عالم اسلام کی کچھ سیاسی
شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال
تحریر: حامد کمال الدین
ایک
پوسٹر
جس میں چار شخصیات کی تصویریں ہیں: رجب اردگان، محمد مرسی، اسماعیل ہنیئہ اور
عمران خان… اور جو ہمارے یہاں از راہِ تفنن شیئر ہوا تھا کہ سوشل میڈیا پر بعض عرب
حلقے اس چوتھی شخصیت کو کس بےساختگی سے پہلی تین کے ساتھ شامل کرنے لگے ہیں۔
اس پر ایک بہن کا سوال آیا، جسے تاخیر سے جواب
دینے پر ہم معذرت خواہ ہیں:
برائے مہربانی
آپ رہنمائی کر دیں کیا یہ چاروں واقعی اسلام کے نمائندے ہیں۔ یا صرف اسلام کا نام
استعمال کر کے اقتدار میں آئے۔ کیا ایک مسلمان جو صرف نظام خلافت کو ہی صحیح
سمجھتا ہے۔کیا وہ ان میں سے کسی کو حق پر سمجھ سکتا ہے یا نہیں؟
مہرماہ سیف
ج:
تین
ان میں اسلامی تحریک کے فرزند ہیں اور صورتِ موجودہ میں اصلاح کی اپنی سی کوشش
کرنے والے۔ جس میں کوئی کسی قدر کامیاب ہوا تو کوئی کسی قدر۔ دنیا بھر میں اسلامی
تحریک کے ہر ہر شخص کے ساتھ جتنی سی ہماری وابستگی ضروری ہے، وہ ان تینوں کے ساتھ
بھی ہمیں یقیناً ہے۔ بغیر اس کے کہ ہم ان کی کسی بھی خلافِ کتاب و سنت بات کو درست
کہیں، یا اس کےلیے جواب دِہ ہوں۔ ایک عمومی وابستگی سے – جو کہ کسی بھی باعمل مسلمان کے ساتھ رکھنا ہم پر از
روئے دین واجب ہے – یہ لازم آتا ہی نہیں کہ ہم اس کے قول و عمل کے ہر ہر جزء میں اس
کے ساتھ متفق ہوں گے، یا اس کی کسی قابل مؤاخذہ بات کےلیے جواب دہ ہوں گے۔ یقیناً
بہت کچھ اس کے قول و عمل میں ایسا ہو سکتا ہے جو ہمارے نزدیک غلط اور قابل اصلاح
ہو، جس طرح خود ہمارے قول اور عمل میں بہت کچھ ایسا ہو سکتا ہے جو کسی اور مسلمان
کے نزدیک غلط اور قابل اصلاح ہو۔ البتہ ایک عمومی تائید و حمایت ایک دوسرے کےلیے
رکھنے میں یہ بات مانع نہیں۔ اتنا سا "ولاء" دین کےلیے سرگرم مسلمانوں
کے مابین – بےشمار باتوں میں ان کے اختلاف کے باوجود – ان پر ایک دوسرے کےلیے واجب
ہے؛ خصوصاً جہاں مقابلے پر دشمنانِ دین ہوں اور جہاں اسلام کا مفاد داؤ پر لگا پڑا
ہو، جیسا کہ اِس وقت ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ دشمنانِ دین کے مقابلے پر ایک
مسلمان کی نصرت و حمایت کرتے یا اس کےلیے کلمہٴ خیر بولتے وقت ہم اس کے ساتھ اپنے
اختلافات کی ایک فہرست بھی ساتھ نتھی کیا کریں؛ اور اگر یہ اختلافات کی لسٹ اس کے
ساتھ نتھی ہونے سے رہ گئی، تو یہ کلمہٴ خیر بول کر ہم نے کوئی گناہ کر لیا!
اختلافات کے ذکر کا اپنا کوئی موقع مقام ہو سکتا ہے۔ نصرت و حمایت اور کلمہٴ خیر
کا اپنا کوئی موقع و مناسبت ہو سکتی ہے۔ نہ یہ اُس کے منافی ہو گا اور نہ وہ اِس
کے۔ لہٰذا وہ "جیالے" بھی خاطر جمع رکھیں جو ان شخصیات میں سے کسی پر
ہمارے نقد سے کسی وقت بھڑک اٹھیں گے… اور ہمارا ان کی کسی بات کو غلط کہہ دینا ان
کی دشمنی یا ان کی خدمات کی ناقدری پر محمول ہو گا!
رہ
گیا آپ کا یہ سوال کہ کیا وہ حق پر ہیں؟
تو
یہ بہت اچھا سوال ہے۔ تاہم اس کا سرسری جواب دینا آپ کی پیچیدگی بڑھا سکتا ہے۔ سو
اس "حق پر ہونے یا نہ ہونے" کو میں تین پہلو سے بیان کر پاؤں گا۔
1۔
خارج میں جس اجتماعی صورتحال سے اس وقت آپ کو واسطہ ہے، اور جسے ہمارے کچھ طبقے
"نظام" سے تعبیر کرتے ہیں، اور جس کے "اندر" جا کر یہ تینوں
شخصیات معاملے کو کچھ نہ کچھ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں پلٹنے کی کوششیں کرتی
رہی ہیں… تو یہ "نظام" جس میں "جا کر" یہ شخصیات کچھ نہ کچھ
کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، ظاہر ہے کہ "حق" نہیں ہے۔ وہ اپنی کلیت میں
بلاشبہ باطل ہے؛ اس لیے کہ وہ اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت پر ایستادہ نہیں ہے۔
یہاں میں اس سے بڑھ کر واضح اور دوٹوک ہونا چاہوں گا: یہ زیرِ سوال شخصیات بھی، جن
سے مجھے خدا واسطے کی محبت ہے، اگر اسے "حق" کہیں گی تو اپنی اس بات کی
حد تک یہ "حق" پر نہیں ہوں گی۔
2۔
رہ گیا یہ سوال کہ ان شخصیات کا اس "نظام" میں "جانا" حق ہے
یا نہیں؟ تو اصولاً اس کا جواب ہاں میں ہو سکتا ہے۔ بہت سارے اہل علم اس پر یوسف
علیہ السلام کے عمل سے، نیز نجاشی کے عمل سے، استدلال کرتے ہیں۔ تھوڑا بہت ہم نے
بھی اس پر لکھ رکھا ہے۔ البتہ یہ اہل علم اسے مصالح اور مفاسد کے شرعی موازنہ سے
مشروط کرتے ہیں۔ مسئلہ کی کچھ تفصیل آپ کو ہمارے ویب سائٹ پر دیے گئے ضمیمہ
"فقہ الموازنات" سے مل جائے گی۔
3۔
تیسرا پہلو اس میں پوچھنے سے متعلق یہ رہ جاتا ہے کہ خود ان شخصیات کا اعتقاد اس
"نظام" سے متعلق کیا ہے؟ کیا وہ اسے حق جان کر اس میں "شریک"
ہوتی ہیں؟ یا اسے حق کی کوئی سند دیے بغیر یوسف علیہ السلام والی دلیل وغیرہ کی
بنیاد پر اس کے ساتھ کوئی "تعامل" کرتی ہیں؟ تو مجھے ان شخصیات کو اس
قدر جاننے کا دعوىٰ نہیں کہ کوئی قطعی بات کہہ سکوں۔ جو تھوڑا بہت ان کے نظریات
وغیرہ کے متعلق جاننے کا اتفاق ہوا ہے، اس سے میرا قوی اندازہ یہ ہے کہ معاملہ خلط
ملط سا ہے۔ نہ صاف وہ بات ہے اور نہ وہ۔ خصوصاً اردگان صاحب تو کسی کسی وقت
"سیکولرزم" کے بھی مبلغ بن جاتے ہیں، گو وہ سیکولرزم کی تعریف اپنی
رکھتے ہیں، اور خود اس میں بھی شاید ایک خلط ہے۔ اور اگر سچ پوچھیں تو ان تحریکوں
کے اپنے فکری پیراڈائم میں بھی ایک "بیچ کی راہ" reconcile (إحساناً وتوفيقاً) کا رُوٹ
موجود ہے، کسی کے ہاں کم تو کسی کے ہاں زیادہ۔ ریکونسائل یعنی "جدید
ریاست" کو اسلام کا ٹانکہ لگانے کا تصور۔ ایک بالکل ٹھیٹ طرز فکر یہاں نہیں
ہے۔ سو یہاں معاملہ کسی قدر قابل تشویش ضرور ہے۔ تاہم اس ظلمت میں ایسی تحریکوں
اور کوششوں کا بھی پایا جانا، اور کہیں کہیں کچھ کامیابی ان کو مل جانا، ایک بہت
بڑی غنیمت ہے۔ جاہلیت روئےزمین پر اس درجہ غالب اور متحکم شاید کبھی نہیں ہوئی تھی جتنی آج ہے۔ اللہ اعلم
*****
رہ
گئی چوتھی شخصیت، تو وہ ان تین کی کیٹگری میں تو بہرحال نہیں آتی۔ اِن صاحب کے کیس
میں، کسی اسلامی تحریکی عمل سے منسک ہونے کی کوئی ہسٹری موجود نہیں۔ واضح کر دوں،
"تحریکی عمل" سے منسلک رہا ہونا کوئی شرعی مسئلہ نہیں۔ نہ یہ کوئی ایسی
مطلق فضیلت ہے کہ اس کے بغیر ہم آدمی کو کسی قابل نہ جانیں۔ معروف معنوں میں
"تحریکی" ہوئے بغیر بھی آدمی بہت کام کا ہوسکتا ہے۔ حتى کہ
"تحریکیوں" سے بڑھ کر ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، کوئی بھی شخص اپنی زندگی
کے کسی بھی حصے میں، اور کسی بھی پوزیشن پر، اسلام کی طرف آ سکتا اور اپنے "ما
فات" (گزشتہ) کے دھونے دھو سکتا ہے۔ لہٰذا میرے لیے یہ کوئی ایسا مطلق حوالہ
بہرحال نہیں ہے۔ یہاں آپ پوچھ سکتے ہیں کہ
اگر یہ کوئی ایسا مطلق حوالہ نہیں ہے تو
اُن تین اور اِس ایک میں فرق کا یہ پہلو پھر میں لایا ہی کیوں ہوں؟ بات اتنی ہے کہ
ایک تحریکی دھارے سے آدمی کی وابستگی ہونا
ہمارے لیے اس کے نظریات اور مقاصد کے متعلق رائے قائم کرنے کا کام آسان کر دیتا
ہے۔ یعنی اس کے اسلامی تحریکی پس منظر کی روشنی میں خود اس کے متعلق ہم خاصی حد تک
"قریب از واقع" رائے قائم کر سکتے ہیں اگرچہ خاص اس کے متعلق جاننے کے
کچھ بہت قریبی ذرائع ہمارے پاس نہ بھی ہوں۔ خصوصاً عالم اسلام کے حالیہ سیاسی عمل
میں شریک آدمی کے متعلق۔ کیونکہ بہت کچھ جو وہ سیاست کے کوچے میں "بظاہر"
کر رہا ہو گا، وہ اس کے نظریات کا حقیقی عکاس نہیں ہو گا، اور نہ ہماری رائے میں
اسے ہونا چاہیے۔ یہ پھونک پھونک کر قدم دھرنے اور چیونٹی کی چال چلنے کا میدان ہے،
اور اس میں آپ کے ظاہری اقدامات یا کارکردگی سے آپ کی بابت رائے قائم کرنے کے
بےشمار پرت ہیں۔ لہٰذا ایسی صورتحال میں ایک شخصیت کو یا تو آپ بہت قریب سے جانتے
ہوں تو اس کے "حقیقی" نظریات یا مقاصد کے متعلق آپ کوئی رائے قائم کریں
گے۔ یا اگر آپ کو اس کے تحریکی پس منظر کا کچھ علم ہو، جبکہ خود وہ تحریک بھی
تاحال اس کو اون own کرتی ہو، تو اس کے "حقیقی" نظریات
یا مقاصد کے متعلق آپ کوئی رائے قائم کریں گے۔ اُن تین کو کچھ اعلیٰ مقاصد و
نظریات کے حوالے سے "جاننا" میرے لیے آسان ہوا تو اسی دوسرے پیرامیٹر سے
مدد لے سکنے کے باعث۔ البتہ زیر سوال شخصیات میں سے چوتھی کے متعلق اسے قریب سے
جاننے کے سوا میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں رہ جاتا، جو کہ میرے پاس نہیں ہے۔ ایسے میں
"رائے" تو نہیں، "تاثر" کسی نہ کسی قدر ضرور بن سکتا ہے۔ جبکہ
"تاثر" ایسی چیز نہیں جس کی بنیاد پر آدمی اس کے خلاف یا اس کے حق میں
گرم سرد ہو۔ واضح رہے، بات یہاں کسی کے متعلق اسلامی مقاصد کے حوالے سے "رائے"
قائم کرنے کی ہو رہی ہے، جو کہ میرے نزدیک ایک سنجیدہ شہادت ہے۔
بنا
بریں…اُن تین شخصیات کے متعلق میں بلاشبہ ایک رائے رکھتا ہوں، جو کہ بیان کر چکا
ہوں۔ اِس چوتھی شخصیت کے متعلق صرف ایک تاثر رکھتا ہوں۔ دوبارہ عرض کر دوں، اسلامی
مقاصد کے حوالے سے۔ باقی کس نے کتنی سیاسی یا انتظامی غلطیاں کی ہیں یا درستیاں،
یا کس نے کتنی اہلیت دکھائی ہے یا نااہلی، تو فی الوقت یہ ہمارے بات کرنے کا
ریفرنس نہیں۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ "تاثر" ایک ہلکی پھلکی چیز ہے جبکہ
بیان اسے میں یہاں کے جس ماحول میں کروں گا وہ "ایک شخص" کے متعلق
"پرو" اور "اینٹی" میں شدید طور پر منقسم اور غیر معمولی
جذباتی ہے۔ ہر دو فریق اس کے متعلق "تاثر" تو کیا "رائے" تک
رکھنا یا جاننا نہیں چاہے گا؛ کیونکہ یہ اس کےلیے بہت چھوٹے لفظ ہیں! ہر دو فریق اس
کے متعلق "عقیدہ" رکھنے تک چلا گیا ہوا ہے اور آپ سے بھی اس کے متعلق آپ
کا "عقیدہ" ہی جاننے کا خواہشمند! یہاں بھلے آپ یہ کہیں کہ میرے پاس
"تاثر" سے بڑھ کر اس کے متعلق کچھ نہیں ہے، لیکن وہ اس کو
"عقیدہ" ہی کے طور پر لے گا کیونکہ اس سے کم اس کے متعلق کوئی شے پائی
ہی نہیں جا سکتی! سو اس لحاظ سے کوئی ہلکی پھلکی بات کہنا یہاں بےفائدہ ہے۔ اور اغلباً
ضرر رساں۔ جس کا کچھ اندازہ شاید آپ کو نیچے کامنٹس میں بھی ہو جائے! پھر بھی یہ
کہنے میں مجھے تامل نہیں کہ اس آدمی میں – اللہ اعلم – وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خیر
کا عنصر خاصا بڑھا ہے، جو کچھ ایسے عوامل میسر آ جانے کی صورت میں جو فکری
راہنمائی کے لحاظ سے اسے زیادہ اچھا رخ دے سکتے، کہیں زیادہ مفید ہوتا، یا شاید
ہوسکے۔ میرا خیال ہے قیام پاکستان کے وقت بھی اگر ہمیں اقبال اور سلمان ندوی اور اشرف
علی تھانوی ایسے صبر اور حوصلے کے ساتھ چیزوں کو دیکھنے والے اور out of the box سوچ سکنے والے
دماغ نہ ملے ہوتے، تو ہم فتووں وغیرہ کے ’کام‘ سے بہت جلدی عہدہ برآ ہو چکے ہوتے؛
کیونکہ یہ فی الواقع بہت آسان اور کم لاگت ہے!
*****
رہ
گیا آپ کا سوال کرنا "ایک مسلمان جو صرف نظامِ خلافت ہی کو صحیح سمجھتا
ہے"… تو گفتگو طویل ہو جانے کے خوف سے
اس پر ہم علیحدہ تحریر میں بات کرتے ہیں، بعنوان "خلافت حق ہے، مگر خلافت کی
داعی تحریکیں…"۔
__
پس نوشت: مضمون کے دوسرے حصے کا نام [خلافت حق ہے، مگر
خلافت کی داعی تحریکیں] کی بجائے [خلافت مابین جمہوری و انقلابی…اور مدرسہ اھل
الاثر] کر دیا گیا ہے