سچ پوچھیں تو اُن
کی یہ سب ’کرامات‘ ہماری اسلامی جماعتوں کے دم سے ہیں۔ استشراق
اور اُس کے نام نہاد ’مسلم‘ علمبرداروں کے یہ سب کرشمے ہرگز ظہور میں نہ آتے اگر
ہماری جماعتیں کفر کی اِس نظریاتی پیش قدمی کے مدمقابل ہمارے اسلامی عقیدہ کا علم
تھام کر کھڑی ہوتیں۔ اِدھر کچھ چراغ جل رہے ہوتے تو اُدھر سے اٹھایا گیا یہ سب
اندھیرا اور حقیقتِ اسلام پر ڈالی گئی یہ ساری گرد عالم اسلام کے کیس کو اِس قدر
اوجھل اور روپوش نہ ہونے دیتی، خصوصاً جبکہ اِس امت کے اندر ایمان کی رمق مر نہیں
گئی ہے اور ذرا نم ہو تو یہ مٹی آج بھی بڑی زرخیز ہے۔ ہاں
البتہ جس گھر کے رکھوالے موت کی نیند سو گئے ہوں وہاں آپ چوروں کو دندناتا ہوا
دیکھیں تو اس پر حسرت اور افسوس تو جتنا ہو سکے کیجئے، مگر تعجب نہیں...!
عوام، جن کو بڑی
دیر سے کسی نے لا الہٰ الا اللہ کا مطلب ہی نہیں بتایا، جب تاریخ کے اِس برہنہ
ترین شرک کے داعیوں کو ’مذہب کے
احترام‘ ایسے الفاظ پوری عقیدت کے ساتھ جپتا ہوا سنتے ہیں اور کسی وقت تو ان کو
اجلی سفید ٹوپیوں کے ساتھ ’میلاد‘ کی نعتوں پہ جھومتا اور بے حال ہوتا ہوا دیکھتے
ہیں.. ’عید کی نماز‘ میں ان کو باقاعدہ موجود پاتے ہیں.. اور کسی کسی وقت اِحرام
کی چادروں میں پورے شرعی طریقے کے ساتھ ملبوس، مناسکِ حج وعمرہ ادا کرتا ہوا پاتے
ہیں.. تو عوام کےلیے اس بات پر یقین کرنا واقعتا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ دینِ
اسلام کے منکر ہیں؛ ’ارے یہ لوگ تو اسلام پر اپنے ایمان اور یقین کا اظہار کرتے
ہیں، اب دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے، اور عمل میں کمزوری تو بھلا ہم میں سے
کس کے ہاں نہیں پائی جاتی، مگر اسلام کے منکر ان کو کیسے مان لیا جائے؟!‘
کون تھا جسے
اسلامی عقیدہ کی رو سے یہ بتانا تھا کہ ’’اسلام کا انکار‘‘ کس کس طرح ہو جایا کرتا
ہے؟ اور یہ کہ حیاتِ انسانی کے کسی ایک بھی شعبہ کو مالک الملک کی بندگی اور اطاعت
سے مستثنیٰ ٹھہرا دینا مالک الملک کے ساتھ کھلا کفر ہے.. محض ’گناہگاری‘ یا ’بے
عملی‘ یا ’فسق و فجور‘ نہیں بلکہ ’’کھلا کفر‘‘...؟ کون تھا جسے یہاں کے مسلم عوام
پر اسلامی عقیدہ کا یہ بنیادی ترین مبحث واضح کرنا تھا کہ وہ ٹولے جو اللہ کو مطلق
لائقِ عبادت اور مطلق واجبِ اطاعت نہ مانیں ’’اسلام‘‘ کے دائرہ میں سرے سے آتے ہی
نہیں، اِس دائرہ سے ان کا نکلنا تو بعد کی بات ہے! کیونکہ ’’اسلام‘‘ کا مطلب ہی
خدا کے آگے مطلق تسلیم ہونا ہے، محض ’مذہبی معاملات‘ میں نہیں بلکہ ’’زندگی کے سب
معاملات‘‘ میں..!
لوگوں پر
’’اسلام‘ ‘ کا وہ مطلب واضح کرنا جس سے ’’کفر‘‘ کا مطلب بھی اُن پر نہایت واضح ہو
جائے، کس کا فرض تھا؟
اور پھر یہ کوئی
ایسا ویسا فرض تھوڑی تھا۔ اسلام اور کفر کا فرق ازبر کر کے رکھنا مسلم معاشروں کے
حق میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس فرق کو جانے بغیر یہ مسلم معاشرے
’پاکستان‘ اور ’افغانستان‘ اور ’ایران‘ اور ’بنگلہ دیش‘ اور ’کویت‘ اور ’یو اے ای‘
ہوتے ہیں، جوکہ اہل کفر کی خوراک ہوتے ہیں.. اور اگر اِسلام اور کفر کے اِس فرق کو
جان لیں اور اِس فرق سے معرضِ وجود میں آنے والے شرعی تقاضوں پر تربیت پا لیں تو
یہی مسلم معاشرے ’’دار الاسلام‘‘ ہوتے ہیں، جس سے شیاطین کی جان جاتی ہے۔ شرعی
قیادتوں کا ہمیشہ یہ فرض رہا ہے اور ہمیشہ یہ فرض رہے گا کہ ایک مسلم معاشرے کو
اسلام اور کفر کے ما بین فرق کروائیں اور اِسی فرق کو اُن پر زیادہ سے زیادہ واضح
کر کے رکھیں، خصوصاً اپنے دور کے کفر کو تو نہایت واضح اور برہنہ کر کے رکھ دیں
اور اپنے عہد میں پوجے جانے والے باطل خداؤں کے خلاف تو پوری قوم کو تیشے اٹھوا
دیں۔ اہل شریعت کا یہ ایک ابدی و دائمی فریضہ ہے بلکہ سب سے بڑا اجتماعی فریضہ ہے۔
البتہ آج جب ’’زمانہ قیامت کی چال چل گیا‘‘ تھا، آج جب عالم کفر ہمارے سارے بند
توڑنے آیا تھا.. کفر کے عالمی طوفان کی پیدا کردہ اِس حالیہ صورتحال میں تو ہماری
’’شرعی قیادتوں‘‘ کا یہ فرض اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گیا تھا!!! آخر وہ
کونسا بند تھا جو دین کے اِس بنیادی ترین مبحث کو واضح کئے بغیر، بلکہ اِس کی
بنیاد پر قوم کو باقاعدہ صف بند کئے بغیر، عالمی کفر کی اِس خوفناک ترین پیش قدمی
کی راہ میں باندھا جا سکتا تھا؟!!
ایسی آندھی جو
اِس سے پہلے مغرب کی جانب سے ہم پر کبھی بھی حملہ آور نہیں ہوئی تھی، اُس کا
مقابلہ کرنے کےلیے آپ ہی بتائیں یہاں پر کس قسم کے موضوعات درکار تھے؟ ’گیس اور
بجلی‘ کے نرخ؟ ’لوڈ شیڈنگ‘ اور ’افتخار چودھری‘ کی بحالی؟... یا عبادتِ خداوندی
اور عبادتِ غیر اللہ کا وہ پیغمبروں والا نزاع جو اِس صنم خانۂ آذری میں بڑی دیر
سے متروک پڑا ہے؟؟؟ اس ننگے برہنہ کفر کے مقابلے پر ’’عقیدہ‘‘ کے کونسے چیپٹرز تھے
جو بہت دیر پہلے ہمارے یہاں کھل جانا چاہئیں تھے اور ان کا ذکر و اعادہ یہاں
باقاعدہ ایک گونج کی صورت اختیار کر چکا ہونا چاہیے تھا؟ آپ ہی بتائیے، اِس کٹے
پھٹے عالم اسلام کو یہ جنگ لڑ کر دینا جہاں نہ خلافت اور نہ دولت اور نہ امارت، آج کس کی ذمہ
داری تھی؟ اسلامی تحریکوں کے علاوہ یہ امت آج کس کی طرف دیکھے...؟ صدیوں سے تاک
میں بیٹھا ہوا ایک دشمن آج یہ سنہری موقعہ بدرجۂ اتم استعمال کر رہا ہے کہ اب اِس
امت کے سر پر کوئی نہیں رہا لہٰذا اِس کا نظریاتی وجود ہی صفحۂ ہستی سے ختم کر کے
رکھ دو.. صدیوں کے بھوکے اِس بھیڑیے کی چیرہ دستیوں سے اپنے اِس گِلے کا تحفظ کرنا
اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے اِس کے ایک ایک رخنے پر جم کر کھڑا ہو جانا اور خود
اِس گِلے کو ہی اِن ایمان لیوا رخنوں سے خبردار کرنا آج کس کا فریضہ تھا؟ اور کون
تھا جو تاریخ کے اِس نازک ترین موڑ پر، جب اِس امت کا سب کچھ لٹ پٹ چکا، ہاتھ پکڑ
کر اِس کو یہ مرحلہ سر کراتا اور عین اِس موقعہ پر ہی اِس کی صف بندی کرانے کےلیے
میدان میں اترتا؟
یہ جنگ جو ہماری
تاریخ کی ایک عدیم النظیر جنگ ہے اور جس میں صلیبی اِس بار اپنا توپ وتفنگ ہی اٹھا
نہیں لائے، وہ اپنے چینل اور اپنے تھیٹر اور اپنا شوبز بلکہ اپنا پورا نقارخانہ
اور اپنا پریس (صحافت) اور اپنا پورا ادب اور اپنی جامعات و کلیات اور اپنے
دانشوروں کی ایک فوج ظفر موج جو ڈیڑھ صدی سے یہاں تیزی کے ساتھ اپنے انڈے اور بچے
دینے میں لگی ہے، اور نہ جانے اس کے علاوہ بھی وہ اپنا کیا کیا کچھ اٹھا لائے ہیں،
کہ جس سے اِس بار وہ اِس امت کے نظریاتی وجود کی اینٹ سے اینٹ بجا کر جائیں...
اپنی تاریخ کی اِس عدیم النظیر جنگ میں پورا اترنے کےلیے درکار اُن سب کے سب
ہتھیاروں سے آج اپنے اِن مسلم عوام کو لیس کر دینا جوکہ اِس جنگ کو لڑنے کےلیے اِن
کا عقیدہ ہی اِن کو فراہم کر کے دے سکتا تھا، بلکہ اِن کے عقیدہ نے یہ ہتھیار رکھے
ہی ایسے چیلنجوں پر پورا اترنے کےلیے ہیں کہ جب نہ اِن کی خلافت ہو اور نہ اِن کی
فوجیں اور نہ دولت اور نہ امارت تو اِن کو لا الٰہ الا اللہ کے یہ ہتھیار ہی بدرجۂ
اتم کام دے جایا کریں، بلکہ ایسے بے سر و سامانی کے موقعوں پر یہ وقت کے کسی باطل
کے خلاف اگر لا الٰہ الا اللہ کے یہ ہتھیار سونت کر میدان میں اتر آئیں اور
’’فضائے بدر‘‘ ایسی کسی حالت کو اس معرکہ میں ذرا دیر قائم رکھ کر دکھا لیں تو
عقیدہ لا الٰہ الا اللہ کے یہی ہتھیار اِن کی کھوئی ہوئی دولت اور خلافت کی بحالی
کی ضمانت بھی بنیں... امت کے ایک ایک نوجوان کے گلے میں عقیدہ لا الٰہ الا اللہ کے
یہ ہتھیار حمائل کروانا اور پھر ان کو میدان میں اتارنا کس کی ذمہ داری تھی؟
سامنے اگر کفر
ہے، اور اِدھر ہمارے پاس یہ عقیدہ لا الٰہ الا اللہ ہے، تو یہ میدان ہمارے ہی لئے
تو ہے!
انبیاء نے اِس کے
علاوہ کیا کوئی اور دولت بھی چھوڑی ہے...؟ یا ہمارے خیال میں، کفر کے نرغے سے
نکلنے کا کوئی نسخہ انبیاء ہمیں دے کر نہیں گئے ہیں!!؟
کون ہے جو یہ
میدان ہم سے مار لے جائے!
کتنی ہی بار ایسا
ہوا کہ جب ہماری فوجیں ڈھ گئیں اور ہماری دولتیں بکھر گئیں تو اِس عقیدۂ لا الٰہ
الا اللہ نے ہمیں پھر سے کھڑا کر دیا۔ یہاں ہمیشہ، ایسے ہی چند لوگوں کی کمی رہی
ہے جو امت کے ایک مؤثر و معتد بہٖ حصہ کو لا الٰہ الا اللہ کی حقیقت پر از سر نو
کھڑا کر دیں۔ ہماری اِس طویل تاریخ کے دوران؛ صورتحال کبھی کتنی ہی مایوس کن کیوں
نہ ہو گئی ہو، جیسے ہی کچھ لوگ اِس عقیدہ کو میدان میں لے کر اترے، نہایت تھوڑی
مدت کے اندر چشم فلک نے پھر سے ہماری صفیں کھڑی ہوتی ہوئی دیکھیں۔ خدا نے ہم پر یہ
کوئی ایسی نعمت کر رکھی ہے کہ یہ ایک چیز ہمارے ہاتھ سے نہیں گئی تو سمجھو کچھ بھی
نہیں گیا۔ اِس کے دم سے ہماری کھوئی ہوئی ہر چیز واپس آجاتی رہی ہے۔ ہزار بار اجڑ
کر بھی یہ گھر بس جاتا رہا ہے، کیونکہ اِس کی یہ دولت، اِس کی قوت اور سطوت کا یہ
راز ہمیشہ اِس کے دانشمندوں کی نگاہ میں رہا ہے۔ مگر اِس بار یہ راز اِس کے
دانشمندوں سے بڑھ کر اِس کے دشمن کی نگاہ میں ہے اور وہ اِس نادرترین موقعہ کو
غنیمت جانتے ہوئے اِس امت کے زیادہ سے زیادہ حصے کو اِس دولت سے محروم کر دینا
چاہتا ہے؛ تاکہ جب یہ اٹھنا بھی چاہے تو اِس کا کام زیادہ سے زیادہ پیچھے جا چکا
ہو اور اُس کا اپنا کام عالم اسلام کے اندر اُسی بقدر آگے بڑھ چکا ہو۔ آخر کس کا
فرض تھا کہ وہ امت کی نظر اِس کی طاقت کے اصل سرچشمہ پر مرکوز کروائے اور اِس کو
دشمن کے اُس نقب سے خبردار کرے جو اُس نے اِس گھر کی سب سے قیمتی چیز چرانے کےلیے
کمال تدبیر وانتظام کے ساتھ لگا رکھا ہے اور جس کو وہ اپنے اِس نام نہاد ایلیٹ
ٹولے کے ذریعے اور سے اور وسیع کرتا جا رہا ہے؟ بلکہ کون تھا جس کو اِس نقب زن
ٹولے کے ساتھ یہاں دو دو ہاتھ کرنا تھے، تاکہ یہ قوم بھی اپنا گھر لوٹنے والوں کے
ساتھ کسی کو الجھتا ہوا دیکھتی تو اُس کا ساتھ دینے کو کھڑی ہوتی؟
*****
مگر ہمارا المیہ
محض اتنا ہی تو نہیں ہے...
یہ اندھیرا جو
اِس بار آیا، خود مشعل بردار ہی اُس سے کچھ بہت زیادہ محفوظ نہیں رہے ہیں! مریض کے
علاج کی تو ہم ضرور امید کرتے، اگر ’’معالج‘‘ نے ہی مرض کے اثرات سے اچھا خاصا حصہ
نہ پا رکھا ہوتا! آپ اُس بے چارہ مریض کی حالت کا تصور کر سکتے ہیں جس کو ایسے
معالج کے سوا کوئی ذریعۂ علاج دستیاب نہ رہا ہو!
کیا آپ تعجب نہیں
کریں گے، وہ سارے کا سارا کفر جو ڈیڑھ صدی سے لا لا کر یہاں ڈھیر کیا جا رہا ہے،
ہمارے داعیانِ اسلام کو اس کے اندر ’’کفر‘‘ نام کی کوئی شےء نظر نہیں آ رہی
ہے؟!!!! یہ خوامخواہ کا وہم ہے اور نری شدت پسندی!!!! اِس پورے ڈھیر کے اندر
’’شرک‘‘ اور ’’جاہلیت‘‘ نام کی کوئی شےء ہی نہیں!!!! یہاں تک کہ اس کو ’’کفر‘‘
کہنا ہماری اِن اسلامی تحریکوں کو __ جی ہاں ’اسلام کی حقیقت سے ناواقف عوام
الناس‘ کو نہیں بلکہ ہماری ’’دینی شرعی قیادتوں‘‘ کو __ انتہاپسندی نظر آتا ہے!!!
خدایا! تو کیا ڈیڑھ صدی سے استشراق ہمیں ’’اسلام‘‘ پڑھا رہا ہے؟؟؟! ڈیڑھ صدی کے
اِس عمل سے کسی ایک بھی شخص کا کفر لازم نہیں آیا!!! واقعتا، حضرات! کیا استشراق
یہاں پر ’کرامات‘ نہیں کر رہا!!!؟ ہاتھ کی صفائی ذرا ملاحظہ تو فرمائیے۔ کمال
پُرکاری کے ساتھ ڈیڑھ سو سال سے وہ ہماری سوسائٹی کی ساخت کر رہا ہے اور یہیں کی
مادرہائے علمی کے اندر بیٹھ کر اور یہیں کے مصادرِ راہنمائی کو ہاتھ میں لے کر کر
رہا ہے۔ نظریات سے لے کر رجحانات تک، اور سسٹمز سے لے کر فیشنز تک، ہمارا سب کچھ
تشکیل کر رہا ہے.. پوری سوسائٹی جسے وہ تشکیل کرنے جا رہا ہے اور جس کا ہراول اُس
نے آپ کے سب بڑے بڑے چینلوں پر لا کر بٹھا رکھا ہے اور تعلیم و راہنمائی کے سب
سوتوں پر قابض کرا رکھا ہے، بلکہ تعلیم اور ابلاغ اور ’’راہنمائی‘‘ کے یہ سبھی
سوتے ہی سو فیصد اُس کے تشکیل کردہ ہیں... ہر کس و ناکس کو معلوم ہے، یہ پورا
فنامنا مغربی استشراق کا برین چائلڈ ہے... مگر اِدھر سادگی دیکھئے، ہمیں یہ اپنا
ہی بچہ نظر آ رہا ہے، بس ذرا ’بے عملی‘ اور ’بے راہ روی‘ کا عارضہ ہے، آپ اِس کو
’اخلاقی بگاڑ‘ کہہ لیں؛ زیادہ سے زیادہ، آپ اِس کو ’فسق و فجور‘ اور ’گناہگاری‘
کہہ لیں، مگر اِس کو ’’جاہلیت‘‘ اور ’’شرک‘‘ اور ’’عبادتِ طاغوت‘‘ کہہ ڈالنا..
توبہ استغفر اللہ، یہ تو حد سے بڑھ کر شدت پسندی ہے! ہم تو کبھی بھی ایسی بات نہ
کریں اور ہم تو ایسے ’منحرف افکار‘ کی پرزور مذمت کرنے والے ہیں! ’کلمہ پڑھنے والے
لوگوں‘ کو ’’کفر‘‘ سے منسوب کرنے کی اِس منطق سے ہی ہم تو شدید اختلاف رکھتے ہیں!
اس فصل میں اسلامی
جماعتوں پر کچھ تنقید ہے۔ مگر اس سے پہلے ہمارا ایک مقدمہ نوٹ فرما لیجئے:
کوئی دینی جماعت خاص سیاست، یا ابلاغ، یا کسی سماجی خدمت کے
شعبے میں اترنے کےلیے تشکیل دی گئی ہے تو کچھ حرج نہیں کہ وہ اپنی تمام سرگرمی اپنے
اسی ہدف سے متعلقہ رکھے۔ ظاہر ہے پورے اسلام کی دعوت اس کا نہ دعویٰ ہے اور نہ اعلانیہ
ہدف۔ دینی جماعتوں میں کاموں tasks کی ایسی تقسیم ہونا بالکل حق ہے۔ ایسی
کسی جماعت پر کوئی ملامت بھی نہیں کہ اس نے لوگوں کے تصوراتِ دین کیوں درست نہیں کروائے
اور باطل افکار کے مقابلے پر ٹھیٹ اسلام کا علم لے کر میدان میں کیوں نہیں اتری۔ یعنی
اس فصل میں جو کچھ تنقید ہوئی، ایسی ایک جماعت اس تنقید کا محل نہیں ہو گی۔ ہاں جس
کسی کا دعویٰ ہے کہ جدید جاہلیت کے مقابلے پر وہ یہاں پر ایک بنیادی ترین کام کےلیے
اٹھی اور میدان میں اتری ہے، مگر وہ یہاں پر جاہلی تصورات کے خلاف ایک زوردار بیانیہ
میدان میں لانے میں ناکام رہی ہے، یا اگر اس جانب اس کی توجہ ہی نہیں، یا پھر اس کا ایک
ہدف بھی یہاں پر جاہلیت کے ساتھ ایک نظریاتی سازگاری یا بیچ کی راہ نکالنا ہی ہے، تو
پھر ضرور وہ ہماری اس تنقید کا محل ہے۔
سیکولرزم کا کہنا
ہے کہ اللہ کو ضرور پوجا جائے مگر ’مذہبی‘ معاملات میں ہی۔ رہ گئے امور ریاست و
سلطنت، امورِ معیشت وسیاست ومعاشرت، اور امورِ دیوانی وفوجداری ومعاملاتِ صلح و
جنگ، تو یہاں البتہ اللہ کا فیصلہ اور اس کی شریعت محکم نہیں ٹھہرائی جائے گی بلکہ
اللہ کی شریعت اور اس کا فیصلہ یہاں قابل اعتناء ہی نہیں ہو گا بلکہ اِس دائرہ میں
’’اطاعت‘‘ اور ’’بندگی‘‘ سیدھی سیدھی غیر اللہ کی ہو گی اور سر تسلیم خم ہو گا تو
اللہ کے فرمائے ہوئے کے آگے نہیں بلکہ انسانوں کے فرمائے ہوئے کے آگے۔ چنانچہ
’مذہبی معاملات‘ میں واجب اطاعت اللہ ہے اور ریاستی و سماجی معاملات میں واجب
اطاعت کوئی اور ہستی۔ ’نماز روزہ‘، اور ’نکاح و طلاق‘، اور ختنہ و جنازہ، اور حیض
و نفاس اور آدابِ بول وبراز ایسے امور میں خدائی اللہ کی البتہ ایوان ہائے سلطنت و
حکومت میں خدائی غیر اللہ کی۔ سبحانہ وتعالیٰ عما یشرکون۔ ’’سیکولرزم‘‘ سے بدتر
شرک انسانی تاریخ کے اندر شاید ہی کوئی پایا گیا ہو۔ ’احترامِ مذہب‘ کے الفاظ بول
کر یہاں اِس کا مسلمانوں کو دھوکہ دینا دجالیت کی ایک برہنہ ترین مثال ہے۔ ایسے
الفاظ بولتے ہوئے ظاہر ہے یہ لوگ غلط بیانی بھی نہیں کر رہے ہوتے (کیونکہ ’مذہب‘
سے جو یہ مراد لیتے ہیں وہ وہی چند روحانی اعمال اور سماجی تہوار ہیں، جن کا
احترام کرنے میں اِن کو کوئی مسئلہ نہیں) البتہ ’احترامِ مذہب‘ کے یہ الفاظ بول کر
یہ لا الٰہ الا اللہ کے مطلب و معنیٰ سے غافل معاشرے کو اپنی سب مصنوعات بڑے آرام
سے بیچ لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’احترامِ مذہب‘ کے الفاظ کسی بھی وقت ان کی زبان
کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ بھلا ہو ہماری اُن اسلامی جماعتوں کا جو معاشرے کو اس کا
’’عقیدہ‘‘ سکھانے سے کہیں بڑھ کر اِس بات کو ضروری جانتی ہیں کہ اِس معاشرے کو
کرپشن اور مہنگائی سے متعلقہ ’’فیکٹس اینڈ فگرز‘‘ کی بابت ہی ایجوکیٹ کیا جائے..
اور جن کے نزدیک معاشرے کو ’’توحید و شرک‘‘ کا فرق کروانے اور معاشرے کو باطل کے
خلاف اِس عقائدی بنیاد پر صف آرا کرانے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اِس قوم کو پیاز
اور ٹماٹر کے بھاؤ بتا کر ہی ’نا اہل و بدعنوان و غیر ذمہ دار‘ حکمرانوں کے خلاف
برانگیختہ کر لیا جائے! اور زہے نصیب جو اِس طرح بھی دو سو سال سے جاری عالم اسلام
کا یہ معرکہ سر کر لیا جائے! فحسبنا اللہ ونعم الوکیل۔
پمفلٹ کے بقیہ مضامین کا لنک