مدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات
"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقتباس:
===
[وَلِکُلٍّ وِجْہَۃٌ ھوَ مُوَلِّیْہَا (البقرة: 148) "اور سبھی کی اپنی اپنی سمت ہے"]۔ [لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا (المائدة: 48) "ہم نے تم سب کےلیے ایک ایک شریعت اور راستہ رکھا"]۔ چنانچہ یہ جو "شِرْعَةً " ذکر ہوا، ملتوں کے الگ الگ شعار اسی میں آتے ہیں۔
عاشوراء کے ضمن میں، جس چیز سے یہ بات اور بھی واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ: اس دن کا روزہ رکھنے پر ایک تو یہ فرمایا کہ [نَحْنُ أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ "ہم تم سے زیادہ موسیٰؑ کا حق رکھتے ہیں"]۔ دوسرا، اپنی وفات سے تھوڑا پہلے اس مسئلہ میں یہود کی مخالفت مشروع فرما دی، اور امت کو اس کی ہدایت فرمائی۔ یہ وجہ ہے، وہی ابن عباس جو یہ کہنے والے ہیں [وَكَانَ يُعْجِبُهُ – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – مُوَافَقَةُ أَهْلِ الْكِتَابِ فِيمَا لَمْ يُؤْمَرْ فِيهِ بِشَيءٍ "اور آنحضرتﷺ کو پسند رہا کہ ایسے معاملات کے اندر جن میں خود آپﷺ پر کوئی حکم نہیں اترا، اہل کتاب کی موافقت رکھیں"]، اور وہی ابن عباس جو روایت کرنے والے ہیں [نَحْنُ أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ "تو ہم تم سے زیادہ موسیٰؑ کا حق رکھتے ہیں"] وہی ابن عباس اس بات پر سب سے زیادہ زور دینے والے صحابی ہوئے کہ صومِ عاشوراء کے معاملہ میں یہود کی مخالفت ہونی چاہیے۔ پیچھے ہم ذکر آئے کہ صومِ عاشوراء میں یہود کی مخالفت کو مشروع ٹھہرانے والی حدیث کے راوی حضرت ابن عباس ہی ہیں۔
پھر، مسلم میں حکم بن الاعرج سے حدیث آتی ہے: [قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ رِدَاءَهُ فِي زَمْزَمَ، فَقُلْتُ لَهُ: أَخْبِرْنِي عَنْ صَوْمِ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: إِذَا رَأَيْتَ هِلَالَ الْمُحَرَّمِ فَاعْدُدْ، وَأَصْبِحْ يَوْمَ التَّاسِعِ صَائِمًا، قُلْتُ: هَكَذَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ قَالَ: «نَعَمْ "کہا: میں ابن عباس کے پاس جا پہنچا جو چاہِ زمزم پر اپنی چادر کا تکیہ بنائے بیٹھے تھے۔ میں نے عرض کی: مجھے عاشوراء کے روزہ متعلق آگاہ فرمائیے۔ فرمایا: جب محرم کا چاند دیکھ لو تو گننا شروع کر دو۔ نویں کی صبح ہو تو تم نے روزہ رکھا ہو۔ میں نے عرض کی: کیا اسی طرح رسول اللہﷺ کا روزہ ہوتا تھا؟ آپ نے فرمایا: ہاں"]۔
مسلم ہی میں ابن عباس کی یہ روایت آتی ہے: [قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ "کہا: فرمایا رسول اللہﷺ نے: اگر میں اگلے سال تک زندہ رہا تو ضرور نویں کا روزہ رکھوں گا"]۔ مطلب، عاشوراء کے موقع پر۔ یہاں ابن عباس کے قول کا مطلب ہے کہ نویں کا روزہ رکھو دسویں کے ساتھ۔ ایسا ہی آپؒ سے ثابت ہے۔ اور اس کی علت یہ بیان فرمائی کہ اس سے یہود کی مخالفت مقصود ہے۔ سعید بن منصور نے اپنے اِسناد سے عطاء بن ابی رباحؒ سے سے روایت کیا: [أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: " صُومُوا التَّاسِعَ وَالْعَاشِرَ؛ خَالِفُوا الْيَهُودَ " کہ انہوں نے ابن عباس کو فرماتے ہوئے سنا: نوویں اور دسویں کا روزہ رکھو؛ یہود کی مخالفت کرو"]۔
علاوہ ازیں "فوائد داوٗد بن عمرو" میں آنے والی روایت، جو اسماعیل بن علیَّہ سے ہے: [کہا: لوگوں نے ابن أبی نُجَیح سے ذکر کیا کہ ابن عباس کہا کرتے تھے: {يَومُ عَاشُورَاءَ يَومُ التَّاسِعُ "عاشوراء کا دن نویں کا دن ہے"} تو ابن أبی نجَیح کہنے لگے: { إنَّمَا قَال ابْنُ عَبَّاسٍ: أكْرَهُ أنْ أصُومَ فَارِدًا، وَلٰكِنْ صُوْمُوْا قَبْلَهٗ يَوْمًا، أوْ بَعْدَهٗ يَوْمًا " اصل میں ابن عباس کا کہنا تھا: مجھے یہ ناپسند ہے کہ اس اکیلے دن کا روزہ رکھوں، لیکن اس سے پہلے کا ایک روزہ رکھ لو، یا اس سے بعد کا ایک"}]۔
اس بات کی توثیق ترمذی کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے: [عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَوْمِ عَاشُورَاءَ يَوْمَ عَاشِرٍ "ابن عباس سے، کہا: رسول اللہﷺ نے حکم دیا عاشوراء دسویں تاریخ کے روزے کا"]۔ ترمذی نے کہا: ابن عباس کی یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
نیز سنن سعید بن منصور کی روایت: [عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: صُومُوا عاشور وَخَالِفُوا فِيهِ الْيَهُودَ صُومُوا يَوْمًا قَبْلَهُ وَصُومُوا بَعْدَهُ يَوْمًا "ابن عباس سے، کہا: فرمایا رسول اللہﷺ نے: عاشوراء کا روزہ رکھو، اور اس میں یہود کی مخالفت کرو: اس سے ایک دن پہلے کا روزہ رکھو، (یا) ایک دن بعد کا روزہ رکھو"]۔ یہی حدیث احمد نے ان لفظوں سے روایت کی: [صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا، أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا "اس سے پہلے کا ایک دن روزہ رکھو یا اس کے بعد کا ایک دن"]۔ یہ وجہ ہے، ابن عباس سے آنے والی یہ جو روایت ہے اور اسی پر آپ کا فتوىٰ بھی رہا، امام احمد نے اسی پر اپنا قول رکھا۔ اثرم کی روایت میں، احمد فرماتے ہیں: [عاشوراء کے مسئلہ میں، میرا مذہب یہ ہے کہ نویں اور دسویں کا روزہ رکھا جائے، ابن عباس والی حدیث کی دلیل سےکہ [صُومُوا التَّاسِعَ وَالْعَاشِرَ؛ خَالِفُوا الْيَهُودَ " نوویں اور دسویں کا روزہ رکھو "]۔ حرب کہتے ہیں: میں نے امام احمد سے عاشوراء کے روزہ متعلق دریافت کیا تو آپؒ نے فرمایا: [نویں اور دسویں کا روزہ رکھے"]۔ میمونی کی روایت میں، نیز ابو الحارث کی روایت میں، امام احمد نے کہا: [جو عاشوراء کا روزہ رکھنا چاہے، وہ نویں اور دسویں کا روزہ رکھے، سوائے یہ کہ تاریخوں کا اشتباہ ہو گیا ہو، تب وہ تین دن کے روزے رکھ لے، ابن سیرین کا یہی کہنا ہے]۔
ہمارے (مذہب کے) بعض اصحاب نے کہا: افضل تو ہے نویں اور دسویں کا روزہ۔ اور اگر صرف دسویں کا رکھ لے تو مکروہ نہیں ہے۔
امام احمد کے کلام کا مقتضا یہ بنتا ہے کہ: آپؒ اکیلے دسویں کا روزہ رکھنا مکروہ جانتے ہیں، کیونکہ جب آپؒ سے اس کا دریافت کیا گیا تو آپؒ نے دونوں دنوں کے روزہ کا فتوىٰ دیا، اور اسی کی ہدایت کی۔ اور جو عاشوراء کا روزہ رکھنا چاہے اس کے حق میں اسی کو سنت قرار دیا۔ اور اس مسئلہ میں ابن عباس والی حدیث کی پیروی کی۔ جبکہ ابن عباس اس روایت کی رُو سے جو آپؓ کے متعلق مشہور ہے، اکیلے دسویں کا روزہ رکھنا مکروہ جانتے تھے۔
__
اقتضاء ص 416 تا 420۔ بترتیب نسخہ تحقیق شیخ ناصر العمر