منہجِ سلف ’بحثیں‘ ختم کہاں کرے گا، اِس کی تو حجیت ثابت کرنے کیلئے گھنٹے چاہئیں! |
خصومات سے تحفظ
فصل ششم میں، ہم یہ مبحث بیان کر آئے ہیں کہ آدمی جب تک انبیاء کا اور انبیاء کے حواریُّون واصحاب کا راستہ نہ اپنا لے۔۔۔ ’’دین‘‘ یا ’’فہمِ دین‘‘ کی بابت اس کا یہ دعویٰ کہ وہ اَھواء سے تحفظ کی کوئی صورت اپنے پاس رکھتا ہے، دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ کیونکہ اَھواء ایک ایسی چیز ہے جو ’’حق‘‘ کے روپ میں ہی آدمی کے پردۂ ذہن پر جلوہ آرا ہوتی ہے۔ یہ الگ بات کہ حواریُّون واصحاب کا راستہ چھوڑ بیٹھنے والوں کیلئے یہ ’’حق‘‘ تغیر پزیر رہتا ہے اور ان لوگوں کو اپنا یہ سفر زیادہ تر ’’ارتقاء‘‘ کے دشت میں ہی طے کرنا ہوتا ہے؛ جہاں دینِ خداوندی کے معاملہ میں ان پر نت نئے ’’انکشافات‘‘ ہوتے ہیں۔
بیشتر لوگ ’’اھواء‘‘ کو ’شہوات‘ کا کوئی ہم معنیٰ لفظ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ جبکہ علمائے سلف کا استعمال دیکھیں تو ’’اھواء‘‘ انسان کے اُن فکری میلانات کا نام ہے جن سے کام لے کر انسان حق اور باطل کا تعین کرتا ہے؛ وہ جس انداز کے فکری میلانات رکھے گا ویسے ہی فکری نتائج اس کے سامنے آتے چلے جائیں گے جن کو وہ ’’حق‘‘ سمجھ کر اختیار کرتا چلا جائے گا۔ انسان کو اِس سے بچانے کیلئے، اور اُس کے فکری میلانات کو درست حالت میں رکھنے کیلئے، دنیا کے اندر:
(i) انبیاء پائے گئے ہیں۔۔۔ جن کا دامن تھام لینے سے آپ خودبخود ’’اھواء‘‘ کے ایک بہت بڑے حصے سے محفوظ ہو جاتے ہیں؛ بصورت دیگر آپ اُن فلاسفہ اور زنادقہ کے دین پر ہوتے ہیں جو ’’حق‘‘ اور ’’ٖحقیقت‘‘ کا تعین کرنے میں انبیاء کی ہمسری کرتے ہیں۔
(ii) البتہ ’’اھواء‘‘ کا ایک حصہ ہے جو پھر بھی آپ پر حملہ آور ہو سکتا ہے، تاوقتیکہ آپ انبیاء کے حواریون و اصحاب کے راستے کا بھی پابند نہ ہو جائیں؛ جیساکہ خوارج، روافض، جہمیہ، قدریہ اور معتزلہ وغیرہ ایسے طوائف کے ساتھ ہوا۔ یہ سب فرقے یقیناًانبیاء پر ایمان رکھنے والے ہیں؛ مگر اصحابؓ کا راستہ چھوڑ بیٹھنے کے باعث بھٹک کر کہیں سے کہیں پہنچ جاتے رہے ہیں۔ ’’اتباعِ انبیاء‘‘ کے معاملہ میں ان کا بھٹکنا اور بہکنا جس پیمانے سے ماپا جائے گا وہ پیمانہ ’’اصحابِ رسول اللہؐ‘‘ ہیں؛ کوئی جتنا اُس سے دور ہو گا اتنا ہی وہ حق سے دور ہو گا اگرچہ وہ نبیؐ کی لائی ہوئی ہدایت کا دم کیوں نہ بھرتا ہو اور اپنے صغریٰ وکبریٰ لگا کر جا بجا ’کتاب و سنت‘ سے استدلال کیوں نہ کر لیتا ہو۔
چنانچہ آپ دیکھتے ہیں، اِن بدعتی طوائف میں سے کوئی ایسا گروہ نہ ہو گا جس نے ’کتاب و سنت‘ سے رجوع کے کچھ خاص اپنے معیارات وضع نہ کر رکھے ہوں!
پس ’’اھواء‘‘ کی اول الذکر صورت وہ ہوئی جو دنیا میں ’’انبیاء‘‘ کے ہم سر کھڑے کرتی ہے۔ اور ثانی الذکر صورت وہ جو دنیا میں ’’اصحابؓ‘‘ کے ہم سر کھڑے کرتی ہے۔
بنا بریں۔۔۔ ’’اھواء‘‘ کی ثانی الذکر صورت وہ ہے جو آدمی کے قرآن اور نبیؐ کو قبول کر لینے کے بعد بھی اُس پر حملہ آور ہونے کیلئے موجود رہتی ہے۔۔۔ تاوقتیکہ آدمی اصحابِؓ رسول اللہؐ کے راستے کو ہی اپنے لئے دستور کا درجہ نہ دے لے؛ اور تاوقتیکہ اپنے ’’فہمِ کتاب و سنت‘‘ کو اسی کے مطابق نہ کر لے۔
یہاں آ کر؛ آدمی کو ’’اتباع‘‘ کی نعمت نصیب ہوتی ہے ، جوکہ ’’ہدایت‘‘ کی اصل روح ہے۔ ’’اھواء‘‘ سے تحفظ پانا خود بخود ’’بحث و آراء‘‘ سے آپ کی جان چھڑوا دیتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں اصولِ سلف میں ’’اَھواء‘‘ کے ساتھ ساتھ جس دوسرے لفظ کی بے حد و حساب مذمت پائی جاتی ہے وہ ہے ’’خصومات‘‘۔ کہیں پر اِس کو ’’خوض فی الدین‘‘ کہا گیا ہے، کہیں پر ’’مِرَاء فی الدین‘‘، کہیں پر ’’کلام‘‘ اور کہیں پر ’’بحث و جدال‘‘۔ اِس معنیٰ کو واضح کرنے کیلئے یہاں ہم ’’خصومات‘‘ کا لفظ ہی زیادہ استعمال کریں گے۔ یہی سلف کے ہاں بھی سب سے زیادہ استعمال ہوا ہے۔
امام احمدؒ ’’اصولِ سنت‘‘ کا لب لباب بیان کرتے ہیں:
أصول السنۃ عندنا: التمسک بما کان علیہ أصحاب رسول اللہ ﷺ، والاقتداء بہم، وترک البدع؛ وکل بدعۃ فہی ضلالۃ، وترک الخصومات، وترک الجلوس مع أصحاب الأھواء، وترک المراء والجدال والخصومات فی الدین۔ (أصول السنۃ للإمام أحمد ص ۱)
اصولِ سنت ہمارے ہاں یہ ہیں: جس چیز پر اصحابِؓ رسولؐ رہے، اُس سے شدید تمسک رکھنا۔ اصحابِؓ رسولؓ کی اقتداء کرنا۔ بدعات کو ترک کرنا کیونکہ جو بھی بدعت ہے وہ ضلالت ہے۔ نیز بحث و آراء کو ترک کرنا۔ اَھواء کا شکار لوگوں کی ہم نشینی ترک کرنا۔ اور دین کے اندر بحث و جدال اور خصومات سے مکمل طور پر دامن کش رہنا۔
چنانچہ۔۔۔ جن اقوام کو انبیاء کا دامن پکڑنا نصیب نہیں ہوا۔۔۔ نہ صرف یہ کہ اپنی دنیا کے ایک ایک ’میٹافزیکل‘ مسئلے پر، اور ایک ایک اقتصادی یا سیاسی یا سماجی یا تہذیبی گتھی سلجھاتے وقت، وہ ’’اھواء‘‘ کا شکار ہوں گی.. بلکہ وہ ’’خصومات‘‘ (بحث و آراء) کے ایک لق و دق صحرا میں بھی بھٹکتی چلی جائیں گی۔ جبکہ انبیاء پر ایمان رکھنے والے پوری بصیرت و طمانینت کے ساتھ.. نہ صرف اِن ’’اھواء‘‘ سے محفوظ رہیں گے (فَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِہٖ) بلکہ وہ ’’خصومات‘‘ کی اس اذیت سے بھی بچا لئے جائیں گے۔ ہاں ان کو زور صرف کرنا ہو گا تو وہ ان دو باتوں پر کہ:
۱) وہ انبیاء پر اپنے یقین اور وثوق ہی کو پختہ سے پختہ تر کریں
۲) وہ انبیاء کی لائی ہوئی ہدایت میں اپنی دنیا کے اِن مسائل کی تلاش کرنے میں پورے اخلاص اور جستجو سے کام لیں
تاہم انبیاء کی لائی ہوئی چیزوں کو لینے، سمجھنے اور تطبیق کرنے میں ’’اَھواء‘‘ اور ’’خصومات‘‘ کی پھر بھی جو ایک گنجائش رہتی ہے، اور جس کے باعث انبیاء کے نام لیوا کسی وقت ’’خوارج‘‘ بن جاتے رہے ہیں، تو کسی وقت ’’روافض‘‘، تو کسی وقت ’’جہمیہ‘‘، تو کسی وقت ’’قدریہ‘‘ تو کسی وقت ’’معتزلہ‘‘ و ’’جدت پسند‘‘ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ’’اَھواء‘‘ کے حملہ آور ہونے کی اِس اتنی سی گنجائش کو __ ’’حواریُّون و اصحاب‘‘ کے راستے کی پابندی کے ذریعہ سے __ ختم کرا دیا جاتا ہے۔ ایسی امت کو اپنے نبی پر اتری ہوئی ہدایت کی ایک نہایت متعین اور کنکریٹ صورت میسر آ جاتی ہے؛ اس کی ہر ہر نسل اور ہر ہر فرد کو ایک ایک مسئلہ پر ’بحثوں‘ اور ’ریسرچوں‘ کے کنویں جھنکوانے کی نوبت نہیں آتی؛ اور وہ اپنے زمانے میں ’’حق‘‘ کی ایک نہایت واضح بنیاد پہ ہوتے ہوئے اور کرۂ ارض پر شرق تا غرب کمال یکسوئی و ہم آہنگی کے ساتھ تہذیب کی تعمیر کرتی ہے اور باطل سے جہاد کرتی ہے۔
’’وحی‘‘ سے استدلال کے دوران، اور کسی کسی وقت ’’وحی‘‘ کے تعین کے سوال پر، اور ’’وحی‘‘ کے نقل اور ضبط کے موضوع پر۔۔۔ اس امت کو صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ قرونِ اولیٰ میں اِس پر کیا طرزِ عمل پایا گیا ہے۔ پوری دلجمعی کے ساتھ اِس کو اُس کا ’’اتباع‘‘ کرنا ہوتا ہے اور خود اپنے پاس سے طریقے اور راستے گھڑنے سے احتراز کرنا ہوتا ہے۔ الفاظِ وحی کا کوئی نرالا مفہوم اس کے سامنے لایا جائے، تو اِس کو پیچھے دیکھنا ہوتا ہے کہ آیا قرونِ اولیٰ سے اس کی توثیق ہوتی ہے یا نہیں۔
کوئی اس کوحدیث سے فإذا أحببتہ کنت سمعَہ الذی یسمع بہ، وبصرَہ الذہ یبصر بہ، ویدَہ التی یبطش بہا، ورجلَہ التی یمشی بہا کے الفاظ دکھا کر حلول اور اتحاد ثابت کر کے دے، یا یا ابن آدم مرضتُ فلم تعدنی سے تجسیم یا حلول، یا إذا قاتل أحدکم أخاہ فلیجتنب الوجہ، فإن اللہ خلق آدم علیٰ صورتہ سے تشبیہ، یا فیسبق علیہ الکتاب اور وَلَوْ شَاء اللّہُ مَا أَشْرَکُواْ سے جبر، یا اللَّہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْض والی آیت سے صوفیہ کے کچھ بے سر و پا تصورات جو وہ خالق اور تخلیق کی بابت قائم کرواتے ہیں، یا وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِن رُّوحِی سے انسان کے اندر خدا کی روح اتری ہونا اور ’’روح‘‘ کے اعتبار سے خالق اور مخلوق کا ایک ہونا، یا وَہُوَ اللّہُ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَفِیْ الأَرْض سے ذاتِ خداوندی کا ہر جگہ ہونا(اِن مثالوں کی تفصیل کیلئے دیکھئے فصل چہارم)۔۔۔ تو وہ ایسی کسی تعبیر کو جس پر اصحابؓ و تلامذۂ ؒ اصحابؓ نہیں پائے گئے، درخورِ اعتناء نہیں جانتی۔ الفاظِ وحی کی ہر وہ خطرناک تعبیر، جو سلف سے ماثور نہ ہو، آپ سے آپ اِس کے کان کھڑے کرتی ہے؛ اور یہ کسی لمبی بحث میں پڑے بغیر، اُس کو قبول کرنے سے اِباء کر دیتی ہے؛ جس سے نہ صرف اس کا ایک فکری تسلسل قائم رہتا اور کڑی در کڑی ’’اصحابؓ‘‘ تک پہنچتا ہے بلکہ اس کا بہت سا وقت اور توجہ بھی فریضہ ہائے وقت پر پورا اترنے میں صرف ہوتی ہے۔
یہ ہے ’’خصومات‘‘ یعنی ’’بحث و آراء‘‘ یا ’’جدال فی الدین‘‘ سے بچنا؛ جو کہ منہجِ سلف کا ایک نہایت اہم خاصہ ہے۔
اب یہاں پر بعض لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ’’سلف‘‘ کا حوالہ دے کر لوگوں کو ’’بحث و آراء‘‘ اور ’’جدال فی الدین‘‘ کے اِس دشت نا پیداکنار سے نکال لانا خیال تو بہت اچھا ہے۔۔۔، مگر جو آدمی الفاظِ وحی کی اپنی ایک تفسیر کر رہا ہے اُس کو ’’سلف کے منہج‘‘ کا پابند کروانے پر بھی تو آپ کو ایک لمبی بحث کرنا ہو گی! پس ایک چیز مسئلے کا حل کیونکر ہوئی، جبکہ اُس کے ثبوت پر ہی آپ کے اور اُس کے مابین ایک لمبی تکرار ہو جاتی ہو؟!
اِس کے جواب میں ہم یہ عرض کریں گے کہ اگر ایک چیز حق ہے؛ اور آپ کو راہِ راست پر رکھنے کا ذریعہ ہے۔۔۔ تو اُس کی اصل جگہ ’بحثیں‘ اور ’مناظرے‘ نہیں۔ بلکہ اس کا اصل محل یہ ہے کہ وہ امت کی ساخت کے اندر بولے۔ وہ امت کی نئی نسلوں کی فکری و نظریاتی تربیت کی اساس بنے اور اس پر لوگوں کے اندر ابتداءً ایک دلجمعی و یکسوئی پیدا کرائی جائے۔ نتیجتاً جب بھی کوئی مسئلہ سامنے آئے اور کوئی ’نئی بحث‘ چھڑے، ہمارے اِس نوجوان کی نظر آپ سے آپ اسلام کے قرنِ اول کی طرف اٹھ جایا کرے اور وہ اسی ’’سلف کے فہم وطرزِ عمل‘‘ پر کفایت کرتے ہوئے وہاں ’’خصومات‘‘ سے بچ جایا کرے۔
چنانچہ ’’اصولِ سنت‘‘ اور ’’اصولِ سلف‘‘ کا اصل استعمال امت کی تعلیم اور تربیت اور ذہن سازی.. اور امت کی تعمیر و ترقی.. کے اندر ہوتا ہے۔
رہ گئے وہ طبقے جو کچھ غیر طبعی اسباب کے باعث دین کے کسی اصل سے ہٹ گئے ہوئے ہیں اور برسوں کے برس یا نسلوں کی نسلیں اپنے اسی انحراف پر گزار آئے ہیں۔۔۔ تو اُن کے ساتھ تو ہمارا جو بھی اختلاف ہو گا وہ ہماری اچھی خاصی محنت لے گا۔ ان کے ساتھ تو ایک ’’اصولِ سلف‘‘ ہی کیا، ہر ہر مسئلے پر ہی طویل بحثیں ہوں گی! دین کا واضح سے واضح مسئلہ بھی ان کے ساتھ گھنٹوں کے گھنٹے تو کیا برسوں کے برس بھی لے لے گا۔ اب __ مثلاً __ توحید سے بڑھ کر کونسا مسئلہ ہے جس کو کتاب و سنت نے واضح کیا ہو؟ لیکن جس شخص کی توحید خراب ہو چکی ہو __ جبکہ وہ قرآن اور سنت پر ایمان کا دعویدار بھی ہو __ اُس کے ساتھ آپ کو قرآن اور حدیث کی نصوص کے ہوتے ہوئے بھی کیسی کیسی بحثیں نہیں کرنا پڑتیں؟ بلکہ کیسے کیسے شرکیات ہیں جن کا ثبوت وہ آپ کو قرآن اور حدیث سے ہی نکال کر نہیں دے رہا ہوتا؟ غرض شرک اور توحید ایسے واضح ترین مسئلے پر بھی، ایسے شخص کے ساتھ، ’’ایک منٹ میں‘‘ بات ختم کرنا کسی وقت ممکن نہیں ہوتا؛ بلکہ طویل بحث کے باوجود بسا اوقات آپ کی بات اُس کے ساتھ سرے نہیں لگتی۔
جو بھی شخص کسی انحراف کا شکار ہو کر ایک حق بات کا انکار کر رہا ہو گا، اُس پر وہ حق بات واضح کرنا کسی وقت ڈھیروں محنت کا متقاضی ہو گا۔ خوارج نے قرآن کی تفسیر کا ایک خاص اسلوب ’’ڈیویلپ‘‘ کر لیا تھا، چنانچہ اُن کو اپنے اختیار کردہ منہج کے ثبوت ہی قرآن میں جابجا اور اِس قدر ’واضح‘ نظر آنے لگے کہ بسیار کوشش کے باوجود صحابہؓ اُن کو اپنی بات کا قائل نہ کر سکے۔ اور وہ ’قرآن کی بات‘ چھوڑ کر کسی صورت ’صحابہؓ کی بات‘ اختیار کر لینے پر آمادہ نہ ہوئے! یہی معاملہ کم و بیش دوسرے منحرف فرقوں کے ساتھ رہا۔
پس یہ چیز ایک ’’اتباعِ اصحابؓ‘‘ کا مسئلہ ثابت کرنے کے ساتھ خاص نہیں۔۔۔؛ آپ بخوبی واقف ہیں، جو لوگ ’’اتباعِ انبیاء‘‘ کے منکر ہیں اُن کو ’’انبیاء کے راستے‘‘ پر لانے کیلئے آپ کو کیسی کیسی لمبی بحثیں نہیں کرنا پڑتیں؟ جبکہ ایک نوآموز شخص کو آپ بڑے آرام سے ’’انبیاء کی اتباع‘‘ پر یکسو کر لیتے ہیں۔
منکرین حدیث ہی کو لے لیجئے، جو کہ ’’قرآن کی اتباع‘‘ پر بے حد و حساب زور دیتے ہیں، اور یہ تو آپ جانتے ہیں قرآن میں ’’اتباعِ حدیث‘‘ کا پورا پورا ثبوت موجود ہے۔ کہنے کو آپ کہہ سکتے ہیں کہ جب یہ لوگ ’’قرآن کی اتباع‘‘ پر اِس قدر زور دیتے ہیں تو اِن کو قرآن سے ہی ’’حجیتِ حدیث‘‘ کا مسئلہ نکال کر دکھا دینا چاہئے؛ آخر یہ قرآن کی بات کس منہ سے ٹالیں گے۔ لیکن۔۔۔ مسئلہ واقعتا اگر اتنا سادہ ہوتا تو رونا ہی کیا تھا! دراصل ’’اَھواء‘‘ ایک چیز ہی ایسی ہے جو آدمی کو فکری طور پر intellectually اندھا کر چکی ہوتی ہے۔ ’’حجیتِ حدیث‘‘ کے حوالے سے آپ قرآن کا کوئی بھی مقام اس شخص کے سامنے لے آئیے، وہ کہتا ہے کہ اس آیت کا تو وہ مطلب اور دلالت ہی نہیں جو آپ لے رہے ہیں! یہاں تک کہ کسی کسی وقت آپ کا جی چاہتا ہے (اُس داعیانہ حرص کے تحت جو ’’فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِیَ نَفَقاً فِیْ الأَرْضِ أَوْ سُلَّماً فِیْ السَّمَاء فَتَأْتِیَہُم بِآیَۃٍ وَلَوْ شَاء اللّہُ لَجَمَعَہُمْ عَلَی الْہُدَی فَلاَ تَکُونَنَّ مِنَ الْجَاہِلِیْنَ إِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُون‘‘(۱)کے الفاظ سے تعبیر ہوئی ہے) کہ کاش قرآن سے آپ اُس کو کوئی ایک ہی ایسا ’’صریح مقام‘‘ نکال کر دکھا دیں جس کی وہ کوئی تاویل کر ہی نہ سکتا ہو اور جس کو رد کرتے ہوئے وہ بزبانِ خود یہ ماننے پر مجبور ہو جائے کہ ہاں اب تو وہ قرآن کو صاف جھٹلا رہا ہے! لیکن آپ جانتے ہیں ایسا کبھی نہیں ہوتا! آپ دیکھتے ہیں وہ (منکر حدیث) برابر قرآن کی تعظیم کئے چلا جاتا ہے بلکہ قرآن کی تعظیم میں غلو تک چلا جاتا ہے لیکن قرآن کے ہر اس مقام کو طرح دے جاتا ہے جہاں سے احادیثِ رسولؐ کے اتباع کا حکم ملتا ہے.. جبکہ اُس کا ’’زعمِ دلیل‘‘ بھی اِس دوران پوری طرح برقرار رہتا ہے! (ایسا نہ ہوتا تو گمراہ فرقے دنیا میں ناپید exinct ہو جاتے!)۔ دوسری طرف آپ دیکھتے ہیں وہ شخص جو حجیتِ حدیث کے موضوع پر ابھی ’’اَھواء‘‘ کی قید میں گرفتار نہیں ہوا ہے، قرآن کے وہ سب مقامات اُس کو نہایت خوب سمجھ آتے ہیں جو اُس کو نبی ا کی ایک ایک حدیث اور ایک ایک اشارے کا پابند کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا مثال میں۔۔۔ کم از کم یہ شخص ’’قرآن‘‘ کو مانتا ہے اس لئے آپ کو اس کے ساتھ گھنٹوں کے گھنٹے ’’قرآن‘‘ کو تسلیم کروانے پر صرف نہیں کرنا پڑے۔ ورنہ اگر وہ کوئی ایسا شخص ہے جو ’’قرآن‘‘ کو ہی تسلیم نہیں کرتا (اور آج کل تو انٹرنیٹ پر ایسے لوگوں کے ساتھ آپ جس قدر چاہیں بحث کر سکتے ہیں؛ ’’منکرینِ قرآن‘‘ کے ساتھ بحث کے لئے بھی اب تو جگہ جگہ ’’روم‘‘ کھلے ہیں)۔۔۔ تو یہاں صرف آپ ہی کو نہیں، ایک منکرحدیث کو بھی گھنٹوں کے گھنٹے ’’قرآن‘‘ کا ثبوت دینے میں صرف کرنا ہوں گے..! بلکہ ہو سکتا ہے اس کے لئے ’’گھنٹے‘‘ بھی کافی نہ ہوں اور مسئلہ پیچ در پیچ بحثوں میں جا پڑے، اور اس کے بعد بھی وہ کہے کہ کوئی ’’مسکت دلیل‘‘ تو آپ نے مجھے دی نہیں ہے، میں ’’قرآن‘‘ کو کیسے تسلیم کر لوں!
یہاں تک کہ آپ جانتے ہیں مسئلہ کسی کسی وقت ’’خدا کے وجود‘‘ تک چلا جاتا ہے ۔۔۔ اور جب کوئی شخص یا طائفہ کسی بھی موضوع پر انحراف میں پڑ چکا ہے اور ایک عرصہ تک وہ اپنے اس عقیدہ کو پالتا پوستا رہا ہے، وہاں کوئی مقام ایسا نہیں آتا کہ وہ شخص آدھے منٹ میں آپ سے ’’دلیل‘‘ پا لیتا ہو۔ اِلا اَن یشاء اللہ
پس جو لوگ کسی چیز کے منکر ہیں اور ان کی زندگی اسی میں گزری ہے۔۔۔ ان کو تو ایک صحیح ڈگر پر چڑھانے کیلئے آپ کو ایک خاص ’’اضافی محنت‘‘ ہی کرنا پڑتی ہے۔ پھر بھی جس کی قسمت ہوصرف وہی ہے جو اپنے اُس انحراف سے باہر آتا ہے؛ اکثر کو تو ’’حق‘‘ بدستور اپنے ہی فکری تانے بانے کے اندر نظر آتا ہے۔
لہٰذا اصل چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ ابتداءً جب کسی شخص کی ذہنی و فکری ساخت کی جائے تو عین اُس وقت ہی اُس کو کس طرزِ عمل پر تربیت دی جائے۔۔۔ تاکہ تلاشِ حق کے معاملہ میں وہ ’’اَھواء‘‘ کی زد میں آنے سے ہی بچ جائے اور ’’خصومات‘‘ کے جنگل میں پھنسنے سے ہی محفوظ رہے۔ ہاں جو شخص ایک بار ’’اَھواء‘‘ کی گرفت میں آ چکا ہے (اور جوکہ از روئے حدیث آدمی کی رگ رگ میں سرایت کر جاتی ہیں(۲)) تو اس کو رہائی دلوانے کیلئے البتہ ایک اور قسم کی محنت درکار ہے۔ ’’شرک اور توحید‘‘ ایسے واضح ترین مسئلے پر بھی ایسے شخص کو ’’قرآن‘‘ کھول کر دکھا دینا بعض اوقات فائدہ نہیں دیتا۔
__________
۱۔ الانعام: ۳۵۔۳۶) ’’تو اگر تیرا بس چلے کہ تو زمین کے اندر کوئی سرنگ لگا لے یا آسمان کے اندر کوئی سیڑھی اور پھر تو ان کو کوئی نشانی لا کر دکھا دے! حالانکہ اللہ چاہتا تو ان کو ہدایت پر ہی اکٹھا کر دیتا، پس تو جاہلوں میں سے مت ہو۔ (تمہاری) پکار کا جواب تو وہ دیں گے جو سنیں۔۔۔
۲۔ وإنہ سیخرج فی أمتی أقوام تجاریٰ بہم تلک الأھواء کما یتجاری الکلب بصاحبہ، لا یبقیٰ منہ عرق ولا مفصل إلا دخلہ۔ (رواہ أحمد 16490 وأبو داود 4597، عن معاویۃ بن أبی سفیان رضی اللہ عنہما، وحسنہ الألبانی فی صحیح أبی داود 3843) ’’میری امت میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے جن کے اندر اھواء یوں رچ بس جائیں گی جیسے کتے کا کاٹا انسان کے اندر رچ بس جاتا ہے اور اس کی کوئی رگ اور کوئی جوڑ اس سے سلامت نہیں رہتا‘‘