ذرا دھیرے، یار!
تحریر: حامد کمال الدین
ایک
وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے کہ اہل سنت، باوجود
ڈھیروں اختلاف کے، معتزلہ کی اس مناظرانہ سرگرمی کو جو وہ زنادقہ کو جواب دینے
کےلیے کر رہے تھے، استحسان کی نظر سے دیکھتے اور اس پر خوش ہوتے تھے۔
باوجود
اس کے کہ معتزلہ یہ سب جوابات اپنے اصول پر دے رہے تھے، جن کے ساتھ اہل سنت کو بڑے
بڑے شدید اختلافات بھی ہو سکتے تھے، یہاں تک کہ اُن جوابات ہی سے بڑی بڑی گمراہیاں
نکل رہی یا نکل سکتی تھیں۔ مگر بات یہ کہ جہاں ایک بدعتی مسلمان بھی زنادقہ کے
مقابلے پر سرگرم ہو، وہاں اس کی سرگرمی پر خوش ہی ہوا جاتا ہے، خصوصاً غربتِ اسلام
کے وقت۔ اور ظاہر ہے وہ اس میں ڈھیروں غلطیاں بھی کر رہا ہو گا۔ لہٰذا خود آگے بڑھ
کر ان غلطیوں کا چرچا اور نشان دہی کرنے کی ’نیکی‘ سے بھی وہاں تھوڑی دیر کےلیے
پرہیز کر لیا جاتاہے۔ یا کم از کم بھی، ان غلطیوں سے درگزر کر لیا جاتا ہے۔ ہو سکے
تو اس کو ’لقمہ‘ دینے کی کوئی ناصحانہ دانش مند کوشش بےشک کر لی جائے تاکہ اس
اکھاڑے میں اس کی پوزیشن – زنادقہ کے خلاف – اور بھی اچھی ہو سکے۔ بصورتِ دیگر؛ ان
غلطیوں پر مٹی ڈالنے کی کوشش کر لی جاتی ہے۔ البتہ "فوکس" آپ کا ایسے
کسی دور میں زنادقہ پر ہی رہتا ہے۔
ہاں
جس وقت معاشرے پر سنت کا غلبہ ہو، اس وقت معاملہ اور ہوتا ہے، اور بہت بہت کڑے
معیار بھی اُس وقت رکھ لیے جاتے ہیں۔
اسی
طرح، جس وقت معتزلہ کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہوا تھا اُس وقت مدرسہ اھل الاثر – بہت
معاملات میں اشاعرہ اور ماتریدیہ کے ساتھ ٹھیک ٹھاک اختلاف رکھنے کے باوجود –
معتزلہ کے خلاف اشاعرہ کی کامیاب سرگرمی پر بڑی بڑی خوشی اور مسرت کرتا رہا ہے،
باوجود اس کے کہ اشاعرہ کے جوابات ان کے اپنے اصول پر تھے، جس کی بہت باتوں سے
مدرسہ اثریہ کو بہت بہت اختلاف بھی ہوتا یا ہو سکتا تھا۔ مگر اصل چیز عقلاء کے ہاں
موازنہ ہوتا ہے کہ مقابلے پر کون ہے اور ایک سرگرمی اپنی نہاد میں کس طبقے کے خلاف
ہے، اگرچہ وہ آپ کی نظر میں بہت ساری غلطیوں کے ہمراہ کیوں نہ ہو۔
بس
اتنا عرض کر دوں، دین پر زنادقہ کے حملوں کے حوالے سے، ہمارا یہ دور پہلے کسی بھی
دور سے بڑھ کر ہے۔
اور
دوسرا فرق یہ ہے کہ زنادقہ کا منہ توڑنے کےلیے آج آپ کو ’معتزلہ‘ ایسے مناظر بھی
بالعموم میسر نہیں ہیں۔
ان
دونوں باتوں کو ذہن میں رکھیے۔ اور گزارا کرنا سیکھیے۔ "فوکس" والا معاملہ،
جس کا اوپر ذکر ہوا، بڑےبڑے صبر کا متقاضی رہتا ہے، اور صرف "ذُو حظٍ
عظیم" کو نصیب ہوتا ہے۔ بہت باتوں پر خاموش رہ لینا بھی ان شاء اللہ گناہ
نہیں ہے! کسی کی ایک غلطی پر آپ کی "پوسٹ" نہیں ہو سکی تو بھی نجات کا
امکان – ان شاء اللہ – معدوم نہیں ہے! لادینیت والے ڈسکورس کے خلاف بات کرنے کی
کوئی اپنی سی کوشش کرتا ہے تو اپنی غلطیوں
کے باوجود وہ – اصولاً – قابل استحسان ہی ہے۔ کم از کم اِس حوالے سے آپ کو اس کا
استحسان ہی کرنا ہوتا ہے، اگر کسی وجہ سے آپ نے اس کی غلطیوں کی پکڑ کرنی ہی ہے۔
ایسے
گئے گزرے دور میں بھی یہ تقاضا کہ زنادقہ کے خلاف میدان میں آپ کو نظر آئے تو بس
کوئی احمد بن حنبل ہی، کچھ حقیقت پسندانہ روش نہیں۔ اس سے بڑی اوھام پسندی و تنگ
نظری صرف یہ ہے کہ اپنے تئیں بہت سارے ’احمد بن حنبل‘ بھی آپ کے پاس پائے جاتے اور
اپنی امامت منواتے پھر رہے ہوں جبکہ زنادقہٴ وقت کے خلاف میدان سائیں سائیں کر رہا
ہو۔
دشمنانِ
دین کے خلاف میدان میں کوئی نظر تک نہ آ رہا ہو، اس مسئلہ کو بھی کچھ توجہ ویسے
دیں ضرور!!!
مختصر
یہ کہ…معاملہ جس دور میں دشمنانِ دین کے ساتھ امت کے پورا اترنے کے حوالے سے نہایت
دگرگوں ہو، اس وقت بڑی بڑی غیر معیاری چیزوں کو بھی غنیمت ہی جاننا بلاشبہ ایک
معیاری طرزِ فکر ہے، ان شاء اللہ۔
باقی،
آپ کی مرضی۔