تحقیقی
عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب
تحریر: حامد کمال الدین
ہماری
ایک پوسٹ پر آنے والا سوال:
لیکن سب کو پڑھے بغیر یہ قبل از وقت فیصلہ کیسے کیا جاسکتا ہے کہ ہم حق
پر اور مقابل باطل پر ہے؟ یوں تو ہر شخص خود کوپہلے سے ہی حق خیال کر کے دوسروں کو
اسی نقطۂ نظر سے پڑھے گا کہ وہ باطل ہیں۔ مطالعہ تو ہوتا ہی حق اور باطل کی پرکھ
کے لئے۔اگر پہلے ہی اس کا فیصلہ کیا جا چکا تو مطالعے کا فائدہ کیا؟
(شاہ
زین راجپوت)
جواب:
بہت
اچھا سوال ہے۔
پڑھنے
پڑھانے کے حوالے سے دراصل آدمی کو دومرحلے پیش ہوتے ہیں: ایک، خالصتاً سیکھنے کا۔
اسی کو تحقیق بھی کہتے ہیں۔ اس مرحلے میں واقعتاً کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ ورنہ ایک
کفریہ یا بدعتی ماحول میں پروان چڑھنے والا شخص کبھی حق تک نہ پہنچ پائے۔ دوسرا،
جب وہ اپنے پڑھنے پڑھانے کے اس "ابتدائی" عمل سے گزر کر کوئی ایمانی یا
فکری پوزیشن اختیار کر لیتا ہے۔ یہ بھی بہرحال ضروری ہے، کیونکہ آدمی ساری زندگی
کوئی ایمانی/عقائدی پوزیش ہی نہ رکھے، یہ بھی انسان نامی مخلوق کے شایانِ شان نہیں
ہے۔
ہماری
وہ پوسٹ، جس پر آپ کا یہ سوال آیا، دوسرے مرحلے کے متعلق ہے۔ یعنی جس بات پر آدمی
کوئی پوزیشن اختیار کر چکا اور ایک چیز کو باقاعدہ حق مان چکا۔ یہ دراصل اس کی اصل
زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ اب اس پر لازم ہے کہ اس میں پورا رسوخ حاصل کیے بغیر اس کے
معارض اشیاء کو بھی عین اسی گہرائی میں پڑھنے کی کوشش نہ کرتا رہے۔ بصورت دیگر وہ
اپنی کوئی علمی یا ایمانی پوزیشن رکھنے میں ساری زندگی ڈانواں ڈول رہے گا، اور جو
کہ فی الواقع شیطان اس سے چاہتا ہے، خصوصاً جدید دور کا شیطان۔
مسئلے
کی اصل جہت بیان کرنا ابھی باقی ہے۔ اور وہ یہ کہ کیا کوئی "مطلق حق"
دنیا میں ایسا ہے بھی جس تک ہر آدمی، ہر
ذہنی استعداد کا مالک شخص – بشرطِ اخلاص – تھوڑی بہت کوشش کر کے پہنچ سکتا ہے؟ اور
جس تک پہنچانے کا اللہ نے آدمی سے باقاعدہ وعدہ کر رکھا ہے؟ (وَالَّذِينَ
جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ)؟
یا ساری جہتیں یہاں ایک سی ہیں، اور سب پوزیشنیں ایک برابر؟ جس کے بعد یہ اصل سوال
اٹھے گا کہ آدمی کیا کبھی بھی یہ دعوىٰ کر سکتا ہے کہ وہ مطلق حق تک پہنچ چکا؟
ہم
کہتے ہیں، نبی کا "لایا ہوا"، اور نبی "کے لائے" پر چلا آتا
انسانی گروہ وہ مطلق حق ہے جو اہل زمین پر خدا کی سب سے بڑی رحمت ہے۔ ہر ذہنی استعداد
کے مالک شخص سے خدا کا وعدہ ہے کہ اگر خدا کو اس کے دل میں اخلاص دیکھنے کو مل گیا
تو وہ لازماً اس کو اس مطلق حق کی راہ پر چڑھا دے گا۔ [وَلَوْ
عَلِمَ اللَّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لَّأَسْمَعَهُمْ ۖ
" اور اگر خدا ان میں نیکی (کا مادہ) دیکھتا تو ان
کو سننے کی توفیق بخشتا" (ترجمہ جالندھری]
آپ
کا سوال اپنی جگہ بہت اچھا ہے، مگر اصل نزاع ہمارے اور ریلیٹو ازم Relativism کے داعیوں کے مابین یہ ہے۔ ان کے خیال میں سب پوزیشنیں ایک سی
ہیں، لہٰذا ان کا کبھی بھی کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ ہم کہتے ہیں، حق کے معاملے
میں خدا نے اس جہان میں فی الواقع اس قدر روشنی کر رکھی ہے کہ ہر سلیم الفطرت آدمی
اس سے راہ پا سکتا ہے اور یہ مسئلہ کوئی ایسی چیستان نہیں ہے جتنا کہ جدید مذاہب
کے شیاطین اس کا تاثر دیتے ہیں۔ اور مزے کی بات تو یہ کہ انسان کی کوئی پوزیشن نہ
ہو سکنے کے دعوے کے باوجود ایک باقاعدہ پوزیشن رکھتے اور صرف ہمیں اپنی پوزیشن سے کھسکانا چاہتے
ہیں!