’’مصدرِ تلقی‘‘ اصل بنیاد ہے |
| | |
’’تلقّی‘‘ کا مطلب ہے دین کو لینا۔ اصولِ اہلسنت میں جو پہلی چیز دیکھنے کو ملتی ہے وہ ہے مصدرِ تلقِّی اور منہج تلقِّی۔ انہی دو باتوں پر جملہ مسائل دین کا انحصار ہے۔
مصدر تلقِّی کا مطلب ہے: دین کہاں سے لینا ہے۔
اور منہج تلقِّی کا مطلب ہے: دین کس طرح لینا ہے۔
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے، یعنی تلقِّیِ دین کا مصدر.. تو اہلسنت کا اجماع ہے کہ: یہ کتاب اللہ ہے اور سنت رسول اللہؐ(۱)۔ جو اس پر متفق نہیں وہ اہل اتباع کے دائرہ میں ہی نہیں آتا۔
رہا اس تَلَقِّی کا منہج، تو وہ اصحابِ رسول اللہؐ کا فہم اور طریقہ ہے۔ البتہ یہاں پر کچھ غلطی ہائے مضامین پائے جاتے ہیں؛ جن میں سے اہم اہم کا ازالہ ہماری اِس کتاب کا موضوع ہے۔
اول الذکر یعنی مصدرِ تلقی، شریعت کی اساس ہے۔ مصدرِ تلقی کے معاملہ میں، الحمدللہ ہمارے آج کے سب تحریکی حلقے اہلسنت دائرہ سے وابستہ ہیں: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ کی آئینی حیثیت اِن کے ہاں کبھی محل نظر نہیں رہی۔ فہم کی بات الگ ہے،جس پر بحث آگے آرہی ہے، البتہ کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ اکو رد کر دینے کا رحجان اِن کے ہاں کبھی نہیں پایا گیا۔ ’’مصدریت‘‘ ان سب طبقوں کے ہاں قطعی طور پر نصوصِ وحی کو ہی حاصل ہے؛ بشر کی ہدایت کیلئے قرآن وحدیث کے سوا آسمان سے کچھ نہیں اترا۔ یہ ’’وحی‘‘ ہی قیامت تک کیلئے اِن سب اصحابِ عزیمت کا دستور ہے اور اس سے عدولی کرنا اِن سب کی نظر میں ایمان کھودینے کے مترادف۔
یہیں سے؛ اِن دو فریقوں کے مابین ایک واضح واضح لکیر کھچ جاتی ہے:
۔ ایک وہ فریق جو نصوصِ وحی کی آئینی حیثیت کو تسلیم کرنے میں ہی ’اگرمگر‘ کرتا ہے اور عین ’’وفاداری‘‘ کے مقام پہ جا کر ’شرط استواری‘ کا سوال اٹھا دیتا ہے۔۔۔، یعنی اہل بدعت۔
۔ اور دوسرا وہ فریق جو نصوصِ وحی کو مطلق آئینی حیثیت دینے میں ہرگز کوئی پس و پیش اور کوئی ’اگر مگر‘ نہیں کرتا۔۔۔، یعنی اہل سنت۔
حصۂ اول میں اِن دو فریقوں کا فرق ہی ہمارا موضوع ہوگا ، یعنی: ’’مصدرِ تلقی‘‘ کی بنیاد پر ’’اہل انحراف‘‘ اور ’’اہل اتباع‘‘ کے مابین ایک واضح لکیر کھینچ دینا۔۔۔
مابعد اجزاء (کتاب کے حصہ دوم و مابعد) میں پھر ہم فہم کی مرجعیت پر بات کریں گے۔ وہاں پر ہم وہ مباحث سامنے لائیں گے جو ’’نصوصِ وحی کی حجیت پر یک آواز طبقوں‘‘ کو نہ صرف ’’فہم وحی‘‘ کی کچھ مستند بنیادیں فراہم کر کے دیتے ہیں بلکہ ان کی وحدت اور تنوع کو ایک خوبصورت ضبط اور سیاق بھی عطا کرتے ہیں۔
(حاشیہ ۱)
’’اجماع‘‘ وغیرہ اسی کے ساتھ ملحق ہیں، گو کسی کسی وقت الگ سے بھی ذکر ہوتے ہیں۔ ’’مصدرِ دین‘‘ سے متعلق اہلسنت کے ہاں پائی جانے والی بحثوں میں بالعموم کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ ہی مذکور ہوتے ہیں، باوجود اِسکے کہ اجماع و قیاس وغیرہ اس سے منفی نہیں ہوتے اور اپنی اپنی جگہ پر ’’ادلہ شرعیہ‘‘ کے طور پر تسلیم ہوتے ہیں۔