ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل
ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق
تحریر:
حامد کمال الدین
س:
میرے تین سوال ہیں :
پہلے آپ نے ہمیں "ایمان کا سبق" پڑھایا۔ پھر آپ
نے ہمیں سبق دیا کہ "مذہب کے خدا کو قانون کے دائرے میں قانون کے خدا کی
منظور ی درکار ہوتی ہے قانون کے خدا کی منظور ی کے بغیر مذہب کا خدا جو مرضی کہہ
دے وہ مذہب تو ہوتا ہے مگر قانون نہیں"۔ پھر آپ نے ہمیں سبق دیا کہ "متبادل
کی بحث"۔ پھر آپ نے پڑھایا "درمیانی
مرحلے کے احکام"۔ اب آپ نے ہمیں بتایا کہ "یہ ہمارے لیے راہ گزرتی ٹرین
ہے"۔ میں بہت کنفیوز ہو گیا ہوں۔ کیا یہ فکر میں ارتقاء ہے؟
صہیب
صدیقی
جواب:
"ایمان
کا سبق" تو بالکل ایک اور
مضمون ہے؛ اور ائمہ کے یہاں تصنیف ہونے والے
"الزھد" ایسے مباحث سے معاملہ کرتا ہے۔ آپ کے سوال میں اٹھائے گئے
اشکالات سے بظاہر اس کا کچھ ناطہ نہیں ہے۔ الا یہ کہ اس کے کسی مخصوص متعلقہ پہلو
کی آپ نشان دہی کر دیتے۔
دوسرے دونوں جملوں کا تعلق ہماری کتاب "یہ
وہی انگریزی نظام ہے مگر اب اسلامی بھی ہے" سے ہے، یعنی:
* پھر آپ نے
ہمیں سبق دیا کہ "مذہب کے خدا کو قانون کے دائرے میں قانون کے خدا کی منظور ی
درکار ہوتی ہے قانون کے خدا کی منظور ی کے بغیر مذہب کا خدا جو مرضی کہ دے وہ مذہب
تو ہوتا ہے مگر قانون نہیں"۔
* پھر آپ نے
ہمیں سبق دیا کہ "متبادل
کی بحث"۔
مختصراً، اس کتاب
میں دو نہایت ضروری نکتے کھولنے کی کوشش ہوئی ہے:
1. دور حاضر میں انسانی خدائی
کا ایک باقاعدہ تصور"ڈیموکریسی" کے زیرِعنوان نہ صرف وجود میں آیا بلکہ
ایک مخصوص تہذیب کی فاتحانہ پیش قدمی کے نتیجے میں انسانی معاشروں کے اتنے بڑے حصے
پر بغیر کسی مزاحمت کے چھا بھی چکا ہے، یوں کہ جہاں آج یہ ’دھوپ‘ سیدھی نہیں پڑ رہی
وہاں بھی ’روشنی‘ اسی سے لی جا رہی ہے۔ عالم اسلام کی حد تک اس کو اپنے مذہب کے
ساتھ ’ہم آہنگ‘ کر کے قبول کرنے کی جو ایک تحریک اٹھی ہے، اس کے تہذیبی و نفسیاتی
محرکات اس کے فکری پہلوؤں کی نسبت کہیں زیادہ غور کرنے کے ہیں۔ یوں سمجھیے، ایک
طوفانِ بلا خیز کےلیے یہ ’کچھ شرطوں پر‘ گھر کے کواڑ کھولنے والی بات ہے! یہاں ضروری
ہو چکا، اہل اصلاح امت کو اس کے عقیدہ کی تعلیم دینا آج اپنی سب سے بڑی ترجیح
ٹھہرائیں۔ کسی دور کے سب سے بڑے شرک کو ذہنوں سے کھرچنے اور خاص اس کے تعلق سے
توحید کو دلوں میں بٹھانے پر جو ایک خصوصی محنت درکار رہتی ہے؛ "يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إلَى النُّوْر" کے مصداق اہلِ دین آج اس کا بیڑا اٹھائیں۔ جس کےلیے ضروری
ہے، فوکس اس کے ’ہم آہنگی‘ والے پہلو کی بجائے اُن کے شرک اور ہماری توحید کے
مابین پائے جانے والی "ناسازگاری" پر رکھیں اور بڑی دیر تک اسی (شرک و توحید کی ناسازگاری)
کو موضوع بنائیں۔ یہ "فوکس" آج اگر چوک گیا تو آپ کے ’ہم آہنگی‘ کے سارے
فلسفے اس طوفان کے آگے ریت کا ڈھیر ثابت ہوں گے؛ جس کے بعد یہ یہاں کا سب کچھ تہ و
بالا کرتا اپنا راستہ ’آپ‘ بناتا چلا جائے گا (بلکہ بہت حد تک بنا چکا ہے)؛ جس میں آپ کی حیثیت یہاں اس
کے ابتدائی سہولت کار کی رہ جائے گی۔ عین جس طرح ’اینلائٹنمنٹ‘ کے حوالے سے آج تک
آپ کے یہاں ’مدرسہ علی گڑھ‘ کو یاد کر کر کے رویا پچھتایا جاتا ہے۔
2. پھر، یہ ’ہم آہنگی‘
جو اس طوفان کو اپنے گھر لانے کےلیے ابتدائی طور پر عمل میں لائی گئی ہے، یعنی کچھ
دستوری
انتظامات جو اس پورے عمل کو ’مطابقِ اسلام‘ بناتے ہیں، اسلام کے حق میں
اس کا بوداپن بھی کتاب
میں واضح کیا گیا ہے۔ (’عملدرآمد‘ کے متعلق حکمران طبقوں کی بدنیتی یا ٹال مٹول کے رونے رونا ایک خاصا جزوی اور سطحی موضوع ہے، ’جدید ریاست‘ modern state کو اسلامائز کرنے کے اپنے ہی جو داخلی جھول ہیں،
کتاب میں ہم نے ان پر کسی قدر روشنی ڈالی ہے)۔
معاملے کی اس اصل بنیاد کو اٹھانے کے بعد، کتاب
میں ایک اور بڑے اشکال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے اور وہ یہ کہ: اگر یہ
(سلطانیِ جمہور) غلط ہے بھی تو ’متبادل‘ نہ ہونے کی وجہ سے تو پھر بھی یہی حق ہے!
یہ جواب "متبادل
کی بحث" والی فصل ہے، جسے کتاب
سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ تو ہوئی مسئلے کی اصولی پوزیشن۔ سوال یہ رہ جاتا ہے کہ
یہاں کی بڑی بڑی بےبس مسلم آبادیاں – عمل کی سطح پر – آج اس وقت کیا کریں؟
*****
اب اگلے مباحث کو دیکھنے سے پہلے، عالم اسلام میں پائے جانے
والے دو کیمپوں کے مابین ایک فرق کرتے چلیں… تو وہ سب باتیں اپنے درست سیاق کے
اندر سمجھنے میں آ سکیں گی:
یہاں ایک کیمپ وہ جو قوت اور اختیار کا مالک ہے۔ عملاً یہاں
ڈیموکریسی ہو، آمریت ہو، یا کچھ اور ہو، کتنی ہو، کس تناسب سے ہو، یہ سب فیصلے اسی
کے ہیں۔ اتفاقاً یہ وہ کیمپ ہے جس کےلیے دین سب سے بڑی ترجیح نہیں ہے۔ حوالے کی
سہولت کےلیے، ہم اپنی گفتگو میں اسے "مقتدرہ فریق" کے نام سے ذکر کر
لیتے ہیں۔
دوسرا فریق وہ ہے جو اسلام کو اپنی سب سے بڑی ترجیح مانتا
ہے اور مسلم معاشروں کو حتى المقدور اسلام پر چلانے کےلیے کوشاں ہے۔ گفتگو کی
سہولت کےلیے، اسے ہم "اسلامی فریق" کہہ لیتے ہیں۔
تاآنکہ میری بات ہر ابہام سے بالاتر ہو جائے…… اس
"اسلامی فریق" کو بھی ہم دو حصے کر لیتے ہیں: ایک وہ جو
"ڈیموکریسی" کے مقابلے پر – نظریاتی حوالے سے – ایک ٹھیٹ دین پر ہے۔
یعنی کوئی ٹانکہ یہ "اسلام" اور "ڈیموکریسی" (سلطانیِ جمہور)
کے بیچ لگانے کا روادار نہیں ہے۔ نہ ایسا کوئی ٹانکہ لگا دیکھ کر یہ ڈیموکریسی کو
اسلامی مان لینے پر آمادہ ہوتا ہے۔ جبکہ ایک دوسرا دیندار ہے جو "إلَّا إحْسَانًا وَ تَوفِيقًا" کے مصداق نظریاتی طور پر ہی اسلام اور جمہوریت کے کسی
ملغوبے کا قائل یا شاید مبلغ ہے۔ ڈیموکریسی پر کچھ ’شرطیں‘ وغیرہ لگا کر اسے لینا
اس کے یہاں ایک بالکل درست روش ہے۔ بلکہ کچھ مخصوص ’اسلامی شرطوں‘ کے ساتھ جو شخص
ڈیموکریسی کو نہیں مانتا، وہ اس کے نزدیک ’نہ اسلام کو سمجھتا ہے نہ ڈیموکریسی
کو‘۔ اسے ہم تھوڑی دیر کےلیے کہہ لیتے ہیں "اسلامی جمہوری ذہن" (جسے ہم
اپنی تحریروں میں جا بجا رد کرتے ہیں)۔ ہمارے اگلے مباحث کو سمجھنے کےلیے اس
"اسلامی جمہوری ذہن" کو بھی فی الحال ایک طرف کر دیں، یا اسے بھی تھوڑی
دیر کےلیے "مقتدرہ فریق" کے ساتھ رکھ دیں۔ بچ جاتا ہے خالص "اسلامی
فریق" جو ڈیموکریسی کو جملۃً و تفصیلاً رد کرتا ہے اور کسی شرط ورط کے تحت
اسے قبول کرنے پر تیار نہیں۔ کسی بھی روپ میں "ڈیموکریسی" کو اسلام
ماننے پر آمادہ نہیں؛ اور اسلام کے ساتھ اس کے کسی ٹانکے کو درخور اعتنا نہیں
جانتا۔ "اسلامی فریق" سے ہماری بقیہ گفتگو میں اب یہی مراد ہو گا۔
*****
ایک اور خلطِ مبحث سے بھی نکل آنے کےلیے ہم ایک سیناریو رکھ
لیتے ہیں۔ جمہوریت کا اسلامی ٹانکہ جب ہمارے نزدیک ایک غیر متعلقہ بات ہے، اور
خوامخواہ معاملے کو الجھانے کا باعث، تو فی الحال ہم ایک ایسا سیناریو فرض کر لیتے
ہیں کہ دنیا میں کسی جگہ سیدھا سیدھا ایک غیر اسلامی نظامِ حکم ہے (یعنی نام یا
دعوىٰ کی حد تک بھی اس کو اسلام سے کچھ علاقہ نہیں)۔ خواہ اس اجتماعی انتظام کا
نام ڈیموکریسی ہے، ڈکٹیٹرشپ ہے، سرمایہ داری ہے، یا سوشل ازم ہے، سِول سٹیٹ ہے، فلاحی
ریاست ہے، یا کچھ اور۔ تاہم ملک یاتو وہ مسلمانوں کا ہے یا مسلمان کمیونٹی وہاں اتنی
بڑی تعداد میں رہتی ہے کہ مسلمانوں کے روزمرہ معاملات، سماجی مسائل، تعلیم، ثقافتی
امور، امن و امان اور تحفظ (سیکورٹی) سے متعلقہ امور، عدالتی الجھنیں، عائلی احوال
مانند نکاح، طلاق، خلع، نسب، اولاد اور وراثت سے متعلقہ مسئلے، تجارت، صناعت، لین
دین، حلال و حرام سے متعلقہ بہت سارے امور اور ان سے جڑے ہوئے قواعد و ضوابط اور
پروسیجرز وغیرہ… مسلمانوں کے یہ سب امور وہاں کافروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے
کےنہیں، بلکہ "فَاتَّقُوا
اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ" کے
تحت اس کا جتنا کچھ اسلام کی قیود کے تحت چلایا یا اسلام کی عملداری میں رکھا جا
سکتا ہو رکھنا… یعنی حتى الوسع اسلام ہی پر چلنا وہاں مسلمانوں کی اجتماعی و شرعی
ضرورت ہو۔ اور ایسا نہ کرنا وہاں مسلمان کے حق میں موت۔ خصوصاً مسلم شناخت کے بچاؤ
کے مسئلہ میں۔ یعنی "مقتدرہ فریق" تو ہمارے اس [[مفروضہ]] سیناریو میں صاف
کافرانہ نظام رکھتا ہے (جیسے امریکہ یا برطانیہ یا بھارت کی ڈیموکریسی جس کے
’اسلامی‘ ہونے کی کہیں کوئی بحث ہے اور نہ دعوىٰ)، تاہم "اسلامی فریق" بھی وہاں پر پایا بہرحال جاتا ہےاور اپنی حیاتِ
اجتماعی "جس قدر ہو سکے" اسلام پر رکھنے اور اپنی کمیونٹی کا، سماجی طور
پر کفر کا نوالہ بن جانے سے تحفظ کےلیے، وہاں کی قومی زندگی کے ساتھ ایک واضح
سروکار رکھتا ہے۔
یہاں پر…… آپ کیا کریں گے؟
یہ سیناریو اس لیے تھوڑا سادہ اور آسان کیا گیا ہے کہ
ڈیموکریسی کی ’اسلامی‘ و ’غیراسلامی‘ والی بحث سے ہم تھوڑی دیر کےلیے نکل آئیں۔
یعنی ایک ایسی ڈیموکریسی جسے ہمارا "اسلامی جمہوری ذہن" بھی ’اسلامی‘
ثابت کرنے کی گنجائش یا ضرورت نہ پاتا ہو۔ یوں کہہ لیجیے، بھارت کی ڈیموکریسی۔ یا
برطانیہ کی ڈیموکریسی۔ یا امریکہ کی ڈیموکریسی۔ یا فرانس کی ڈیموکریسی۔ وغیرہ۔ اس
کے ’غیراسلامی‘ ہونے میں تو ظاہر ہے کوئی شک نہیں۔ تاہم اس میں مسلمانوں کی تعداد یا پوزیشن کہیں
پر ایسی ہے کہ اس کے بل بوتے پر اپنی قومی ضرورتوں کے حق میں کچھ نہ کچھ
"دفعِ شر" یا "جلبِ خیر" کر لینا اجتماعی سطح پر مسلمانوں کی
ضرورت ہے اور اس ضرورت کو نظرانداز کرنا مسلمانوں کے حق میں نقصان دہ۔ کہیے اس کی
بابت آپ کیا کہتے ہیں؟ کیا فرماتا ہے ’اسلامی جمہوری ذہن‘ ایسے صاف ’غیراسلامی‘
جمہوری نظام میں مسلمانوں کا کوئی کردار ہونے کے متعلق؟ کیا فتوىٰ ہے اس وقت –
مثال کے طور پر – بھارت کی سیاست میں مسلمان کے کوئی کردار رکھنے کے متعلق؟ یا
امریکی سیاست میں مسلمان اگر دو قریباً مساوی قوتوں کے بیچ پلڑا کسی ایک طرف
جھکانے کی تھوڑی بہت پوزیشن میں ہوں، جس سے وہ کچھ اپنی منوا سکتے ہوں، تو ان کے
ایسا کر لینے کے متعلق؟
ہمارے معاصر ائمہ و اساتذہ (مانند سفرالحوالی وغیرہ) کا موقف
اس بابت یہ ہے کہ آج کی بھارتی یا امریکی یا برطانوی سیاست کے اندر بھی – یا اس
جیسے کسی بھی سیناریو میں – مسلمانوں کا اپنے عالمی و مقامی ایشوز کے حق میں دفعِ
شر اور جلبِ خیر کےلیے ایک زیرک کردار رکھنے میں نہ صرف کوئی حرج نہیں ہے بلکہ ان
مواقع کو اسلام اور مسلمانوں کے حق میں برت جانا دین کا اپنا مطلوب ہو سکتا ہے۔ جس
کےلیے ہمارے ان مشائخ کے ہاں وہی علمی بنیاد ہے جو ابن تیمیہ کے ہاں یوسف علیہ السلام
کے بادشاہِ مصر والے ’نظام‘ میں ایک مؤثر و دُوررَس کردار رکھنے کی۔ جب ایسا ہے، تو کسی ’نظام‘ میں آپ کے بطور مسلمان
کوئی کردار رکھنے کا تعلق اس ’نظام‘ کو کھینچ تان کر اسلامی ثابت کرنے یا نہ کرنے
کے ساتھ سرے سے نہیں ہے۔ وہ اگر "اسلام" پر نہیں ہے تو اسے
"غیراسلام" کہنے اور ماننے میں ہمیں کوئی جھجھک یا تامل نہیں ہونا چاہیے۔
(مسئلہ کی یہ جہت شدید واضح رہنی چاہیے)۔ تاہم سماجیات کے باب میں اس کے ساتھ
"تعامل" ایک الگ مسئلہ ہے اور یہ "تعامل" ہمارے نزدیک کافر کے
ساتھ بھی (معلوم اسلامی ضابطوں کا پابند رہتے ہوئے) جائز ہے اور مسلمان کے ساتھ
بھی۔ سماجی عمل میں "تعامل" (مصالح و مفاسد کے اسلامی موازنہ کا پابند
رہتے ہوئے) سب کے ساتھ ہے خواہ مسلمان خواہ کافر، جبکہ معاشرے سے اٹھ آنا کوئی
آپشن نہیں ہے، سوائے ایک آئیڈیلسٹ ذہن کے یہاں (جو ہمارے خیال میں خود مودودیؒ
صاحب پر بھی قیامِ پاکستان کے وقت کسی قدر حاوی تھا، تاہم بعدازاں وہ ایک گونہ
واقعیت پسندی سے بدل گیا تھا)۔
سماجی عمل میں حسب استطاعت "موجود" و "مؤثر"
رہنا اور یہاں ہاتھ آنے والا کوئی موقع نہ گنوانا تو آپ کی قومی زندگی کی ضروریات
میں سے ہے، اس کو متنازعہ بنانا اور ’گھر بیٹھنے‘ کو کوئی آپشن جاننا سوائے
آئیڈیلسٹ یوٹوپیا کے کچھ نہیں ہے۔ تھوڑا آگے چل کر ہم یہ واضح کریں گے کہ فی زمانہ
جس چیز کو آپ ’نظام‘ کہتے ہیں اس کا تعلق "کفر اور اسلام" یا "شرک
اور توحید" یا "بدعت اور سنت" سے بلاشبہ ہو سکتا ہے، تاہم یہ "سماجیات" اپنی فقہی تکییف
میں "معاملات" والی قبیل میں
آتے ہیں نہ کہ "عبادات" والی کیٹگری میں۔ "معاملات" بھی بےشک
"دین" ہیں (معروف عقیدہ "سیکولرزم" ہمارے نزدیک کفر ہی ہے)
تاہم "عبادات" کی نسبت ان میں جو ایک گونہ وسعت ہے وہ کسی بھی مسلم یا
کافر معاشرے میں ہمارے کردار کو اتنا تنگ نہیں رہنے دیتی جتنا کہ ہمارے عزلت نشین
آئیڈیلسٹ ذہن کا خیال ہے۔
اس مسئلہ کو ہم کہتے ہیں: "ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ
تعامل"۔ جوکہ ایک نظامِ قائمہ کے
اسلامی یا غیر اسلامی ہونے سے ہٹ کر ایک موضوع ہے۔ جبکہ ہمارے اس مفروضہ سیناریو
میں (جس کا اوپر ذکر ہوا) وہ ایک ایسا نظام ہے جس کے اسلامی ہونے کا کوئی
دعوىٰ تک کہیں موجود نہیں ہے، جیسے امریکہ
یا بھارت کی ڈیموکریسی۔ (اوپر کے دو پیروں کا خلاصہ)۔
یہاں… … کیا کوئی "تعامل" اس کے ساتھ آپ نہیں
کریں گے، اس لیے کہ نظامِ قائمہ "غیر اسلام" پر قائم ہے؟ اور ایسا کوئی
"تعامل" آپ کے درخورِ اعتناء نہ ہونے کے باعث، جماعتِ اسلام کے امور
وہاں جتنے اور سے اور خراب ہوں، ہونے دیں گے؟ اور اس عزلت کے نتیجہ میں معاملات کے
اور سے اور خراب ہونے کو اپنے حق میں شریعت کی منشا سمجھیں گے؟
یا ایسی کسی صورتحال میں بھی جہاں "مقتدرہ" آپ
(اہلِ شریعت) نہیں ہیں، مسلمانوں کا جتنا کچھ بچایا اور اسلام پر رکھا جا سکتا ہے،
ایسے کسی "تعامل" کی راہ سے، بچایا جائے گا؟
یہاں… … ہمارا کہنا ہے، "تعامل" آپ ہر قسم کی
صورتحال اور ہر "نظام" کے ساتھ کریں گے۔ اس پر ہم نے (اپنے مضمون
"درمیانی مرحلہ کے احکام" میں) ابن تیمیہؒ سے یوسف علیہ السلام اور
نجاشی وغیرہ کی مثالیں دی تھیں۔ نیز ابن تیمیہؒ سے کچھ ایسی تقریرات دی تھیں کہ
انبیاء سے بس یہی ایک بات نہیں ملتی کہ حق کی اقامت ہو اور باطل کا خاتمہ۔ بلکہ
انبیاء سے یہ بات بھی ملتی ہے کہ حق کی جس قدر اقامت آپ کے مقدور میں ہو اس قدر حق
کی اقامت کر دی جائے اور باطل کا جس قدر خاتمہ آپ کے بس میں ہو اس قدر باطل کا
خاتمہ کر دیا جائے۔ نیز اس "تعامل" کے باب میں "موازنات" کا یہ مبحث بھی دیا گیا کہ
آپ کا کوئی
ایسا اقدام (یا عدم اقدام) جس کے
نتیجے میں حق معاشرے میں اپنی حالیہ پوزیشن سے بھی پیچھے دھکیل دیا جائے گا، کرنا
اس اقدام کے نہ کرنے کے مقابلے پر (یا ایسا عدم اقدام، اقدام کے مقابلے پر) شریعت
کی نظر میں بدتر ہو گا۔ جبکہ آپ کا کوئی ایسا اقدام جس کے نتیجے میں حق کی کچھ پیش
قدمی ممکن ہو (یا جسے کرنے سے حق کم از کم اپنی حالیہ پوزیشن ہی برقرار رکھ سکے
ورنہ معاملہ اس سے بھی دگرگوں ہونے والا ہو)،
کرنا اس اقدام کے نہ کرنے کے مقابلے پر شریعت کو مطلوب ہو گا۔ اس سلسلہ میں
خاص طور پر شیخ ابراہیم السکران کی ایک تحریر [النظام السياسي غير المشروع بين الإنشاء والمشاركة "ایک غير مشروع نظام کو بنانے اور اس کے ساتھ تعامل کرنے میں
فرق ہے"] دی گئی جس
میں شیخ نے امت کے کبار علماء سے اس پر علمی استشہادات دیے تھے۔ شیخ ابراہیم کے
ذکر کردہ مقامِ انشاء اور مقامِ شرکت کے
اس فرق کے حوالے سے، خود ہم نے کچھ مثالیں پیش کی تھیں، جن میں سے ایک یہ کہ:
’لارڈ میکالے والا نظامِ تعلیم‘ جو دراصل الحاد اور شرائع
سے ایک صاف اِعراض پر کھڑا ہے، آپ اگر
اپنی مرضی اور اختیار سے کہیں پر قائم کرتے ہیں، تو بلاشبہ یہ شریعت کو مبغوض ہو
گا۔ (مقامِ انشاء)۔ تاہم یہی نظامِ تعلیم اگر کہیں پر قائم چلا آتا ہے، تو اس میں
پڑھ آنا، حتیٰ کہ وہاں جا کر پڑھا آنا، وہاں کوئی عہدہ لینا، وہاں پروفیسر یا اس
سے بھی اوپر جا کر وائس چانسلر وغیرہ تک بن جانا، اور اپنی ایسی پوزیشن سے فائدہ
لیتے ہوئے حق کو جس قدر فائدہ "دیا جا سکتا" ہو اس قدر حق کو فائدہ دینا
اور باطل کو جس قدر ٹھیس پہنچائی جا سکتی ہو اس قدر ٹھیس پہنچانا، شریعت کی نظر
میں جائز یا پھر مستحسن ہو گا (مقامِ مشارکۃ)۔
لہٰذا یہ بات نوٹ ہونی چاہیے: یہ بحث (جو ہمارے مضمون
"درمیانی
مرحلے کے احکام" یا اس سلسلے کی دیگر تحریرات میں آئی) کسی نظام کے اسلامی
یا غیر اسلامی ہونے کے ساتھ متعلق نہیں۔ بلکہ اس کو غیر اسلامی مانتے ہوئے بھی اس کے ساتھ "معاملہ
کرنے" سے متعلق ہے۔ ہاں تعامل کے مسئلہ میں البتہ؛ ہم اس سختی اور تحجر
کے قائل نہیں جو ایک طبقہ کے خیال میں کسی
’نظام‘ کو غیراسلامی کہنے کی صورت میں خودبخود لازم آتا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو
"نظام" کے مسئلے کو دین میں غیرضروری مرکزیت دیتے ہوئے (اور اصل میں دین
کی تعبیر ہی "نظام" اور "ریاست" کے زیرعنوان کرتے ہوئے)… شرک کی سماجی صورتوں (یعنی نظام اور معاشرت
وغیرہ سے متعلقہ امور) کو شرک کی شعائری صورتوں (یعنی رکوع و سجود وغیرہ) کے ساتھ
خلط کرتا ہے۔ چنانچہ جو "تعامل" غیراللہ کو ہونے والے رکوع و سجود ایسی
کسی سرگرمی کے ساتھ رکھا جاتا ہے وہی "تعامل" ان حضرات کے ہاں غیراللہ
کی اطاعت پر قائم نظام اور ریاست وغیرہ سے متعلقہ ہر ہر سرگرمی بلکہ اس سرگرمی کے
ایک ایک جزء کے ساتھ فرض ٹھہرا دیا جاتا ہے (بلکہ بعض تو ان میں ایسے ہوں گے جو
غیراللہ کو ہونے والے "سجدہ اور دعاء" وغیرہ پر شاید اس قدر برہم نہیں
ہوں گے جس قدر یہ غیراللہ والے "نظام" پر ہوں گے!)۔ حالانکہ
"عبادات" اور "معاملات" میں ایک فرق ہمارے اہل علم کے ہاں
شروع دن سے قائم ہے۔ باوجود اس کے کہ دونوں ہی ایک وسیع معنىٰ میں
"عبادت" ہیں، تا ہم ہر دو کو "عبادت" کے تحت لانے اور اس سے
متعلقہ احکام و مسائل کشید کرنے میں علمی طریقِ کار دونوں کے معاملہ میں الگ الگ
ہو گا۔ بےشک ہم مانتے ہیں دورِحاضر میں "نظام" اور "ریاست"
اپنے انداز کی ایک نئی بحث ہے، لیکن اس کا معاملہ "شعائر" اور
"مناسک" والا پھر بھی نہیں ہو گا۔ مزید یہ کہ جس چیز کو آج آپ
"نظام" کہتے ہیں، وہ انبیاء کے دور میں یکسر معدوم نہیں تھی جو ہم اس کو
اتنا ہی ’نیا مسئلہ‘ سمجھیں۔ ہر انسانی اجتماع کسی نہ کسی "نظام" پر ہی
قائم ہوتا تھا، خصوصاً بڑے بڑے انسانی اجتماعات جیسے مصر، جس سے یوسف علیہ السلام
کو معاملہ پیش آ یا۔ چنانچہ ایک مشرک قوم کی "رکوع و سجود" ایسی سرگرمی –
ایک موحد کے اس کے ساتھ [[تعامل]] کے مسئلہ میں – اس مشرک قوم کی "نظام"
ایسی سرگرمی کے سو فیصد مماثل نہیں ہو گی۔ دونوں میں فرق بہرحال رہے گا۔ خود موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں فرعون کے ایک
مومن درباری کا تذکرہ آتا ہے [رَجُلٞ مُّؤۡمِنٞ
مِّنۡ ءَالِ فِرۡعَوۡنَ يَكۡتُمُ إِيمَٰنَهُۥٓ] جو درپردہ موسیٰ علیہ السلام کے دین پر تھا۔ (اسی کے نام
سے قرآن میں پوری ایک سورت موسوم ہے)۔ اس مسلمان کا – اپنے دین کا پابند رہتے ہوئے
– آلِ فرعون کے "دربار" کی سرگرمی میں شریک ہونا کیا واقعتاً ایسا ہے
جیسا اس مسلمان کا قومِ فرعون کے بتوں کو کیے جانے والے "رکوع و سجود"
والی سرگرمی میں خدانخواستہ شریک ہونا؟ یعنی کیا اس (مومن آلِ فرعون) کےلیے یہ بھی
اُسی طرح جائز تھا کہ وہ اپنے ایمان کو چھپا کر (يَكْتُمُ إيْمَانَه) آلِ فرعون کے ساتھ بتوں کو سجدے بھی کرتا رہتا، اس لیے کہ
فرق جو نہیں ہے مشرکوں کے اِس "سیاسی عمل" میں اور اُس "مناسک
(رکوع و سجود) والے عمل" میں؟!! چنانچہ ایک قوم کا سیاسی نظام اگر شرک بھی
ہے، تو ایک موحد کا اس کے ساتھ "معاملہ" کرنا اُس کے بتوں اور دیویوں کے
آگے کی جانے والی "پوجاپاٹ" وغیرہ میں شریک ہونے سے مختلف ایک چیز
ہے۔
*****
"نظام" کے متعلق شیخ ابراہم
السکران کا بیان کردہ "مقامِ انشاء" (کسی نظام کو بنانا یا قائم
کرنا) اور "مقامِ مشارکۃ" (کسی چلتے ہوئے نظام میں جو آپ سے پوچھ کر
نہیں بنایا یا چلایا گیا، مسلمانوں کے مصالح کو تباہ ہونے سے بچانے کےلیے وہاں
کوئی کردار رکھنا) کا فرق اگر واضح ہو گیا ہے… تو یہاں ہم عرض کریں گے کہ:
"نظام" وغیرہ کے معاملہ میں گناہ کا تعلق اس شخص
کے فعل سے ہو گا جو "مقتدرہ" ہے۔ یعنی جو ایک باطل نظام کو اپنی مرضی
اور اختیار سے کہیں پر بناتا یا قائم کرتا ہے۔ بلکہ درست تر الفاظ میں، جو ایک
باطل نظام کو اپنے فیصلے سے انسانوں پر مسلط کرتا ہے۔ یہ بھی اس وقت جب وہ ایسا
کرنے یا نہ کرنے کا پورا اختیار اور قدرت رکھتا ہو۔ یعنی صحیح معنىٰ میں مقتدرہ
ہو۔ یہاں اگر وہ ایک باطل کو قائم کرتا ہے، چاہے اس باطل کا نام ڈیموکریسی ہے، یا
آمریت، یا کمیونزم، یا کچھ اور، تو یقیناً وہ خدا کا مجرم اور صریح گناہ کا مرتکب
ہے۔ ورنہ، خود "مقتدرہ" فریق کے بس سے بھی جو چیز باہر ہے، وہاں اس پر "گناہ" نہیں، جیسا کہ نجاشی
وغیرہ کے واقعہ میں۔ پس "گناہ" کا تعلق آدمی کے قدرت اور اختیار سے ہے۔
جہاں کوئی چیز آپ کی قدرت سے باہر ہوئی، وہاں نہ آپ گناہگار ہیں اور نہ جوابدہ۔
یہ بات اگر واضح ہو گئی، تو صورتِ موجودہ میں "اسلامی
فریق" سرے سے اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ فیصلہ کرے آیا یہاں ڈیموکریسی ہونی
چاہیے یا اسلام۔ یہ فیصلے یا تو یہاں کا "مقتدرہ" فریق کرتا ہے، یا ممکن ہے اس کے بھی بس سے کچھ باتیں باہر ہوں۔ "مقتدرہ
فریق" کے متعلق ہم کہیں گے، جس قدر وہ اس معاملہ میں قدرت اور اختیار رکھتا
ہے اس قدر وہ خدا کی طرف سے مکلف ہے کہ باطل کو ہٹا کر اس کی جگہ اسلام کو کھڑا
کرے۔ اپنی قدرت اور اختیار کے دائرہ میں اگر وہ "محمدﷺ کے لائے ہوئے" کو
نیچا اور اس کے ماسوا کو اوپر رکھتا ہے تو وہ کروڑوں مسلمانوں کا گناہ اٹھا کر خدا
کے ہاں پیش ہونے والا ہے۔ رہ گیا یہاں کا "اسلامی فریق"، تو اس کی
جوابدہی اس پر نہیں کہ آیا یہاں ڈیموکریسی کا "نظام" ہے یا آمریت کا یا
کمیونزم کا یا اسلام کا، کیونکہ یہ فیصلہ اس کے بس سے ہی باہر ہے۔ اس کی جوابدہی
اس پر ہے کہ "صورتِ موجودہ" کے اندر – خواہ وہ جو بھی ہے – مسلمانوں کے
مصالح کو بچانے کےلیے اس کے بس میں کیا کچھ تھا۔ پس جو جو مواقع اسلام کو اس کی
موجودہ پوزیشن سے آگے بڑھانے کےلیے – یا کم از کم اس سے بدتر پوزیشن پر نہ جانے
دینے کےلیے – کسی ملک یا نظام میں وہاں کے "اسلامی فریق" کو دستیاب ہیں،
انہی کے معاملہ میں خدا کے ہاں اس کی جوابدہی ہے کہ جو اس کے بس میں تھا وہ اس نے
کیا یا نہیں کیا؟
یہ ہے قصہ "درمیانی
مرحلہ کے احکام" سے شروع ہونے والے سلسلہٴ تحاریر کا، جس کے اکثر اجزاء
ہمارے خصوصی ضمیمہ "فقہ
الموازنات" کے تحت دستیاب ہیں۔
*****
ایک بات کو تھوڑا اور کھول دینے کی ضرورت ہے…
"دین" کی تعبیر
"نظام" سے کرنے کے نتیجے میں، یہاں کی تحریکی دنیا میں کچھ بڑی بڑی
الجھنیں پیدا ہو گئی ہوئی ہیں۔ جن کو سلجھانے کا ایک آسان طریقہ بعد ازاں یہ سمجھا
گیا کہ نظام کو جیسےکیسے ’کلمہ پڑھا لیا‘ جائے! پھر یہ بھی ایک وقت تک رہا۔ ظاہر
ہے، کسی ایک ملک میں نظام آدھی پونی زبان میں ’کلمہ‘ پڑھ لے گا تو دوسرے ملک میں
آدھی پونی زبان میں بھی شاید یہ واقعہ نہ ہو۔ لیکن عملاً شاید ہی کوئی ملک ہو جہاں
’نظام‘ میں حصہ لینا ہمارے اسلامی جمہوری ذہن کے یہاں حرام رہ گیا ہو۔ یعنی آخر
میں مسئلے پر کامل مٹی ڈال دی جاتی ہے جس سے "دین"، "عبادت"
اور "توحید" کا پورا مسئلہ ہی گول ہو جاتا ہے۔ جتنی جتنی کہیں پر آپ کی "تعامل" کی
ضرورت بڑھتی ہے، اتنی اتنی وہاں "توحید" قربان کر لی جاتی ہے۔ یعنی
"دین" کی تعبیر "نظام" سے بھی کرنا اور پھر ہر ملک میں قائم اس
"دین" میں شامل بھی ہونا؛ اس لیے کہ اس شرکت کے بغیر چارہ جو نہیں ہے!
لیکن اس طرف شاید توجہ نہیں جاتی کہ "نظام" کو "دین" کا ہم
معنىٰ قرار دینے میں ہی شروع کے اندر جو ایک غلو ہوا ہے اس کا تدارک کر لیا جائے؛
کیونکہ یہ بات اصولاً ہی غلط نہیں عملاً بھی دشوار یا شاید ناممکن ہے۔
"نظام" کو رکوع وسجود اور طواف
و ذبیحہ وغیرہ امور کی طرح "عبادت" قرار دینے میں جو ایک غلو ہو گیا ہے،
اس کی ہی اصلاح ہو جانی چاہیے۔ وہ غلطی تو جوں کی توں ہے؛ "دین" اور
"عبادت" کے بنیادی معانی آج بھی اس طبقے کے یہاں "نظام" ہی کے
اندر محصور ہیں اور "توحید" کا تمام تر تصور "ریاست" ہی کے
اندر قید، البتہ وہ تمام تر "نرمی" جو کسی وجہ سے ’وقت اور حالات کی
ضرورت‘ ہے وہ "نظام" اور "ریاست" کو اسلام کی سند دینے میں کر
لی جاتی ہے! جس کے بعد سوائے ’عملی کوتاہی‘ کے "نظام" اور
"ریاست" میں خرابی کی نشان دہی کےلیے شاید ہی کوئی بات اپنے پاس رہ جاتی
ہو؛ یعنی آپ کا کیس داخل دفتر۔ نوبت باینجا رسید کہ "اسلام" کی سند دینا
جب ایک سرسری کارروائی ہے تو پھر اس کارروائی کے بغیر بھی بہت سے ملکوں میں
"نظام" اور "ریاست" کے اندر یہ شرکت جائز کر لی جاتی ہے!
(ظاہر ہے ہر ملک میں "نظام" نے ہماری قراردادِمقاصد کی طرح
"کلمہ" نہیں پڑھا، جیسا کہ ہم پیچھے کہہ چکے، جبکہ "شرکت" ہر
جگہ تقریباً جائز ہی ہے!)۔ بنابریں، عملاً تو ہمارے اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کے
مابین "شرکت" ما بہ النزاع نہیں۔ فرق اتنا ہے کہ ہم اس "نظام" کو جیسا وہ ہے ویسا لیتے
ہیں اور اس میں پائے جانے والے مواقع اور گنجائشوں کو "فَاتَّقُوا اللہَ مَا
اسْتَطَعْتُمْ" کے تحت اپنی اجتماعی اسلامی زندگی نیز عام انسانی منفعت کے حق میں محض ایک "استعمال
کی چیز" کی جانتے ہیں؛ اور اس کا
علمی وفقہی روٹ یوسف علیہ السلام اور نجاشی وغیرہ کے عمل والا رکھتے ہیں۔ جبکہ
’اسلامی جمہوری ذہن‘ اپنے طرزِ استدلال میں جس "نظام" کے اندر شرکت کرتا
ہے اس کا شرعی تقدس پہلے قائم کرتا ہے، اگرچہ وہ ایک سرسری کارروائی ہونے کی وجہ
سے بہت سے ملکوں میں ’پوری‘ ہونے سے بھی کیوں نہ رہ جاتی ہو۔
بنا بریں؛ مسئلہ کی بنیاد ہمارے
یہاں "دستیاب مواقع" ہیں۔ جبکہ ’اسلامی جمہوری ذہن‘ کے یہاں: اس
"نظام" کا جس میں یہ شرکت کرتے ہیں "حق" ہونا اور "شرعی
تقدس" رکھنا۔ اور جب بنیاد ہمارے ہاں "دستیاب مواقع" ہے، تو پھر یہ
نہیں ہوتا کہ "آمریت" تو ایک طعنہ ہو اور "جمہوریت" اس کے
مقابلے پر ایک فضیلت و منقبت! جس معنىٰ میں یہ "نظام" کوئی طعنہ ہو سکتے
ہیں اُس معنیٰ میں یہ سب ہمارے نزدیک طعنہ ہی ہیں، خواہ وہ بہت سے انسانوں کی "ڈیموکریسی"
ہو یا کسی ایک یا چند انسانوں کی "ڈکٹیٹر شپ" یا انسان سے متفرع "سول
سٹیٹ" یا محض انسان کی موج اور راحت کےلیے قائم "فلاحی ریاست"۔ یہ
(طعنہ) ظاہر ہے اس صورت میں جب وہ "نظام" کہیں پر ہمارے کہنے یا کرنے سے
قائم ہو (شیخ ابراہیم کا بیان کردہ "مقامِ انشاء)۔ ہاں اس معنىٰ میں کہ جو "مواقع"
کسی بھی ایستادہ established "نظام" سے کہیں پر اسلام اور انسانیت
کے حق میں جلبِ خیر اور دفعِ شر کی خاطر ہم کو "دستیاب" ہیں انہیں لے لیا
جائے (اور آئیڈیلسٹوں کی طرح ان پر شرطیں لگانے کی ضد نہ رکھی جائے)… تو یہ نہ کسی
ایک غلط "نظام" کے معاملہ میں کوئی طعنہ ہے نہ کسی دوسرے غلط "نظام"
کے اور نہ تیسرے کے (شیخ ابراہیم کا بیان کردہ مقامِ مشارکہ)۔ اور اس لحاظ سے یہ
سارے باطل نظام اپنی اصولی حیثیت میں ہمارے لیے ایک برابر ہیں، خواہ ڈیموکریسی
خواہ ڈکٹیٹرشپ خواہ فلاحی ریاست، ان میں فرق ہو گا تو بد اور بدتر کا، نہ کہ حق
اور باطل کا۔ البتہ "تعامل" کا مسئلہ ہے ہی الگ؛ اور کسی بدترین سے
بدترین صورتحال میں بھی لازماً پیش آتا ہے، جس کا انکار صرف وہ آئیڈیلسٹ کر سکتا
ہے جو ایک غیرمعینہ مدت indefinite time تک یہاں عمل کے میدان میں کوئی کردار نہ رکھنا
اپنے لیے قبول کرتا ہے۔
پس یہاں تین اپروچ ہوئے: اسلامی
جمہوری ذہن، آئیڈیلسٹ، اور ہم۔
اسلامی جمہوری ذہن اور آئیڈیلسٹ ہر
دو – باوجود عمل میں ایک بعدالمشرقین رکھنے کے – "تعامل" کے مسئلہ کو "نظام"
کے حق ہونے کے ساتھ نتھی رکھتے ہیں۔ (دونوں کے ہاں "دین" کو
"نظام" سے تعبیر کرنے میں بھی ایک درجہ غلو پایا جاتا ہے، الا ما شاء
اللہ)۔ فرق ان دونوں میں یہاں آتا ہے کہ:
1.
اسلامی جمہوری ذہن
"نظام" کو حق کی سند دینے میں جلدی کرتا ہے خصوصاً اگر وہ جمہوریت ہے،
یہاں تک کہ آخر میں یہ اس کے ہاں ایک سرسری کارروائی رہ جاتی ہے۔ ("اسلامی
جمہوری" ہوتے ہوتے صرف "جمہوری" رہ جا تا ہے۔ "جمہوریت"
میں شرکت یہاں ایک چہاردانگ ذکر ہونے والی فضیلت رہتی ہے جبکہ "آمریت" سات
پشتوں تک نہ سنا جانے والا ایک طعنہ۔ اور یہ موازنہ تک کرنے کا روادار نہ ہونا کہ ایک
آمریت پر قائم "نظام" اور ایک جمہوریت پر قائم "نظام" میں سے
کس کے مجموعی احوال اسلام یعنی اللہ کی عبادت سے قریب تر ہیں)۔
2.
دوسری جانب آئیڈیلسٹ ذہن "نظام"
کو حق ہونے کی سند دینے میں بےشک کوئی جلدی نہیں کرتا۔ تاہم چونکہ نظام کے ساتھ "تعامل"
(یعنی اس کے اندر کوئی کردار رکھنا) اس کے خیال میں نظام کے "حق" ہونے
کے ساتھ نتھی ہے، اس لیے یہ سوائے "طلبِ نصرت" وغیرہ کے، یا سوائے کسی غیبی
واقعہ سے امید لگوانے کے، یہاں عملاً کوئی کردار نہیں رکھتا۔ یعنی میدان ہی سے
باہر۔ زیادہ ہوا تو "میدان" کے متعلق ایک اچھا تبصرہ نگار۔ اور اس صفر
کردار zero role رکھنے اور میدان سے باہر رہنے کو ہی ’منہج‘ اور دین قائم کرنے کا ’شرعی
طریقہ‘ جاننا۔
جبکہ ہمارا اختلاف ان دونوں کے ساتھ اس نقطہ پر
ہے کہ کسی نظام کے ساتھ تعامل (اس معنیٰ میں کہ وہاں کوئی کردار رکھا جائے اور اس
میں دستیاب مواقع کو حتى الامکان استعمال کیا جائے، نہ خاص اپنے لیے بلکہ اسلام
اور انسانیت کی بھلائی کےلیے) اس نظام کے حق ہونے کے ساتھ سرے سے نتھی نہیں ہے۔ لہٰذا جس چیز کو آپ "نظام" کہتے ہیں
وہ اگر اسلام نہیں ہے تو بھی اس کو جتنا اسلام اور مقاصدِ حق کی مطابقت میں لانا
ہمارے بس میں ہے، اتنا لے آنا – یا اسلام اور مقاصدِ حق کےلیے جتنا کچھ اس سے لیا
جا سکتا ہو، لے لینا ، اور مزید کےلیے گنجائش بناتے چلے جانا– سرے سے کوئی خلافِ شرع
عمل نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں، اس چیز کو خلافِ شرع قرار دینے والی کوئی دلیل دین کے
اندر نہیں ہے۔ (جبکہ "دین" کی تعبیر ہی "نظام" اور
"ریاست" سے کرنا جو ایک غیر مشروع نظام سے کوئی تعامل نہ رکھنے کی ’آپ
سے آپ دلیل‘ ہو، سرے سے ہمارے ہاں مسلم نہیں ہے۔ … ایک غیرمشروع "نظام"
میں مسلمان کا کوئی کردار رکھنا غیراللہ کے آگے رکوع و سجود وغیرہ مناسک بجا لانے
کے عمل میں "شمولیت" پر قیاس نہیں ہو گا، جیسا کہ پیچھے کہا جا چکا) ۔
ہمارے اس موقف سے مندرجہ ذیل باتیں لازم آتی ہیں:
1.
"نظام" سے متعلقہ امور
کو "شرک و توحید" کی ذیل میں لانا "مناسک" کی طرز پر نہیں ہو
گا۔ بلکہ "معاملات" کی طرز پر ہو گا۔ "معاملات" کا تعلق بھی "شرک
و توحید" یا "عبادت" کے ساتھ بےشک ہو سکتا ہے، لیکن "شعائر/مناسک"
کی نسبت ایک مختلف روٹ کے ساتھ۔ (مسئلہ کی تفصیل کسی اور موقع پر ان شاء اللہ)۔
2.
دنیا میں کوئی غیرمشروع سے
غیرمشروع "نظام" بھی ہو، مسلمان کا کردار وہاں پر معطل نہیں ہوتا۔
مسلمان کے وہاں کوئی کردار رکھنے کو "نظام" کے اسلامی ہونے سے نتھی (مشروط)
رکھنے کی کوئی دلیل شریعت کے اندر نہیں ہے۔ انبیاء و صالحین کا عمل ایسی کسی "نتھ"
کی توثیق نہیں کرتا۔ (بلکہ اس سوچ کا کچھ لاشعوری "استیحاء" شاید گزشتہ
صدی کی کمیونسٹ تحریکوں کے ’منہج‘ سے ہو گیا ہوا ہے جو وہ سرمایہ داری "نظاموں"
میں شمولیت کے متعلق رکھتی تھیں اور جس کا منطقی تتمہ "انقلاب" بنتا تھا…
یہاں تک کہ "انقلاب" خود ہماری تحریکی لغت کا بھی حصہ بن گیا، اللہ
اعلم)۔
3.
معاشرے اور معاشرتی اداروں میں
مسلمان کا کوئی کردار رکھنا جب وہاں کے "نظام" کے اسلامی ہونے کے ساتھ مشروط
نہیں ہے، تو پھر اس "نظام" کو ’مطابقِ اسلام‘ ثابت کرنے کےلیے خوامخواہ
کے تکلفات اور کھینچ تان کی کوششیں غلط ہونے سے پہلے غیرضروری ہیں۔ اسے ’مطابقِ
اسلام‘ ثابت کرنے کی یہ کارروائی اگر اس میں شرکت کی پیشگی شرط pre-requisite کے طور پر ہو
رہی ہےتو یہ بات بوجوہ نقصان دہ اور گمراہ کن ہو گی، یہاں تک کہ اپنا کیس کھو دینے
والی ایک چیز۔ معاشرتی اداروں میں کوئی کردار رکھنے کے باوجود اس "نظام"
کو غیر اسلام ہی ماننا، جبکہ وہ غیر اسلام ہی ہو، بوجوہ ضروری، دیانت کا تقاضا،
اور اپنے کیس کو صریح اور دوٹوک رکھنا ہے۔ جبکہ وہاں کوئی کردار رکھنے کو اپنے کیس
کی قربانی بنانا، یا اپنا کیس رکھنے کو وہاں اپنا کوئی کردار نہ رکھنے کا تقاضا
جاننا، یعنی ایک چیز لازماً دوسری کی قیمت پر… یہ دونوں انتہائیں شدید نقصان دہ
ہیں۔ غرض ’اسلامی جمہوری‘ ذہن یہاں ہمارے کیس کی قربانی ہے تو ’آئیڈلسٹ‘ ذہن یہاں
ہمارا کوئی کردار رکھنے کی قربانی۔ جبکہ
ہماری نظر میں ان دونوں کا ڈائلیکٹ dialect بنیاد سے غلط ہے۔
4.
مسئلے کا تعلق جب ہمارے نزدیک کسی
"نظام" کو سندِ حقانیت دینے کے ساتھ سرے سے نہیں ہے، تو پھر ’جمہوریت
اور آمریت‘ والا وہ ڈائلیکٹ بھی ہمارے لیے مسئلے کی کوئی اصولی بنیاد نہیں رہتا۔
ان "نظاموں" میں کمتر اور بدتر کا فرق تو بےشک ہمارے پیش نظر آ سکتا ہے –
گو اس موازنے میں بھی ہمارا پیرامیٹر کسی مخصوص صورتحال میں یہ رہے گا کہ مجموعی
طور پر کون اسلام یعنی اللہ کی عبادت سے قریب تر یا دور تر پایا گیا ہے – جبکہ ’اسلامی
جمہوری‘ ذہن کے ہاں ’جمہوریت بمقابلہ آمریت‘ بجائےخود سب سے بڑا پیرامیٹر۔ البتہ
جاہلی اشیاء کے اس "کمتر" و "بدتر" کو ہم "حق" و
"باطل" والے موازنہ سے نہیں بدلتے۔
*****
رہ گئی آپ کی آخری بات، تو اس کو "گزرتی
ٹریفک" کہنا، ٹوٹر پر
ایک سوال کے جواب میں ہوا، جس کا تعلق پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی
بھاری جیت سے تھا۔ ہمارا مطلب یہ تھا کہ اسلامی سیکٹر تو یہاں کے سیاسی عمل کو
کوئی "مین سٹریم پارٹی" دینے کی اہلیت یا شعور سے بہت پیچھے ہے۔ جبکہ جو
ہونا ہے وہ یہاں کی مین سٹریم پارٹیوں کے بیچ ہی ہونا ہے۔ یعنی ہم تو ’جمہوریت‘
میں ہونے کے باوجود "میدان" میں نہیں ہیں۔ لہٰذا ہمیں اس سے کیا خاص غرض
کہ یہاں کون جیتا اور کون ہارا۔ اپنے اسلامی مقاصد کےلیے تو یہ سب قریب قریب ایک
برابر ہے اور خاصی حد تک غیر متعلقہ۔ پس کسی کی جیت اور کسی کی ہار پر ہماری
گرمجوشی excitement چہ معنىٰ۔ چنانچہ اس پر ہمارا جواب تھا:
ہم اسلامیوں کےلیے تو
یہ ٹریفک گزرتی کو کھڑکی سے تکنے والا معاملہ ہے! عربی محاورہ: ما لنا فيها ناقة ولا جمل"نہ ہماری اس میں کوئی اونٹنی اور نہ اونٹ"!