خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر
تحریر: حامد کمال الدین
گزشتہ سے پیوستہ:
رہ
گیا آپ کا سوال کرنا “ایک
مسلمان جو صرف نظامِ خلافت ہی کو صحیح سمجھتا ہے”… … تو خود میں اس فریق سے ہوں جو خلافت کے سوا
کسی شے کو حق نہیں جانتا۔
تا ہم بلحاظِ واقعہ کچھ باتیں “خلافت”
پر یقین رکھنے والوں کے یہاں واضح رہنی چاہئیں:
جس چیز کو آپ
خلافت کہہ رہی ہیں، احادیث میں زیادہ تر وہ امامت کے نام سے موسوم ہے۔ اس لفظ کی
اپنی ایک دلالت ہے۔ “امامت”
یہ اصل میں “جماعۃالمسلمین”
کی “ہے (اختصار: “الجماعۃ”)۔
سو جیسی کسی دور میں آپ کی “جماعت”
ویسی “امامت”۔
“جماعت”
کی حالت کو یکسر نظرانداز کر کے “امامت”
کے قضیے نمٹانے چلنا، یا اس کی کوئی فی الفور صورت دیکھنا، بہت صائب طرز فکر نہیں۔
پس جہاں تک عمل اور واقع کی بات ہے، “خلافت”
یہاں ایک لمبے عمل کے نتیجے میں توقع رکھنے کی چیز تو ان شاء اللہ ضرور ہو سکتی ہے
– وہ بھی اس صورت میں اگر ہم سوسائٹی کی باگیں ہاتھ میں کرنے کی کوئی دانشمندانہ
صورتیں اختیار کر لیں، جو کہ فی الحال نہیں کر رہے، بلکہ خوابوں سے نکلنے پر آمادہ
نہیں – البتہ فوری یہ کسی عملی آپشن کے طور پر موجود نہیں ہے۔ جو شخص آپ کو کوئی
ایسا تاثر دے، وہ خیالات کی دنیا کا باشندہ ہے۔ لہٰذا ایک فوری عملی آپشن کے
طور پر اس کا ذکر لانا یا اسی کی گردان رکھنا ہمیں اس چیز سے بھی پیچھے کر دے گا
جو فی الوقت ہم کر سکتے ہیں، اور جس کے ذریعے ہم سوسائٹی پر حاوی ہونے کے کچھ اچھے
مواقع پا سکتے ہیں۔ ہاں اگر یہ راستہ ہم
چل لیں، یعنی سوسائٹی پر حاوی ہونے کی کچھ جان دار صورتیں، تو اس راہ سے ہم “جماعۃالمسلمین”
کے احیاء کی بھی کچھ تدبیریں اللہ کے حکم سے کر سکتے ہیں۔
لہٰذا “خلافت”
کی گردان ایک حتمی ہدف کے طور پر تو بےشک کر لیجیے – اور وہ بھی ایک تعلیمی اور نظریاتی
ضرورت کے تحت ہی – لیکن کسی فوری عملی صورت کے طور پر نہیں۔ اور یہ قائم ہوتی کہیں
پر دیکھنا یا دِکھانا تو اندریں حالات ایک انتہائی غیر حقیقت پسندانہ رویہ ہو گا۔
بنا
بریں…؛ اس خلافت کے “مطالبے”
کرتے جانا… یا اس کےلیے آتوں جاتوں کو “آوازیں”
دینا… فی الوقت کسی مسئلے کا حل نہیں۔ کیونکہ اس کےلیے زمین سیدھی کرنے کی جو
ضرورت ہے وہ کوئی جھٹ سے پوری ہو جانے والی نہیں۔ خصوصاً جبکہ “جماعۃالمسلمین”
کا تصور ہی ذہنوں کے اندر عنقا ہے۔ یہاں تک کہ داعیانِ اسلام کےلیے اجنبی ہے۔ سو “اسلام”
اور “اسلام
پر انسانوں کا اکٹھ”
(جس کا اصطلاحی نام جماعۃالمسلین ہے) تعلیم، تفہیم، آگہی اور دعوت کا ایک طویل
محنت طلب پراجیکٹ ہے، جبکہ جماعۃالمسلمین کی “امامت”
اسی کے سر ہونے پر منحصر۔
البتہ…
اس اَثنا میں –یعنی جب تک خلافت کہیں سے “آ”
نہیں جاتی – آپ زندگی کو مفلوج اور مسلمانوں کی ضروریات اور مصالح کو معطل بھی
نہیں رکھ سکتے۔ اسے معطل کرنے کی کوشش کریں گے تو آپ خود معطل اور کھڑا پانی stagnant ہو جائیں گے،
جیسا کہ خلافت یا انقلاب کی “حقیقی دعوت” دینے والی ہر جماعت کا چند سال کے اندر اندر یہ حال ہوتا آپ دیکھ چکے ہوں گے
اور بہت کا ابھی آپ دیکھیں گے؛ کیونکہ “آوازیں دینے” اور “مطالبے” کرنے کے سوا اس کے پاس کوئی ‘منہج’ نہیں ہوتا۔ اجتماعی زندگی کی
روانی کو آپ نے اپنے رخ پر لانا ہوتا ہے؛ نہ آپ اس سے الگ ہوکر بیٹھتے ہیں اور نہ “اپنے” انتظار میں ایک دن کےلیے بھی اس
سے تھم جانے کی توقع رکھتے ہیں۔ ڈیڑھ ارب
امت کی زندگی ایک اتنا بڑا مومنٹم ہے کہ یہ آپ کے روکنے سے نہیں رکے گا۔ یہ آپ کے
کہنے میں بھی نہیں۔ سو ابھی تو یہ چلے
گا۔ اور اس وقت تو یہ بلا شبہ بہت غلط جا رہا ہے۔ سوچنے کی حد تک، یہاں آپ کے پاس دو
آپشن ہیں: اس کو “بالکل صحیح چلانا”۔ یا کچھ ہمت تدبیر کر کے اس کو “جتنا صحیح چلایا جا سکتا ہے اتنا صحیح چلانا اور پھر صحیح سے صحیح تر کرتے
جانا”۔ جہاں تک پہلے آپشن کا تعلق ہے،
یعنی اس کو “بالکل صحیح چلانا” (بالفاظِ دیگر “خلافت”)…تو اسے ایک شرط کے طور پر رکھنا تو فی الوقت کسی ڈرائنگ روم کے اندر ممکن
ہے، یا زیادہ ہوا تو اپنے کسی چھوٹے موٹے اجتماع و سیمینار یا دروس یا کسی بروشر، لیف لیٹ یا ہینڈ بل کے
اندر۔ (“کھڑا پانی” میں اسی کو کہتا ہوں یعنی خلافت یا انقلاب والوں کی اپنی ایک چھوٹی سی دنیا
بن جانا جس کے اندر اندر یہ بہت “متحرک” رہتے ہیں؛ جبکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے اور دنیا کے فاصلے بڑھتے اور یہ معاشرہ
کےلیے اور سے اور غیرمتعلقہ irrelevant ہوتے چلے جاتے ہیں)۔
آمدم بر سر مطلب۔ ڈیڑھ ارب امت، یا
حتى کہ امت کے کسی ایک حصے کو، “بالکل صحیح چلانا” (یعنی “خلافت”) جب ایک “دی ہوئی صورتحال” given situation میں ممکن نہیں،
کم از کم ہمارے بس میں نہیں… تو اس مقام پر سمجھداروں کے یہاں ایک اور طریق کار پرورش پا
چکا ہوا ہے، اور میں چاہتا ہوں اس پر آپ غور کریں: اس کو فی الحال “جتنا صحیح چلایا جا سکتا ہے اتنا
صحیح چلانے کی کوشش کرنا”۔ جس میں ہوتے ہوتے کسی وقت یہ بھی ممکن ہے کہ وہ چیز ہو
جائے جسے آپ اور میں “خلافت” کہتے ہیں۔ نہ بھی ہو تو اس راہ کا ہر ہر قدم چونکہ اُسی صالح سمت میں ہے
لہٰذا باعث اجر ان شاء اللہ ضرور ہو گا۔
اوپر کی عبارت میں خط کشیدہ الفاظ اس
باب میں ایک پورا منہج ہیں۔ اس لیے ان کی میں تھوڑی وضاحت کر دوں:
1۔ “جتنا صحیح چلایا جا سکتا ہے” میں ایک ہے لفظ “صحیح”۔ ری کونسائل (ماڈرن سٹیٹ کو اسلام کا ٹانکہ لگانے کا منہج) والے حضرات کے
ساتھ ہمارا اصل تنازعہ یہاں پر ہے۔ ان کے ہاں “صحیح” کا حوالہ کچھ ‘اسلامی ترمیمات’ کے ساتھ ماڈرن سٹیٹ ہی ہے، لہٰذا
ان کا منتہائے نگاہ ماڈرن سٹیٹ کے حالیہ آئینوں سے ذرا ایک مختلف قسم کا آئین ہے
جس کا لب لباب اکثریتی فیصلہ کو شرعِ اسلام کا پابند کرنا ہے۔ یہ ان کی حد ہے اور
اس سے بڑھ کر یہ اسلام کا کچھ تقاضا نہیں دیکھتے۔ جبکہ ہمارے لیے مسئلہ ‘آئین’ سے پہلے “اجتماع” اور اس کی ترکیب کا ہے؛ جو کہ سرے
سے “ماڈرن سٹیٹ” کا انکار ہے۔ کیونکہ ماڈرن سٹیٹ
کا بنیادی یونٹ وہاں پایا جانے والا “انسان” ہوتا ہے۔ “انسان” (people) کے بغیر ماڈرن سٹیٹ ختم ہے۔ آپ کا دستور بھی people of Pakistan کو اپنی اساس
ٹھہراتا ہے؛ اور ہر ماڈرن سٹیٹ کو یہی کرنا ہوتا ہے؛ لہٰذا “اسلام” کے متعلق اگر اس کے کچھ ارمان ہوں
بھی تو اسے وہ ‘آئین’ اور ‘آئینی ترمیمات’ میں پورے کرنے ہوتے ہیں، نہ کہ اپنے اجتماع کی بنیادی ترکیب میں ہی اس مسئلہ
سے فارغ ہو چکے ہونا ہوتا ہے۔ جبکہ ہمارے لیے “اجتماع” کی واحد اساس: محمدﷺ کی رسالت کے
ذریعے اللہ کی عبادت کرنا قبول کر چکے انسانوں کا زمینی اکٹھ۔ المختصر “جماعۃالمسلمین” نہ کہ ‘ماڈرن سٹیٹ’۔ یہاں پیپل people نہیں ہوتےبلکہ
[الذین آمنوا] ہوتے ہیں۔ جبکہ [الذین کفروا] اجتماع کی بنیادی اکائی میں آتے ہی
نہیں بلکہ وہ اس اجتماع کی بنیادی اکائی [الذین آمنوا] کے حفظ و امان میں رہنے اور
ان کے عدل و انصاف اور احسان سے مستفید ہونے والے لوگ ہوتے ہیں، جن کا معاملاتِ ملک
و اختیار سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا کیونکہ وہاں کے اجتماع کی بنیادی اکائی صرف “محمدﷺ کی رسالت کے ذریعے اللہ کی
عبادت پر ایکا کر رکھنے والے” ہوتے ہیں۔یہاں سے “شرعِ اسلام” کا سٹیٹس بھی خودبخود طے ہو جاتا
ہے: ماڈرن سٹیٹ میں “شرع اسلام” کا کوئی سٹیٹس وہاں کی مقننہ کے دینے یا نہ دینے پر کھڑا ہو گا، اور کھڑا رہے
گا۔ جبکہ شرعِ اسلام کے “احکام” وہاں پائے جانے والے “انسانوں” کے حق میں اپنی کوئی قانونی الزامی binding حیثیت رکھنے
کےلیے مقننہ کے “پاس” کرنے پر موقوف رہیں گے: مقننہ کے
اس “پاس” کیے بغیر وہ صرف ‘مذہبی’ حیثیت رکھیں گے نہ کہ “قانونی” و “ریاستی”۔ دوسرے لفظوں میں، مذہب اور ریاست
کی جدائی کا ایک ‘اسلامی’ قسم کا فلسفہ! ادھر “جماعۃالمسلمین” میں شرعِ اسلام اور اس کے تمام احکام کا الزامی binding سٹیٹس اس کے
اپنے وجود یعنی “مسلم” کی تعریف ہی میں طے ہو چکا ہوتا ہے۔ “مسلم” یعنی اللہ کی عبادت بذریعہ محمدﷺ
کی مطلق اطاعت کو واجب (لازم binding) ٹھہرا چکا آدمی؛ جبکہ ایسے
آدمیوں کا زمینی اکٹھ: “جماعۃالمسلمین” یا “الجماعۃ”۔ کچھ مسئلہ رہ جاتا ہے تو وہ شرع اسلام کے قطعیات اور ظنیات کا رہ جاتا ہے۔
شریعت کے قطعیات خود بخود اور کسی کے “پاس” کیے بغیر وہاں کا “قانون” ہوتے ہیں، جس میں شرع کا پورا بنیادی ڈھانچہ آپ سے آپ آ جاتا ہے؛ اور یوں ایک
بنیادی مسئلہ سے معاشرہ پہلے دن فارغ ہو چکا ہوتا ہے۔ جبکہ ظنیات میں، جن کا تعلق
صرف جزئیات سے ہی ہو سکے گا جبکہ بنیادی ڈھانچے کا مسئلہ طے پا چکا، “جماعت” کے اعتماد یافتہ فقہاء اپنے
استنباط و اجتہاد کی بہترین صلاحیتوں سے کام لے کر “اللہ کی عبادت بذریعہ محمدﷺ کی
اطاعت” کے وہ سب مبہم حصے واضح کر دیں گے،
اور کرتے رہیں گے۔
حوالہ کی آسانی کےلیے، اسی “ری کونسائل” والے ذہن کو کہیں کہیں ہم “اسلامی جمہوری ذہن” بھی کہہ لیتے ہیں۔ “نظامِ قائمہ (status
quo) کے ساتھ چل لینے” کے بےشک ہم (مدرسہ اھل الاثر) بھی کسی نہ کسی انداز میں قائل ہیں (استطاعت
اور یوسف علیہ السلام کے عمل والی دلیل وغیرہ کی بنیاد پر)… جبکہ “نظامِ قائمہ (status
quo) کے ساتھ چل لینے” کا مدرسہ “ریکونسائل” بھی قائل ہے
(ماڈرن سٹیٹ کو اسلام کا ٹانکہ لگا کر)۔ لیکن اپروچ ہماری اور ان کی بالکل جدا ہے۔
یہ فرق میں اوپر کے پیراگراف میں کسی قدر واضح کر آیا ہوں۔ ہماری پوری اپروچ اس موضوع پر ایک جملہ
کے اندر ملخص کرنا ہو تو وہ یوں ہے:
اسلام اعتقاد میں کامل، ٹھیٹ اور
خالص، البتہ عمل میں جتنا ممکن ہو۔
یہ وضاحت کچھ اس لیے بھی ضروری تھی، کہ “نظامِ قائمہ” status quo کے اندر دستیاب مواقع کو لینے کے چونکہ ہم بھی پوری طرح قائل ہیں ، لہٰذا ہمارا اور
“اسلامی جمہوریت” والے سکول کا خلط
نہ ہو جائے۔ وہ بالکل ایک اور رُوٹ ہے اور یہ اور۔ (اس پر ہمارے یہاں دیے گئے شیخ ابراہیم السکران کے ایک مضمون میں آپ مدرسہ اھل الاثر کے بعض معاصر رجال مانند ابن سعدی،
عبدالرزاق عفیفی، ابن قعود، ابن باز، ابن عثیمین، وغیرہ کی تصریحات ملاحظہ فرما
سکتے ہیں)۔ ماڈرن سٹیٹ اور اس کی ڈیموکریسی کو ہم کسی بھی انداز میں اور کسی بھی
ضرورت کے تحت “اسلامائز” کرنے والے ذہن کے حامی نہیں۔ status quo کے ساتھ معاملہ کرنے کی ہماری کل
بنیاد “استطاعت” اور “تدبیر” والا مسئلہ ہے، جس کا کچھ بیان ذیل میں ہو رہا ہے۔
2۔ دوسرا لفظ
ہے ہمارے اس جملے میں: [امت کو جتنا صحیح چلایا جا “سکتا” ہے]۔ یعنی
استطاعت۔ بلا شبہ شریعت کے سب کام “استطاعت” سے مشروط ہیں۔ فَاتَّقُوا
اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ۔
شریعت بےشک بہت بڑی ہے۔ اور ایمان بھی بےشک پوری شریعت پر اور اس کے ایک ایک حکم
پر رکھنا آج ہی واجب ہے۔ اس میں نہ کوئی تاخیر قبول ہے، نہ تحریف، نہ رد وبدل، نہ
مفاہمت، اور نہ تدریج۔ نہ ری کونسائل۔ وہ ایک ہی سچا کھرا پورا اسلام؛ آج بھی اور
ہزار سال بعد بھی۔ لیکن – جہاں تک اس پر عمل کی بات ہے – تو آج ہم اس کے انہی حصوں
کے مکلف ہیں جو آج “ہمارے بس میں” ہیں۔ کل ہم اس کے انہی حصوں کے مکلف ہوں گے جو کل “ہمارے بس میں” ہوں گے، اور جو
کہ آج سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں اور کم بھی۔ اور ہوتے ہوتے کسی وقت یہ بھی ہو سکتا
ہے کہ “ہمارے بس میں” پائی جانے والی اشیاء “خلافت” کے لیول level کی یا اس سے قریب قریب کی ہوں۔ اُس دن ہم
اُس کے مکلف ہوں گے اور اُس سے سرتابی کرنا ہمارے حق میں گناہ اور قابل مواخذہ۔
چنانچہ شریعت وہی ایک، دائمی، غیر متبدل ہے۔ لیکن اس کی بنیاد پر ہمارے فرائض کا
عملی نقشہ ہر آئے دن کے ساتھ مختلف ہو سکتا ہے۔ بڑھ بھی سکتا ہے، گھٹ بھی سکتا ہے۔
پھیل بھی سکتا ہے، سکڑ بھی سکتا ہے۔ البتہ یہ آئیڈیلسٹ مفروضہ کہ امت کو چلانے میں
شرع کے عائد کردہ سب یا بڑے واجبات کو پورا کرنا جس وقت “ہمارے بس میں” نہ ہو اس وقت
ہم شرع کے ان واجبات کو پورا کرنے کے بھی مکلف نہیں رہتے جو “ہمارے بس میں” ہوں (بلکہ یہاں
کے بعض خلافتی یا انقلابی بیانیوں narratives کو اگر آپ دیکھیں تو: اُس وقت شرع کے ان
واجبات کو پورا کرنا ہمارے حق میں حرام ہو جاتا ہے جو “ہمارے بس میں” ہوں۔ یعنی یا
تو پورا، نہیں تو صفر)… یہ آئیڈیلسٹ مفروضہ شرع کی کسی دلیل پر قائم نہیں ہے، سوائے ایک “steps” والی دلیل کے جسے یہ حضرات اپنے
تئیں “منہج نبوی” باور کرتے ہیں اور جس کے بنیادی
مقدمات ہی شرع سے کچھ استناد نہیں رکھتے۔ (اس کا ایک اچٹتا جائزہ ہم نے اپنی ایک
اور تحریر “منہج نبوی سے متعلق ایک مغالطہ کا
ازالہ“ میں لے رکھا ہے)۔ حالانکہ شریعت کے واجبات جو شریعت میں اب آ چکے، ان میں سے
کسی شے کے مسلمان کے حق میں “موقوف” ہونے کی دلیل کبھی کسی فقیہ نے “steps” والے فلسفے سے نہیں لی۔ شریعت کا ایک فرض موقوف ہو گا تو “عدم استطاعت” کی دلیل سے۔ ہاں یہ عدم استطاعت
والی بات فقہاء کے ہاں بےحد معروف ہے۔ پس فرائضِ دینی کی تقسیم اس باب میں ہو گی
تو وہ “مقدور” اور “غیر مقدور” کی ہو گی۔ یا پھر مصالح اور مفاسد
کا موازنہ، جسے کسی وقت ہم “تدبیر” بھی کہتے ہیں۔ اور یہی ہمارا مدعا۔
حق یہ کہ امت کو درپیش یہ “حالتِ محکومیت” تو بہت پیچھے کی بات ہے جس میں یک
لخت ہم “خلافت” کا نہیں سوچ سکتے بلکہ “جو ہو سکتا ہے” اسی کا سوچنا چاہیے… ہم کہتے ہیں، یہ
“حالتِ محکومیت” تو چھوڑیے، امت کے کسی حصے کو اگر کسی وقت “حالتِ اسیری” بھی درپیش ہو، تو ان میں موجود
اہل صلاح کا قائدانہ کردار وہاں موقوف نہیں ہو گا۔ نہ ہی “جماعت” کے احکام کلیتاً وہاں معطل ہوں گے،
یعنی ایک قیدخانے میں بھی: کہ اس حالت میں بھی وہ ان اسیر مسلمانوں کے احوال کو
زیادہ سے زیادہ اپنے ہاتھ میں لیں، ان کی جیسی کیسی سرکردگی خود کریں، نہ کہ ان
میں موجود فاسدوں اور خائنوں اور کم ہمتوں کے ہاتھ آنے دیں، اس حالت اسیری میں بھی
ان کے دین کی جتنی حفاظت ہو سکتی ہو اور ان میں سے ایک ایک کے اسلام پر جینے اور
ایمان پر مرنے کو جتنا یقینی بنایا جا سکتا ہو اس کا بندوبست کریں، نیز اس حالتِ
اسیری کو ختم کروانے کی جو جو قریب رس یا دور رس سکیمیں وہاں درکار اور ممکن العمل
ہوں ان اسکیموں کو بحسن و خوبی ترتیب دینے، انہیں عملی جامہ پہنانے، اس پر ان میں
ممکنہ یکجہتی، اتفاق اور تعاون پیدا کروا رکھنے، فتنوں اور فتنہ پروروں کو اس
دوران ان سے دور رکھنے، اور اگر اس (حالتِ اسیری کو ختم کروانے) کےلیے کچھ ذرائع
اور وسائل درکار ہوں تو ان کو بہم پہنچانے میں ہمت، قیادت اور ذمہ داری کا پورا
پورا حق ادا کریں۔ تو آپ نے دیکھا، “راہ نمائی” اور “آگے لگنے” کا فرض اہل صلاح و سنت سے کسی اندھیرے قیدخانے میں بھی ساقط نہیں ہو گا۔ کجا
آج کی حالت؟ غرض امت کو درپیش کوئی بدترین سے بدترین حالت بھی ہو، امت کی قیادت
ہاتھ میں لیے رکھنا اور انہیں اپنے پیچھے لگا سکنے کی پوزیشن میں رہنا، پھر جس
حالت میں امت ہے اس حالت ہی کے مناسب اقدامات کرنا (جو کہ “خلافت” والے اقدامات نہیں ہوں گے)، نیز
امت کی اپنی ایمانی، شعوری، اخلاقی اور تربیتی سطح اسے جس قدر آپ کے پیچھے صف آرا
ہونے کی اجازت دے ایک “دی گئی صورتحال” given situation میں بس اسی پر اکتفاء اور صبر
کرنا اور مزید کےلیے ہمت، دانش اور حقیقت پسندی کے ساتھ کوشش و جستجو رکھنا، انہیں
ان کی ہمت سے زیادہ بوجھ بہرحال نہ اٹھوانا، جو چیز وہ فی الحال نہیں دینے کے اس
کےلیے ان سے ضد نہ کرنا، اپنے اور امت کے مابین فاصلے بڑھنے نہ دینا بلکہ عقلمندی
کے ساتھ ان کو سمیٹتے جانا خواہ وہ بہت ساری “مثالیات” کو قربان کرنے کی قیمت پر کیوں نہ
ہو، چھوٹے چھوٹے اہداف کامیابی کے ساتھ سر کروا کر ان کا مورال بلند کرتے جانا اور
ان میں وہ قوتِ یقین واپس لانا کہ اپنی ہمت سے کام لے کر اور اس قیادت کے پیچھے چل
کر وہ اس سے بھی بڑے اور اس کے بعد اس سے بھی بڑے اہداف کا سوچ سکتے ہیں… …ان سب قائدانہ ذمہ داریوں سے وہاں کے اصحابِ علم و سنت کو کبھی ایک دن کےلیے بھی چھوٹ نہیں، اگرچہ وہ “خلافت” ایسے کسی ہدف سے دس ہزار کلومیٹر
پیچھے والی حالت کیوں نہ ہو۔
غرض امت آج جس پاتال میں گری پڑی
ہے، کچھ اچھے لوگ یہاں اس کے احوال کو “ممکنہ حد تک” اپنے ہاتھ میں کرنے اور اس کے
مناسبِ حال کچھ چھوٹی چھوٹی پیش رفتیں کروانے کے اگر کچھ مواقع آج پاتے ہیں – جو
کہ سٹیٹس کو کے تحت رہتے ہوئے سٹیٹس کو ہی کے اندر دستیاب ہوں گے نہ کہ اس سے باہر
کہیں جا کر – تو ان مواقع کو بھرپور طور پر لینا، اور جو دستیاب نہیں ہے اس کے
معاملے میں صبر کرنا، البتہ ایک کامیاب قدم کے بعد ہی اگلے کا سوچنا، نہ کہ دس
ہزار قدم کی اکٹھی نیت کر کے کسی جانب کود پڑنا، نیز اس ‘منہج’ سے بھی پرہیز کرنا جس کا کہنا ہے
کہ میلوں کی چھلانگ نہیں لگ سکتی تو ایک ایک دو قدم چلنا تو بالکل ہی موقوف کر دو،
ایسی حالت میں گھر بیٹھو اور ڈرائنگ روم ڈسکشننز یا دروس و تربیتی اجتماعات میں زندگی بتا دو، یعنی کھڑے پانی کا منہج…
غرض اس گھر بیٹھنے کے ‘منہج’ کی بجائے، برابر قوم کے ساتھ رہنا، جتنا کتنا ممکن ہو قوم کو اپنے ساتھ چلانا
اور ‘خلافت نہیں ہے’ کی دلیل سے عملاً اسے وقت کے
فرعونوں، خائنوں اور بدکرداروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑنا بلکہ “جس قدر ممکن ہو” اس کے معاملات اپنے ہی ہاتھ میں
لینا، اور واقعیت پسندی کے ساتھ بہتر سے بہتر کی طرف اس کےلیے راستہ بناتے چلے
جانا، جو کہ سردست ان ‘نظاموں’ کی موجودگی میں ہی ہو گا نہ کہ انہیں کالعدم ٹھہرا کر اور فی الفور “اپنے” نظام کا اعلان کر کے…المختصر یہ “استطاعت” کا منہج “خلافت” پر یقین رکھنے والوں پر حرام نہیں
ہے۔
یہ ہوا جواب “ایک
مسلمان جو صرف نظامِ خلافت ہی کو صحیح سمجھتا ہے”
کے متعلق:
آپ
کے سوال میں مذکورہ تینوں شخصیات اپنے اعتقاد اور پیراڈائم میں اگر بالکل ٹھیٹ دین
پر ہوں، اور اس میں کسی ریکونسائل کی روادار نہ ہوں – جو کہ ان تینوں کے کیس میں
کسی حد تک محل نظر ہے – تو عمل اور پیش قدمی کی حد تک انہوں نے استطاعت کے دائرہ
میں رہتے ہوئے جو راستہ چلا، اور اس میں وہ معاملے کو کم از کم پہلے والی حالت سے
بہتر حالت پر لے آئیں، جبکہ اس سے بھی بہتر کےلیے وہ کوشاں ہیں، وہ کسی خلافت پر
یقین رکھنے والے شخص کے حق میں غلط نہیں ہو گا۔ بلکہ خلافت پر یقین رکھنے والا ایک
باصلاحیت شخص بھی اگر گھر بیٹھنے کے ‘منہج’
پر نہیں، تو وہ ایسا ہی کوئی راستہ اندریں حالات چل پائے گا۔ ہاں اس “راستے”
میں بظاہر بہت سے واجباتِ اسلام ترک ہوں گے، اور سطح بین اس پر انہیں “اسلام
کے نام پر اقتدار میں آنے والے مگر اسلام پر چل کر نہ دکھانے والے”
گردانیں گے، لیکن اسلام کے جس جس واجب کے ترک کا تعلق اس میں “عدم
استطاعت”
سے ہو گا اس میں وہ اللہ کے ہاں، نیز اللہ کے انصاف پسند بندوں کے ہاں، معذور ہوں
گے۔ ہاں جن باتوں میں ان کو قدرت تھی لیکن پھر بھی انہوں نے کچھ نہ کیا – جو کہ
ممکن بےشک ہے ؛ اور ہم بھی انہیں کوئی عمر بن عبدالعزیز بہرحال نہیں سمجھتے– اس
میں وہ اسی طرح قابل مواخذہ ہوں گے جس طرح ہم ان بہت سارے واجبات کے ترک پر جو ہم
جانتے بوجھتے اور قدرت رکھتے ہوئے کر بیٹھتے ہوں گے۔ اس باب میں اہل علم جو چیز
بیان کرتے ہیں وہ یہ کہ: گناہوں اور قصوروں سے دامن بالکلیہ پاک ہونا کوئی آسان
کام نہیں؛ کم ہی کوئی ہم میں سے ہو گا جسے ایمان کا یہ مرتبہ حاصل ہے۔ خدا کے ہاں
معاملہ البتہ اس سے کچھ زیادہ آسان اور امیدافزا ہے: اگر کسی کی نیکیاں اس کے
قصوروں پر بھاری پڑ جائیں تو وہ بہت بڑا خوش نصیب ہے۔
مختصراً، دو نکتے ہیں جو اوپر بیان
ہوئے۔ ایک کا تعلق “صحیح” کا حوالہ متعین کرنے سے، جس میں اسلامی جمہوری ذہن سے ہمارا
راستہ جدا ہوا۔ دوسرے کا تعلق اس “صحیح” کی راہ میں استطاعت کا منہج چلنے سے، جس میں “خلافت” یا “انقلاب” یا
آئیڈیلزم” کی داعی بہت سی معاصر تحریکوں سے ہمارا راستہ جدا ہوا۔ اور یہ منہجِ وسط و
عدل ہوا اس باب میں: مدرسہ اھل الاثر
کا بیانیہ جو کہ آسان، عملی، نرم، سادہ، ڈائنامک اور دوررس ہے۔ نیز ہر صغیرہ و کبیرہ میں مستنِد الى الشرع۔
*****
نوٹ: “خلافت” جس کی بنیاد اصل میں “جماعۃالمسلمین” کے احیاء کے
اندر پڑی ہے، اس کے حوالہ سے ہماری ایک زیر طبع کتاب کا مرکزی مضمون “جماعۃالمسلمین
بموازنہ ماڈرن سٹیٹ” ہی ہے۔ یہ ابن تیمیہ کی “خلافت و ملوکیت” پر ہماری
تعلیقات ہیں، جن میں ہم نے اس معاصر قضیے پر کچھ خصوصی فوکس کیا ہے۔ مسئلہ کی
زیادہ تفصیلات وہیں دیکھی جا سکیں گی، ان شاء اللہ۔
جبکہ مسئلہ کی کچھ اصولی جہتوں کےلیے ہمارے مجموعہٴ تحریرات
بعنوان “فقہ الموازنات“ سے رجوپسع فائدہ
مند ہو سکتا ہے، ان شاء اللہ۔
___
پس نوشت: اس مضمون پر آنے والے بعض سوالات کا جواب یہاں دیا گیا ہے