تا تریاق از
عراق آوردہ شَوَد
طے نہیں ہو پا
رہا اِن بدیسی اشیاء کو کہیں کیا؟
’’کمیونزم‘‘ جس کی بدقسمتی یہ رہی کہ وہ مغرب کے ساہوکاروں کو بھی ناراض کر
بیٹھا تھا.. ہم سے ’’کفر‘‘ اور ’’الحاد‘‘ ایسے القاب حاصل کر لینے میں بہت جلد
کامیاب ہوا، بغیر اِس سے کہ ہم میں سے کسی ایک بھی شخص کی اِس سے ’شدت پسندی‘ لازم
آئی ہو یا کسی ایک بھی شخص کو اِس پر ’غلو‘ کا طعنہ ملا ہو!
البتہ دیگر بدیسی
اشیاء کا حکم اِس سے مختلف ہے!...:
v’’ڈیموکریسی‘‘ کی بابت تو خیر آپ ایک لفظ
برا مت بولیں؛ یہ تو اسلام کی اپنی ہی چیز ہے اور اس کے دلائل تو جس قدر مغرب میں
پائے جاتے ہیں اتنے ہی مشرق میں بھی پائے جاتے ہیں! بلکہ ایسے ’یونیورسل ٹرتھ‘ کے
دلائل تو افق کے جس طرف بھی چاہیں آپ بے حد وحساب دیکھ سکتے ہیں، بلکہ کوئی ہی ہو
گا جس کو یہ ’سورج‘ چڑھا ہوا نظر نہ آتا ہو!.. لہٰذا ’’ڈیموکریسی‘‘ کے حکم سے تو
یوں فارغ ہوئے!
vاور ’’کیپٹلزم‘‘...؟
اِس کا جواب یہ ہے کہ سود کھانا اور کھلانا اسلام میں محض ایک گناہ ہے، اِس کو ہم
محض ایک فردی عمل کے طور پر ہی دیکھیں گے نہ کہ باقاعدہ ایک ’’سسٹم‘‘ کے طور پر،
لہٰذا ’’کفر‘‘ سے نسبت اِس کی بھی نہیں کی جا سکتی۔ یہ ’’کفر‘‘ ہو گا بھی تو مغرب
میں ہی، کیونکہ وہ بدبخت کلمہ نہیں پڑھتے، البتہ کلمہ پڑھ لینے کے بعد اللہ اور
رسولؐ کے ساتھ جنگ کرنے والے ایک پورے منظم فنامنا کو من وعن امپورٹ کر کے، اور
’’پرمٹ‘‘ دے کر یعنی ’’لیگلائز‘‘ کر کے، اور باقاعدہ ’’سسٹم‘‘ کے طور پر، لے کر
چلنا اور چلانا ’’کفر‘‘ کے درجے کو نہیں پہنچتا اور اِس کےلیے ’’کفر‘‘ ایسے سنگین
الفاظ بول دینے سے تو آپ کے اپنے ایمان ہی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے!
vاور ’’سیکولرزم‘‘...؟ اِس کا خود ہمیں زیادہ پتہ
نہیں چل سکا ہے کہ یہ کیا بلا ہے، اِسی وجہ سے اِس کا ذکر بھی آپ نے ہم دینی طبقوں
کے بیان و زبان سے کم ہی کبھی سنا ہو گا اور اِس پر لال پیلا ہوتے ہوئے بھی آپ نے
ہم داعیانِ توحید وسنت کو کبھی نہیں دیکھا ہوگا، باوجود اس کے کہ ہم نے بھی سن یہی
رکھا ہے کہ پورے جہان کے اندر یہی نظریہ (اور درحقیقت ’’عقیدہ‘‘) رائج الوقت ہے۔
کچھ بھی ہو، اِس کو ’’کفر‘‘ کہہ ڈالنے کےلیے تو نہایت واضح دلیل چاہیے!
vاور حکم بغیر ما
انزل اللہ...؟ تفاسیر میں دیکھ کر ہمیں یہ
نظر آیا ہے کہ یہ چیز یہود کریں تو اُن کے حق میں کفر ہے البتہ ہمارے حق میں نہیں!
vاور یہ جو سماجی
علوم ہیں کیا اِن کا وہی میدان نہیں جس میدان میں احکام و ہدایات دینے کےلیے خدا کی
طرف سے شرائع اترتی رہی ہیں؟ اُن لوگوں کا کیا حکم ہے جو سماجی ہدایات پر مشتمل
اِن علوم کو آسمانی شریعت کے تابع رکھے بغیر اور شرعی مسلمات سے isolated رکھتے ہوئے ہی اِن علوم کو
پڑھنے اور پڑھانے پر اصرار کریں اور فرمائیں کہ سماجی علم و راہنمائی میں شریعت کو
کوئی عمل دخل حاصل نہیں، اِن سب مسائلِ حیات کی بابت حقائق کا تعین کرنا اور ان کی
بابت راہنمائی اختیار کرنا مطلق طور پر ہماری عقول پر چھوڑ رکھا گیا ہے لہٰذا زمین
پر یہ سب فیصلے ’’انسان‘‘ کو خود کرنے ہیں؟ یعنی ’’طبعی علوم‘‘ تو ہمارے ہی مطالعہ
وتحقیق پر چھوڑ رکھے گئے تھے، اب ’’سماجی علوم‘‘ بھی مطلق طور پر اگر ہمارے ہی
فلسفہ و آراء پر چھوڑ رکھے گئے ہیں تو ’’آسمانی شرائع‘‘ کس دائرہ میں راہنمائی کےلیے
آتی ہیں؟ اِس کا ایک رٹا رٹایا جواب آتا ہے: ’’شرعی علوم‘‘ کے دائرہ میں!!! یعنی
نماز و روزہ ودیگر روحانی اعمال، اور بس!!! اِس سے باہر ’’شریعت‘‘ کا کیا کام؟! ...
کیا اِس کو رب العالمین کے ساتھ کفر نہیں کہا جائے گا؟ رب العالمین نے کیا اپنے رسولؐ کو زندگی کے تمام شعبوں پر
حاکم بنا کر اور مسائلِ حیات کے ہر ڈیپارٹمنٹ میں راہنما اصول دینے کےلیے مبعوث
نہیں فرمایا...؟ جواب: ہاں، مگر سماجی علوم و حقائق کو ’’شرائع‘‘ سے آئسولیٹ رکھ
کر پڑھنے اور طے کرانے کے منہج کو کفر کہنے پر پھر بھی ہم شرح صدر نہیں پاتے البتہ
آپ اگر اِس کےلیے ’’کفر‘‘ اور ’’الحاد‘‘ ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو اس پر ہم
آپ کی مذمت ضرور کر سکتے ہیں! اُس کو تو ہم ’’کفر‘‘ نہیں کہہ سکتے البتہ آپ کو
’’تکفیری‘‘ ضرور کہہ سکتے ہیں!
vیہ تو ہوا سماجی
علوم کی بابت ایک عمومی حکم۔ اب ہر ہر سوشل سائنس میں وہ مقام آتے ہیں اور ایک دو
نہیں سینکڑوں ہزاروں مقام آتے ہیں جہاں شریعت کے راہنما اصول ایک بات کہتے ہیں تو
اِن علوم کے بانیوں نے، جوکہ بیشتر مغرب کے بڑے بڑے ملحد رہے ہیں اور کسی آسمانی
شریعت کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے تک کے لائق نہیں جانتے رہے، بالکل ایک دوسری بات
کہتے ہیں.. تو ہر ہر سوشل سائنس کے ایسے ہزارہا مقامات پر ایک مسلمان کیا اعتقاد
رکھے؟ اور ایسے ہزاروں مقامات پر جو شخص رسولؐ کی لائی ہوئی ہدایت کی جانب پیٹھ
کرنے کا روادار ہو، اُس کا شریعت میں کیا حکم ہے...؟ جواب: جی ہاں یہ کوئی اچھی
بات تو نہیں ہے، مگر یہ سوال کم ہی کبھی ہمارے سامنے آیا ہے اور خود ہم نے بھی یہ
سوال کبھی نہیں اٹھایا، باوجود اس کے کہ ڈیڑھ سو سال سے ہمارے ہاں یہ مسئلہ جاری
ہے اور ہمارے بہترین دماغوں کو کبھی کبھار نہیں ہر روز یہ مسئلہ پیش آتا ہے، اور
بے شک ہم بھی یہاں پر معاشرے کو ’’دینی راہنمائی‘‘ دینے کےلیے ہی بیٹھے ہیں۔ پھر
بھی اِن مسائل پر ’’کفر‘‘ اور ’’الحاد‘‘ کا سوال اٹھانا تو ہمیں خوامخواہ کی سختی
اور شدت پسندی ہی نظر آتی ہے، اور اِس سے زیادہ تو ابھی ہم نے اِس پر سوچا نہیں ہے!
vمزید برآں..
عالمی اصطلاحات کے موضوع پر ایک مسلمان کو
کیا اعتقاد رکھنا ہے؟ ان مروجہ اصطلاحات کو ان کے اطلاق سمیت قبول کرنے کا کیا حکم
ہے؟ اِس ’’عالمی بستی‘‘ میں رہنا ہے جس کے اندر ’’کمیونیکیشن‘‘ کے دوش پر بے شمار
کفریات تیرتے پھر رہے ہیں اور رسولوں کے ساتھ تصادم رکھنے والے بے شمار افکار اپنی
’’مینی فیسٹیشن‘‘ کروانے کا ایک ذریعہ پاتے ہیں، اور جبکہ شریعتِ محمدؐ اور امتِ
محمدؐ کو بھی اِسی ’’عالمی بستی‘‘ کے اندر اپنے مستقل بالذات حوالوں کے ساتھ رہنا
ہے... تو اس معاملہ میں شریعت کے کیا حدود اور ضوابط ہیں؟ کیا کسی بھی زرق برق
اصطلاح کو جسے مغرب کے کچھ فورم رائج کر دیں یا کسی بھی خوشنما یا خوفناک لیبل کو
جسے مغربی فورم دنیا کے کسی طبقے پر چسپاں کر دیں اُس کے سب اطلاقات سمیت لے لیا
جائے؟ اور چونکہ اِس ’’عالمی بستی‘‘ میں اُس اصطلاح کو ایک حوالہ کے طور پر ہی
چلایا اور لیا گیا ہوتا ہے اور جبکہ اُس حوالہ کے پیچھے اُن کے اپنے اعتقادات ہی
بول رہے ہوتے ہیں تو اگر ایک مسلمان بھی اُسی کو من و عن ایک مستند حوالہ اور ایک
قابل اعتماد مرجع کے طور پر لے لے؛ یہاں تک کہ مسلم معاشروں میں اُس ایک لفظ یا
اصطلاح کی بنا پر اشیاء یا اشخاص کی تحسین و تقبیح بھی کی جانے لگے اور مدح و ذَم
بھی، بلکہ اِسی کی بنیاد پر دوستی و دشمنی، ولاء و براء اور تحالف و جنگ تک ہونے
لگے، گویا یہ لفظ یا اصطلاح اپنے اندر کوئی مطلق حق رکھے ہوئے ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟... کیا
یہ ضروری نہیں اور کیا یہ اسلامی عقیدہ کا تقاضا نہیں کہ ایسی کسی بھی اصطلاح کو
اور ایسے کسی بھی لیبل کو پہلے شریعت کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کیا جائے اور جب تک
شریعت سے ہی اُس کا فیصلہ نہ کرایا جائے (کہ اُس لفظ کے تحت کس قدر حق مندرج ہے
اور کس قدر باطل) اور جب تک اُس اصطلاح یا اُس لیبل کو شرعی حقائق ہی کی سان پر نہ
کسا جائے، اس کو قابل اعتناء جاننا حرام سمجھا جائے اور اس کی جانب تحاکم کرنا
کفر؟ (کون نہیں جانتا، ’’وما اختلفتم فیہ من شیءٍ فحکمہ إلی اللہ، ذٰلکم اللہ
ربی‘‘ توحید کا ایک نہایت اصیل مبحث ہے...؟)۔ اب یہاں اُس شخص یا اُس منہج کا کیا
حکم ہے جو معاشرے میں، اور اِس وقت تو پوری دنیا کے اندر، پائے جانے والے متنازعہ
اصطلاحات اور ان کے مفاہیم کو شریعت کی عدالت میں لانے کا ضرورت مند ہی نہیں
جانتا، بلکہ جو مسائلِ عالم کو کتاب اور سنت کی سان پر کسنے کی بات کو ہی خندۂ
استہزاء کے لائق جانتا ہے، اور جو کہ یہاں کے ابلاغیات میں ہر طرف سر چڑھ کر بول
رہا ہے...؟ جواب: ہاں یہ منہج اور یہ رویہ درست تو نہیں ہے، مگر اِس کو رسولؐ کی
لائی ہوئی ہدایت کے ساتھ ’’کفر‘‘ کہنا پھر بھی ہمیں شدت پسندی نظر آتا ہے، آدمی
ایسا رویہ اور اعتقاد رکھ کر بھی رہتا مسلمان ہی ہے!
vمزید برآں، رسولؐ
کی لائی ہوئی ہدایت سے اِعراض کا کیا حکم ہے؟ عرش سے اترے ہوئے اَخبار و اَحکام کو
مکمل طور پر ’’غیر موجود‘‘ کے حکم میں رکھنا شریعت کی رو سے کیا کہلائے گا؟ یہاں
دانشوروں اور سوشل ریفارمسٹوں کی ایک بڑی تعداد ہے جن کی ہر جگہ اِس وقت رونمائی
کرائی جا رہی ہے... یہ مدعیانِ دانش سب جہانی مسائل پر گفتگو کریں گے، یہاں کی ایک
ایک معاشرتی بیماری کی خبر لیں گے، ایک ایک برائی پر ہزار بار افسوس کریں گے، ایک
ایک سماجی لعنت کے خاتمہ پر علم و عرفان کے دریا بہائیں گے، مگر مجال ہے جو
’’برائی‘‘ کے اِس سارے آپریشن کے دوران اور ’’اچھائی‘‘ کا پورا ایک تصور دینے کے
دوران کبھی ایک بار بھی اللہ اور رسولؐ کا ذکر ہو جانے دیں اور چیزوں کے خوب یا بد
ٹھہرائے جانے کے حوالے سے کوئی ایک آسمانی حوالہ بھی کبھی زبان پر آ جانے دیں،
حالانکہ جانتے ہیں رسولوں کی بعثت اور کتابوں کا نزول زمین پر ’’نیکی‘‘ اور
’’بدی‘‘ کا تعین کروانے کےلیے ہی ہے۔ ’’شرائع‘‘ کو یوں انجان بن کر اور اِس
خوبصورتی کے ساتھ طرح دے کر جائیں گے کہ گویا اِن کو پتہ تک نہیں کہ اِسی ایک مقصد
کےلیے زمین پر ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زائد نبی بھیجے جا چکے ہیں اور خاص اِن کی
طرف بھی خدا نے باقاعدہ اپنا ایک رسولؐ بھیج رکھا ہے اور کوئی سوا چھ ہزار آیات پر
مشتمل ایک کتاب بھی خاص اِن کی ’’ہدایت‘‘ کےلیے اتار رکھی ہے جس کے ایک ایک لفظ
میں اِن کو اپنے لئے اور پوری انسانیت کےلیے رشد اور ہدایت تلاش کرنی ہے۔ اشیاء کے
حسن و قبح کے تعین کے حوالے سے ’’انسان‘‘ کا مستقل بالذات ہونے کا تصور، آپ دیکھیں
گے، اِن مردوں اور اِن بیبیوں کے انگ انگ سے پھوٹتا ہے اور اِن کے لہجے کا ایک ایک
لوچ بول کر کہتا ہے کہ ’’مسائلِ زندگی‘‘ کی بابت خدا کی ہدایت اور اُس کے متعین
کردہ حلال و حرام کا ذرہ بھر مول نہ لگانا اِن کے روئیں روئیں میں سرایت کئے ہوئے
ہے۔ خود اپنے خاص ماحول میں تو اِن کا جو حال ہو گا خدا ہی جانتا ہے، مگر مسلم
معاشروں کے اِن فورمز پر بھی یہ اپنے رویے، اپنے اسلوب، اور اپنے باقاعدہ ایک
انٹلکچول اپروچ کے ذریعے شریعت کا جو ایک ’’وزن‘‘ لگا کر جاتے ہیں اور خدا کی جانب
سے آئی ہوئی ہدایت کی جو ایک ’’حیثیت‘‘ متعین کر کے جاتے ہیں، وہ ’’صفر‘‘ ہے، جی
ہاں ’’صفر‘‘۔ یعنی رسولؐ کا اِن کی ہدایت کےلیے آنا نہ آنا اور کتاب کا اِن کو راہ
دکھانے کےلیے اترنا نہ اترنا اِن کی بلا سے ایک برابر ہے.. یعنی عین وہ چیز جس کو
قرآن کے اندر ’’اعراض‘‘ کہا گیا ہے(یعنی پلٹ کر دیکھنا تک نہیں ہے کہ خدا کیا کہتا
ہے اور کیا نہیں کہتا ہے)، اور جو کہ اِس وقت علم اور دانش کے سب فورمز پر سر چڑھ
کر بول رہا ہے۔ تو حضرات! اِس کا ہمارے دینی راہنمائی کے فورمز کے یہاں کیا حکم ہے...؟
اِس کا بھی وہی جواب ہے: لا اَدری! اِس کو ’’کفر‘‘ کہا جاتا تو آپ ہمارے ہاں سے
نہیں سنیں گے اور نہ اِس کفر کے خلاف ہمیں صف آرا ہوتا ہوا یا ہمیں قوم کو صف آرا
کرتا ہوا پائیں گے، بہت سے اور بکھیڑوں سے ہی ہمیں تو فرصت نہیں ملتی کہ اِس مسئلہ
کو ہم اِس قدر ’’غور‘‘ سے دیکھیں اور اِس کو باقاعدہ اپنی دعوت اور تحریک میں جگہ
دینے کےلیے بھی چل پڑیں۔ صاف ظاہر ہے ایسے انٹلکچول اپروچز کو ہم بھی درست تو نہیں
سمجھتے، مگر ان کےلیے آپ اگر ’’کفر‘‘ اور ’’الحاد‘‘ ایسے ’شدت آمیز‘ لفظ بولیں گے
تو یہ البتہ ایک شدید زیادتی ہو گی۔ آخر ہمارے اِن نوجوانوں کو ہوا کیا ہے جو ہر
چیز میں اِن کو ’’کفر‘‘ نظر آنے لگ گیا ہے!
*****
ہاں! ذرا آنکھیں
کھول کر اس طوفان کو آتا دیکھیں جو آپ کے اِس چودہ سو سالہ پیڑ کا کوئی ایک پتہ
اور کوئی ایک شاخ سلامت چھوڑنے کا روادار نہیں ہے اور جو کہ آپ کے سب خدوخال مسخ
کر دینے کےلیے پھاٹک توڑ کر آپ کے گھر میں گھس آیا ہے۔ ہاں اِس طوفان کو دیکھیں گے
تو آپ کی یہ حیرانی دور ہو جائے گی کہ: آخر ہمارے اِن نوجوانوں کو ہوا کیا ہے جو
اِس بدیسی فنامنا کی ہر چیز میں اِن کو ’’کفر‘‘ نظر آجاتا ہے! تب شاید اِس سوال کا
جواب بھی آپ کو مل جائے کہ آپ کا وہ منہج جو ملتِ اسلام پر حملہ آور اِس بدیسی دین کی ایک ایک چیز کے اندر
’’اسلامی پہلو‘‘ تلاش کرنے بیٹھ جاتا رہا ہے اُس شکست خوردہ منہج کے نتیجے میں
اپنی صورتحال آخر اِس نوبت کو کیوں جا پہنچی ہے کہ بدیسی افکار کی ایک ایک پھونک
اب ہمیں اُڑائے لئے پھرتی ہے اور ہمیں یہاں پر خزاں کے پتوں سے بڑھ کر بے وزن کر
چکی ہے! ہمارے دین کے مستقل بالذات حوالے اب کوئی نہیں سنتا، سوائے یہ کہ ہمارے
دین کے اطلاق کو اُن کے ’’دین‘‘ کے حوالوں سے مقید کر کے دیکھا جائے اور اس کا
اتنا ہی مفہوم ’’بائنڈنگ‘‘ مانا جائے جو اِس ’’عالمی دین‘‘ کے یونیورسل حوالوں کے
مطابق بیٹھے، باقی کسی چیز پر اصرار کرنے اور سیدھا سیدھا ایک نزاع کھڑا کر دینے
کے ہم خود ہی متحمل نہیں۔ پس ہمارے دین کا اطلاق اب اُن کے دین کے قیود سے مقید ہو
گا، ہمارے دین کا عموم اُن کے دین سے مخصص ہو گا، اور اگر ’رفعِ تعارض‘ کی کوئی
صورت باقی نہ ہو تو ہمارا منسوخ اور اُن کا ناسخ ہو گا! اور اب ہم دیکھنے لگے ہیں،
اُن کے ’’دین‘‘ کے حوالے اب ہر جگہ unquestioned چلتے ہیں اور ہر
دین باختہ عورت یہاں اُس کے حوالے دینے بیٹھی ہوتی ہے اور ہم اُن حوالوں کی بنیاد
پر اور اسی کے پیراڈائم میں رہنا قبول کر کے اپنا محاکمہ کروانے کو تیار بیٹھے
ہوتے ہیں۔ بلکہ ہمارے لئے سوائے اِس کے کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا کہ ہم اپنا
’’اسلامی کیس‘‘ اُن کے ہاں ’’چلنے‘‘ والے حوالوں کی مدد سے ہی اور اُن کے پیراڈائم
میں رہ کر ہی جیت کر دکھائیں؛ جس میں لازمی بات ہے ہمیں منہ کی کھانا ہو گی۔ اور
چونکہ اُن کے ہاں چلنے والے حوالوں پر تو ہمارا ’ایمان‘ متزلزل نہیں ہو سکتا! اور
اُن کے پورے کے پورے پیراڈائم کو جوتے کی نوک پر رکھنے کی بات تو خیر ہے ہی حد سے
بڑھ کر ’معیوب‘ (اور اِس کےلیے تو خود اپنا ’’منہج‘‘ بھی پورے کا پورا بدل لیا
جانا ضروری ہو جاتا ہے، جس کے ہم متحمل نہیں)...! لہٰذا ایک ہی چیز رہ جاتی ہے جس
میں ہم حسب ضرورت تصرف کر لیا کریں: ہمارا ’’اسلامی کیس‘‘!!! ہمارا زور اِس بے
چارہ پر ہی چل سکتا ہے!!! چنانچہ ہمیں اپنے اِس ’’اسلامی کیس‘‘ ہی کو ’حالات کے
مطابق‘ ایڈجسٹ کرتے چلے جانا ہوتا ہے اور ہر تھوڑے تھوڑے عرصے بعد ہمارے ’’اسلامی
کیس‘‘ کی یہ ایڈجسٹمنٹ 'due' ہو جاتی ہے!
اور اب... کوئی
پوچھے تو سہی کہ ہمارا ’’اسلامی کیس‘‘ یہاں پر رہ کیا گیا ہے جس پر جاہلیت کے ساتھ
ہماری کوئی جنگ ہو رہی ہو؟ ایک مہنگائی اور کرپشن کی دُہائی رہ گئی تھی سو وہ یہ
کرپٹ میڈیا لے اڑا، جس کا اپنا ایک ایجنڈا ہے اور جوکہ اِس ملک کی تاریخ کا ملحد
ترین ایجنڈا ہے۔ (اور شاید اِس ایجنڈا کے اندر بھی ہمیں کچھ ’مثبت پہلوؤں‘ کی ہی
تلاش ہو!)۔ اب کیا ہے جو اپنے پاس رہ گیا ہے؟ کیا کبھی یہ جائزہ لیا جائے گا کہ
جمہوریت کا یہ میلہ دیکھنا ہمیں کس قدر مہنگا پڑا ہے؟
اسلام کی حقیقت
پر آخری حد تک اصرار، (جس کو قرآن میں فاستقم کما أمرت‘‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا
ہے).. اِس منہج پر گرفت کمزور کر لینے کے بعد، کوئی ذرہ بھر وزن بھی تو ہمارا یہاں
نہیں رہ گیا ہے!
’’ڈیموکریسی‘‘ اور
اس کو ’اسلامائز‘ کرنے کے سلسلہ میں ہونے والی واردات کے موضوع پر ملاحظہ فرمائیے
ہمارا ایک مضمون’یہ وہی انگریزی نظام ہے، مگر
اب یہ ’اسلامی‘ بھی ہے‘۔
’’سیکولرزم‘‘ کے
شرعی حکم کی بابت دیکھئے ’’اہلسنت فکر و تحریک‘‘ فصل: ’’موجودہ صورتحال.. ایک
جائزہ‘‘ ص۲۸۴۔ ۲۹۱۔ نیز حالیہ
اداریہ کی دوسری فصل۔
رسول ﷺ کی لائی
ہوئی ہدایت، جوکہ ’مذہبی‘ معاملات کےلیے بھی ہے اور سیاسی، سماجی ومعاشی معاملات
کےلیے بھی... اس کے آگے تسلیم اور انقیاد بجا لانا، مومن ہونے کےلیے ایک بنیادی
ترین شرط ہے۔ اِس سلسلہ میں دیکھئے ’’شروطِ لا الٰہ الا اللہ‘‘ میں کلمہ کی چھٹی
اور ساتویں شرط، (ص ۱۵۰ ۔ ۱۶۸)
مثال کے طور پر
’’آزادی‘‘، ’’مساوات‘‘، ’’حریت فکر‘‘ یا ’’جارحیت‘‘ یا ’’دہشت گردی‘‘ وغیرہ ایسی
اصطلاحات، جن میں سے کئی ایک یو این کے چارٹر اور اسی طرح کے کچھ دیگر عالمی
مواثیق کا حصہ ہیں۔ اِن اصطلاحات کے تحت جو مفہومات آتے ہیں اور جہانی طور پر universally مستند اور باقاعدہ حوالہ جانے
جاتے ہیں، ان مفہومات میں بہت سے حقائق ایسے ہیں جو آخری آسمانی شریعت سے موافقت
رکھتے ہیں تو انہی مفہومات میں بہت سے حقائق ایسے ہیں جو آخری آسمانی شریعت کے
ساتھ صاف تصادم رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان اصطلاحات کو ان کے اس عالمی اطلاق کے
ساتھ قبول کرنے کے نتیجے میں جہاد کی کثیر صورتوں کو باقاعدہ ایک جرم ماننا لازم
آتا ہے۔ ارتداد کی سزا تو کیا، ارتداد کی ممانعت کرنا ہی جرم ٹھہرتا ہے۔ عائلی
امور سے متعلقہ شریعت اسلامی کے کئی ایک مسلمات کا بطلان لازم آتا ہے، وغیرہ
وغیرہ۔ جبکہ ہمارے کثیر دانشور طبقے اِن اصطلاحات کو بغیر کسی شرط کے قبول کرتے
ہیں، جبکہ اِن عالمی اداروں اور مواثیق کی رکنیت لینے والے ادارے اور ممالک تو اِن
پر اپنے دستخط کے بموجب اِن کو مطلق طور پر قبول کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کو مطلق طور
پر لینا شریعت کے کثیر مسلمات کو صاف جھٹلانا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کفر کا ایک
بہت بڑا باب ہے، خصوصاً جب سے ابلاغیات کی ترقی وانتشار کے نتیجے میں ’کیونی کیشن‘
عام ہوئی ہے اور الفاظ و اصطلاحات کی عالمی کھپت بڑھنے لگی ہے۔
اِس مسئلہ کے بعض
جوانب کےلیے ملاحظہ فرمائیے ابو زید کا مضمون: ’’مغرب کے ساتھ نظریاتی کشمکش اور
اسلام کا مقدمہ‘‘ (ایقاظ اپریل تا جون ۲۰۱۰ ء)۔ علاوہ ازیں، دیکھئے: ہماری کتاب ’’موحد
تحریک‘‘ کی فصل: ’’تاثرات کی مار‘‘
یہ سمجھنا کہ
مغرب کا اصل دین عیسائیت ہے، لہٰذا اگر وہ عیسائیت کو ہم پر نہیں تھوپ رہا تو ہم
یہ سمجھیں کہ مغرب ہم پر اپنا دین مسلط کرنے کےلیے ہرگز کوئی زور نہیں لگا رہا..
ایک نہایت فاش غلطی ہے اور کوئی خردمند واقف حال اِس غلطی کا روادار نہ ہو گا۔
مغرب کا دین دراصل وہی ’’سیکولرزم‘‘ ہے (یعنی چرچ اور سٹیٹ کی تقسیم اور عبادت
خانوں سے باہر ’’انسان‘‘ کی خدائی، ’ڈیموکریسی‘ اس کی محض ایک فرع ہے) جس کو ہم پر
مسلط کرنے کےلیے مغرب ایڑی چوٹی کا زور ’ڈیموکریسی‘ اس کی محض ایک فرع ہے) جس کو
ہم پر مسلط کرنے کےلیے مغرب ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے اور اپنے دانشوروں کے
پورے ایک خونخوار غول کے ساتھ ہمارے سب پسماندہ شہروں اور بستیوں اور ہمارے سب کم
علم دماغوں پر حملہ آور ہے۔
پمفلٹ کے بقیہ مضامین کا لنک