روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے
جواب میں
تحریر: حامد کمال الدین
ہماری
ایک گزشتہ تحریر پر، بذریعہ ٹوٹر آنے
والا ایک
اعتراض:
میں ایک عام سا طالب علم ہوں۔ سکول میں جو مطالعہ پاکستان اور تاریخ
پڑھائی گئی، بعد میں پتہ چلا کہ سب جھوٹ تھی۔ نتیجتا نصاب کی کتابوں سے اور اساتذہ
سے اعتبار اٹھ گیا۔ یہی دین کے معاملے میں بھی ہے۔ آپ بہت سارے معاملات کی جب
توجیہ پیش نہیں کر پاتے تو خاموشی کی دلیل سے اپنے آپ کو تو قائل شاید کر لیں،
لیکن جس کے اندر طوفان اٹھا ہے اسے مطمئن نہیں کر سکتے۔ آپکو فکر ہے انکی جو جہلم
والے کو یا ساحل عدیم کو صحیح سمجھتے ہیں، آپکو کو تو ان شخصیات کو شکر ادا کرنا
چاہئے کہ انہوں نے بےتوجیہے "علماء" کی بدولت الحاد کی طرف جاتے
نوجوانوں کو توجیہ کہ بنا پر سمجھایا اور دین پر پہرہ دیا۔ آپ دوسروں میں تو مرض
کی بات کر رہے ہیں لیکن علماء میں پائے جانے والے مرض کی نشاندہی نہیں کی جن کی
بدولت یہ سب ہو رہا۔ آخر کار آ کر آپ کو فکر ستائی بھی تو اس بات کی کہ لوگ جہلم
والے کے پاس یا ساحل عدیم کے پاس پناہ کیوں لے رہے ہیں۔
(حمود الرحمن)
جواب:
جب
ہم نے – کم از کم میں نے – یہ مان لیا کہ ہم "روایتی مذہبی طبقہ" نے آپ
نوجوانوں کا حق ادا کرنے میں خاصی بڑی تقصیر کی ہےاور وہ اتنی بڑی تقصیر ہے کہ آپ
کا "ہم" سے فرار کی راہ اختیار کرنا ایک خاصی حد تک سمجھ آنے والی (نہ
کہ justify ہونے والی)
بات۔ اور پھر "فرار" کی اس خاصیت کی بھی نشان دہی کی، کہ اس میں خاص غور
طلب اور تصحیح طلب مسئلہ "مفرور
مِنه" کا ہوتا ہے نہ کہ "مفرور اِليه" کا؛ کیونکہ اُس کا مسئلہ دیکھنے کی تو نوبت ہی بعد میں آنی
ہے، وہ بھی اگر واقعتاً اس کی ضرورت ہو…یعنی ہم نے سب مسئلہ سر دست اپنے ہی اوپر
لے لیا…تو میری درخواست ہو گی کہ آپ اس اتنے سے ا0عترافِ حقیقت کو، بالفرض وہ آپ کی
نظر میں کم بھی ہے، کچھ نہ کچھ قبول فرمائیں! "مفرور الیہ" نہ کبھی
ہمارا موضوع ہوا ہے – اور اس کےلیے آپ ہماری ساری تحریرات دیکھ سکتے ہیں – اور نہ
ہونے والا ہے۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں، ہمیں اس اصل پوائنٹ کی بخوبی نشان دہی ہے
جہاں سے نوجوانوں کی یہ سب فرسٹریشن جنم لے رہی ہے؛ لہٰذا ہم اسے چھوڑ کر کیوں کسی
دوسری طرف کو جائیں، اور معاملے کو مزید الجھانے، اور نوجوانوں کی فرسٹریشن کو اور
بھی بڑھانے کا باعث بنیں؟ اور اگر پھر بھی آپ کی تسلی نہیں ہوتی تو آپ یوں سمجھیں،
میری اس پوسٹ کا تمام تر رخ اپنے (سکہ بند مذہبی طبقے) ہی کی طرف تھا… اور وہ سب
لمحہٴ فکریہ اپنے ہی متعلق۔ کیا ان کو بھی
ایک مسئلہ کی نشان دہی کر کے نہیں دی جا سکتی؟؟؟ یقین کریں وہ سب لوگ ایک "مسئلہ"
کے بیان میں محض ضمناً آ گئے تھے۔
اور ہاں یہ کہنے میں مجھے باک نہیں، کہ آپ سب نوجوان جو
"مولوی" سے بھاگے ہیں "دین" سے نہیں بھاگے، اور جن کی سب سے
بڑی ترجیج ان تمام تر الحادی جھکڑوں کے باوجود "دین" ہی ہے، وہ میرے لیے
نہایت قابل قدر، بلکہ اپنے دور کے لحاظ سے ایک غنیمت ہیں۔ ان نوجوانوں کے بہرحال
"دین" پر رہنے پر میں جتنا بھی شکر اور جتنا بھی فخر کروں کم ہے۔ بھلے
وہ "ہم" سے بھاگ کر فی الحال کہیں بھی اوٹ پانے میں اپنے تئیں کامیاب
ہوئے ہوں۔ وہ سب باتیں ان شاء اللہ دیکھی جاتی رہیں گی۔ بلکہ وہ سب باتیں میرا
خیال ہے وقت کے ساتھ خود بھی اچھی خاصی سمجھ آ جائیں گی۔ علم و فقہ کو اس کے مستند
مصادر سے لینے کا عمل بڑی دیر تک روکا نہیں جا سکتا؛ خصوصاً اس "انفرمیشن ریوولوشن"
کے زمانے میں۔ مسئلہ کی thrill بسا اوقات مسئلہ کے سمجھ آنے کے راستے مسدود کر دیتی ہے اور
"ردعمل" ایک بڑی ظالم چیز ہے۔
قصہ کوتاہ: مَا أُبَرِّئُ نَفْسِيْ۔ ہم اپنے آپ کو برئ الذمہ نہیں
کہتے۔ آپ جہلم کی بات کرتے ہیں، محترم احمد جاوید صاحب تو نوجوانوں کے الحاد کی
طرف جانے کی ذمہ داری اپنے مذہبی طبقہ کو اٹھوا دیا کرتے ہیں۔ پس ہم تو بڑی
"رَپَٹ" کےلیے تیار تھے، آپ ہمیں چھوٹی پر پکڑ رہے ہیں!
ذرا سی ایک اور بات۔ ساحل عدیم کو –
باوجود ان کے کچھ شدید غیر ذمہ دارانہ سٹیٹمنٹس کے – میں قابل قدر ہی دیکھتا ہوں،
اپنے بہت سارے حضرات سے معذرت کے ساتھ۔ ان کےلیے میرے پاس نوجوانوں کی وہی کیٹگری
ہے جس کا اوپر ذکر ہوا۔ یہ نوجوان "فتوے" دینے کا کام اگر
"مولوی" کےلیے چھوڑ دے، تو ان
شاء اللہ بہت کام کا ہے۔
نسألُ اللهَ التوفيقَ والهداية.