بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا
ہرا ہونا
تحریر: حامد کمال الدین
پہلی بات تو یہ ہے دوستو کہ ساری دنیا تیزی کے ساتھ اُدھر کو جا رہی ہے، بس
اللہ سے عافیت مانگتے رہو۔ نہ صرف بھارت بلکہ ساری دنیا کا سوشل فیبرک جس طرح تار
تار کیا جا رہا ہے، خود مسلم ملکوں نے جس طرح ان ’تبدیلیوں‘ کے آگے پٹ کھول دیے
ہوئے ہیں، یہاں تک کہ نئے نئے خوفناک فتووں، تفسیروں، اجتہادوں اور ’دبستانوں‘ کے
منہ کھل گئے ہوئے ہیں… اور ایک پوری انجینئرنگ پراسیس میں ہے… این جی اوز کے چالیس
چور ہمارے ہر قلعے میں گھسے بیٹھے ہیں، بلکہ دندنا رہے ہیں، جبکہ ہماری مفلسی ان
کے آگے غریب کی جورو بنی جا تی ہے؛ معاشروں کے معاشرے ’آؤٹ سورس‘ ہو رہے ہیں اور
آپ کے مولویانِ باشرع MNAs تک "دستخط" فرما دینے کے بعد بل کے مضمون سے آگاہ ہو
پاتے ہیں، وہ بھی کوئی فلک شگاف شور اٹھ کھڑا ہونے کے نتیجے میں، ورنہ سب ہضم ہو
جانے والی چیزیں ہیں یہاں اور کچھ پرہیز کی بات نہیں… آنے والے دنوں میں یہ سیلابِ
بلاخیز نجانے کہاں تک پہنچے اور کہاں کہاں سے اُبل پڑے۔ خدا خیریت رکھے، کوئی بھی
گھر اب بہت محفوظ نہیں ہے۔ مسلم معاشرے باقیوں سے بہت پیچھے سہی، اس طوفانِ غلاظت
کے کچھ نہ کچھ تھپیڑے سہہ ہی رہے ہیں۔ ایک تو یہ جاگنے اور ہوشیار ہو جانے کا مقام
ہے، نہ کہ اترانے اور خود کو سراہنے کا۔
دوسرا، جہاں تک ہمارے پرانے زخموں کا تعلق
ہے…تو طبعی بات ہے کہ وہ ایسے موقعوں پر کچھ ہرے ہو جائیں۔ بس یہ عرض کر دوں ’سوشل
میڈیا‘ ان زخموں پر پھاہے رکھنے کی کوئی بہت اچھی جگہ نہیں۔ الٹا؛ یہاں زخم کریدے
اور ان میں نمک بھرا جاتا ہے، جس کے ہم متحمل نہیں۔ مسلمانوں کے مابین نفرتوں کو "زندہ"
کرنے اور اس میں نیا ایندھن جھونکنے والے اللہ سے ڈریں۔ ہم پہلے ہی بہت قابل ترس
حالت میں ہیں۔
گو یہ موضوع مٹی ڈالنے کا بھی نہیں ہے، کہ
کچھ نہ کچھ ہمیں ان مواقع سے سیکھنا بھی ہے، جو اس موضوع کی نزاکت کو دو چند کر
دیتا ہے۔ بالکل نظرانداز کرنے کی بات بھی یہ بہرحال نہیں ہے۔ گو ہمارے بہت سے معزز احباب ایسے
ہر موقع پر یہ کوشش بھی وافر حد تک کرتے ہیں، اور اس وقت بھی کر رہے ہیں، یعنی
نہرو اور گاندھی کی ہمنوائی کو آج تک ایک صائب طریق ثابت کیے جانا، قطع نظر اس سے
کہ دوسری جانب کتنی اسلام فہمی تھی اور کتنی نہیں تھی یا کتنا اسلام کے ساتھ اخلاص
تھا اور کتنا نہیں تھا۔ لہٰذا کچھ عرض اس پر مجھے بھی کرنی ہے، پرانی بحثوں کو
چھیڑنے کےلیے نہیں، بلکہ آگے کی راہ کو ممکنہ حد تک سنوارنے کی ضرورت کے تحت۔
*****
بالکل ایک اور سیاق میں سہی، اپنی ایک پرانی تحریر میں میں نے کچھ اس مضمون کی
بات کر رکھی ہے:
[[ابھی شکر کیجئے کہ یہاں مسلمانوں کی تعداد کوئی
اٹھانوے فیصد کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے اس لئے لگتا ہے کہ یہ نظام بس ایک مسلمانوں
کو ہی ساتھ چلا رہا ہے حالانکہ یہ اس کے ساتھ خوامخواہ کا حسن ظن ہے! خدانخواستہ
یہاں کبھی ہندوؤں اور سکھوں اور بدھوں کی تعداد کچھ زیادہ ہوتی پھر دیکھتے کہ
’خلافت راشدہ کی شورائیت‘ سے ثابت کیا جانے والا یہ نظام کیا عجب صورت دھارتا ہے!]]
پس باقی بحثوں میں تو میں یہاں نہ پڑوں گا، اور نہ ان کا کچھ فائدہ مجھے نظر
آتا ہے۔ شکر کرنے کی بات بس یہی ہے کہ معاشرتی طور پر یہاں آپ کو جیسے کیسے سہی ہر
طرف مسلمان نظر آتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر کو شاید یہاں مہینوں برسوں گزر جاتے ہیں
کسی کافر کے ساتھ آمنا سامنا تک اللہ کا شکر ہے نہیں ہوتا۔ ہم میں ایک تعداد شاید
ایسے لوگوں کی بھی ہو جنہوں نے زندگی بھر کوئی کافر نہ دیکھا ہو۔ معاشرے کی ایمانی
حالت جہاں بہت نیچے جا چکی ہے، تو یہ خدا کی بہت بڑی عافیت ہوئی جو ہمیں حاصل ہے –
یعنی ہر طرف آپ کو مسلمان ہی مسلمان دکھائی دینا – پس جو جو کوئی ہمیں حاصل اس
عافیت کا ذریعہ بنا اس کے ہم ممنون ہیں، اور دعا گو کہ اللہ کرے اس نے یہ سب اچھی
نیت اور اچھے اعتقاد سے ہی کیا ہو۔ ایک
ایسا ماحول جہاں ہر طرف مسلمانوں کا جل تھل ہو، اس میں کفر اور کافر کے ساتھ
سازگاری کے ’مواقع‘ ہی کہاں! تو یہ صورت ہوئی آپ کے طبعی طور پر ایک ہلاکت سے بچنے
کی۔ ’نظام‘ وغیرہ کی بحثیں رہ گئیں ایک طرف، ایک گوشہٴ عافیت ہی کا آپ کو
میسر ہونا، خواہ وہ اس کابندوبست کر جانے والوں کے پیش نظر تھا یا نہیں، بہرحال
ایک غنیمت ہے اور زوال کا شکار ہو چکی مسلم آبادیوں کے حق میں تو نعمتِ غیر
مترقبہ۔ اس کو نعمت جاننا کوئی تعصب یا نیشنلزم نہیں، ان شاء اللہ۔ یہاں کی سب
خلافِ اسلام باتیں اپنی جگہ مسلّم، مگر اس کا یہ پہلو ہرگز قابل نظرانداز نہیں۔
امریکہ رہائش کے دوران، اپنے ہندوستانی مسلمان بھائیوں سے مجھے یہ جاننے کو ملتا
رہا ہے کہ ہند میں بھی جہاں جہاں مسلمان اپنی بڑی آبادی بنا کر رہتے ہیں وہاں وہاں
وہ ایک بہتر دینی زندگی رکھتے ہیں۔ گائے کی قربانی تک کا موقع بآسانی پا لیتے ہیں۔
اور ایسا کہیں پر میسر ہونا ان کے دین کے حق میں خوب رہتا ہے۔ ظاہر ہے، ملک کی سطح
پر مسلمان کو یہ دستیاب ہونا، کہ پورا ملک ہی محمدﷺ کے ماننے والوں کا ہو، اور بھی
اس کے حق میں اچھا اور اس کی پشت کو مضبوط کرنے والا ہے۔ اسلام ہم سے جو تقاضا
رکھتا ہے، اس حوالے سے ظاہر ہے یہ بہت کم ہے، میرے "نظام" والے دوست
تسلی رکھیں۔ لیکن ہم بات کر رہے ہیں جہاں "فرد" کی سطح پر بھی دین کی
لٹیا ڈوبی پڑی ہو اور "نظام" والی منزل کہیں دور دور دکھائی نہ دیتی ہو۔
یہاں تو اسلام کے حوالے سے اگر آپ کو کوئی "سماجی تحفظ" ہی حاصل ہو، اور
کفر اور کافر سے آپ کے تحفظ کے کچھ طبعی سماجی انتظامات ہی موجود ہوں، تو وہ ایک
نہایت قدر اور شکر کرنے کی چیز ہے۔
کیا آپ اندازہ کریں گے،
"فرد" کی سطح پر اس چیز – یا اس نعمت – کو بھی بچا رکھنا "لبرل
سویرے" کی ان منحوس تابڑ توڑ آندھیوں کے مقابل آج ایک بڑا چیلنج ہے؟ جو بچا
رہ گیا ہے اس کی خوب خوب فکر کر لیجیے؛ خطرے سے باہر کوئی نہیں ہے۔ تاوقتیکہ اس
جدید غلیظ تہذیب کو پھینک نہیں دیا جاتا
"اٹھا کر باہر گلی میں"۔
*****
اسی ضمن میں… بھارتی مسلمانوں کی ایک مین
سٹریم عالم دین شخصیت کا ایک ویڈیو گردش کر رہا ہے جس میں "شری کرشن جی اور
شری رام چندر جی کا سمّان (جس کا مطلب شاید تعظیم ہوتا ہے) نہ کرنے اور ان سے محبت
نہ رکھنے کو مسلمان کے حق میں کھلا پاپ" قرار دیا گیا ہے۔ غرض ہندو مشرک کے ساتھ
سازگاری اور بقائےباہمی کے سفر کا ایک اگلا گیئر۔ صورتحال کو جانتے ہوئے؛ گو یہ آخری
گیئر نہیں ہو گا۔ ظاہر ہے ایک ہزار سال سے یہاں بسے آتے مسلمان کے حق میں یہ کچھ نئے
لہجے ہیں جن کا تعلق خاص اِسی دور سے ہے، اور خاص اسی خطے سے جہاں اسلام کو ناتوانی
کا سب سے زیادہ سامنا ہے۔ یہ سب اس سماجی پریشر پر دلالت کرتا ہے جو مسلم کمیونٹی
کے ایک مخصوص خائف بیانیے کو جنم دے کر رہتا ہے، اور وہ بھی مسلم سیاستدانوں یا
بےعلم صوفیوں کی سطح پر نہیں، بلکہ اصحابِ افتاء کی سطح پر، جس کے نہ صرف پاپولر
ہونے بلکہ اگلے مراحل میں اور سے اور ڈھیلا ہونے کا امکان بھی وہاں پر مسلسل بڑھتا
چلا جاتا ہے۔ یہ سب ایک تو ہمارے اُس اصیل مبحث کو ثابت کرتا ہے کہ "السلطانُ
المسلمُ ظِلُّ الله في الأرض"۔ [یہاں السلطان المسلم
سے مراد اسلام کا اقتدار، اتھارٹی، زورآوری اور اس کے حامل طبقے (وَاجْعَلْ
لِيْ مِن لَّدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيْرًا)۔
خطبوں میں سنا جانے والا یہ جملہ "السلطانُ المسلمُ
ظِلُّ الله في الأرض" ایک بالکل درست اور صالح
عبارت ہے، جیسا کہ ابن تیمیہ کی "خلافت و ملوکیت" میں اس کا بیان ہوا
ہے]۔ آئیے سب مل کر اس کےلیے تگ و دو کریں۔ دنیا کے دور دراز خطوں میں پائی جانے
والی
مسلم اقلیتوں تک کی ایمانی بقاء اسی "السلطانُ المسلم" کے توانا ہونے
میں مضمر ہے۔ دوسرا، یہ جاننا کہ مسلم فرد کے حق میں – "نظام" کی غیر موجودگی
میں – سماج اور ماحول کا بطور مسلمان قوی ہونا بھی اس کے دین اور ایمان کی بہت سی
بچت کا ذریعہ ہے۔ خود اس کو بھی معمولی نہ جاننا چاہیے اگر یہ آپ کو کہیں میسر ہے
یا ہو سکتا ہے۔ ’آئیڈیلزم‘ بہت سے دستیاب ذرائع اور وسائل کا ستیاناس کرنے والی
شےء بھی ہے…اور اس لحاظ سے ناشکری کی ایک بہت بڑی صورت۔
دوسرا، ایسے سیاسی یا سماجی ماحول سے خدا کی پناہ مانگنا، اور اپنی نسلوں کو
بھی اس سے بچانے کی کچھ کوشش اور بندو بست کر جانا جہاں آپ کا مسلمان ہونا آپ کے
حق میں ایک بوجھ liability بنتا چلا جانے والا ہو، جو ظاہر ہے آپ کی زبان پر تو آپ کے جیتے
جی نہیں آئے گا، مگر آپ کے رویوں اور لہجوں میں ضرور بولے گا۔
مغربی ملکوں کو اپنی نسلیں دے جانے پر
مطمئن حضرات بھی ان سماجی حقیقتوں پر تھوڑا غور کر لیں۔ "آسائشیں" سب
کچھ نہیں ہیں۔
اللهم من أحْيَيْتَه
مِنّا فأحْيِه على الإسلام، ومن توفيته منا فتوفه على الإيمان.
اللهم ارفعنا
بالإسلام، وارفع بنا الإسلام
وَاجْعَلْه كلمةً
باقيةً في عَقِبِنَا