’اختلافِ سلف کا جو دائرہ آپ بنا کر دیتے ہیں، ہم بھی اُس سے باہر تو نہیں‘! |
ہمارے جدت پسند جو کہ صحابہؓ کے اختیار کردہ علمی مواقف اور فقہی اتفاقات کے اندر جابجا کیڑے نکالتے اور ائمۂ تابعین و تبع تابعین کو قدم قدم پر غلط ٹھہراتے ہیں، یہاں تک کہ ’’فقہاء کو یہ غلطی لگی ہے‘‘ ایسا بے دریغ جملہ ان کے ہاں تکیۂ کلام کی طرح چلتا ہے۔۔۔ کسی وقت فرمانے لگتے ہیں کہ ’’اختلافِ سلف‘‘ کا جو دائرہ آپ ہمیں تجویز کر کے دیتے ہیں، ہم بھی اُس سے باہر تو نہیں! دین میں ایک ایسی نئی بات کر کے بھی، جو سلف کے جملہ مذاہب کے ساتھ متصادم ہو گی، بڑے آرام سے کہہ دیں گے کہ اِن کی بات میں اور پہلوں کی بات میں سر مو کوئی فرق نہیں!
دوسری طرف لمبی لمبی بحثیں اِس بات پر ہو رہی ہوں گی کہ سلف کے اجماع اور سلف کے دساتیر اور سلف کے اخذ کردہ معانی ومفہومات کی پابندی ہی سرے سے کب ضروری ہے؟!!!
یعنی دونوں روٹ بیک وقت اختیار کر لئے جائیں گے: راہِ سلف کا خلاف بھی کر لیا جائے گا، اجماعِ صحابہؓ کو کسی وقت حرف غلط کا درجہ بھی دے ڈالا جائے گا۔۔۔ ساتھ ساتھ البتہ یہ اطمینان بھی دلایا جائے گا کہ ’ہماری اور سلف کی بات میں سر مو کوئی فرق نہیں‘؛ یہاں تک کہ یہ بات اُس مسئلہ میں بھی کہی جا رہی ہوگی جہاں سلف کے کسی طریقے اور دستور کے بخیے ادھیڑے جا رہے ہوں!
حالانکہ ایک سادہ سا سوال ہے کہ سلف کے طریقے اور فہم کی پابندی ہی اگر سرے سے ضروری نہیں ہے تو لوگوں کو اِس پر تسلی دلاتے پھرنا کہ ’ہماری اور سلف کی بات کوئی ایسی مختلف نہیں ہے‘ کیا ضروری ہے۔۔۔؟ الا یہ کہ یہ ’’سیلزمین شپ‘‘ salesmanship کا مسئلہ ہو؛ کیونکہ گاہکوں کی ایک تعداد بہرحال ایسی ہے جو سلف کی راہ سے انحراف کرنے کو ہنوز ناپسند جانتی بلکہ اِس سے اچھا خاصا بدکتی ہے، جبکہ سلف کا لیبل دیکھنے کو مل جائے تو خاصی بے پروا ہو کر خریداری کرتی ہے !
سوال یہ نہیں ہے کہ کسی خاص مسئلے میں آپ اختلافِ سلف کے دائرہ سے باہر ہیں یا اندر۔ گمراہ قرار پانے کیلئے یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ ہر ہر مسئلے میں ہی سلف کے خلاف گئے ہوں۔ بے شمار مسائل آپ کے اور سلفِ امت کے مابین مشترک ہی رہیں گے۔ اصل چیز دیکھنے کی صرف یہ ہے کہ اجماعِ صحابہؓ کا آپ کے نزدیک کیا حکم ہے اور دائرۂ سلف کا پابند رہنا آپ کے نزدیک کہاں تک ضروری؟ تفسیرِدین کے معاملہ میں سلف کے دائرے کا پابند رہنا اگر آپ ابتداءً قبول کر لیتے ہیں تو باقی سب مسئلے قابل حل ہیں اور تب یقیناًیہ جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ فلاں اور فلاں مسئلہ میں آپ کا یہ کہنا کہ ’آپ بھی وہی بات کرتے ہیں جو سلف نے کی ہے‘ کہاں تک حقیقت ہے اور کہاں تک خلافِ واقعہ۔ تاہم سلف کے فہم و تفسیر کی کوئی اصولی حیثیت ہی اگر آپ کے ہاں طے نہیں ہے؛ نتیجتاً جہاں بھی آپ کی بات فہمِ سلف کے خلاف نکل آئی وہاں آپ دیدے پھیر کر سوال اٹھا دیں گے کہ فہم و اجماعِ سلف کی پابندی ہی آخر کب ضروری ہے۔۔۔ تو اِس صورت میں سلف کی موافقت کا جو دعویٰ کہیں کہیں پر کر لیا جاتا ہے، بے فائدہ و غیر متعلقہ رہے گا۔ خوارج، روافض، جہمیہ، قدریہ، معتزلہ میں سے کونسا فرقہ ہے جو دین کے ہر ہر مسئلہ میں ہی سلف کے خلاف چلتا تھا؟! وہ اصل نقطہ جہاں سے اُن کا اور اہل سنت کا کانٹا الگ ہوتا تھا صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ: اہل سنت دین کو صحابہ ث وسلف سے سمجھتے ہیں جبکہ وہ صحابہ ث وسلف سے آزاد رہ کر۔
یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ ابو حنیفہ و مالک و شافعی و ابن حنبل، وبخاری و اوزاعی وغیرھم رحمہم اللہ صحابہ میں تو نہیں آتے! یا یہ کہ طحاوی، طبری، سرخسی، مرغینانی، کاسانی، لالکائی، ابن بطہ، ابن عبد البر، ابن قدامہ، شاطبی، ابن تیمیہ، ابن کثیر، نووی، ابن حجر وغیرھم رحمہم اللہ ایسے ہزاروں اہل علم کیا سلف میں آتے ہیں جو قدم قدم پر اِن کے حوالے دیے جاتے ہیں؟ بلاشبہ۔۔۔ ہم اہل سنت اِن بے شمار علمی ہستیوں کے حوالے قدم قدم پر دینا ضروری جانتے ہیں؛ کیونکہ فہم اور استنباط کا مستند ہونا جس طرح اِن معتمدینِ امت کے حوالے دے کر ثابت ہوتا ہے اُس طرح ’اپنی‘ بات کر دینے سے نہیں ہوتا۔ اور بے شک یہ درست ہے کہ یہ سب لوگ دورِ سلف میں نہیں آتے۔ مگر یہ سب لوگ ’’مدرسۂ سلف‘‘ سے وابستہ ضرور ہیں بلکہ اِس دبستان کے ترجمان؛ اور یہی بات اصل میں اہم ہے۔ اِن حضرات کا یہ اصول جب ہم پر واضح ہے کہ یہ اجماعِ صحابہؓ کے پابند ہیں، حتیٰ کہ اختلافِ صحابہؓ کے وقت بھی یہ صحابہؓ کے اقوال سے نہیں نکلتے، نیز یہ سلف سے چلے آنے والے فقہی سلسلوں اور علمی دستوروں کے سختی کے ساتھ پابند ہیں اور پہلے سے چنی ہوئی اینٹوں پر ہی نئی اینٹیں چنتے ہیں۔۔۔ تو جب تک ہم پر ثابت نہ ہو جائے کہ یہ فقہاء کہیں پر اِس اصول کو توڑ بیٹھے ہیں، ہم اِن کے استنباطات کے حوالے پورے شرحِ صدر کے ساتھ دیتے ہیں۔ اور یہی وہ اصل فرق ہے جو ہم علمائے سنت اور زعمائے بدعت ٭ کے مابین کرتے ہیں۔ وہ شخص جو سلف سے چلے آنے والے فقہی دساتیر کا ہی پابند نہیں وہ جن گڑھوں کے اندر گرنے والا ہے اُس کے پیچھے تو وہی چلے جس کو ان گڑھوں میں گرنا پسند ہو۔
بحمداللہ
وصلی اللہ علی النبی وآلہٖ
_______________
٭ کل مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ، وکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃ-ہر نیا چلن بدعت ہے۔ اور ہر بدعت، ضلالت۔