نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی
کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس
کا ٹائٹل ڈیزائن کرنے کی درخواست کرنا چاہ رہے ہیں۔
عرضِ مترجم
ثقافتی
گلوبلائزیشن… اور ابن تیمیہؒ کی “اقتضاء الصراط المستقیم“
اردو دنیا میں یہ
تالیف لانے کی ضرورت:
ایک لفظ
ان دنوں بہت سنا جا رہا ہے: ’تہذیبوں کی کشمکش‘۔ اقْتِضَاءُ الصِّرَاطِ المُسْتَقِیْمِ مُخَالفۃَ أصْحَابِ الجَحِیْمِ سمجھیے اس جدید موضوع پر لکھی
گئی ایک قدیم تصنیف ہے!
تعلیمی و ثقافتی یلغار کی راہ
سے ’گلوب‘ کا قبضہ لینا دو سو
سال پہلے ہمارے حریف کا ایک ایجنڈا رہا ہو گا۔ اُس کی ’تعلیمی و ثقافتی گلوبلائزیشن‘ آج مگر ایک دَور ہے۔ اس سے بڑا چیلنج ہمیں شاید ہی
کبھی پیش آیا ہو۔ امت کے عقائد، اعمال اور رہن سہن کا بہت کچھ آج ایک خاص بیرونی
تاثیر کے تحت ری شیپ reshape یا “ری فارم” reform ہونے لگا۔ بلکہ پورے دین کی ’تفسیرِ نو‘ ہوئی جاتی ہے! سماجیات Humanities کی راہ سے لگنے والا ایک
نقب رفتہ رفتہ ہمارے دین کے کچھ بنیادی ترین تصورات کو چھونے لگا۔ اپنے ا ِس ’دور‘ سے واسطہ رکھنے والے ایک موحد کےلیے، ابن تیمیہ
کی اقْتِضَاءُ الصِّرَاطِ المُسْتَقِیْمِ مُخَالفۃَ أصْحَابِ
الجَحِیْم ایک نصاب کا درجہ رکھے گی۔ اس کا ایک ایک مبحث
اپنے کالج یونیورسٹی میں پڑھنے پڑھانے یا ’نئی حقیقتوں‘ سے سروکار رکھنے
والی دنیا کی بےاندازہ ضرورت ہے:
مختصراً…؛ اِس گلوبل ولیج کا ایک قابل رحم کنزیومر a vulnerable consumer (یا کچومر) ہونے سے مسلمان کا بچاؤ؛ اور اسے تہذیب کے ’صنعت کاروں‘ میں رکھنے کا ایک اعلىٰ پختہ انتظام… زمین پر آسمان والے کی منظور کردہ واحد
انسانی جمعیت کی حیثیت میں۔
غرض “پلوریلٹی“ plurality وغیرہ عقائد کا بطلان۔
کتاب کی
پوری اٹھان اِس ایک بنیادی مسئلے پر ہے: “ملتوں کا فرق“۔ یعنی
اس بات کا وجوب کہ آسمان کی سند یافتہ ملت
دنیا کی ان سب ملتوں سے بیزاری رکھے جو خدا کے یہاں اب منسوخ ہیں یا سرے سے کالعدم
ہیں۔ خدا کی منظور کردہ approved یہ ملت نہ صرف “مذہبی” بلکہ “سماجی” امور تک میں اُن ناقبول disapproved ملتوں سے مختلف نظر آ کر – خدا کی اس زمین پر – اپنی ایک
واضح جداگانہ حیثیت سامنے لائے۔ اور ہر جا اپنی اس حیثیت کا بیان بنے۔ جو بجائے خود نبیؐ پر ایمان کی
دعوت ہوئی۔ پھر اس اصل سے متفرع، فہمِ شریعت کے کئی اہم مباحث۔ جو وقت کی ایک تباہ
کن تحریک “تقاربِ
ادیان” سے نمٹنے میں ہمارا
ہتھیار ہوں گے۔ نیز وقت کے ایک شرک “ہیومن
ازم” سے نبردآزمائی
میں ہمارا اوزار۔ انسانی زندگی سے اِلٰہ
کی مرکزیت ختم کرواتا یہ عقیدہٴ ہیومن ازم “دین” کو ا س کی اس پوزیشن سے برطرف
کراتا ہے کہ یہ انسانوں میں “فرق” ڈالنے کی بنیاد ہو [“فرق” اُس کے ہاں وہی
جائز – یا واجب
– ہے جو انسان دیوتا اپنے حق میں آپ چاہے! جیسے
مفادات (معیشتوں / سیاستوں / ریاستوں) کی اٹھائی ہوئی تقسیمات]۔ چنانچہ “ملت“ کا وہ معنىٰ جو اسلام دلوں
میں بٹھاتا ہے – یعنی “اجتماع“ کی بنیاد تنہا ایک پیدا کرنے والے کی عبادت پر
انسانوں کا ایکا ہونا (“الجماعۃ“)؛ جبکہ "ٹوٹنے" کی بنیاد اُس کے
غیر کی عبادت کرنے والوں سے ناطہ توڑ آنا؛ جو کسی وقت ہجرت یعنی "دار" territories الگ کر لینے تک چلا جاتا ہے – "ملت" کا یہ (حُنَفَاء والا) معنىٰ مسلم ذہن سے کھرچنے کا کام ایک رخ سے آج
ہیومنسٹ Humanist تحریک انجام دے رہی ہے تو
دوسرے رخ سے تقاربِ ادیان۔ وقت کی یہ ہر دو اَھواء حالیہ “تفسیرِ نو“ re-interpretation of Islam میں ایک ساتھ بولتی ہیں۔
اور ان دونوں کا توڑ: یہی "ملت" کے معانی کا
اِحیاء۔ الحنيفية کے
تحت آنے والے یہ اصیل مضامین۔ یہ وجہ ہے اقْتِضَاءُ الصِّرَاطِ المُسْتَقِیْمِ مُخَالفۃَ أصْحَابِ
الجَحِیْمِ کو اردو میں لانا
ہمیں وقت کی ایک اتھاہ ضرورت محسوس ہوئی۔
کتاب پر اب تک ہونے
والا اردو کام:
اقْتِضَاءُ الصِّرَاطِ المُسْتَقِیْمِ کا جو عربی متن بڑے عشرے دنیا میں متداول رہا،
وہ مصر کے شیخ محمد حامدالفقی والا ایڈیشن تھا جو پیش ازاں ایک مخطوطہ رہا ہو گا۔ اَسّی کی
دہائی تک، اردو میں جو بھی کام ابن تیمیہ کی اس تالیف پر ہوئے، وہ اسی نسخہ کو
بنیاد بنا کر ہوئے ہوں گے۔ بعد ازاں کتاب کے تمام دستیاب مخطوطوں پر، جن کی تعداد چھ ہے (جن میں سے ایک حامدالفقی
والا مطبوعہ بھی بنے گا) حجاز کے شیخ ناصر بن عبد الکریم العقل کی ایک جامع تحقیق (دو ضخیم
مجلد) آ گئی، جو ایک پی
ایچ ڈی تھیسس ہے۔ ہمارا بھی، اپنے اس اردو کام میں، اسی تحقیق والے ایڈیشن پر تکیہ
رہا۔
اردو
میں اس کتاب پر تین کام – اب تک – نمایاں
طور پر ملتے ہیں:
۱۔ پون صدی سے اقْتِضَاءُ الصِّرَاطِ المُسْتَقِیْمِ پر
اردو کام کے حوالہ سے جو کتاب اپنے یہاں سب سے زیادہ شہرت لیے آتی ہے، وہ مرحوم عبد الرزاق ملیح آبادی کا ترجمہ ہے۔ اس
کی اولین اشاعت ہند بک ایجنسی کلکتہ سے ہوئی بعنوان "صراطِ
مستقیم"۔ بعد ازاں، ادارہ ترجمان السنۃ لاہور سے بعنوان "جادہٴ حق"۔ اور
آخر میں دارالسلام (انٹرنیشنل) سے بعنوان "فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراطِ
مستقیم کے تقاضے"۔ قابل ذکر بات یہ کہ ابن تیمیہ کی کتاب کے اساسی
مضامین core contents اس ترجمہ یا تلخیص میں سرے سے شامل نہیں۔ بلحاظِ
حجم بھی، کتاب کا کوئی ساٹھ فیصد حصہ ہے جو اس
ترجمہ/تلخیص میں آنے سے رہ گیا۔ یعنی ناصرالعقل والے ایڈیشن کے
حساب سے پہلا مجلد پورا اور دوسرے مجلد کا بھی ایک ٹھیک ٹھاک حصہ… جبکہ حامدالفقی والے ایڈیشن کے حساب سے "اقتضاء" کے کل ۴۶۸ صفحات میں سے پہلے ۲۶۷ صفحات… اس (ملیح آبادیؒ والی کتاب) کے اندر ملخص تک نہیں۔ "اقتضاء" کے اصل بنیادی
مضامین کو یکسر چھوڑ کر… ملیح آبادیؒ کی یہ
تلخیص شروع ہی عرسوں مزاروں والی فصول سے ہوتی ہے۔ ان فصول سے پہلے "کفار کے تہواروں" پر
معمولی سا ایک بیان آیا بھی تو الفقی
ایڈیشن کے بیالیس صفحات ( ۲۲۵تا
۲۶۷) جبکہ العقل ایڈیشن کے تریسٹھ صفحات ( ۵۱۷ تا ۵۸۰) یہاں صرف تین صفحات ( ۲۹ تا ۳۱) میں بھگت گئے۔ اور اس کے بعد پوری تلخیص
مسلمانوں کی داخلی بدعات پر۔ قاری کا تاثر اس سے اغلباً یہ بنے گا کہ ابن تیمیہ کی
جس تصنیف کا اتنا سنتے آئے وہ شاید ہے ہی زیارتوں میلوں وغیرہ بدعات سے متعلق! حالانکہ یہ کتاب کا اصل موضوع ہیں اور نہ
کتاب کا بڑا حصہ۔
۲۔ ["اسلام اور غیر اسلامی تہذیب۔
ترجمہ اقتضاء الصراط المستقیم" تلخیص و ترجمہ
مولوی شمس تبریز خان] شائع از مجلس تحقیقات و نشریاتِ اسلام، لکھنؤ۔ جس پر پیش
لفظ حضرت ابوالحسن علی ندویؒ کا ہے۔ میری
طالبعلمانہ رائے: اس میں عبارت کا الجھاؤ خاصا ہے۔ اور بھرتی حد
سے زیادہ؛ اردو شاعری اور کہاوتیں تک اس ’ترجمہ‘ میں مل جاتی ہیں! اس پر ڈاکٹر مقتدىٰ
حسن ازہری نے – جن کا ذکر آگے آ رہا ہے – اپنے مقدمہ میں جو نقد کیا، وہ ٹھیک معلوم ہوتا
ہے۔ تاہم ملی و تہذیبی موضوعات کا ٹچ اس (شمس تبریز خان والے کام) میں ملتا ضرور ہے، برعکس حضرت ملیح آبادیؒ والے
کام کے۔
۳۔ ["راہ حق کے تقاضے۔ تلخیص
اقتضاء الصراط المستقیم " اختصار ڈاکٹر عبد
الرحمن الفریوائی، ترجمہ ڈاکٹر مقتدىٰ حسن بن محمد یاسین ازہری] شائع از المکتبۃ السلفیۃ شیش محل روڈ لاہور۔
اس کا عربی متن دراصل ابن تیمیہ کی اقْتِضَاءُ الصِّرَاطِ
المُسْتَقِیْمِ کا ایک اختصار ہے اور یہ (ڈاکٹر
مقتدىٰ حسن والا کام) اس عربی اختصار کا اردو ترجمہ۔ ترجمہ خوب
ہےاور "اقتضاء" کے بنیادی موضوع کے ساتھ اردو قاری کو اچھا خاصا
جوڑتا ہے۔
ہمارا یہ کام
"اقتضاء" کو اردو میں لانے سے ہمارا مقصود، آپ اوپر پڑھ آئے۔ رہا اسلوب، تو ہمارے
پیش نظر – در اصل – ابن
تیمیہ کے اس معرکۃالآراء کام کی تحریکی کھپت ہے۔ یعنی حالیہ
تہذیبی جنگ میں اپنے نوجوان کی ایک نظریاتی قلعہ بندی۔ اس مناسبت سے؛ اسلوب تھوڑا تاکیدی
recapturing رکھ لیا گیا۔ دقائق جوکہ
اس کتاب میں بہت ہیں اردو میں ڈھلنے کے دوران پیچیدگیاں نہ بنیں، اس کی از حد کوشش رہی۔ جس کےلیے حاشیوں کا کچھ
زیادہ استعمال کرنا پڑا۔ تاکہ عبارت کا مضمون
متاثر ہوئے بغیر کچھ فی زمانہ امور سے کلام کا تعلق سمجھ آئے، جو کہ اس کتاب سے ہمارا بڑا ہدف
ہے۔ کسی عبارت کو عین وہیں پر کھولنا یا ربط دینا ناگزیر محسوس ہوا تو اس کےلیے
دیا گیا ہمارا اضافی جملہ ایک تو بریکٹ {( )} میں رہا۔ دوسرا، فونٹ اس کا نمایاں حد تک چھوٹا کر دیا گیا۔ تا کہ متن سے اس کا فرق رہے۔ البتہ ایک کام ہم نے یہ کیا کہ کتاب کے
عربی متن کا صفحہ نمبر اردو عبارت میں ساتھ ساتھ دیتے گئے۔ تا کہ دلچسپی
رکھنے والوں کو اصل سے رجوع کرنے میں آسانی ہو۔ خصوصاً طلبہ کو۔ اس لیے کہ یہ نرا ’لٹریچر‘ نہیں، ایک فقہی و عقائدی دستاویز بھی ہے۔ نوٹ
فرما لیجیے، ہمارے ہاں دیے جانے والے یہ صفحات نمبر کتاب کے اُس (عربی) نسخہ کی رُو سے ہوں گے جو شیخ ناصر بن عبد
الکریم العقل کی (اقْتِضَاءُ الصِّرَاطِ المُسْتَقِیْمِ
مُخَالفۃَ أصْحَابِ الجَحِیْمِ پر) تحقیق کے ساتھ مكتبة الرُشد ریاض سے شائع ہوا۔ اس عربی متن کا پی ڈی
ایف لنک نیچے حاشیہ میں درج
ہے۔ جہاں کہیں “محقق” یا “محققِ کتاب” ہمارے ہاں لکھا ہو، وہاں اس سے مراد یہی ناصر
العقل ہوں گے۔
نصوص کی تخریج پر جہاں کسی محقق کا نام نہیں، وہاں
انہی (شیخ
ناصرالعقل) والی تقریرات ملخص
ہیں۔ جہاں ان سے ہٹ کر کچھ دیا گیا، وہاں مصدر کا ذکر کر دیا گیا۔
عرب کے دعوتی/تربیتی حلقوں میں یہ کتاب نامور اساتذہ سے
سبقاً سبقاً بھی پڑھی جا رہی ہے۔ ایسے چار تعلیمی سلسلوں کے آڈیو ہمیں دستیاب ہوئے: ایک اقْتِضَاءُ الصِّرَاطِ المُسْتَقِیْمِ پر شیخ عبدالرحمن ناصر البراک کے پڑھائے ہوئے
اسباق۔دوسرا، شیخ محمد بن عثیمین کے۔ تیسرا،
شیخ خالد السبت کے۔ چوتھا، شیخ صالح الفوزان کے۔ کتاب کے مشکل
مقامات کو حاشیوں میں کھولنے
کی جو کوشش ہمارے یہاں ہوئی، اس میں ان چاروں سے رجوع ہوتا رہا ہے۔
دقیق لغوی یا اصولی یا فقہی یا تخریجی مباحث – عام قاری کی ضرورت اگرچہ نہیں – ترجمہ میں وہ اپنی جگہ ہیں۔ تاکہ ’مرضی کی باتیں‘ اٹھانے ‘pick & chose’ کا کوئی تاثر ہمارے اِس ترجمہ کے متعلق قائم نہ
ہو۔ نیز ایک سنجیدہ طالب علم کو پوری ہی چیز میسر آئے۔ اتنا ہے کہ عبارت
کا فونٹ وغیرہ وہاں تھوڑا مختلف کر دیا گیا۔ احادیث و آثار دیتے
وقت مؤلف – متقدمین کی طرز پر – پوری سند دیتے ہیں۔ ہمارے اِس ترجمہ میں البتہ
صحابی سے نیچے سند حذف ہوتی ہے۔
اقْتِضَاءُ الصِّرَاطِ المُسْتَقِیْمِ
مُخَالفۃَ أصْحَابِ الجَحِیْمِ کو اردو
نام دینے میں مترجمین نے خاصا خاصا تصرف
کیا، اور بےشک اس میں مضائقہ نہیں۔ تاہم، ہمارا یہ عنوان عربی والے کا تقریباً لفظی ترجمہ ہے: "اِقتضاءِ
صراطِ مستقیم: دوزخ والوں کے برخلاف کرنا"۔ ہم
چاہیں گے، اردو میں اس کا مختصر نام "اِقتضاءِ صراطِ مستقیم" ہی چلے۔ مقصد – کتاب کے
نام کے حوالہ سے – ایک تو "اصل" کو زیادہ سے زیادہ
حوالہ بنانا ہے کیونکہ فی الواقع اقْتِضَاءُ الصِّرَاطِ
المُسْتَقِیْمِ ہمارے تراث کی شیلف میں پڑا ایک جانا پہچانا نام ہے؛
لہٰذا اس کے علمی مومنٹم سے ہم اردو میں بھی دستبردار نہ ہونا چاہیں گے، خصوصاً جبکہ ان تینوں الفاظ کے معاملہ میں "ریختہ" ہمارا ساتھ دینے سے انکاری نہیں! دوسرا، فاتحۃالکتاب (سورۃالحمد) کا ایک بہت بڑا
مضمون اقْتِضَاءُ الصِّرَاطِ
المُسْتَقِیْمِ مُخَالفۃَ أصْحَابِ الجَحِیْمِ ایسی کسی
برہنہ تعبیر ہی سے ادا ہو سکے گا؛ جو "ملتوں" کے حالیہ
گھمسان میں بوجوہ ضروری ہے۔ ’تہذیب‘ کے مترادفات
آج کتنے ہی ضروری ہو گئے ہوں، "عقیدہ"، "شریعت" اور "ملت" ایسے کچھ بنیادی مضامین اور "الذین
أنعمتَ علیہم" اور "مغضوب
علیہم" اور "ضالین" ایسے کچھ صریح بیانات کا – اور ان
کی سنگینی کا – آج بھی کوئی متبادل نہیں۔ کچھ اس وجہ سے؛ کتاب
کا نام زیادہ ’سلیس‘ یا ’جدید‘ کرنے کی کوشش نہ ہوئی۔
‘re-interpretation’ والے
حضرات البتہ خاطر جمع رکھیں۔ اصحاب الجحیم کا لفظ یہاں اس
معنىٰ میں آیا ہے کہ محمد پر ایمان نہ رکھنے
اور آپ کی راہ کو اپنی راہ نہ ماننے والے لوگ اصولاً "دوزخ والے" ہیں۔ نہ کہ اس معنىٰ میں کہ ان کے فرداً فرداً دوزخی ہونے کی کوئی ‘پیشگوئی‘ کی جا رہی یا انہیں دوزخ بھیجنے کا خدائی اختیار
’اپنے ‘ ہاتھ
میں لیا جا رہا ہے! خدا کا وہ فیصلہ جو وہ انسانوں کے اختلاف کے متعلق اپنی کتاب
اتار کر اِس دنیا میں کر چکا، ہمارا حوالہ اس باب میں بس وہی ہے۔ البتہ ہم
کہتے ہیں، وقت کے اِس آسمانی "بیان" کو خدا کے ہاں رد ہو چکے انسانوں
اور خدا کے ہاں اصولاً قبول انسانوں کے بیچ مُخَالَـفَـةُ الْــهَـدْيِ
الظَّـاهِـرِ کی سطح تک پر لا رکھنا ضروری ہے۔ اور یہ دین کو "ظہور دلوانے" کے معانی یا تقاضوں میں باقاعدہ شامل ہے۔
نوٹ کر
لیا جائے: فصول کے سرنامے یا ذیلی سرخیاں عربی متن میں بھی مؤلف کی اپنی دی ہوئی
نہیں۔ پھر وہ (عناوین و ذیلی سرخیاں) عربی نسخوں میں
یکساں بھی نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ فصل بندی سب کی ایک سی نہیں۔ صرف کتاب کی عربی
عبارت ابن تیمیہ کی ہے؛ باقی سب ناسخوں کا کام۔ اردو تراجم میں بھی کچھ
اسی انداز کا فرق چلا آتا ہے۔ لہٰذا عنوان اور سرخیاں ہم نے بھی کئی جگہ اپنے
پاس سے دی ہیں۔ ایک قدیمی شےء کو اپنے زمانے سے جوڑنے میں اس ترکیب سے بھی کچھ مدد لی ہے۔ ہر چند فصول کا مجموعہ
یہاں ایک "جزء" ہے۔ یہ مجلد اول جو
آپ کے ہاتھوں میں ہے، پہلے تین "اجزاء" پر
مشتمل ہے: (۱) تمہید، (۲) تاصیل اور (۳) تفریع۔ اس میں ناصرالعقل والے ایڈیشن کے حساب سے
کل ۸۶۶ صفحات میں سے پہلے ۵۸۰ صفحات کا ترجمہ آ
گیا ہے جبکہ حامدالفقی والے ایڈیشن کے حساب سے کل ۴۶۸ صفحات میں سے پہلے ۲۶۷ صفحات کا ترجمہ۔ کتاب کا بقیہ حصہ مجلد دوم میں
ترجمہ ہو گا، ان شا اللہ۔
کتاب کو
تھوڑا "نصابی" رکھنے
کےلیے، ہر فصل کے آخر میں ہم نے کچھ تمرینی سوالات دیے ہیں۔ جس سے مقصد: تحریکی طلبہ و
طالبات کےلیے اِعادہ، امتحانی جائزہ اور سٹڈی سرکلز ایسی سرگرمیوں کی سہولت پیدا کرنا ہے۔
وَمَا
تَوۡفِيقِيٓ إِلَّا بِٱللَّهِۚ عَلَيۡهِ تَوَكَّلۡتُ وَإِلَيۡهِ أُنِيبُ
خیر اندیش
حامد
کمال الدین
یوم
عرفہ، ۱۴۴۵ھ۔ ۱۵ جون ۲۰۲۴ ء۔