خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار
تحریر: حامد کمال الدین
گزشتہ سے پیوستہ:
دو سوالات کے یہاں ہمیں جواب دینے ہیں:
چند دن پہلے ہمارے ہاں شائع ہونے والے مضمون [خلافت ما بین ’جمہوری‘ و ’انقلابی‘ اور مدرسہ اھل الاثر] پر ایک سوال یا کامنٹ آیا ہے:
بصد احترام ! موجودہ "جغرافیائی تقسیم والی ریاست " کے زمانے
میں ٹھیٹ اسلامی تصور پر مبنی "جماعت المسلمین" کا خیال ہی کسی یوٹوپیا
کی طرح لگتا ہے
لہذا اِس موجودہ ترتیب سے "اُس ہدف کا سفر " کسی ایک خطے کی
"ریجنل جماعت المسلمین" کے ساتھ ہی ممکن ہے ۔۔ جو کہ "
انکلیوسو" ہو، تصوراتی طور پر عالمگیر ہو مگر کوشش صرف اپنی "قومی
جغرافیائی حدود " تک محدود رہے
عالمگیر نظام کے مقتدر طبقات کے لیے جس حد تک اور جتنی دیر تک ناقابل ذکر
رہے اتنا اچھا ہے ۔۔۔ اپنے علاقے اور لوگوں میں سرایت کر جائے ۔۔۔ تاانکہ اکھاڑ
پھینکا جانا آسان نہ رہے۔
(سید
فاروق احمد)
جواب:
آپ
کا پہلا جملہ:
موجودہ "جغرافیائی تقسیم والی ریاست " کے زمانے میں ٹھیٹ
اسلامی تصور پر مبنی "جماعت المسلمین" کا خیال ہی کسی یوٹوپیا کی طرح
لگتا ہے
جو
آپ کہنا چاہ رہے ہیں، مجھے اس سے اتفاق ہے۔ اور دیکھنے میں شاید ایسا ہی ہے۔ پھر
بھی ان لوگوں کےلیے تھوڑی بات کر دوں جو ہمارے خالص اسلامی چیزوں پر ایمان رکھنے
کو "یوٹوپیا" کا ہم معنى لیتے
ہیں۔
اپنے
مضمون میں "جماعۃالمسلمین" ہم نے بطور اعتقاد بات کی ہے۔ اور اعتقاد کا
معاملہ اس بات سے متعلق نہیں ہوتا کہ "آج" کیا ممکن ہے۔ ہاں
"یوٹوپیا" یہ اس وقت ہو گا جب ہم اسی کے خواب دیکھ اور دکھا رہے ہوں۔
جبکہ ہم ایسا نہیں کر رہے۔ بلکہ خواب دیکھنے والوں کو ان کے ’منہج‘ سے بیدار کر
رہے ہیں، اور انہیں سمجھا رہے ہیں کہ "عمل" میں ہم صرف اُس بات کے مکلف
ہیں، اور اُسی پر ہمیں فوکس کرنا چاہیے جو آج "ہمارے بس میں ہے"۔ باقی
باتیں (یعنی
جو ’ہمارے بس میں نہیں‘) البتہ
پڑھنے پڑھانے میں رہنی چاہییں۔ ہاں پڑھنے پڑھانے سے بھی نکل گئیں تو سمجھو معاملہ ختم، لَا قَدَّرَ اللہ۔ "تعلیمِ اسلام" ہمارا
سب سے بڑا پراجیکٹ رہنا چاہیے۔ یعنی وہ لوگ جو اسلام کےلیے مخلص ہیں، اور جو کہ آج
بھی کم نہیں، انہیں ٹھیٹ خالص اسلام پر پختہ کرنا۔
یہاں ہم تھوڑی سختی کرتے ہیں: اپنے پڑھنے پڑھانے – یعنی اپنے نوجوان کی نظریاتی
قلعہ بندی میں – جاہلیت کا داخلہ "مکمل" بند رکھنا اور جاہلیت کو وہاں
’ایڈجسٹ‘ کرنے سے جزوی نہیں مکمل پرہیز رکھنا۔
چنانچہ
"یوٹوپیا" – میرے علم کی حد تک – محض کسی غیر مقبول non-popular
چیزپر اعتقاد رکھنا نہیں بلکہ انسانی سرشت کے لحاظ سے کسی بالکل انہونی چیز پر
اعتقاد رکھنا ہے۔ ورنہ ہر نظریہ جو "موجود" کو رد کرتے ہوئے میدان میں
آتا ہے وہ اپنے سامنے آنے کے وقت غیرمقبول ہی ہوتا ہے۔ یہ نہ ہوتا تو کبھی کسی
"موجود" کو رد نہ کیا جاتا۔ مگر دنیا اور اس کی تاریخ ایک شے کو ہٹا کر
دوسری کو لانے، یعنی "موجود" کو "مطلوب" سے بدلنے کے واقعات
سے بھری پڑی ہے۔ "تبدیلی" یعنی جہان کا ایک ہی ڈھب پر نہ رہنا، اس جہان
کا سب سے سچا واقعہ ہے۔ لوگ آج جس "یو-این" ورلڈ کو اس دنیا کی
"حتمی صورت" اور "اینڈ آف دا ہسٹری" دیکھتے ہیں، ہماری نظر
میں وہ تاریخ کے مراحل میں سے ایک مرحلہ ہی ہے؛ اور تاریخ اپنے تاریخی راستے پر آج
بھی رواں دواں۔ بعید مت جانیے، عشروں میں دنیا کہیں سے کہیں جا پہنچے۔ [اسْتَعِينُوا
بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُها مَنْ يَشاءُ مِنْ
عِبادِهِ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ]۔ زمین پر ’دوسروں‘ کا قبضہ ہوا دیکھ کر نظریات نہیں چھوڑے جاتے، فقط اس واقعہ کے ساتھ
دانشمندانہ "تعامل" کیا جاتا اور باقی خدا پر چھوڑا جاتا ہے۔ یہاں اکیلے
یوسف علیہ السلام اللہ پر بھروسہ کر کے چند سال میں تہذیب کے ایک قدیمی مرکز – مصر
– کو بت خانے سے توحید کا گہوارہ بنا دیتے اور ایک طرح سے "مڈل ایسٹ"
میں ہونے والی آئندہ دو ہزار سال کی تبدیلیوں کا سنگ بنیاد رکھ جاتے ہیں۔ [إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ
فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ]۔
خداپرستوں کے تو روشنی کرنے کا اصل وقت ہی وہ ہے جب دنیا گھپ اندھیرا ہو۔
پس
ایک غیرمقبول کو "ماننا" کسی یوٹوپیا کی دلیل نہیں۔ ہاں زمینی حقائق کو
نظرانداز کرتے ہوئے اس کے "خواب دیکھنے" لگ جانا، خصوصاً اس خواب کے
تعاقب میں زندگی کی دوڑ سے نکل آنا اور کسی تخیلاتی جہان کا ہو رہنا – جیسا کہ
ہماری "خلافت" یا "انقلاب" کی داعی بعض تحریکیں – ضرور
یوٹوپیا والی بات سے کچھ تعلق رکھتا ہے۔
ویسے
اگر یوٹوپیا آپ اسی کو کہتے ہیں جو ہم اجتماع کی اسلامی بنیاد کے حوالے سے اپنے تعلیم
اور تعلم کے اندر رکھتے ہیں… تو اس "اسلامی" خواب کے متعلق آپ کیا کہتے
ہیں جو ہماری اسلامی جمہوری جماعتیں پچھلے ستر سال سے دیکھ اور دِکھا رہی ہیں اور
جو ہر گزرتے دن کے ساتھ دور سے دور ہی
ہو رہا ہے؟ نوبت بانیجا رسید کہ ایسی بہت سی جماعتوں کے اندرونی حلقوں میں "راستہ"
تبدیل کرنے کی بحثیں زور پکڑنے لگیں (کچھ ان میں اب کوئی نیا چیپٹر کھولنے کی بات
کر رہے ہیں اور کچھ اب بھی طرز کہن پر اڑے، مسئلہ کو "سود و زیاں سے بالا"
دیکھنے پر مصر)۔ بلکہ نوبت یہ کہ کئی ملکوں میں یہ جماعتیں بالفعل راستہ بدل چکیں،
یہاں تک کہ ان کے نئے راستے میں اسلام کا "نام" لینا تک متروک ٹھہرا لیا
گیا ہے؛ جو کریں گے یا جتنا ہو جائے اب "اسلام" کا نام لیے بغیر کریں گے
(اس کی کئی میں سے ایک مثال: تیونس کی "النهضة")۔
ویسے
میرے خیال میں وہ (اسلامی انقلاب) کسی قدر یوٹوپیا ہے بھی، کیونکہ لوگ اس کے
"خواب" میں محو رکھے گئے، جبکہ وہ عملی بالکل نہ تھا۔
اور اب یہ نوبت کہ جن ملکوں میں اسلامی جمہوری جماعتیں تاحال اپنے راستے پر "برقرار"
بھی ہیں، وہ اپنے اس پیکیج میں موجود "اسلامی" کو مدھم سے مدھم کرتی جا
رہی ہیں۔ گویا عملاً اب سب کا رخ اس پیکیج کو ہلکا کرنے کی طرف ہے۔ یعنی اسلام کو
’تھوڑا سا‘ مولڈ mold بھی کیا تا کہ وہ ایک جاہلی صورتحال میں "فٹ" ہو جائے،
مگر بات پھر نہیں بنی اور آخر تدبیر یہ ٹھہری کہ اسلام کا نام ہی فی الحال نہ لیا
جائے؛ کیونکہ اسلام کا "نام" بھی اس کوچے میں آپ کا کام خراب ہی کرتا ہے!
پس
وہ (ستر سال پرانی شے پر) "اَڑنے" کی بات بھی بحثوں کی حد تک ہے، عملاً
تو "اسلام" کا نام کب کا متروک ہو چکا، اب تو ’بجلی پانی مہنگائی‘ وغیرہ
ہی اپنی پنچ لائن ہے اور اسی سے کچھ راستہ بن جانے کی آس!، جہاں بھی کچھ تھوڑی بہت
پیش رفت ہوتی یا اس کا امکان دکھائی دیتا ہے وہاں یہی پنچ لائن رکھی جاتی ہے۔ اور
اسلام والی بات تو اب تقریباً ’زیبِ داستاں کےلیے‘ رہ گئی، نہ کہ فی الواقع جاہلیت
کے ساتھ اپنے کسی لڑائی جھگڑے کا عنوان۔
جبکہ
ہم کہتے ہیں، معاملے کو آسان رکھو۔ جس چیز کے ساتھ "تعامل" کرو اور اس
میں کوئی اچھا کردار ادا کر آنا ممکن جانو، بس کر آؤ، اس پر "اسلام" کی
تختی لگا آنا ضروری نہیں، بلکہ اکثر اوقات صحیح بھی نہیں۔
رہ
گئی خالص اسلام کی بات تو وہ فی الوقت ایک دعوت اور تعلیم کا مضمون ہے۔ کوئی تین
چار سو سال کے تعطل نے فی الواقع ہمیں اس پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہ بھی اگر آج
ہم ادراک کر لیں۔ اس خالص اسلام کی بنیاد پر یہاں خواص کی ایک معتد بہٖ تعداد کا
ذہن بدلے بغیر چارہ نہیں، جس کی کوئی صورت دعوت اور تعلیم کے سوا ممکن نہیں۔ گو اس
دوران ہم زندگی کا تعطل روکنے کی کوشش نہیں کریں گے، کیونکہ یہ ناممکن ہی نہیں
اپنے حق میں ایک گھاٹے کا سودا ہے۔ زندگی کی دوڑ سے باہر ہونا یہاں سب کچھ ہار
دینے والی بات ہے۔ لہٰذا (اجتماعی) زندگی فی الوقت جس رخ پر جا رہی ہے، آج اس پر
ہم اپنی اسلامی شرطیں عائد نہیں کر سکتے۔ جبکہ اس اسلام کو ہم جاہلیت
کی چیزوں کے ساتھ خلط ملط بھی نہیں کر سکتے؛ کیونکہ یہ ہمارے پاس خدا کی امانت ہے،
اور اس سے بڑی کوئی امانت روئے زمین کی کسی قوم کے پاس نہیں ہے۔ لہٰذا اس اسلام کو
بچانا، خالص اور صحیح رکھنا (تفاسیر سلف کی رو سے أَنْ أَقِيمُوا
الدِّينَ وَلا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ کا واضح تر اور قوی تر معنىٰ)، اور اسے وقت کی
آندھیوں کی نذر نہ ہونے دینا…بہرحال ہماری سب سے بڑی ترجیح رہے گی۔ کوئی
اسے یوٹوپیا کہے یا کچھ، ہم یہ
دیکھ کر کہ اسلام کی ایک بات ہمارے کسی دور میں مشکل یا ناقابل عمل ہوئی جاتی ہے،
اسلام کو اس کی "مطابقت" میں لانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ ایسا کرنا اپنے
حق میں ظلم جانیں گے۔ ہاں جہاں ایک چیز "آپ" کے بس سے باہر ہے، وہاں
"آپ" کو اسلام بہت بہت چھوٹ دے سکتا ہے۔ آپ اسلام سے "چھوٹ"
لے لیجیے اور وہ اسلام میں بہت ہے، اسلام کو اپنی ضرورت اور زمانے کے مطابق
"ڈھالنے" سے البتہ دور رہیے۔ یوں؛ آپ کا کام بھی نہیں رکا اور اسلام بھی
جیسا تھا ویسا رہا۔ تو یہ ہے وہ
"توازن": راستہ بھی بند نہیں ہوا، زندگی بھی معطل نہیں ہوئی، آپ کو
زمانے کی دوڑ سے باہر بھی نہیں ہونا پڑا، جبکہ اسلام بھی اپنی جگہ، تحریف سے
سلامت، صحیح اور خالص۔
*****
آپ
کا دوسرا جملہ:
لہذا اِس موجودہ ترتیب سے "اُس ہدف کا سفر " کسی ایک خطے کی "ریجنل
جماعت المسلمین" کے ساتھ ہی ممکن ہے ۔۔ جو کہ " انکلیوسو" ہو،
تصوراتی طور پر عالمگیر ہو مگر کوشش صرف اپنی "قومی جغرافیائی حدود " تک
محدود رہے
آپ
کی یہ بات درست ہے، "ریجنل" کے علاوہ یہاں کوئی نقطہٴ آغاز ممکن ہی نہیں
ہے۔ البتہ چند وضاحتیں شاید یہاں درکار ہیں:
1. وہ حضرات جو دور حاضر کے لحاظ سے کسی
"تخیلاتی" خلافت کے داعی ہیں، آغاز کے طور پر وہ بھی کسی
"ریجنل" کے انکاری نہیں۔ البتہ ان کا خیال ہے کہ اگر عالم اسلام کے کسی
خطے میں ان کی مرضی کی حکومت قائم ہو جاتی ہے، تو وہ اپنے آپ کو وہاں
"خلافت" ڈیکلیئر کرتے ہوئے عالم اسلام کے بقیہ حصوں کے "دعویدار"
کی حیثیت میں اپنا کیس رکھیں گے۔ یعنی ایک طرح سے عالم اسلام کے ان تمام خطوں کے
ساتھ جو آپ کی ’بیعت‘ میں نہیں ایک اعلانِ جنگ! اس فکر کی خطرناکی سے متنبہ رہنا ہو
گا۔ مجھے یاد ہے نوّے کی دہائی میں ہمارے ہمسایہ ملک میں قائم ایک اسلامی حکومت سے
"خلافتی" یا "انقلابی" فکر کی داعی بعض جماعتوں کی طرف سے یہی
تقاضا کیا گیا تھا کہ وہ اسے "خلافت" ڈیکلیئر کر دیں تو یہ بھی ان کی
بیعت کےلیے تیار ہوں گے۔ مگر انہوں نے – میری دانست میں – سمجھداری سے کام لیتے
ہوئے نہ اُس وقت کوئی ایسی غیرذمہ دارانہ حرکت کی، اور نہ اب اس کےلیے تیار ہیں۔
اس کی وجہ وہی اس "ڈیکلیئر" کرنے کے عواقب consequences۔ ایسا نہ کرنے کو یہ حضرات کسی کسی
وقت نیشنلزم پر بھی محمول کریں گے! حالانکہ اس کا کچھ تعلق نیشنلزم سے نہیں؛ بلکہ
عقلمندی سے ہے۔کیونکہ وہ کرنا، جس کےلیے یہ حضرات بےصبرے ہوئے جاتے ہیں، اندریں
حالات کسی خودکشی سے کم نہیں۔
2. رہ گیا آپ کا اختیار کردہ لفظ "ریجنل جماعۃالمسلمین"، تو یہ بےشک حق
ہے، اور فی زمانہ جب بھی معاملہ شروع ہو گا اسی سے ہو گا۔ "جماعت" جو
دین کا ایک فرض ہے، جب گلوب کی سطح پر ممکن نہ ہو، تو جس سطح پر ممکن ہو، اس سطح
پر واجب ہو گی۔ تاہم اصل چیز اس کی ترکیب ہے۔ "جماعۃالمسلمین" کا معنى
ہی یہ کہ اس کا دائرہ فی الحقیقت اسلام کا دائرہ ہے؛ جو نہ اس سے چھوٹا کیا جا
سکتا ہے اور نہ اس سے بڑا۔ لہٰذا ’انکلوسو" inclusive ہونے کا مطلب اگر اس ترکیب میں "سب"
کی شمولیت ہے تو "جماعۃالمسلمین" کا لفظ اس پر لغو (بےمعنىٰ) ہو گا۔
"ریجنل" طور پر بھی اس کا نام "جماعۃالمسلمین" نہیں ہو سکتا۔
لہٰذا ہم اس کے تو بالکل حق میں ہیں کہ بڑی دیر تک یہ ایک "ریجنل" واقعہ
ہی ہو۔ کسی مخصوص عالمی سیناریو کے باعث یہ عرصہ کتنا ہی دراز ہو جائے، اس پر بھی
ہمیں مسئلہ نہیں۔ مگر یہ کہ اس کی ترکیب بدلی جائے اور پھر بھی اس کا نام "جماعۃالمسلمین" یا "اسلام کی
ریاست" ہی ہو، اس سے ہم اتفاق نہیں کر سکتے۔ کیونکہ یہ ایک ایسی چیز کو اسلام
کی سند دینا ہو گا جو اسلام نہیں۔
ہاں یہ چھوٹ لینا آپ کا حق ہے کہ حالیہ عالمی حقیقتوں کو سامنے رکھتے ہوئے
جہاں آپ کسی ایک "ریجن" میں بھی اجتماع کی اسلامی ترکیب عمل میں نہیں
لاسکتے، اور اس وجہ سے ایک "انکلوسو" inclusive
ریاست کے بغیر کوئی چارہٴ کار ہی نہیں – اور جو کہ اِس وقت کوئی مبالغہ
نہیں بلکہ واقعہ ہے – "عدم قدرت" کی دلیل سے وہاں آپ کو اس کی اجازت ہو۔
یہ حق ہے۔ البتہ یہ آپ نہیں کہیں گے کہ اجتماع کی اسلامی ترکیب کے سب لوازم بھی اس
کے اندر پورے ہیں۔ اسلام کا وہ فرض – بشرط استطاعت – برقرار رہے گا کہ انسانوں کی
ولاء (زمین پر انسانوں کی جتھہ بندی، ایکا، اور ایک دوسرے کا بن کر رہنا) خالصتًا
اللہ اور اس کے نبی کو ماننے کی بنیاد پر ہو نہ کہ اس کی بنیاد کوئی ’دھرتی وغیرہ
کا اشتراک‘ ہو۔ یہ فرض (ایمان کی بنیاد پر انسانوں کی جتھہ بندی، بالفاظِ دیگر
"الجماعۃ") جس وقت روئےزمین کی سطح پر ممکن نہ ہو، تو زمین کے جس حصے
میں ممکن ہو، فرض ہی ہو گا۔ اور اس سے چھوٹ ہو گی تو صرف ["عدم قدرت" کی
دلیل سے، "عدم قدرت" کے بقدر]۔ کچھ وضاحت اس نقطے کی ایک دوسرے قاری کا
سوال لینے کے دوران بھی کی جائے گی۔
3. کچھ شک نہیں ایک "انکلوسو" inclusive
ریاست (یعنی ماڈرن سٹیٹ) کے فارمیٹ میں رہتے ہوئے بھی – جو کہ اس وقت آپ کی
مجبوری ہے – اسلام کے جن جن فرائض پر عمل پیرا ہونے کی آپ قدرت رکھتے ہوں، اُن اُن
فرائض کو بہرحال قائم کریں گے۔ کسی ایک واجب کا ترک، اگرچہ وہ مجبوری کے تحت ہو، بقیہ
واجبات کے ترک کی دلیل نہیں ہو گی، سوائے ایک آئیڈیلسٹ ذہن کے ہاں۔ کہیں پر آپ سود
کا خاتمہ کر سکتے ہیں تو اس کو ختم نہ کرنا آپ کے حق میں گناہ ہی ہو گا۔ کہیں پر
بدکاری اور فواحش کا کلی یا جزوی خاتمہ کر سکتے ہیں، تو انہیں ختم کرنے میں آپ دیر
نہیں لگائیں گے۔ شرک، خرافات، ظلم، ناانصافی، مسلم اموال اور وسائل کے اندر ہونے
والی لوٹ کھسوٹ، استحصال، مافیا گردی وغیرہ ایسے مہلکات آپ ہر قسم کی
"ریاست" کے اندر ختم کروائیں گے۔ مسلمانوں سے شر کو جتنا ختم کر سکتے ہیں،
کریں گے۔ اور پورے شر کو ختم نہ کر سکنے کو وہ تھوڑا شر ختم نہ کرنے کی
"دلیل" نہیں بنائیں گے جسے آپ ختم کر سکتے ہوں۔
*****
آپ
کا تیسرا جملہ:
عالمگیر نظام کے مقتدر طبقات کے لیے جس حد تک اور جتنی دیر تک ناقابل ذکر
رہے اتنا اچھا ہے ۔۔۔ اپنے علاقے اور لوگوں میں سرایت کر جائے ۔۔۔ تاانکہ اکھاڑ
پھینکا جانا آسان نہ رہے۔
مکمل
اتفاق، اور بہت اہم نکتہ۔
یہاں
تک کہ اس مقصد کےلیے اگر آپ کو کچھ ایسے واجبات ذرا مؤخر کرنا پڑیں جو ایک ’فوری
معنىٰ میں‘ چاہے آپ کی مقدرت میں ہوں، مگر عواقب consequences / repercussions کے لحاظ سے وہ آپ کے دائرہٴ قدرت سے باہر ہوں،
تو فقہی تکییف میں وہ "غیر مقدور" ہی باور ہوں گے۔ اپنے پچھلے مضمون میں
ہم اس پر کچھ بات کر چکے۔ مجھے یاد ہے، نوّے کی دہائی کے اواخر میں ہمارے ایک
پڑوسی ملک میں قائم ایک صالح حکومت کو ہمدرد لوگ شدت کے ساتھ تجویز دیتے رہے تھے
کہ وہ اپنے اسلامی اقدامات میں اتنا تیز نہ چلے جتنا وہ نظر آ رہی تھی، اگرچہ
آئیڈیلسٹ حضرات کی اس سے بھی تسلی نہ ہو رہی تھی اور وہ اسے اس سے بھی زیادہ کے
مشورے دے رہے تھے۔ یہی (تیز نہ چلنے کی) تجویز کئی درمند مصر کے محمد مرسی مرحوم
کو بھی دیتے رہے تھے۔ غرض ہمدردوں کے یہ نصائح اسی قدرت "بلحاظِ عواقب"
والی دلیل کے تحت دیے جا رہے تھے، جو کہ بلاشبہ ایک صحیح دلیل ہے۔
*****
ہماری
ایک اور پوسٹ پر آنے والا ایک
سوال جس کا ایک حصہ ہمارے اس موضوع سے متعلق ہے:
کیا ایسے ایک سے زیادہ اکٹھ موجود نہیں ہوسکتے؟
اور کیا ایسا اکٹھ ہمیشہ موجود ہوتا ہے؟
اور کیا اس دور میں اسکا تعین مشکل نہیں ہو گیا؟ اس دور کے لحاظ سے آپ اس
تعین میں رہنمائی کر سکتے ہیں؟
اور اس تعین کے بعد کیا کوئی عملی قدم بھی ضروری ہوتا ہے؟
(نوید
منظور)
آپ
کا پہلا جملہ، جو کہ دراصل ہمارے موضوع سے متعلق ہے:
کیا ایسے ایک سے زیادہ اکٹھ موجود نہیں ہوسکتے؟
شیخ
سفر الحوالی نے یہ مسئلہ بہت خوبصورت انداز میں بیان کیا، ہم اسے اپنے الفاظ میں کہتے
ہیں:
"الجماعۃ"
کی مثال اِس وقت کےلیے ایک بڑے بحری جہاز کی سمجھیے، جو کسی وجہ سے معطل ہو گیا۔ اب
یہاں؛ جو لوگ "افراد" کی حیثیت میں سمندر پار کرنا چاہیں گے، وہ تو
سمجھو تباہ ہی ہیں۔ ایسی حالت میں کچھ سمجھداروں کو یہ سوجھتی ہے کہ وہ کچھ کشتیوں
کا انتظام ہی کر لیں، اور ایسی ہر کشتی میں آپ کا جتنا جتنا شیرازہ سما سکتا ہو، اسے
اس تدبیر سے سنبھالیں۔ یہ ایک مثالی حالت بےشک
نہیں ہے، لیکن "دی ہوئی صورتحال" میں الجماعۃ کا یہی بچاؤ اور یہی وجود
ہے تا وقتیکہ یہ صورتحال کچھ غیر معمولی محنت اور اللہ کی توفیق سے بدل نہیں دی
جاتی۔ ایسی ہر "ناؤ" اپنے ہر ہر فرد کے حق میں "الجماعۃ" ہی
کا حکم رکھے گی اگرچہ "الجماعۃ" اپنی اصل حقیقت میں اس سے بہت بڑی ہو۔
اور بلاشبہ اُس "اصل حقیقت" کو واپس لانے کی بھی جتنی کوشش ہو سکتی ہے
کی جائے گی اور اسے "جس حد تک" واپس لایا جا سکتا ہے لایا جائے گا۔
بنابریں؛
کسی ایک بھی خطے میں اگر انسانوں کی "ولاء" (ایکا، یکجہتی، اجتماع) کی بنیاد
"اللہ پر ایمان" ہو، تو اس صورت میں وہ بھی ایک مخصوص معنى میں
"الجماعۃ" ہی باور ہو گی۔
آپ
کا دوسرا جملہ:
اور کیا ایسا اکٹھ ہمیشہ موجود ہوتا ہے؟
ایسا
اکٹھ بمعنى "الجماعۃ" ہمیشہ میسر ہونا ضروری نہیں۔ اس کی دلیل حضرت
حذیفہ بن الیمانؓ کی اس حدیث سے ملتی ہے، جس میں نبیﷺ نے انہیں ہدایت فرمائی: [تَلْزَمُ
جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ "جماعۃالمسلمین اور ان کے امام سے ہی جڑا رہنا"]۔
جس پر حضرت حذیفہؓ نے آنحضرتﷺ سے پوچھا: [فَإِنْ
لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ "تو
اگر ان کی کوئی جماعت اور کوئی امام نہ ہو"؟] تو آپﷺ نے فرمایا: [فَاعْتَزِلْ
تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ
"تو ان سب فرقوں (ٹکڑیوں) سے کنارہ کیے رکھنا، اگرچہ تجھے کسی درخت کی جڑیں
کیوں نہ چبانی پڑیں" – (متفق علیہ)]۔
ہاں
ایسا اکٹھ بمعنى "طائفہ" ہمیشہ موجود رہے گا، اور اس پر بہت سی حدیثیں
ہیں؛ جنہیں "طائفہ منصورہ" والی احادیث کہتے ہیں۔ "طائفہ" کا
مطلب: آپ کے معاشرے ہی کے اندر پایا جانے والا ایک طبقہ جو حق کےلیے لڑنے مرنے پر
تیار ہے اور جو امت پر آنے والی کسی بدترین سے بدترین حالت میں بھی ہتھیار پھینکنے
اور نبی آخرالزمانﷺ پر اللہ کے اتارے ہوئے حق سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں۔
آپ
کا تیسرا جملہ:
اور کیا اس دور میں اسکا تعین مشکل نہیں ہو گیا؟ اس دور کے لحاظ سے آپ اس
تعین میں رہنمائی کر سکتے ہیں؟
"طائفہ منصورہ" کا تعین کسی دور میں مشکل نہیں۔
تو
پھر آپ پوچھیں گے کہ میں جھٹ سے اس "گروپ" کا نام کیوں نہیں لے لیتا! یہ
الجھن دراصل "برانڈ" اور "وصف" میں فرق نہ کرنے کے باعث پیدا
ہوئی۔ کچھ اس وجہ سے؛ "طائفہ منصورہ" کا تعین آج کہیں مشکل ہو گیا ہے تو
کہیں یہ لڑائی کا مسئلہ بن گیا ہوا ہے!
طائفہ
کوئی ’امیر، نائب امیر‘ یا ’صدر، سیکرٹری ‘ کے تحت چلنے والی جماعت کےلیے بولا گیا
لفظ نہیں ہے۔ بلکہ کچھ مخصوص اوصاف کے حامل طبقہ کو "طائفہ" کہا جاتا
ہے۔ حدیث میں جو اس کی متعدد تعریفات ہوئیں ان کا خلاصہ یہ کہ: یہ حق پر اور حق کے
لیے کھڑے رہنے والے لوگ ہوں گے۔ "حق" کا حوالہ ہیومن اسٹک Humanistic نہیں، بلکہ وہ شے جسے محمدﷺ لے کر آئے۔ اس "حق
پر، اور حق کےلیےکھڑے رہنے" کی جو جو صورتیں ہیں، وہ اس طائفہ کا وصف ہے۔ آج
بھی کوئی عقیدہ کے اندر اس دینِ حق کا دفاع کر رہا ہے اور اس میں ہونے والی [{تحریف الغالین "غالیوں کی تحریف" {وانتحال
المبطلین "باطل پرستوں کی
بناوٹ (خانہ سازیاں، فکری وارداتیں)} {وتأویل
الجاھلین "جاہلوں کا دین کو نرالے معانی
پہنانا"}] سے اس کا چہرہ صاف کر رہا ہو گا۔ کوئی حدیث پر حملہ آور لشکروں کے آگے
سینہ سپر ہوں گے۔ کوئی تفسیر کی جنگ لڑ رہے ہوں گے۔ کوئی تہذیب سے متعلقہ مضامین
میں باطل کے قلعے ڈھا رہے اور حق کا اِحقاق کر رہے ہوں گے۔ کوئی بدعملی اور منکرات
کے خلاف معاشرے میں سرگرم عمل اور فرائض پر امت کو پختہ کرنے کے مشن میں اپنی
کارکردگی دکھا رہے ہوں گے۔ کوئی مسلمانوں کا شیرازہ مجتمع کرنے پر اپنا زور صرف کر
رہے اور اس میدان میں کافروں کے منصوبوں کو مقدور بھر خاک میں ملا رہے ہوں گے۔
کوئی صالح بنیادوں پر امت کی سیاست کر رہے ہوں گے۔ تو کوئی مسلم خطوں پر حملہ آور
کافروں کے خلاف جہاد بالسیف کا فریضہ نبھا رہے ہوں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ [حق پر اور حق
کےلیے کھڑے رہنے] کی یہ سب جہتیں ہیں۔ اور اپنی اپنی جہت سے اس فرض کو نبھانے والے
سب لوگ – مجموعی طور پر –طائفہٴ حق یا
طائفہٴ منصورہ کہلائیں گے۔ بتائیے اس کا تعین آج کیا مشکل ہے؟
آپ
کا چوتھا اور آخری جملہ:
اور اس تعین کے بعد کیا کوئی عملی قدم بھی ضروری ہوتا ہے؟
تعین
کے بعد عملی قدم ہی ضروری ہوتا ہے: اس کا سرگرم ترین حصہ ہونا۔ جس کی صورت : طائفہٴ
حق کو فی زمانہ جو جنگ درپیش ہے، اس کے جتنے محاذوں پر آپ جت سکتے ہیں جت جائیے،
اور اجتماعی و انتظامی حوالوں سے اس کی جو جو صورتیں اور مواقع
آپ کو میسر ہیں، اپنی طبیعت، مزاج، صلاحیت، ہمت اور استطاعت کو پیش نظر رکھتے ہوئے
انہیں اختیار کریں۔
اس
باب میں؛ ضروری نہیں ہمیشہ تنظیموں کا ’ون ونڈو‘ one window آپریشن ہی اختیار کریں۔ بلکہ یہ بھی کیا جا سکتا
ہےکہ عقیدہ کی پختگی جس حلقے کے ساتھ جڑنے سے زیادہ اعلی سطح پر میسر آ سکتی ہے، عقیدہ کےلیے اس سے ہی جڑیں۔ قلبی
اور روحانی اصلاح کےلیے بےشک کوئی اور حلقہ دیکھ لیں۔ تہذیبی اور فکری الجھنوں کے
ازالہ اور اس میدان میں باطل سے نبردآزما ہونے کےلیے کوئی اور حلقہ۔ سیاست میں
کوئی کردار رکھنے کےلیے کوئی اور دائرہٴ کار۔ منکرات کے خاتمہ اور معروف کو عام
کرنے کے فریضہ سے عہدہ برآ ہونے کےلیے کوئی اور حلقہ۔ علىٰ ھٰذاالقیاس، حق کا جو
واجب جہاں آپ کو سب سے اعلىٰ اور سب سے مؤثر سطح پر ادا کرنا میسر ہو، اسی کا رخ
کریں۔ اور اگر حق کے یہ سب فرائض کسی ایک ہی حلقہ کے اندر رہ کر ادا کرنا آپ کسی
وجہ سے ضروری یا اپنے حق میں مناسب تر خیال کریں، تو ایسا کر لیں بغیر "طائفہٴ
حق" کو اُس ایک میں محصور کیے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نصرتِ حق کے کسی ایک
ہی میدان کو اپنے وقت اور صلاحیتوں کا کلی مصرف بنا لیں جو کہ excellence کے درجے کو پہنچنے کےلیے کسی وقت ضروری ہوتا ہے؛ جبکہ کچھ لوگوں کا excellence کے درجے کو
پہنچا ہونا بھی دین کی ضرورت ہے؛ اور جو کہ آدمی کے کسی آدھ شعبہ کے اندر جت کر ہی
ہاتھ آنے کی چیز ہے۔
اوپر جو بات ہوئی، یعنی اپنی طبیعت، مزاج، صلاحیت، ہمت
اور استطاعت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے اجتماعی فرائض کا کوئی نقشہ تجویز کرنا…
بسا اوقات یہ کام انسان خود تشخیصی self-assessment سے کر لیتا ہے اور اکثر اوقات یہ
کسی استاد، یا مربی یا مرشد یا سینئر سے مدد لے کر ہی۔