔ اُن لوگوں کے منہج میں ایسی ہی کوئی ’رواداری‘ ہوتی تو معتزلہ و متکلمین کیلئے وہ کھجور کی چھڑیاں اور جوتے تجویز کر کے نہ دے رہے ہوتے۔ معاملہ یہ ہے کہ یہ سب ائمۂ سنت واقعتا اُس دائرہ سے واقف تھے جس کے اندر کے لوگوں کے ساتھ وحدت اور یگانگت کا اسلوب اختیار کر کے رکھا جاتا ہے، خواہ مسئلہ بعض اخبارِ آحاد کو احتجاج کی بنیاد نہ بنانے تک کیوں نہ چلا گیا ہو، اور جوکہ اہلسنت کا دائرہ ہے، جبکہ اس دائرے کے باہر کے لوگوں کے ساتھ وحدت اور یگانگت کا یہ اسلوب نہیں رکھا جاتا بلکہ ان کے خلاف شدت اختیار کرنے اور عامۃ الناس کو اُن کے شر سے خبردار کرنے میں اہلسنت کو آخری حد تک چلے جانا ہوتا ہے۔
یہ میزان ہی کسی وجہ سے آج ہمارے یہاں مفقود ہو گیا ہے۔ اسکی بحالی ہو جانا مسلم برصغیر کے تحریکی عمل کے حق میں خدا کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہو گا۔
اِس سلسلہ میں زیادہ تفصیلات علماء کے سمجھنے کی ہیں، جبکہ یہ کتاب علماء کیلئے نہیں لکھی جا رہی۔ جہاں تک ہمارے تحریکی نوجوانوں کا تعلق ہے تو اُن کے سمجھنے کی ایک موٹی بات یہ ہے کہ:
اخبارِ آحاد کے قبول و رَدّ کے معاملہ میں جتنا سا اختلاف مذاہبِ اربعہ کے مابین پایا گیا ہے، اُتنے سے اختلاف کیلئے آپ کو بھی اپنا دائرۂ (حق) کھلا رکھنا ہو گا۔ ایسے اختلاف کی بنیاد پر اگر مالکؒ اور شافعیؒ ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں نہیں ہوتے، نہ ہی اِن دونوں کے فقہی وابستگان(۷) آپس میں دست و گریباں ہوتے ہیں.. تو ہمارے آج کے متبع حق نوجوان بھی ایک دوسرے کو یا ایک دوسرے کے ائمہ کو ایسے کسی اختلاف کی بنیاد پر دائرۂ حق سے خارج کرتے اور ’کتاب و سنت سے منہ موڑنے والا‘ قرار دیتے نہیں پھریں گے۔
(اِس دائرہ اہلسنت کے اندر) دوسرے کے امام نے کسی نص کی توجیہ اس طرح کر دی ہے جو آپ کے یا آپ کے امام یا عالم کے نزدیک درست نہیں ہے، تو اُس کے ساتھ کھل کر علمی اختلاف رکھئے، علمی دائرے میں کھل کر اُس کے خلاف دلائل دیجئے، لیکن اس کو اہل حق اور اہل باطل کی جنگ نہ بنائیے۔ عامۃ الناس کو اِن جھگڑوں میں فریق مت بنائیے۔ اِس دائرہ کی وحدت اور شیرازہ بندی قائم رکھنے کو وقت کا ایک اہم ترین فریضہ جانئے، اور اِس کی مجتمع قوت کو یہاں پر اہل باطل اور اہل بدعت کے خلاف ایک نہایت موثر و فاعل قوت بنائیے۔
یہ ایک جماعت ہے، فرقۂ ناجیہ اور زمین پر اصحابِ رسول اللہ کا تسلسل۔ اِس کی وحدت کو توڑنا اُس بند کو توڑنا ہے جو فساد فی الارض کی قوتوں کی راہ میں عہدِ صحابہ سے لے کر بندھا چلا آتا ہے، خواہ یہ کام کوئی شاطر دشمن کرے یا کوئی نادان دوست۔
(حاشیہ ۶)
ہاں کسی شخص یا کسی گروپ میں _ اضافی طور پر _ کوئی شرکیہ یا کوئی الحادی رویہ پایا جائے یا وہ کسی مہلک بدعت کا شکار ہو تو اور بات ہے۔ مثلاً برصغیر میں ’’احناف‘‘ سے منسوب بعض گروہوں، انڈونیشیا وغیرہ میں ’’شوافع‘‘ سے منسوب بعض گروہوں اور مراکش و موریطانیا وغیرہ میں ’’مالکیہ‘‘ سے منسوب بعض طبقوں کا قبر پرستی اور اولیاء پرستی وغیرہ ایسے شرکیہ امور کے اندر ملوث ہونا یا باطنی تصوف کا شکار ہونا۔ وغیرہ وغیرہ۔ حق یہ ہے کہ ایسے کسی شرکیہ رویے کا کسی کے ’’فقہی مسلک‘‘ سے دور نزدیک کا کوئی تعلق نہیں۔ نہ مذہب حنفی میں ایسے کسی شرک کی کوئی اجازت یا گنجائش پائی جاتی ہے اور نہ مذہب شافعی میں اور نہ مذہب مالکی میں۔ اوپر جو بات ہو رہی ہے وہ ’’مصدر تلقی‘‘ کے حوالے سے ہے، جس میں _ ہمارا کہنا یہ ہے کہ _ مذاہب اربعہ، ظاہریہ و اہلحدیث وغیرہ ایسے سب فقہی طوائف ایک ہی اصل پر ہیں۔
بنا بریں، کسی شخص یا گروہ کے ہاں کوئی اضافی انحراف یا بدعت ہو تو اور بات ہے، اور جس کا الگ سے رد بھی ضرور ہونا چاہیے؛ البتہ کسی کا محض حنفی یا شافعی یا مالکی یا حنبلی یا ظاہری یا اہل حدیث وغیرہ ہونا بجائے خود کوئی ایسی چیز نہیں جو اُس کو ’’اہل سنت‘‘ کے اِس دائرہ سے خارج کر دے۔
(۱) شقاق: یعنی اہل حق سے راستہ الگ کر لینا۔
(۲) افتراق: یعنی اہل حق سے مفارقت اختیار کر لینا
(۳) بعض علماء نے اِس کی یہ توضیح کی ہے کہ منصور اور رشید ہر دو نے اپنے اپنے دور میں امام مالکؒ کے سامنے یہ خواہش ظاہر کی ہو، اور امام مالکؒ نے ہر دو موقعہ پر یہی جواب دیا ہو۔
(۴) دیکھئے ’’صحیح الترمذی‘‘ از البانی حدیث رقم ۲۱۱، ص ۸۲، نیز ’’صحیح سنن ابی داود‘‘ از الانی حدیث رقم ۶۸۳۔ ص
(۵) یعنی کسی عالم کی نظر میں ایک حدیث کے مقابلے پر اُس سے قوی تر کوئی شرعی دلیل پائی جاتی ہے اور اِس وجہ سے وہ اس حدیث کو احتجاج کی بنیاد نہیں بناتا، جیسا کہ اوپر عائشہ رضی اللہ عنہا کے اِس واقعہ میں ہے۔۔۔ تو وہ اِس باب سے نہیں ہوتا کہ ’رسول اللہﷺ نے تو واقعتاً یہی بات کی ہے اور اِس سے آپﷺ کا مطلب اور مراد اور منشا بھی عین یہی ہے مگر میں اِسکو نہیں مانتا‘ ! ام المومنینؓ کی بابت ایسی کوئی بات ظاہر ہے سوچی بھی نہیں جا سکتی۔ امام مالک یا امام ابو حنیفہ یا دیگر معروف فقہائے امت کی بابت بھی یہ بات سوچی نہیں جا سکتی۔ دراصل یہاں پر اِن ہستیوں کی مراد یہی ہوتی ہے کہ حدیث کو سننے والے سے اُسکا پورا سیاق و سباق اور منشا و مراد نقل ہونے سے ضرور کہیں رہ گیا ہے، یا کوئی ایسا ابہام پیدا ہو گیا ہے جو اِس حدیث کو اِن معنوں کے ساتھ لینے میں مانع ہے (اس سے ایک قوی تر دلیل پائے جانے کے باعث)، یا راوی سے اسکا بیان ہونے میں کوئی ایسی چیز چھوٹ گئی ہے جو اس کے معنیٰ کو زیادہ واضح کر سکتی اور شریعت کے کچھ محکم تر امور سے اسکا تعارض باقی نہ رہنے دیتی۔ وغیرہ وغیرہ۔ تبھی ام المومنینؓ اِس حدیث کی یہ توجیہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے یہ بات جاہلیت کا ایک اعتقاد نقل کرنے کے سیاق میں فرمائی ہے نہ کہ خود کسی شرعی حقیقت کا بیان فرمانے کیلئے۔
(۶) بخاری ودیگر کتب میں وارد حدیث: البیعان بالخیار ما لم یتفرقا۔ ’’ سودا کرنے والے ہردو فریق (سودا ختم کر دینے کا) اختیار رکھتے ہیں تاوقتیکہ وہ الگ نہ ہو جائیں‘‘۔ دیگر فقہاء اِس حدیث سے خیارِ مجلس کو ثابت کرتے ہیں؛ اور جوکہ صحیح تر ہے۔ البتہ امام مالک اِسکو تعاملِ اہل مدینہ کے ساتھ معارض پاتے ہیں، نیز اسکو بعض شرعی کلیات کے بھی معارض پاتے ہیں۔ لہٰذا وہ اِس حدیث سے احتجاج نہیں کرتے۔
یہاں یہ ذکر کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ معلوم ہو، مالک بن انسؒ ایسے امامِ سنت کسی خبر کو ایسی صورت میں احتجاج کی بنیاد نہیں ٹھہراتے جب ان کی نظر میں اُس سے قوی تر کچھ شرعی دلائل اور قواعد اُس خبر کے خلاف پڑ رہے ہوں۔ یہ دراصل شریعت کی ایک دلیل کو رد کرنا نہیں ہوتا، نہ ہی یہ اپنی عقل کو شریعت پر مقدم کرنا ہوتا ہے؛ بلکہ یہ شریعت کی ایک دلیل کو دوسری کے مقابلے میں فائق ٹھہرانا ہوتا ہے۔ دیگر ائمہ ان سے اِس مسئلہ پر اختلاف کرتے ہیں چاہے جتنا بھی بھرپور اختلاف کرلیں، مگر اِس پر اُنکے لتے نہیں لیتے۔ اور نہ ہی انکے ساتھ وہ اسلوب اختیار کرتے ہیں جو وہ معتزلہ، مرجۂ اور جہمیہ ایسے ’’نصوص کے انکاری‘‘ ٹولوں کے ساتھ پوری شد و مد کے ساتھ اختیار کیا کرتے تھے۔ ائمہ واہل سنت کے معاملہ کو اہل بدعت سے جدا رکھنا کس قدر ضروری ہے، صرف یہی بات ذہن نشین کرانا یہاں ہمارے پیش نظر ہے۔
(۷) سوائے آخری ادوار کے مقلدین کے، جن کی ائمہ سنت کی طرف سے بے حد مذمت ہوئی اور اُنکے اِس لڑنے جھگڑنے کو تعصب کا نام دیا گیا۔