|
’مجمع‘ سے۔۔۔ ’’جماعت‘‘ تک!!! |
تاریخ اسلام میں آپ دیکھتے ہیں.. ایک کردار اہل سنت و اتباع کا رہا ہے اور ایک کردار اہل بدعت و انحراف کا۔۔۔
ایک کا موثر ہونا خودبخود دوسرے کا غیر موثر ہونا تھا۔
اول الذکر جب بھی میدان میں اترا، خدائی نصرت کو بحال کرا لایا۔
ثانی الذکر نے جب بھی میدان مارا، اپنی ذلت اور خاک اڑی۔
پس یہ کہانی کبھی سمجھ نہیں آ سکتی جب تک تاریخ اسلام کے اِن دو اصل کرداروں کو نہیں سمجھ لیا جاتا۔۔۔؛ اور جب تک اِنہی دو کرداروں کی درست پہچان نہیں کر لی جاتی اور اِنہی دو کا خود اپنے دور میں ٹھیک ٹھیک تعین نہیں کر لیا جاتا: اہل سنت و اہل بدعت۔
*****
’’ملتِ سلام‘‘ اُس صالح وجود کا نام ہے جس میں فاعلیت ہمیشہ ’’اہل اتباع‘‘ کا خاصہ رہے گی۔ اہل انحراف کا کردار یہاں کتنا ہی سنگین ہو، مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک ’خلا‘ کو پر کرنا ہے۔ اندھیرے کا ایک کردار یقیناًہے؛ بلکہ اندھیرے سے آپ جب کہیں وہ اپنا یہ کردار ادا کرنے کیلئے مستعد ہو گا؛ مگر اندھیرے کی یہ سب کارگزاری اِس ایک چیز پر موقوف ہے کہ روشنی پیچھے ہٹ کر اُس کو اپنا یہ ’تاریخی کردار‘ ادا کرنے کا موقعہ کب دیتی ہے! اندھیرے کا کردار پس جتنا بھی موثر ہو، ’’فاعلیت‘‘ صرف اور صرف روشنی کا خاصہ ہے۔ ’’روشنی‘‘ پیدا کرنے پر بہت محنت اور توانائی صرف آتی ہے تو اس کی وجہ روشنی کی اپنی یہی خاصیت ہے۔ اِس اعتبار سے دیکھیں تو اصل کردار امت اسلام کے اندر ’’اہل اتباع‘‘ کا رہ جاتا ہے۔ کچھ کریں گے تو یہ کریں گے۔ کچھ نہیں ہو رہا ہو گا تو اِس لئے کہ یہ غیرموجود ہیں۔ اِن کے عروج کو آپ اسلام کی شان و شوکت کہیں گے اور اِن کے زوال کو اسلام کی پسپائی۔
پس عمل کے میدان میں بے شک یہ دو متحارب کردار نظر آئیں، مگر کارکردگی کے اعتبار سے اِس کہانی کا مرکزی کردار ایک ہے: اہل سنت و جماعت!
اپنے حالیہ انحطاط کا اصل حوالہ پس یہ نہیں ہے کہ یہاں کے ’’بے دین‘‘ یا یہاں کے ’’بدعتی‘‘ زوال کا شکار ہوئے! ہمارے اِس افلاس کی تفسیر، ظاہر ہے، یہ نہیں ہے کہ یہاں کے ’’باطنی‘‘ یا ’’رافضی‘‘ یا یہاں کے ’’قبر پرست‘‘ یا یہاں کے ’’ملحد اور زندیق‘‘ ہمارے مسلم معاشرے کے اندر اپنا ’’تاریخی کردار‘‘ ادا کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔۔۔! اُمت کے دورِ عروج میں بھی یہ منحرف طبقے پائے گئے تھے۔ یہ اِس کے وجود کو گھن کی طرح کھاتے بھی رہے تھے۔ مگر جب تک اہلسنت، اُمت کے جسم میں خون کے مرض کش جسیمے بن کر دوڑتے رہے، مرض کے یہ سب جراثیم ایک بڑی سطح پر غیر موثر ہی رہے۔ البتہ جیسے ہی ان صحت افزا جسیموں کا کام سست پڑا، تباہی کے یہ اندرونی عوامل پوری شدت کے ساتھ اُمت کے وجود پر حملہ آور ہوئے اور اپنا وہ کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوتے چلے گئے جو اِس سے پہلے تشنہ رہ جاتا رہا تھا۔ تب یہ گھن کا کھایا ہوا وجود تباہی کے ’’بیرونی اسباب‘‘ کاسامنا کرنے سے بھی قاصر ہونے لگا۔ اور بالآخر، حالیہ صدیوں میں مغرب سے اُٹھنے والے طوفانی جھکڑوں کے آگے ڈھیر ہو گیا۔
اس اندوہناک کہانی کی اصل کڑی پس نہ تو گھر کے ’’منحرف‘‘ ہوئے اور نہ باہر کے ’’حملہ آور‘‘، باوجود اس کے کہ دونوں کا کردار تباہ کن تھا اور ابھی تک ہے۔۔۔
اِس کہانی کا اصل کردار کوئی ہے تو وہ ’’گھر کے محافظ‘‘ ہیں۔
یوں بھی تباہی کے اندرونی اور بیرونی عوامل یہاں کب نہیں پائے جاتے؟ اصل سوال تو آپ کی اپنی ’’فاعلیت‘‘ اور ’’قوتِ مدافعت‘‘ کا ہے۔ تباہی کے یہ سب عوامل چاہے نظر نہ آئیں، پس پردہ ضرور کام کرتے ہیں۔ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے؛ ایک صحت مندترین جسم میں بھی تعمیر اور تخریب کے عوامل بیک وقت سرگرم ہوتے ہیں۔ ’’صحت مند جسم‘‘ کی تعریف یہ نہیں کہ اس پر بیماری کے جرثومے سرے سے حملہ آور نہ ہوں! بلکہ ’’صحت مندی‘‘ کی تعریف ہم یہ کرتے ہیں کہ یہ وہ جسم ہے جس سے ٹکرا کر بیماری کے جرثوے پسپا ہو جاتے ہوں، جس میں مرض کُشی کی صلاحیت زیادہ ہو اور جو قوت کے عوامل کی افزائش زیادہ سے زیادہ کر سکتا ہو۔جبکہ لاغر جسم وہ ہے جس میں بیماری کے عوامل کے خلاف مزاحمت سست پڑ جائے اور جو غذا کو قوت میں تبدیل کرنے سے قاصر ہو۔
نبوت کی روشنی پہ قائم وہ حسین واقعہ جو اس اُمت کی تاریخ میں ’’اہل سنت‘‘ کے نام سے پہچانا گیا۔۔۔ یہ دراصل اُمت کے جسم کی اس ’’صحت‘‘ اور ’’فاعلیت‘‘ کا ہی دوسرا نام ہے۔ یہ اِس کا وہ جوہر ہے جو اس کی ’’مرض کشی‘‘ کو بڑھاتا اور اِس کی ’’افزائشِ قوت‘‘ کو بحال رکھتا ہے۔ یہاں اصل فرق اگر کہیں آیا تو وہ اِسی حسین واقعے کا ایک بڑی سطح پر سمٹ جانا ہے۔ ’’اہل سنت‘‘ کا حاشیائی ہو جانا یہاں کا اصل المیہ ہے؛ باقی سب واقعات جتنے بھی اہم اور سنگین مان لئے جائیں، اِس کی نسبت اضافی ہی رہیں گے۔
*****
پس ایک اصلاح کار کی کل دلچسپی یہاں اُسی تاریخی کردار کو بحال کرانے سے ہو سکتی ہے جو ملت کے وجود کے اندر ’’فاعلیت‘‘ اور ’’روح‘‘ کا ہم معنیٰ رہا ہے۔۔۔ اور یہ تاریخی کردار ہے: اہل سنت و اتباع۔ یہی فرقۂ ناجیہ ہے، یہی طائفۂ منصورہ، اور یہی سوادِ اعظم۔ سب امیدیں اِس کو اٹھانے سے وابستہ رکھی جائیں گی اور سب اندیشے اِس کی پسپائی سے جڑے رہیں گے۔ کچھ ہو گا تو اِس کے میدان میں آنے سے۔ کچھ نہیں ہو گا تو اِس کا کردار کمزور پڑ جانے کے باعث۔
پس اگر ہماری کل امید جسدِ امت کے اس حصے کو جگانے اور بحال کرانے سے وابستہ ہے جس کا نام اہل سنت ہے۔۔۔ تو پھر ہماری کل توجہ اِس سوال پر مرکوز ہونی چاہئے کہ اِس طبقۂ حق کو آج جو شدید عدم استحکام لاحق ہے اُس کا سبب کیا ہے؟ اور اس کی وہ فاعلیت جو بڑی حد تک سرد پڑ چکی ہے اُس کو عود کرانے کی کیا صورت ہے؟
اِس عمل کی بنیادی ترین ضرورت یہ دو باتیں ہوں گی:
اول) اُس چیز کو اِس سے الگ تھلگ کرنا جو اِس میں سے نہیں ہے۔ یعنی مبتدعہ کو اِس سے بے دخل کرنا۔
وہ سب باطل پرست طبقے، وہ سب منحرف گروہ، اور وہ سب بدعتی ٹولے جو اِس ’’روشنی‘‘ کے مقابلے میں ’اندھیرے‘ کا درجہ رکھتے ہیں۔۔۔ آج اِس کے ساتھ یوں گھل مل گئے ہیں کہ ایک ہی جل تھل نظر آنے لگا ہے اور ’اتحادِ امت‘ کا ایک ایسا عجیب و غریب نقشہ پیش کرنے لگا ہے جس سے ہمارے قرونِ سلف کبھی واقف نہیں رہے۔ وہ حسین کہانی تب تک شروع نہ ہو گی جب تک اِن دونوں کا یہ ’’آمنے سامنے‘‘ کا کردار ہی بحال نہیں کرایا جاتا۔ یعنی ایک طرف باطل پرست طبقے :: تو دوسری طرف متبعینِ حق۔ اِن دونوں کے مابین اگر کچھ مزاحمت ہوتی ہے تو یہ اِس جسم کے صحت پانے کی دلیل ہو گی۔ اِن کے مابین جب بھی کشمکش ہو گی معاملہ اہل حق کے حق میں بیٹھے گا۔ اِن کے مابین جب بھی مزاحمت سرد پڑے گی معاملہ اہل باطل کے حق میں بیٹھے گا۔ اِس ’’اختلاف‘‘ کو جو سنت اور بدعت کے مابین ہے، توحید اور شرک کے مابین ہے، اتباع اور انحراف کے مابین ہے.. سامنے لانا بدعت کی موت ہے؛ اور اس کو روپوش کرانا سنت کی پسپائی۔
پس یہ ’’اختلاف‘‘ یہاں باقاعدہ طور پر مطلوب ہے اور طائفہ حق کے احیاء کا اولین نقطہ۔
اِس ’’اختلاف‘‘ کا سامنے آنا جن بنیادی ترین اشیاء پر انحصار کرتا ہے، اُن میں سے ایک: ’’مراجعِ فہم‘‘ ہے۔ کم ہی کوئی طبقہ ہو گا جو ’’اللہ اور رسولؐ‘‘ کو رد کرے گا۔ اصل مسئلہ ’’اللہ اور رسولؐ‘‘ کی جانب رجوع کرنے کا وہ طریقہ ہے جو اہل اتباع اور اہل انحراف کو ممیز کرتا ہے اور جس کی واحد اساس ’’اصحابِؓ رسول اللہؐ‘‘ ہیں جن کے ’’اللہ اور رسولؐ‘‘ کی جانب رجوع کرنے کو خود ’’اللہ اور رسولؐ‘‘ نے ہی معیار قرار دے رکھا ہوا ہے۔ یہاں سے ’’اتباع‘‘ اور ’’انحراف‘‘ کے راستے الگ الگ ہوتے ہیں؛ اور یہیں سے وہ ’’فرق‘‘ سامنے آتا ہے جس کا اٹھایا جانا حق کی زندگی ہے اور باطل کی موت۔
چنانچہ جیسے ہی آپ اِس ’’اختلاف‘‘ کو زندہ کریں گے، باطل اِس طائفۂ حق سے الگ تھلگ ہونے لگے گا اور اِس کا اپنا صالح وجود ممیز ہو کر سامنے آنے لگے گا۔ قدیم سے چلے آنے والے باطنی، رافضی، وجودی، اعتزالی اور قبر پرست رجحانات وغیرہ.. اور دورِ جدید میں پائے جانے والے ملحد، سیکولر، قومیت پرست، و جمہور پرست رجحانات وغیرہ.. سب اِس سے چھٹنے لگیں گے اور حق اپنے بے ساختہ روپ میں نمایاں سے نمایاں تر ہوتا چلا جائے گا۔۔۔ اور وہ تاریخی عمل ازسرنو بحال ہونے لگے گا جس کے سست پڑ جانے کے باعث یہ صورتحال ایک کھڑے پانی کا نقشہ پیش کرنے لگی ہے۔
دوم) اُس چیز کو اِس سے الگ نہ ہونے دینا جو اِس میں سے ہے۔
مراد ہے: اِس طائفۂ حق کے تنوع کا صحیح صحیح تعین کرنا۔ اور جس کی رو سے:
آپ اُن سب فرعی تقسیمات کو قبول کرتے اور بیک وقت ساتھ چلاتے ہیں جن کے دم سے اِس طائفۂ حق (اہل سنت) کے وجود کو ایک عظیم الشان وسعت اور ایک تنوع حاصل ہے۔ جیسے احناف، شوافع، مالکیہ، حنابلہ، ظاہریہ، اہل الرائے واہل الحدیث وغیرہ۔
یہاں؛ اُس تنگ نظری کا علاج کرنا ہو گا جو ایک جزء کو کل جاننے لگتی ہے؛ اور ’اپنے‘ علاوہ کسی مسلک اور کسی فقہی گروہ کو ’’اہل سنت‘‘ ماننے یا ’’اہل حق‘‘ کا درجہ دینے کی ہی روادار نہیں رہتی۔
آپ اتفاق کریں گے، طائفۂ حق کی یہ وسعت اور یہ تنوع آدمی پر کبھی واضح نہیں ہو سکتی جب تک آدمی پر ’’مراجعِ فہم‘‘ کا مسئلہ واضح نہ ہو: تاوقتیکہ آپ پر یہ واضح نہ ہو کہ صحابہ کے آراء و اجتہادات اور ان کے فقہی رجحانات کیونکر متنوع ہوئے اور ان پر قائم ’’مدارس‘‘ عالم اسلام کے اندر کیونکر پھیلے؛ اور یہ کہ اِن ’’مدارس‘‘ کا یہ تسلسل پیچھے صحابہ ث تک کیونکر پہنچتا ہے۔۔۔ تب تک آپ اُس بند ذہنی سے نہیں نکلیں گے جو آپ کو ایک چھوٹے سے دائرے کے اندر ہی محصور کرادیتی ہے اور رفتہ رفتہ آپ اُسی کو ’’اہل سنت‘‘ کا دائرہ باور کرنے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک ایک فقہی مسئلے پر حق و باطل کے معرکے کھڑے کر لئے جاتے ہیں! کسی ایک نص کی تصحیح یا تضعیف پر عداوت کا بازار صدیوں گرم رکھا جاتا ہے۔ ایک ایک فرعی مسئلے پر آپس میں برأت نامے اور اعلان ہائے بیزاری صادر ہوتے ہیں؛ اور محض جزوی امور کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کو منحرف اور باطل پرست گردان لیا جاتا ہے بلکہ ایک دوسرے کی نجات تک کی بابت سوال اٹھا دیا جاتا ہے! اِس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ’’اللہ اور رسولؐ‘‘ کی جانب رجوع کرنے کا وہ سلیقہ جو اصحابِؓ رسول اللہؐ کے ہاں ملحوظ رہااور قبول و فہمِ نصوص کے معاملہ میں اُن کے ہاں جو ایک وسعت اور تنوع پایا گیا اور باقاعدہ برقرار رکھا گیا۔۔۔ اصحاب ث سے موروث وہ پورا منہج ہماری نظروں سے آج روپوش ہو گیا ہے۔
یہ دونوں باتیں }۱۔ طائفہ حق کے وجود سے باطل کو بے دخل کرنا۔۔۔، اور ۲۔ طائفۂ حق کے تنوع کی صحیح صحیح نشاندہی کروانا{ ہماری اِس کتاب کا موضوع رہی ہیں۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا، اِن ہردو موضوع کا تعلق جتنا ’’مراجعِ فہم‘‘ کے مسئلہ سے ہے اُتنا کسی اور مسئلہ سے نہیں۔
{تیسری چیز (گو یہ ہماری اِس حالیہ تالیف میں زیر بحث نہیں آئی)، یہ ہے کہ: اُن جزوی انحرافات کی بھی پیمائش و درجہ بندی ہو جو اِس طائفۂ حق کے اپنے ہی بعض افراد یا بعض طبقوں میں پائے جا سکتے ہیں۔ نیز ان جزوی انحرافات کے ساتھ پیش آنے، ان کی اصلاح کرنے، البتہ ان (جزوی) انحرافات کے علی الرغم طائفہ حق کی شیرازہ بندی جاری رکھنے، کی بابت اہلسنت کا طریقہ و دستور معلوم کیا جائے۔*}
یہ وہ تین کامیاب بنیادیں ہیں جن پر ایک قافلۂ حق صدیوں چلتا رہا ہے۔ اِس قافلہ کا وہ زوال جس کا آج ہمیں سامنا ہے، دراصل اِنہی تین جہتوں سے ہے۔ اِس ’مجمع‘ کو ایک بار پھر ’’جماعت‘‘ میں بدل دینے کیلئے آپ کو اِن تینوں محوروں پر بیک وقت کام کرنا ہو گا۔
*****
تاریخ کے اِس منفرد ترین موڑ پر جس کو ’’گلوبلائزیشن‘‘ کا نام دیا جاتا ہے اور جہاں پر بڑی بڑی بلاک بندیاں ہونے والی ہیں بلکہ ہو رہی ہیں۔۔۔ فکری یکجہتی کے جس قدر مواقع قدرتی طور پر آج زمین پر بسنے والے اُن طبقوں کو حاصل ہیں جو ’’ہدایت‘‘ کیلئے کتاب اللہ و سنتِ رسول اللہؐ اپنے پاس رکھتے ہیں، اور ’’ہدایت‘‘ کے اِن دو مصادر کو لینے اور سمجھنے کیلئے اصحابِؓ رسول اللہؐ سے موروثہ مناہج اور مدارس.. فکری یکجہتی اور نظریاتی یکسوئی کے اِس قدر مواقع کرۂ ارض کی کسی اور جماعت کو میسر نہیں۔ لیکن حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے یہ دینی طبقے ہی آج اِس فکری یکجہتی اور نظریاتی ہم آہنگی سے سب سے بڑھ کر دور ہیں.. بلکہ اس کی ضرورت سے ہی ناآشنا!
کیا اِس سے بڑھ کر بھی تاریخ نے کوئی عجوبہ دیکھ رکھا ہو گا؟
مستقبل کی وہ تحریک جو عالم انسان کے اندر پائے جانے والے اِن سب نیک مواقع اور اِن سب صالح وسائل کو بروئے کار لائے گی، خصوصاًبرصغیر میں پائی جانے والی اِس زرخیزیِ مواقع کو عمل اور جہاد کا رخ دکھائے گی، اور جس کے نتیجے میں یہاں باطل کے بڑے بڑے برج الٹیں گے، اور آخر تو ان شاء اللہ یہ ہونا ہے۔۔۔، اِس مبارک عمل کے جہاں اور بے شمار لوازمات ہیں وہاں ’’منہجیتِ فہم‘‘ کا مسئلہ حل کر کے دینا بھی اِس عمل کا ایک بہت بڑا رخنہ پر کرنے کے مترادف ہوگا..اور اپنے برصغیر کی ایک بہت بڑی ضرورت۔۔۔؛ جہاں مسلمان ’مسلکوں‘ میں پھاڑا جا چکا ہے اور اپنی تمام تر نیکی و جذبۂ عمل کے باوجود باطل کیلئے لقمۂ تر بنا ہوا ہے۔ پس یہ معاملہ کسی بے رغبتی، یا مٹی ڈالنے کا ہرگز متحمل نہیں۔
بنا بریں۔۔۔ فہم کے مراجع کو ’’دورِ سلف‘‘ تک پیچھے لے جانا اور اپنا ایک تسلسل وہیں سے برآمد کراتے ہوئے، ’گروہی‘ انداز سے بلند ہوکر ’’امت‘‘ کی سطح پر آنا اس عمل کا ایک نہایت اہم حصہ ہے۔
________
* اِس پر کچھ مواد ہماری ترجمہ کردہ کتاب ’’اہل سنت فکر و تحریک۔ فتاویٰ ابن تیمیہ کی روشنی میں‘‘ کے اندر دستیاب ہے۔ اصل کتاب عربی میں ہے بہ عنوان ’’اھل السنۃ والجماعۃ۔ معالم الانطلاقۃ الکبریٰ‘‘ مولفہ عبد الہادی المصری