مالکیہ کے دیس
میں!
تحریر: حامد کمال الدین
"مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور پر امریکہ
میں دیکھ رکھا تھا، مگر مسجدوں کی مسجدیں مالکیہ کی ہوں، اس کا موقع ابھی
"المغرب" کی سیر میں ملا۔
عبادات میں بہت سادگی، تقریباً حجاز کی طرح۔ اذان بس
اذان ہوتی ہے، "اللہ اکبر" شروع میں چار بار کی بجائے صرف دو بار کہنے
کے ساتھ۔ نہ اذان سے پہلے سپیکر سے کچھ "نشر" ہوتا ہے – جیسا کہ ہمارے
اپنے ملک میں، نیز کچھ اور خطوں میں بھی – اور نہ اذان کے بعد کچھ، جیسا کہ بعض
دیگر ملکوں میں چلتا ہے۔ بس اذان۔ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعاء کا فنامنا بھی
وہاں کی کسی مسجد میں نہیں دیکھا۔ امام، سلام پھیرنے سے چند لمحات بعد، مقتدیوں کی
طرف رخ کر کے، زیرِ لب، ما بعد نماز اذکار میں مگن ہو جاتا ہے۔ مقتدی بھی اچھی
خاصی تعداد میں بغیر کوئی خاص آواز بلند کیے مصروفِ اذکار رہتے ہیں۔ بہت لوگ اٹھنے
کی جلدی بھی کرتے ہیں۔ پسِ نماز اجتماعی دعاء کا فنامنا صرف وہاں کی "شاہی
مسجد" (مسجد الحسن الثانی، الدار البیضاء) میں دیکھا، اور اس دعاء کا ایک حصہ
نوجوان بادشاہ کی کامرانی و درازیِ عمر، اس کے دنیا سے جا چکے والدین کی بخشش، اور
اس کے ولیِ عہد کی سلامتی و شادابی کےلیے مخصوص ہوتا ہے۔ عام مسجدوں میں پس نماز
اجتماعی دعاء ہوتی البتہ میں نے نہیں دیکھی۔ سوائے خال خال لوگوں کے، عام نمازی
قیام میں ہاتھ باندھتے ہیں، گو میرا خیال تھا مالکی ماحول میں ہاتھ چھوڑ کر نماز
پڑھتے لوگ کثرت سے دیکھنے کو ملیں گے۔ مسجد کے باہر مانگنے والوں کا فنامنا اسی
طرح ہے جس طرح ہمارے یہاں۔ پیچھے پڑ پڑ کر بھی مانگتے ہیں۔ اکثر مسجدیں اذان کے
ساتھ کھلتی ہیں اور نماز کے کچھ دیر بعد "مقفل" کر دی جاتی ہیں۔ مغرب کے
بعد، بعض مسجدوں میں قرآن کا دَور ہوتا بھی دیکھا۔ دَور کرنے میں، ان کا طریقہ
ہمارے طریقے سے تھوڑا ہٹ کر تھا۔ ہمارے ہاں باری باری حافظ ایک دوسرے کو سناتے
ہیں۔ وہاں دونوں اکٹھے ایک ہی سورت پڑھ رہے تھے؛ ایک اپنے حفظ سے اور دوسرا مصحف
سے۔ دم ٹوٹنے کی وجہ سے جہاں کسی ایک کو تھوڑا رکنا پڑتا، اور اس کا ساتھی اس
دوران اگلی آیت شروع کر چکا ہوتا، وہاں یہ آیت کا اتنا حصہ چھوڑ کر اُس کے ساتھ
شروع ہو جاتا! شاید یہ دَور نہ ہو، مل کر تلاوت کرنے کا کوئی طریقہ ہو۔ مساجد میں
نوجوانوں کی تعداد اچھی خاصی تھی۔ جُمعوں پر عورتوں کو بھی مساجد تک رسائی ملتی
ہے۔ خواہش تھی، وہاں ایک جمعہ پڑھنے کا موقع ملے لیکن عین جمعرات کو فلائٹ تھی، سو
یہ نہ ہو سکا۔ وہاں کے کچھ لوگوں سے سنا، جمعہ کو، خطبہ سے پہلے صلوٰۃ و سلام کی
کچھ مجلس چلتی ہے۔ "مولد" کے متعلق بھی سنا، کہ اس کا بہت اہتمام ہوتا
ہے۔ ماحول پر صوفیت غالب ہے۔ ’اپنے کام سے کام رکھنے‘ والے لائف سٹائل پر لوگوں کو
کاربند رکھنے میں شاید اس سے کچھ کام بھی لیا جاتا ہے۔ بادشاہ سلامت خود بھی
روحانیت کی کچھ سرگرمیاں منعقد فرماتے ہیں۔ مسجدوں کی تعمیر میں اعلیٰ ذوق کا
مظاہرہ دیکھا۔ بھڑکیلی تزیین و آرائش کی بجائے رنگوں کا صُفیانہ مگر نہایت خوبصورت
اور جاذب نظر انتخاب متاثر کن تھا، سرکاری مسجدیں تو اس حوالہ سے زیبائش کا مرقع
تھیں، عام مسجدیں بھی سلیقے کا اعلىٰ اظہار تھیں۔ صفائی ستھرائی حیران کن۔
کچھ "تحریکی حلقوں" کا بھی وہاں کے متعلق
سن رکھا تھا، خصوصاً عبدالسلام یاسین کی جماعت۔ مگر عام لوگ کم ہی ان سے کوئی
سروکار رکھتے دیکھے۔ اس حد تک بھی نہیں کہ بتا سکیں ان سے ملا کس طرح جا سکتا ہے۔
بلکہ ان کے متعلق پوچھنے والے سے بھی تھوڑا خوف محسوس کرتے ہیں۔ بادشاہ کےلیے اچھے
جذبات اور خیالات ایک طرح سے ایمان کا حصہ ہیں۔ میرا خیال ہے، جس طرح ہمارے
’جمہوری‘ ملکوں میں وطن اور ریاست کے ساتھ ہر حال میں ایک وابستگی ذہنوں کے اندر
کاشت کی جاتی، یہاں تک کہ مذہب سے بھی اس کی کچھ آبیاری کروائی جاتی ہے، ’ملوکیتی‘
ملکوں میں بادشاہ اور اس کے خاندان کےلیے بھی اس "قومی" سوچ یا نظریے
میں ایک ایریا مختص ہوتا ہے۔ اور اصل چیز تو کسی ملک کا تعلیمی نصاب اور وہاں کی
ابلاغیات ہیں؛ خواہ جس بھی چیز کو آپ حق بنا دیں۔ چنانچہ عام آدمی کو اپنے فرماں
روا کے متعلق کچھ سننا، صرف قانونی گرفت کے خوف سے نہیں، بلکہ اپنے قومی دھرم پر
آنچ آنے کے خدشے سے بھی، ناگوار ہوتا ہے۔ خصوصا اگر کوئی باہر کا آدمی اس کے ’قومی
عقیدے‘ کا عدم احترام کر بیٹھے!
’اپنے کام سے کام‘ رکھنے والے دھرم کی ترویج اکثر عرب ملکوں میں بےحد ضروری
خیال کی جاتی ہے۔ اور اس کی کوشش بھی میرا خیال ہے از بس ہوتی ہے۔ مگر ایک طبعی
رکاوٹ اس میں پریشان کن حد تک حائل ہے: قرآن جب پڑھا جائے تو یہاں کے عام آدمی کو
اچھا خاصا سمجھ آتا ہے، چاہے اس کی بول چال کی عربی کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو۔
ہمارے عجمی معاشروں کی طرح "ترجمہ" کی ضرورت ادھر بہرحال نہیں ہے۔ موٹا
موٹا مفہوم قرآن کا بہرحال سمجھ آتا ہے۔ اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ قرآن کی
"تلاوت" بھی موقوف ہو جائے! اس کا کچھ اندازہ مجھے قرآن کا دور کرنے
والے نمازیوں کو دیکھ کر بھی ہوا، جس کے دوران چہروں کے تاثرات بتا رہے تھے کہ
قرآن کے معانی کے ساتھ بھی ان کا ایک تفاعل interaction بہر حال چل رہا ہے۔ اتفاقاً ایک جگہ سورۃالمائدۃ چل رہی تھی، جس میں جب وہ
آیات آئیں جو کسی "یہود و نصارىٰ سے دوستی کرنے" یا کسی "غیر ما
انزل اللہ پر فیصلے کرنے" والے شخص پر لازماً بھاری گزریں گی، وہاں کچھ لوگوں
کی ایک وجد آمیز کیفیت میں انگشتِ شہادت اٹھتی میرے لیے خاص طور پر نوٹ کرنے کی
تھی! اس لیے میرا خیال ہے، عجمیوں کے برعکس، عربوں کو قرآن سے دور کرنا ایک خاص حد
تک ہی ممکن ہے۔ اور شاید میرے خیال میں، عرب ملکوں میں مسلم عوام پر
"ڈنڈے" کے غیرمعمولی استعمال کی ایک بڑی وجہ یہی ہے۔
اسے نیشنلزم کہہ لیجیے یا قومی میڈیا کے زیر اثر
ہونا، کہ دو ہمسایہ مسلم قوموں "المغرب" اور "الجزائر" کی آپس
میں جس قدر لگتی ہے اتنی اپنی زمینوں پر قابض رہ چکے استعماری ملکوں فرانس اور
سپین کے ساتھ ان کی نہیں لگتی۔ اس کی بڑی وجہ، اللہ اعلم، علاقائی رقابت اور
قیادتوں کی لڑائی۔ ورنہ اگر سرحدی تنازعات کی بات ہو تو "المغرب" کے کچھ
علاقے مانند "سبتہ" وغیرہ سپین ابھی تک دبائے بیٹھا ہے، مگر اس کے ساتھ
تعلقات پھر بھی اتنے کشیدہ نہیں۔ اس دوقومی لڑائی میں وہاں کا عام شخص بھی اچھا
خاصا متعلقہ دیکھا گیا؛ ’اپنے کام سے کام رکھنا‘ ان مسئلوں میں متروک ہے! اس
بےمعنىٰ مخاصمت کا کچھ عکس مجھے خال خال اپنے یہاں "پاکستانیوں" اور
"افغانیوں" کے آپسی تعصب میں بھی نظر آ جاتا ہے! شریکے کی لڑائی اصل اور
بڑے دشمن کو اکثر پس منظر میں لے جاتی ہے۔
عرب اور بربر کی کشمکش میں وہ شدت اب نہیں جو ماضی
میں پڑھتے آئے ہیں۔ ’قومی‘ بھٹی میں اب بہت کچھ پگھلایا جا چکا ہے۔
کھانوں میں جو اعلىٰ ذوق اور ان کے پیش کرنے کے آداب
میں جو تفنن "مَغارِبہ" کے ہاں دیکھا، وہ ترکوں اور شامیوں سے
کسی صورت کم نہیں تھا، گو اسلوب ان کا اپنا تھا اور دل میں اترنے والا۔ آتے جاتے
کو مرحبا کہنا، خصوصاً اجنبیوں کو جا بجا خوش آمدید کہنا اور کشادہ دلی دکھانا، جس
کے متعلق "تیل والے" ملکوں میں اکثر گلہ رہتا ہے، یہاں الحمد للہ آپ کو
بہت ملتا ہے۔ مجاملات خوب ہیں۔ خندہ روئی اور پزیرائی گویا مغاربہ کی طبیعت کا حصہ
ہے۔ اس لحاظ سے؛ سیاحوں کو کثرت کے ساتھ اپنے ملک کا رخ کروانے میں یہاں کا عام
آدمی بھی ایک حصہ ڈالتا ہے۔ سیاحت میرا خیال ہے ان کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
مرابطین کے ہاتھوں تاسیس پانے والا شہر مرّاکش، باوجود صحرائی علاقہ ہونے کے اور
باوجود پانی کی شدید قلت کے جہاں بارش سال میں پانچ سات بار ہی ہوتی ہے، اچھا خاصا
سرسبز رکھا گیا ہے۔ اور شہر سجانے کا فن تو کوئی "مَغارِبہ" سے سیکھے!
نخلستانوں سے ایک خاص ہی حسن پیدا کرایا گیا ہے۔ اپنی اس دل کشی اور اپنے لوک ورثہ
کے ساتھ؛ بیرونی سیاحوں کےلیے یہ ایک بہت بڑی جاذبیت ہے۔ یہاں کے لوگ بتاتے ہیں کہ
ونسٹن چرچل نے شہر مرّاکش دیکھنے کے بعد کہا تھا: یہ صحراء کا پیرس ہے!
اکثر گاڑیاں وہاں کی مقامی بنی ہوئی ہیں، جیسا کہ
وہاں دیکھنے پوچھنے سے معلوم ہوا۔
ملک کے تجارتی گڑھ اور وہاں کے سب سے زیادہ آباد شہر
"الدار البیضاء" کی خوب صورت عجوبہٴ روزگار "مسجد الحسن
الثانی" سے متصل ساحلِ سمندر پر… جہاں لوگ بڑی تعداد میں سیر سپاٹے کےلیے آئے
ہوئے تھے، سیاح بھی بہت تھے اور مقامی پبلک بھی، ایک بات خاص طور پر نوٹ کرنے کو
ملی، یا نوٹ کرنی پڑی: اس کھچاکھچ ساحل پر نہ کوئی ایک بھی اڑتا اڑاتا شاپر، نہ
جوس کا کوئی ایک بھی خالی ڈبہ، نہ کوئی بساند مارتا ریپر، نہ کوئی کٹا پھٹا کاغذ
یا ٹشو، نہ کوئی ہوا میں لڑھکتی پھرتی بوتل، نہ کوئی چکن کی بھنبھوڑی ہوئی ہڈی،
اور نہ کوئی ڈسپوزیبل پلیٹ یا گلاس…غرض "کچرا" نام کی کوئی شےء دور دور
تک نہیں ملی۔ یہ دیکھ کر سچی بات ہے دل خوش بھی بہت ہوا اور خراب بھی! ایک
پاکستانی ان ہر دو محسوسات کے بغیر اس موقع پر شاید نہیں رہ سکتا!