"سیزن"
کی ہماری واحد پوسٹ!
===
ویسے
بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام
ہوتا ہے، لیکن جہاں ایک معرکہٴ آراء ہو، اور قیل و قال حد سے زیادہ، اور جہاں
مسئلہ کے سب فریق فی زمانہ ’روایات روایات‘ ہی کھیل رہے ہوں اور پھر ان پر ’تصحیح
وتضعیف‘ کا مزید ایک کھیل، علاوہ کئی اور کمال کمال "کھیلوں" اور داؤپیچوں
کے جو معاذ اللہ اس موقع کو ایک اکھاڑا بنا دیتی ہیں؛ اور ہر سال یہاں کچھ کریہہ
دنگل چلتے ہیں…… وہاں سب سے زیادہ سلامتی والا راستہ یہ ہوتا ہے کہ اس مسئلہ پر
ائمہٴ سنت کا مین سٹریم بیانیہ جان لیا جائے، اور بس۔ ’دلیلوں‘ کے پہلوان یہاں ایک
طرف کر دیے جائیں، تو آپ کہیں زیادہ محفوظ راستے پر ہوں گے، ان شاء اللہ۔ صرف ایک
بات کی تسلی رکھیے: یہ مسئلہ بھی امت کےلیے نیا نہیں ہے۔
ائمہٴ
سنت کا مین سٹریم بیانیہ اپنے مرکزی مضمون میں اس موضوع پر ایک ہی ہے۔ جیسا کہ ابن
تیمیہ کی تقریر سے ہم یہاں واضح کریں گے: (۱) یزید کو کافر یا منافق کہنا یہاں ایک
انتہا ہے، اور اپنی اساس میں
رافضہ کا بیانیہ۔ (۲) یزید کو ایک صالح شخص یا ایک امامِ عادل ماننا یہاں دوسری
انتہا ہے۔ یہ دونوں انتہائیں، صرف اتنا نہیں کہ "غلط" رائے ہیں۔ نہیں۔
یہ دونوں "جہالت" کی راہ ہیں۔ ان دونوں انتہاؤں کے متعلق ابن تیمیہ کی
تقریر دیکھیے جو وہ سلفِ امت کے مواقف کی تحریر کے ضمن میں بیان کرتے ہیں (ذرا نوٹ
کیجیے ابن تیمیہ کے الفاظ نیچے کے پیرا میں۔ پہلی بات بھی ابن تیمیہ کی اہم ہے
لیکن دوسری بات تو اتنی اہم ہے کہ اس "دنگل" کے موقع پر ہر نوجوان کو ازبر
ہونی چاہیے۔ اور یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ابن تیمیہ پورے دعوے سے کہہ رہے ہوں کہ
امت کے معروف اہل علم میں سے کسی ایک کی بھی ان دونوں انتہاؤں سے کوئی نسبت نہیں
رہی۔ یہ وجہ ہے، ابن تیمیہ کے کلام میں ہم اسے خط کشیدہ کر رہے ہیں):
[وَكِلَا
الْقَوْلَيْنِ ظَاهِرُ الْبُطْلَانِ عِنْدَ مَنْ لَهُ أَدْنَى عَقْلٍ وَعِلْمٌ
بِالْأُمُورِ وَسَيْرُ الْمُتَقَدِّمِينَ؛ وَلِهَذَا لَا يُنْسَبُ إلَى أَحَدٍ
مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ الْمَعْرُوفِينَ بِالسُّنَّةِ وَلَا إلَى ذِي عَقْلٍ
مِنْ الْعُقَلَاءِ الَّذِينَ لَهُمْ رَأْيٌ وَخِبْرَةٌ. "اوپر جو دونوں انتہائیں
بیان ہوئیں، (۱) ان کا باطل ہونا ہر ایسے آدمی پر جو ذرہ بھر عقل کا مالک ہے اور
معاملاتِ کار سے نیز متقدمین کے احوال سے ذرہ بھر واقف ہے، آپ سے آپ واضح ہے۔ (۲)
یہی وجہ ہے سنت پر پائے جانے والے معروف اہل علم میں سے کسی ایک کی بھی ان ہر
دو انتہاؤں میں سے کسی ایک سے کوئی نسبت نہیں رہی۔ (۳) اور نہ عقلاء میں سے جو
کوئی رائے اور گہری نظر رکھنے والے ہوتے ہیں کسی ذی عقل سے (ان ہر دو قول میں سے
کسی) کی نسبت ثابت ہے]۔
پس
مرکزی مضمون تو اہل سنت مین سٹریم بیانیہ کا یہی ہے: نہ کافر و منافق۔ اور نہ صالح
و عادل۔ اس کے بیچ بیچ جو بھی کہیے۔ اسے ابن تیمیہ یوں تحریر فرماتے ہیں:
[والقول الثالث: أنه كان ملكا من ملوك المسلمين، له
حسنات وسيئات، ولم يولد إلا في خلافةِ عثمان، ولم يكن كافرا؛ ولكن جرىٰ بسببه ما
جرىٰ من مصرع " الحسين "، وفعل ما فعل بأهل الحرة، ولم يكن صاحبا، ولا
منأولياء الله
الصالحين: وهذا قول عامة أهل العقل والعلم والسنة والجماعة "تیسرا قول یہ ہے کہ: یزید
مسلمانوں کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا۔ اس کی نیکیاں بھی ہیں، بدیاں بھی۔ یہ
(دورِ نبوت میں نہیں) بلکہ خلافت عثمانؓ کے عہد میں پیدا ہوا۔ کافر نہیں تھا۔ مگر
اس کے سبب سے حسین رضی اللہ عنہ کا خون ہونے ایسا واقعہ رونما ہوا، اہل حرہ کا بھی
جو جو حشر ہوا تو وہ اس کے سبب سے۔ یزید نہ صحابی ہے اور نہ اللہ کے نیک اولیاء
میں سے ہے۔ یہ ہے قول اہل سنت و جماعت میں سے عام اہل عقل و اہل علم کا"]۔
ہاں اس کے بعد یہ اہل سنت سٹریم اس موضوع پر تین دھارے ہو
جاتی ہے: ایک بیچ کا، جسے خود ابن تیمیہ اون own کرتے اور احمد بن حنبل نیز
"تمام مسلمانوں میں سے اہل اعتدال" کا مذہب قرار دیتے ہیں۔ جبکہ باقی دو
اقوال، تھوڑی شدت کے، ایک ایک طرف کو، تو دوسرا دوسری طرف کو:
[ثم افترقوا (ثلاث فرق: فرقة لعنته، وفرقة أحبته،
وفرقة لا تسبه ولا تحبه، وهذا هو المنصوص عن الإمام أحمد وعليه المقتصدون من
أصحابه وغيرهم من جميع المسلمين. قال صالح بن أحمد: قلت لأبي إن قوما يقولون إنهم
يحبون يزيد فقال: يا بني وهل يحب يزيد أحد يؤمن بالله واليوم الآخر؟ فقلت: يا أبت
فلماذا لا تلعنه؟ فقال: يا بني ومتى رأيت أباك يلعن أحدا. وقال مهنا: سألت أحمد عن
يزيد بن معاوية بن أبي سفيان. فقال: هو الذي فعل بالمدينة ما فعل قلت: وما فعل؟
قال: قتل من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وفعل. قلت: وما فعل؟ قال: نهبها
قلت: فيذكر عنه الحديث؟ قال: لا يذكر عنه حديث. وهكذا ذكر القاضي أبو يعلى وغيره "اس کے بعد یہ (یعنی تیسرا فریق) آگے مزید تین سمتوں میں تقسیم ہوا:
(۱) ایک طبقہ یزید پر لعنت کرنے کا قائل ہوا۔ (۲) ایک فریق یزید کے ساتھ محبت
رکھنے کا قائل ہوا۔ (۳) اور ایک فریق نہ اس کو دشنام دینے کا قائل اور نہ اس سے
محبت رکھنے کا روادار۔ یہ تیسرا قول ہی امام
احمدؒ سے منصوص ہے۔ اسی پر امام احمدؒ کے تلامذہ و اصحاب میں سے اہل
اعتدال پائے گئے اور اسی پر دوسرے مذاہب کے اعتدال والے طبقے رہے ہیں۔ امام احمدؒ
کے بیٹے صالح بن احمد روایت کرتے ہیں: میں نے اپنے والد سے کہا: کچھ لوگوں کا مذہب
ہے کہ وہ یزید سے محبت رکھیں گے۔ والد صاحب (امام احمد) نے
جواب دیا: بیٹے! کیا کوئی شخص جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو،
یزید سے محبت کا روادار ہو سکتا ہے؟ میں نے عرض کی: ابا جان! تو پھر آپ اس پر لعنت
کیوں نہیں کرتے؟ والد صاحب (امام احمد) نے جواب دیا: بیٹے! تو نے اپنے باپ کو کسی
کو بھی لعنت کرتے ہوئے کب دیکھا ہے؟ مہنا روایت کرتے ہیں: میں نے امام احمد سے
یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کی بابت پوچھا تو امام احمدؒ نے جواب دیا: وہی تو ہے
جس نے اہل مدینہ کا حشر کیا ۔ میں نے عرض کی: اس نے اہل مدینہ کے ساتھ کیا کیا؟
فرمایا: لوٹ مار مچائی۔ میں نے پوچھا تو کیا اس سے حدیث روایت کی جائے گی؟ فرمایا:
اس سے ہرگز حدیث روایت نہیں کی جائے گی۔ قاضی ابو یعلی نے (امام احمد سے) یہ روایت
اسی طرح بیان کی ہے]۔
تحریرِ مسئلہ پر ہماری بات مکمل ہوئی۔
*****
ایک چیز نوٹ رہے: ابن تیمیہ نے
یہاں اپنی ’تحقیق‘ پیش کی ہوتی تو اس پر تنقید کی اپروچ بےشک اور ہو سکتی تھی۔ اور
بےشک ابن تیمیہ بھی بہت مواقع پر "اپنی" تحقیق پیش کرتے ہیں۔ مگر یہاں
وہ اہل سنت کے نمائندہ مواقف کی تحریر کر رہے ہیں۔ اور یہی بات اس موقع کےلیے
سب سے اہم۔ اہل سنت کسی مسئلہ پر جو موقف یا مواقف اختیار کر چکے، عام آدمی کے حق
میں کیوں وہ ’دلائل‘ کی ایک از سر نو بحث کی نسبت کہیں زیادہ اہم اور ضروری ہے، اس
پر کچھ بات ہم کر چکے، کچھ اور کریں گے، یہاں نوٹ کرنے کی بات یہ کہ: اہل سنت ائمہ
کے ہاں اختیار کیے گئے مواقف کے استقصاء (احاطہ) اور ضبط اور نقل میں امت کے جن
لوگوں کو کمال درجے کی ثقاہت حاصل ہے، ابن تیمیہ ان میں سے ایک ہیں۔ بلکہ سُنی
مواقف کے استقصاء میں شاید ہی ابن تیمیہ سے اوپر کوئی ہو۔
ایک
اصولی بات اور نوٹ کرتے جائیے:
کچھ
فارغ لوگوں کا خیال ہے کہ ہر فرد کو دنیا میں ہوش سنبھالنے کے بعد ہر ہر مسئلہ کا
فائل از سر نو کھولنا اور ’تحقیق‘ کرنی ہے۔ مطلب، ہر شخص کو یہاں آ کر ’اپنا‘ پہیہ
خود ایجاد کرنا ہے، اور اس بات کا وہ منجانبِ خداوندی مکلف ہے!!! امت کی توانائیاں
برباد کروانے اور اس کو ایک اتھاہ انارکی میں جھونکنے کا اس سے کاری نسخہ شاید ہی
کوئی دریافت ہوا ہو۔ اس کے مقابل عقلاء کا
طریقہ یہ ہے کہ (۱) "تحقیق" کےلیے ایک تو خاص درجے کی اہلیت چاہیے، نری
اہلیت گو کافی نہیں ہے۔ (۲) دوسرا اور اہم تر، اس میدان کے لوگوں کی آدمی کے حق
میں شہادت ہونا کہ اس کی تحقیق کو تحقیق کا درجہ دیا جائے۔ (۳) تیسرا یہ کہ جو حضرات
اس درجہ پر فائز نہیں، یعنی امت کی ان کے حق میں کوئی ایسی شہادت موجود نہیں، وہ
خود ہرگز لوگوں کےلیے ’تحقیق‘ کے نام پر کوئی قول صادر نہ فرمائیں اور نہ لوگ ہی
’تحقیق‘ کے نام پر ایسے کسی شخص کی بات پر کان دھریں۔ سبھی کا وقت اس سے زیادہ قیمتی
ہے۔ ایسے حضرات کو اگر کچھ بات کرنی ہو تو وہ صرف ان رجال کا حوالہ دے کر جو امت
کے یہاں اس درجہ پر فائز چلے آتے ہیں۔ (۴) چوتھا یہ کہ وہ مسائل جن کا امت کو کثرت
سے سامنا رہا ہے، ان کی بابت یہ اعتقاد رکھنا کہ امت کی بڑی بڑی عقول نے ضرور ان
کے متعلق کوئی بات سرے لگا رکھی ہو گی۔ یہ گمان رکھنا کہ
وہ سب ’دلائل‘ جو ہمارے ناپختہ ذہنوں کو زور زور سے دعوتِ سخن دے رہے ہیں، اُن
پختہ کار ذہنوں نے ان "دلائل" سے ایک مناسب و معیاری استدلال بہت دیر
پہلے کر لیا ہو گا۔ اور اپنے اس عمل سے؛ امت کے اُن معتمد رجال نے
یا تو ایک ہی متفقہ موقف امت کےلیے چھوڑا ہو گا، جیسا کہ اوپر کے بیان میں (شروع
کے اندر) ابن تیمیہ نے دو بِدعی انتہاؤں کے مقابلے پر اہل سنت کا نمائندہ
قول تحریر کیا ہے۔ یا پھر کچھ خاص تفصیلات میں ایک سے زیادہ قول اپنے پیچھے چھوڑے
ہوں گے، جیسا کہ اوپر کے بیان میں ابن تیمیہ نے خود اہل سنت کے یہاں پائے جانے
والے تین اقوال آگے چل کر نقل کیے۔ اس مؤخر الذکر ایریا میں جتنے قول ہیں، (۱) ان
میں سے ایک کو بےشک آپ اختیار کریں گے، اس کے ماسوا مواقف کو چھوڑتے یا رد کرتے
ہوئے (۲) تاہم اس کے ماسوا اہل سنت اقوال کو بھی کھلے دل سے برداشت کریں گے۔ (۳)
کسی سیکھنے سکھانے کے عمل میں – نہ کہ بحث و تکرار کی کسی سرگرمی میں، جو کہ اس
وقت سوشل میڈیا پر عام ہے – آپ ان میں سے کسی ایک کے دوسرے کے مقابلے پر قوی تر
ہونے کی گفتگو بھی یقیناً کریں گے، ان میں سے کسی ایک کو غلط بھی بےشک کہہ لیں گے،
اس میں کوئی بھی حرج نہیں۔ (۴) اور تھوڑا منکسر و متواضع رہتے ہوئے، ایسے کسی خیال
سے دور رہنا ہے کہ جو معاملہ امت میں ایسے چوٹی کے ائمہٴ علم کے ہوتے ہوئے
"نمٹایا" نہیں جا سکا – یعنی ائمہٴ سنت کے اس مسئلہ پر ایک زیادہ قول یا
موقف ہوئے – اس کو میں نے "سرے" لگا کر ہی جانا ہے؛ اور اسے نہ ماننے
والے کو آخر تک گھر پہنچا کر آنا اور برسوں اس پر ’پوسٹیں‘ کرنی اور مسلسل دنگا
مچانا ہے!
اور
ایک بات تو مجھے بالکل سمجھ نہیں آ سکی۔ کچھ لوگوں کا تو مذہب ہی "مسئلے
مسائل" ہے اور یہ وہ بہترین چیز ہے جو ان کے خیال میں وہ خدا کے ہاں پیش کر
لیں گے۔ دین کی اقامت سے شاید ہی ان کو کوئی سروکار ہو۔ وہ اگر اس مسئلہ پر ڈیرے
ڈال کر نہیں بیٹھیں گے تو کسی اور "مسئلہ" کی ان کو ضرورت رہے گی۔
"مسئلوں" کے بغیر ایسی "تحریکیں" مر جاتی ہیں۔
"جھگڑے" ان کو زندہ کرتے ہیں اور کام کے کام کرنے سے ان کی موت واقع ہو
جاتی ہے۔ پس ان کی یہ سرگرمی تو جس کے لیے خدا نے دنیا میں "انٹرنیٹ"
ایجاد کروا دیا ہے اور امت میں اس فتنے اٹھانے کے عمل کو ایک "کلِک" کے
فاصلے پر لا دھرا ہے، ایک سمجھ آنے والی بات ہے۔ یہ اگر یہ کام نہ کریں تو ہمارے
لیے حیرانی کی بات ہو گی اور خود ان کےلیے پریشانی کی۔ تعجب مگر مجھے ان سنجیدہ
لوگوں پر ہوتا ہے جو عالم اسلام کے اِحیاء پر یقین رکھتے ہیں۔ اتنا بھاری کام! کفر سے دو دو
ہاتھ کرنے کا مقصد زندگی میں رکھتے ہیں۔ امت کے ساتھ جو اس وقت ہو رہا ہے وہ انہیں
خون کے آنسو رلاتا ہے۔ ایک ڈولتی کشتی کو منجدھار سے نکالنے کےلیے صلحائے امت کا
زور لگا پڑا ہے؛ اور بات فی الحال بنائے نہیں بن رہی۔ اتنا کڑا وقت شاید ہی ہم پر
آیا ہو؛ اور اس "جدید" آندھی کے مقابلے پر تو بخدا ہمیں اشاعرہ و
ماتریدیہ تو کیا عباسی دور والے معتزلہ کے ساتھ یک محاذ ہونا پڑے تو اس کےلیے دیر
نہ لگائیں۔ ایک اتنی دشوار گزار راہ ہمارے ان باعمل حضرات کی منتظر ہے اور زمانہ
چال قیامت کی چل گیا ہے۔ کیا یہ بامقصد لوگ اس بات کے متحمل ہیں کہ یہ ایسے فارغ
طبقوں کے ساتھ الجھیں جن کا مذہب ہی "مسئلے مسائل" اور آپس میں لڑنے کے
بہانے ڈھونڈنا ہے اور جن کی بقا ہی لڑنے لڑانے میں ہے؟ کچھ آگے بڑھنے کی سوچیے
حضرات! صدیوں پیشتر کی لڑائیوں میں "جینا" – جبکہ زمانہ روز آپ کو
روندتا اور اپنی بےرحمی کا "احساس" دلواتا ہو – کونسی ہوش مندی ہے؟ اور
ویسے کیا ہونا باقی ہے کہ ہم زمانے کے مناسب کچھ اہداف رکھ لیں؟
فَهَلْ مِن معتبِر؟
__
مجموع فتاوىٰ ابن تیمیہ کی عبارتوں کا لنک(عربى عبارت)
اعتراض کرنے والے یہاں کہہ سکتے ہیں کہ ابن تیمیہ کے
عربی متن میں "کلا القولین" کا لفظ آیا ہے جبکہ ہم نے ترجمہ میں
"دونوں انتہائیں" بولا ہے۔ دراصل یہ اس لیے کہ مسئلہ کے شروع میں ابن
تیمیہ ان ہر دو اقوال کو "دو انتہائیں" ہی کہہ آئے ہیں: [افترق الناس في " يزيد " بن
معاوية بن أبي سفيان ثلاث فرق: طرفان ووسط "یزید کے معاملے میں لوگ تین گروہوں میں تقسیم
ہیں: دو انتہائیں، اور تیسری راہِ وسط"]