مکمل پمفلٹ کےلیے لنک
ایک جانب دو سو
سال سے مار کھاتی چلی آنے والی ایک بیچاری اَن پڑھ قوم، جس سے شعور کی آخری رمق تک
چھین لینے کےلیے دنیا بھر کے چور اس کے گھر میں نقب لگا کر بیٹھے ہیں... دوسری
جانب، نئی نویلی ’ٹائیوں‘ کے ساتھ میڈیا سکرینوں پر جلوہ نما شاطر دماغ جو پڑھے
لکھے ہیں اور نہایت منصوبہ بند، ذہین فطین، ’’ٹریننگ یافتہ‘‘؛ دیکھ بھال کر چال
چلنے اور شست باندھ کر تیر چلانے والے...
ایک جانب ایک
بھولی پسماندہ قوم کہ جس پر تہذیبِ آذر کے ان نئے رَندوں اور سازندوں کی اصل حقیقت
بھی کچھ بہت کھلی ہوئی نہیں ہے... دوسری جانب، دین باختہ اینکروں، سیاستدانوں اور
دانشور خرانٹ مردوں اور عورتوں کا پورا ایک منظم ٹولہ جس کا انگ انگ بول کر کہتا
ہے کہ یہ ابلیسی ٹولہ امتِ محمدؐ کے عقیدہ، اس کی تہذیب اور اس کے سب کے سب مسلمات
کو فرسودہ اور بیہودہ بنا کر پیش کرنے پر مامور ہے اور جو دین کے ان سب مسلمات کو
امتِ محمدؐ کے دلوں سے کھرچ کھرچ کر نکال دینے اور اس کے دماغوں سے پوری طرح دھو
کر رکھ دینے بلکہ جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے درپے ہے..
ایک طرف صورتحال
یہ کہ اس قومِ مصطفوی کے دین، اس کے عقیدہ، اس کی شریعت اور اس کے نبیؐ کی ناموس کےلیے
ایک بھی چینل دستیاب نہیں، یعنی اِدھر میدان پوری طرح خالی... جبکہ اُدھر اُس
شیطانی عقیدہ، اُس ابلیسی دین، اُس زمینی شریعت اور اُن الحادی مسلمات کی ناموس کےلیے
درجنوں چینل اور سینکڑوں رسالے اور ہزاروں فورم اور کروڑوں سکرینیں دستیاب، جو کہ
رسول اللہؐ کے دین کے ساتھ اپنی تاریخ کی بدترین اور گویا آخری ترین جنگ لڑ رہے
ہیں... یعنی دو فریقوں کے وسائل اور امکانات کا موازنہ کرنا بھی شاید ایک فضول بات
ہو...
ایک طرف غربت اور
افلاس کی ماری ہوئی ایک قوم جس کےلیے دو وقت کی روٹی حاصل کرنا ہی جان جوکھوں کا
کام بنا رکھا گیا ہے... دوسری جانب، مسلمانوں کے دین اور عقیدہ کے ساتھ برسر جنگ
ایجنڈا کو اِس ملک میں وسائل کی وہ ریل پیل اور اختیارات کی وہ آشیرباد اور
امکانات کی وہ بہتات کہ ’’چوری کے تھان تو لاٹھیوں کے گز‘‘...!
ایک طرف حالت یہ
کہ اسلام پر مر مٹنے والے محنتی اور منظم دانشوروں کی کوئی ایسی باصلاحیت کھیپ سرے
سے اِس قوم کو دستیاب نہیں ہے جو اسلام کے خلاف تاریخ کی اس بدترین جنگ کے اندر
امت کے عقیدے اور شریعت کا علم تھام کر میدان میں اتریں... دوسری جانب، دیارِ
اسلام کے اندر لانچ کرائے جانے والے شیطانی ایجنڈا کو ایسے ایسے انٹلکچول امکانات
اور ایسے ایسے تھنک ٹینکس کی مدد، جو اپنے مکر و تدبیر کے زور سے پہاڑوں کو ہلا کر
رکھ دیں...
وَإنۡ کَانَ مَکۡرُهُمۡ
لِتَزُوۡلَ مِنۡہُ الۡجِبَالُ...
اور واضح بات ہے
جس جنگ میں کسی قوم کے اپنے دانشور سوئے ہوئے ہوں.. اور اس کی جنگ جو کہ ہے ہی
نظریاتی، ساری کی ساری اس کے دانشوروں کے بغیر لڑی جا رہی ہو.. تو ایسی جنگ کے
’’ممکنہ انجام‘‘ کی بابت کسی بہت بڑی قیافہ آرائی کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی...
یہ سب صحیح ہے۔
پھر بھی یہ ایک ایسی قوم ہے جس کا دین ایک سچا دین ہے اور زمین پر خدا کی آخری
حجت۔ یہ چلا جاتا ہے تو اس کے بعد صرف قیامت کا آنا باقی رہ جاتا ہے، اور جس کےلیے
وقت کے سب زنادقہ کو شاید بے حد جلدی ہو رہی ہے!
ہاں اب جب اُن کی
جنگ سیدھی سیدھی اِس دین کے ساتھ ہے اور اُن کے یہ سب رَندے اور سازندے جو ہمیں یہاں
کی ہر سکرین، ہر فورم، ہر ڈائس اور شاید ہر کلاس روم میں نظر آنے لگے ہیں، ان کا
ہاتھ سیدھا سیدھا ہمارے دین اور ہمارے عقیدہ پر جا پڑا ہے.. تو یہاں البتہ معاملہ
کچھ مختلف ہو گیا ہے...
جیت ہار کی یہ
کہانی اب بالکل کچھ اور ہو گئی ہے...
اور آج اگر ہمارے
کچھ دانشمند کفن باندھ کر میدان میں اترتے ہیں.. اور اِس کو دو عقیدوں کی جنگ بنا
دیتے ہیں... تو اِس پوری جنگ ہی کا پانسہ پلٹ دینے کا ایک سنہری موقعہ بھی اللہ کے
فضل سے یہاں ہم ایک واضح ترین انداز میں دیکھ رہے ہیں۔
وہ حق پرست جمعیت
جو اپنی تمام تر قوت ’’حق‘‘ سے اخذ کرتی ہے ہمیشہ ’وسائل‘ سے بے نیاز ہو کر لڑتی
ہے۔ یہ بات ہر قسم کی جنگ پر صادق آتی ہے، اور اِس امت کی تاریخ تو اِن مثالوں سے
بھری ہوئی ہے، البتہ ایک ’’نظریاتی جنگ‘‘ پر تو یہ بات بدرجۂ اتم صادق آتی ہے۔ پس
یہ وہ جنگ ہے جو ’وسائل‘ سے بے پروا و بے نیاز ہو کر لڑی جائے اور تمام کی تمام
قوت اُس ’’حق‘‘ میں تلاش کی جائے گی جس کا علم تھامنے کےلیے دنیا میں انبیاء کے
پیروکار پائے گئے ہیں۔
پمفلٹ کے بقیہ مضامین کا لنک