کیا ہر نئی بات ممنوع ٹھہرا دی جائے گی؟ |
کئی طبقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ: متقدمین کے فہم و تفسیر سے ہٹ کر کتاب و سنت کو (نئے) معانی پہنانا کوئی ایسی ہی قبیح بات ہے۔۔۔ تو کیا اِس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ یہاں اب ہر چیز سر بمہر ہے؟ یعنی پہلوں نے جو کہنا تھا وہ کہہ چکے؛ اور اس باب میں ہمارے لئے تو کوئی کام ہی باقی نہیں رہ گیا ہے؟
یہ نتیجہ اخذ کر لینا نہ صرف غلط ہے بلکہ زمین پر انسان کے کردار کو ہی معطل کر دینے کے مترادف ہے۔ اور جب زمین پر انسان کا کردار معطل ہو جاتا ہے تو وحی کا کردار بھی ساتھ ہی معطل ہو جاتا ہے؛ کیونکہ وحی کو ’’انسان‘‘ ہی کے ذریعے اپنا عملی ظہور کرنا ہے۔ جس کیلئے ضروری ہے کہ وحی کی تلقی کیلئے تمام کے تمام انسانی قویٰ کام میں لائے جائیں اور یہ عمل کسی دور میں موقوف نہ ہو۔ لہٰذا ہر دور کے اہل علم کو ہی یہاں شریعت کے فہم و تفسیر وتطبیق کے معاملہ میں اپنا حصہ ڈال کر جانا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ یہ ایک ’’تسلسل‘‘ کی صورت رہے نہ کہ ’’ادھیڑ بن‘‘ کی۔
اسلامی شریعت کا مطالعہ و تفسیر وتطبیق (اسلامی فقہ و فکر) ایک ایسی دیوہیکل تعمیر ہے جو ہر انسانی دور میں ہی ایک توسیع واضافہ چاہتی ہے؛ اور یہ ایک ایسا صحت مند و جان دار عمل ہے جس کو کبھی بھی معطل نہیں ہونا ہے؛ جس دور میں ’’اجتہاد‘‘ کا یہ عمل معدوم ہوا یوں سمجھئے گویا مسلمان اُس عہد میں پایا ہی نہیں گیا۔ لہٰذا ہر دور کے اہل علم اِس میں بیش بہا اضافے کریں گے؛ البتہ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک اعلیٰ ڈیزائن پر کھڑی کی گئی عمارت کو آپ اوپر سے اوپر اٹھاتے چلے جائیں اور کہیں پر یہ ضرورت محسوس نہ کریں کہ عین بنیاد سے ہی اس کی اینٹیں اکھاڑنا شروع کر دیں اور نتیجتاً پوری عمارت کی سلامتی کو ہی ایک سوالیہ نشان بنا دیں۔ ’نئی چیز‘‘ کا ممنوع ہونا اِس معنیٰ میں البتہ ضرور ہے۔
پس ’’نئی چیز‘‘ اگر اِس تفسیری وفقہی عمل کو ’’توسیع‘‘ دینے کے معنیٰ میں ہو، اور جو کہ اپنے زمانے کے مسائل پر پورا اترنے کی صورت میں خود بخود وقوع پذیر ہوتی ہے، تو یہ ’’نئی چیز‘‘ ایک نہایت مستحسن عمل ہے۔ البتہ ’’نئی چیز‘‘ اگر اِس معنیٰ میں ہے کہ اِس فلک بوس عمارت کی بنیادوں کو ہی از سر نو کھودنا اور عین وہاں پر ہی ’تصحیحات‘ کرتے پھرنا ہے، تو یہ ’’نئی چیز‘‘ اِس امت کے حق میں ایک نہایت مذموم اور منحوس شےء ہے۔ آج کے وہ طبقے جو تفسیر وفقہ کے معاملہ میں صحابہ و تابعین کی ڈالی ہوئی بنیادوں کو درہم برہم کرنے میں لگے ہیں، اور سبک روئی سے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر صحابہ و تابعین کی وضع کردہ اِن اشیاء کو ہمیں من و عن لینا ہے اور خود اپنی عقل سے، اور لاہور و گوجرانوالہ سے پڑھی ہوئی اپنی ’عربی‘ سے مدد لیتے ہوئے، فصحائے صحابہ و تابعین کے جاری کردہ اِن اُسُس و نظائر کو غلط کہنے کی جرأت تک نہیں کرنا ہے، تو کیا اِس سے ہم یہ سمجھیں کہ شریعت کی تفسیر اور تعبیر کے معاملہ میں ہمارا اور قیامت تک آنے والی نسلوں کا کوئی کردار ہی اب باقی نہیں رہ گیا ہے۔۔۔؟ اِس سوال کے پیچھے کارفرما جو اصل وارداتی ذہنیت ہے اگر آپ پر واضح ہے تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ یہ بظاہر معصوم سا سوال اپنی پشت پر کس قدر مہلک و گمراہ کن محرکات رکھتا ہے۔
دین کی تعبیر و تفسیر کے معاملہ میں آپ کیلئے (بشرطیکہ آپ اِس کے اہل ہوں) یقیناًایک کردار باقی ہے، مگر یہ وہ کردار نہیں جو علمائے صحابہؓ کے لئے مخصوص ہے جن کو مدرسۂ نبوت سے براہِ راست ایک علمی و فکری، وروحانی تزکیہ حاصل ہوا؛ اور جن کو قیامت تک کیلئے اِس تفسیری و فقہی عمل کی تاسیس کرنا تھی۔ اور نہ ہی یہ وہ کردار ہے جو علمائے تابعین واتباعِ تابعین کے لئے مخصوص ہے جن کو مدرسۂ نبوت کے فراغت یافتہ گدی نشینوں سے اپنی علمی و فقہی ساخت کروانا نصیب ہوا؛ اور جن کو اِس تفسیری وفقہی عمل کی اولین بنیادیں اٹھانا تھیں۔ ہاں اُن کو بنیاد مانتے ہوئے خود آپ بھی اپنے زمانے کے علمی و فکری وفقہی میدانوں کے اندر جس قدر چاہیں گھوڑے دوڑا سکتے ہیں۔ اور یہ کام کوئی ایسا معمولی بھی نہیں؛ بہت تھوڑے ہیں جو اِس چیلنج پر پورا اتر کر دکھا سکتے ہیں۔
*****
اِس سلسلہ میں اصولی بات تو یہی ہے۔ تاہم طلبۂ علم کے فائدہ کیلئے یہاں پر ہم شیخ سلمان العودۃ کو ہونے والا ایک سوال اور شیخ کا جواب نقل کریں گے:
سائل: شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے کہیں پر کہا ہے کہ اُن کی بات اگر سلف سے ماثور نہیں تو ہرگز نہ لی جائے ۔ تاہم کسی کسی وقت ہمارے دیکھنے میں آتا ہے کہ طالبعلم ایک ایسا نیا علمی خیال لے آتا ہے کہ استاد یہ کہہ کر اُسے شاباش دیتا ہے کہ اس کو پیش کرنے والا وہ پہلا شخص ہے۔ کیا ایسے کسی علمی استنباط پر اُس طالبعلم کو خوش ہونا چاہیے، خاص طور پر اگر استاد اس پر یہ کہے کہ یہ نہایت خوب اور برمحل استدلال ہے۔۔۔؟ یا پھر اس کو اِس پر خوش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ قول سلف یا مابعد کے علماء سے تو ماثور نہیں ہے؟
شیخ سلمان: آدمی کا ایک ایسا قول لے کر آنا جس میں کوئی اس پر سبقت لے کر نہیں گیا ہے۔۔۔ اگر تو یہ کسی عملی فقہی میدان سے متعلق ہے تب تو جائز نہیں کہ آدمی ایک ایسا قول نکال لائے جو اس سے پہلے کبھی کسی کے ذہن میں نہیں آیا۔ کیونکہ اگر یہ خیر ہے تو امت کے پہلوں کو ضرور اس میں سبقت حاصل ہونی چاہیے۔ نیز اس لئے بھی کہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اتنی صدیاں امت اِس صالح عمل سے بھٹکی ہی رہی تھی۔ اِسی بابت امام احمد فرماتے ہیں: لا تقل فی مسألۃ لیس لک فیہا إمام یعنی دین کے ایک مسئلہ میں اگر تمہارا کوئی پیش رَو نہیں تو وہ بات اپنی اپج سے مت کہو۔
تاہم وہ میدان جو نظری ہیں، اگرچہ وہ شرعی کیوں نہ ہوں، تو وہاں اِس بات میں کوئی مانع نظر نہیں آتا۔ ’’نظری میدانوں‘‘ سے میری مراد ہے مثلاً: آدمی کو قرآن کی کسی آیت سے ایک نیا نکتہ مل جاتا ہے، یا کسی حدیث سے سوچ اور فکر کی کوئی نئی جہت مل جاتی ہے۔ یا مثلاً: دو قول جن میں بظاہر کوئی تعارض تھا، یہ شخص ان کے مابین جمع کی کوئی ایسی صورت نکل لاتا ہے جو اِس سے پہلے کتب تفسیر یا شروحِ حدیث میں منقول نہیں ہوئی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
یا اس کی مثال یہ ہو سکتی ہے کہ کسی مسئلہ میں ایک قول یا ایک مذہب یا ایک اجتہاد تو پہلے سے پایا گیا ہے، مگر یہ شخص اُس قول یا اُس مذہب یا اُس اجتہاد کی صحت پر کچھ ایسے نئے دلائل لے آتا ہے جو پہلوں نے نقل نہیں کئے ہیں اور اِس بنا پر اُس قول یا اُس اجتہاد کو ترجیح مل جاتی ہے۔
اِس چیز کے شواہد سے اہل علم کی کتب بھری پڑی ہیں؛ خصوصاً شاطبی، ابن تیمیہ، ابن قیم اور ابن حجر وغیرہ کی تالیفات جہاں آپ کو ایسا بہت بڑا ذخیرہ مل جاتا ہے۔تاہم یہ بھی ضروری نہیں کہ استاد کا شاگرد رشید کو کسی وقت یہ کہنا کہ اس علمی نکتے کے معاملہ میں کسی کو اس پر سبقت نہیں رہی ہے، یہ معنیٰ رکھے کہ یہ بالکل ہی کوئی نئی چیز ہے۔ کسی وقت اُس کی مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کسی اور طالبعلم کے ذہن میں اس سے پہلے یہ بات نہیں آئی، یا یہ کہ اس سے پہلے کسی سے اِس بات کا منقول ہونا استاد کے اپنے علم میں نہیں ہے؛ جس سے یہ بہرحال ثابت ہوتا ہے کہ طالبعلم کو ذکاوت اور نکتہ رسی سے ایک خاص حظ نصیب ہوا ہے۔
رہ گیا طالبعلم کا اس پر خوش ہونا تو یہ ’’قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذٰلک فلیفرحوا‘‘ (یونس: ۵۸) کی ہی قبیل سے ہے۔ استاد کا ایسے ہونہار طالبعلم کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کی علمی صلاحیتوں کو اور سے اور جگانا باقاعدہ ھدیِ نبوی ہے۔ جیسا کہ نبی ا نے ابی بن کعبؓ کو ان کے ایک جواب سے خوش ہو کر فرمایا تھا: لیہنک العلم یا أبا المنذر!! (مسلم:۸۱۰ ) ’’ابو منذر! بھئی تم کو علم مبارک ہو‘‘۔(۱)
یقیناًاِس بات کی گنجائش ہے کہ قرآن مجید کی کسی آیت سے آج بھی آدمی کو کوئی ایسا علمی نکتہ نکال لانا نصیب ہو جو اِس سے پہلے کسی کے بیان کرنے میں نہیں آیا، اور یقیناًیہ بات ’’لا تنقضی عجائبہ‘‘ کے معنیٰ میں شامل ہے، البتہ اِس چیز کو روایتی معنیٰ میں ’’تفسیر‘‘ سے تعبیر کیا ہی نہیں جاتا؛ اہل علم کے ہاں اِس کیلئے ’’فوائد‘‘ وغیرہ ایسے الفاظ مستعمل ہیں، اور جس کی ظاہر ہے ہمیشہ ہی گنجائش ہے۔
’’نئی چیز‘‘ لے کر آنے کے حوالے سے وہ خاص میدان جو اہل علم کے ہاں تجویز ہوتے ہیں اور وقت کے اصحابِ علم و دانش کو ان میں گھوڑے دوڑانے کیلئے خوب خوب صلائے عام دی جاتی ہے: ’’نوازل‘‘ ہیں۔ (نوازل، نازلۃ کی جمع، جس کا مطلب ہے ایک ایسا مسئلہ یا موضوع جس سے امت کو اِس سے پہلے واسطہ نہیں پڑا)۔ ظاہر ہے اس میں پورا اترنا کام ہی علمائے وقت کا ہے۔ نیز کتاب و سنت کا اعجازِ علمی۔ (یعنی وہ سائنسی اور سماجی حقائق جو انسانی علم اور تجربے نے اُس پر آج جا کر منکشف کئے ہیں، جبکہ قرآن مجید یا سنت میں ایسے حقائق کی بابت کچھ اشارات پائے جاتے ہیں)۔ علاوہ ازیں، سماجیات کے اندر نظری و تطبیقی علوم (theoretical & applied sciences) جن کے ہر ہر گوشے تک وحی کی روشنی پہنچانا ایک عظیم چیلنج ہے۔ ظاہر ہے اِن میدانوں میں متقدمین کو نہیں بلکہ دورِ حاضر کے رجال کو ہی اپنے علمی کمالات دکھانا ہوں گے۔
__________