اسلام کے انفرادی
شعائر بھی اس وقت کافر کے نشانے پر ہیں
تحریر:
حامد کمال الدین
گزشتہ
سے پیوستہ
ہمارے مضمون "بڑے
شر کے مقابلے پر" کے متعلق محترم شخصیت کا ایک کامنٹ:
گذارش
مضمون کے تناظر میں بس یہ ہے کہ اقامت دین سے مشروط یہ فقہی توسع یقیناً ہماری
تاریخ کا حصہ ہے۔ لیکن اس توسع کا اجراء و انطباق ما قبل سقوط خلافت عثمانیہ اور
ہے اور تنفیذ جدیدیت کے بعد توسع کا انطباق گو التزاما نہ سہی لزوم کی سطح پر اس "مغربی
اسلام" کی تقویت کا باعث بنتا ہے جس کے نتیجہ میں "ترکی اسلام کے لئے
سازگار" معلوم ہوتا ہے حالانکہ لبرل تصور حقوق انسانی سے بنیادی اختلاف کے
بعد ترکی کا مسلمانوں کی بابت ساز گار ہونا اور ہے اور اسلام کے لئے ساز ہونا چیز
دیگر است۔ نیز ترکی کا "اسلامی" جمہوری ماڈل جس سطح پر خارج و داخل میں
اسلام کاری کی تحریف معنوی کو جس طرح عام کررہا ہے اس پر اصلاحی تنقید کے بغیر اس
طرح کے تصویبی تبصرے ایک راسخ العقیدہ کی طرف سے سوء اعتقاد و منہج نہیں لیکن سوء
تعبیر کے ضمن میں ضرور آتے ہیں۔ خصوصاً جب اپنوں کا بڑا منہجی انحراف اغیار کے
مقابلہ میں اسلام کے لئے ساز گار ہونے کے مظاہر میں شمار کیا جائے حالانکہ یہ سب
مظاہر لبرل ازم کی "عطائی حریت" بمصداق "ہند میں جو ملا کو ہے سجدہ
کی اجازت" کے ہیں۔
-
طلحہ
عزیز
یقیناً
کچھ بحث طلب امور ہیں جو آپ نے اٹھائے ہیں۔ اصل موضوع پر آنے سے پہلے چند معروضات:
۱۔ "مسلمانوں کےلیے سازگار" کا لفظ بول لیں تو
بھی اصول وہی ہو گا: ایک ایسی صورت جو مسلمانوں کےلیے شدید ناسازگار ہے، بڑا شر ہو
گا بنسبت ایک ایسی صورت کے جو کم از کم مسلمانوں کےلیے سازگار ہے۔ بدتر کے مقابلے
میں اسے ترجیح دینا ایک اسلامی قاعدے ہی پر عمل ہو گا۔ "ہند میں سجدے کی
اجازت" کو اگر ہم نے اسلام کا کل مطلوب باور کرایا ہو پھر تو وہ شعر والی بات
ضرور ہم پر صادق آنی چاہیے۔ لیکن اگر ہماری یہ پوری گفتگو ("ایک بڑے شر کے مقابلے پر") اسلام کےلیے ایک "زیادہ ناقابلِ قبول"
اور ایک "کم ناقابل قبول" کے حوالے سے ہوئی ہو، تو یہ شعری نکتہ غیر
متعلقہ رہے گا۔
۲۔ جہاں تک "مسلمانوں کےلیے
ناسازگار" والی بات ہے، جیسے ماضی کے ترکی میں "فرد" سے متعلقہ
اسلامی شعائر تک پر پابندی ہونا اور خلاف ورزی پر سزائیں… تو وہ بھیانک صورت کسی
خطے میں اگر ایسی سازگار صورت کے اندر بدلتی ہے کہ مسلمان اپنے دین کے ’انفرادی‘
فرائض کم از کم ادا کر سکتے ہوں، پردہ یا نماز روزہ و اذان وغیرہ شعائر پر جہاں
آدمی کے خلاف ’قانون‘ حرکت میں نہ آ جاتا ہو تو ہم کہیں گے، اس خطہ کے مسلمانوں پر
خدا نے ایک مہربانی فرمائی ہے۔ جس پر خوشی بھی ہو گی، شکر بھی۔ ایسی ایک نِسبی relative بہتری لانے میں اگر کچھ انسانوں کی لگاتار محنت کو بھی کچھ دخل
ہے، تو فی نفسہ یہ سراہنے کی بات ہے۔ اُن انسانوں کی کسی بدعملی یا بدعقیدگی کو
مذموم جاننے کا اپنا ایک الگ محل بےشک ہو۔ یہ فی نفسہ کوئی چھوٹی نعمت نہیں کہ
کہیں پر آپ کی بیٹی کے سر سے اس کا حجاب نہیں نوچا جاتا اور مسلمانوں کی پنج وقتہ
اذان اس کے معلوم عربی الفاظ میں بحال کرنے پر آپ کو پھانسی تجویز نہیں ہوتی، بعد
اس کے کہ ایسا تھا۔ دو حالتوں کے اس واضح فرق کو شاعری کے کسی مصرعے سے ڈھکنا
غیرمؤثر رہے گا۔
۳۔ یہ درست ہے کہ تسامح (چھوٹ دینے) کے بعض
امور ایک صورتحال میں درست ہوں گے تو دوسری میں نا درست۔ سقوطِ عثمانیہ کے ماقبل و
ما بعد کا فرق کرنے سے بھی مجھے اصولاً اختلاف نہیں۔ اضافہ اس میں بس یہ کرنا ہے
کہ "ما بعد سقوطِ عثمانیہ" بھی ایک غیر معینہ عرصہ تک کوئی ایک ہی مرحلہ
نہیں رہے گا۔ ہو سکتا ہے سقوط سے متصل بعد کا تقاضا فی الواقع اور رہا ہو؛ کہ اتنا
بڑا شیرازہ سنبھالنے کی کوئی اسکیم سوچنے ڈھونڈنے کےلیے ذرا وقت لیا جائے؛ اور چلیے
اتنی دیر کےلیے معاملات وہیں تھمے رہیں، خصوصاً یہ کہ اپنا قد کاٹھ آپ فی الفور
"حاکم" سے "محکوم" اور "سلطنت" سے "فرد"
پر نہ لے آئیں۔ لیکن صدیوں تک کےلیے آپ زندگی کو بریک نہیں لگا سکتے۔ اس کو آپ راستے بنا کر نہیں دیں گے تو یہ خود
بنائے گی، جو بےحد خطرناک ہوں گے۔ یہ تو طے ہے کہ ایسے میں راستے سو فیصد آپ کی
مرضی کے نہیں ہوں گے، اور اسی بات کا نام "تسامح" ہو گا۔ اور ویسے کبھی ممکن
ہو تو عرض کروں، کتنا کتنا "تسامح" یہاں ہم سب کیے بیٹھے اپنے آپ کو
تسلی دیتے ہیں کہ ہماری ثابت قدمی مسلّم ہے! پس چناؤ ایسی حالت میں
"تسامح" اور "عدم تسامح" کا نہیں بلکہ ایک تسامح اور دوسرے
تسامح کا ہو گا۔ یہاں آپ کا کوئی کردار نہ ہونا میری نظر میں اتنا بڑا
"تسامح" ہے کہ کسی اور شے کو اس سے موازنہ نہیں۔ مختصر یہ کہ اپنے لیے
کتابوں کی دنیا سجا کر پورا میدان اپنے حریف کے سپرد کر دیا، اور اب بھی آپ کو
"تسامح" سے پرہیز ہے! دشمن آپ کے "نظام" والے دائرے کو روند
کر آپ کی "شخصی زندگی" میں گھس آیا اور ’حکومت‘ سے گزر آپ کی
"مسجد" تک آ پہنچا… جبکہ ہم یہ طے نہیں کر پائے کہ عمل کی دنیا میں یہاں
ہمارا کردار کیا ہو سکتا ہے۔ کیا ایک غیر معینہ مدت تک؟ سقوطِ خلافت کی دلیل سے؟
۴۔ معاملہ میری نظر میں ’تعبیر‘ سے بڑھ کر
ہے۔ میں فی الواقع ایک بات کا معتقد ہوں اور ان یوٹوپیا رویوں کا سخت ناقد، جو کسی
’خلافت‘ یا ’اسلامی انقلاب‘ یا (اب) ’ردِ جدیدیت‘ وغیرہ کے زیرعنوان، حالیہ مسلم
آبادیوں کے یہاں سر ہونے والے کچھ چھوٹے چھوٹے اہداف کو ہیچ جاننے… یا بعض عصری
خرابیوں میں گرفتار مسلمانوں کی خدمات کو بےقدری کی نگاہ سے دیکھنے… کا ایک
باقاعدہ ذہن پیدا کراتے ہیں۔
میرا
تعلق اس مدرسہ سے ہے جس کی طلب تو بلاشبہ "پورا اسلام" ہے؛ اور اس اسلام
کی ایک بھی بات سے پیچھے ہٹنا "وَاحْذَرْهُمْ
أنْ يَفْتِنُوْكَ عَنْ بَعْضِ مَا أنْزَلَ اللهُ إلَيْكَ" ایسی
ایمان کی فکر کروا دینے والی بات… تاہم – عمل کی سطح پر – یہ مدرسہ اسلام یا
مسلمانوں کے حق میں کسی "جزوی پیش رفت" کو بھی قدر ہی کی نگاہ سے دیکھتا
ہے۔ اور جانتا ہے کہ امت کا وجود صدیوں کے ایک عمل سے جن پےدرپے روگوں اور جن تہہ
در تہہ بحرانوں کا شکار ہوا ہے، اور دشمن کے ہاتھ یہاں جس قدر لمبے چلے گئے ہوئے
ہیں، اس سب کے ہوتے ہوئے، اس بھاری بھر کم وجود کے کسی ایک بھی عضو میں، کسی ایک
بھی پہلو سے، کچھ بہتری لانا جان جوکھوں کا کام ہے اور ایک غیرمعمولی خوشی کی بات۔
ایسے کسی واقعے کے پیچھے عموماً کچھ انسانوں کی ڈھیروں محنت ہوتی ہے جو – اپنی کچھ
فکری یا عملی خرابیوں کے علی الرغم – اس پر لائقِ شکر ہی ہوتے ہیں۔
بارِ
دِگر، مدرسہ کے یہ ہر دو مطالب واضح کر دوں: ایک اس کی "طلب" کا کامل
ہونا، جو کسی انسانی کمزوری یا کسی عصری جاہلیت کے ساتھ مفاہمت reconcile کرنا نہیں جانتی۔ دوسرا، عاملینِ اسلام کو ان کی سمجھ یا ان کی
ہمت یا ان کی استطاعت کے معاملہ میں خاصا خاصا عذر دیتے ہوئے ، اسلام یا مسلمانوں
کےلیے ان کے کسی نیک جذبے اور مفید کونٹری بیوشن کو بہت بہت قدر کی نگاہ سے
دیکھنا۔ یہ دونوں باتیں بیک وقت ہونا ہی اس نیریٹو narrative کا توازن ہے۔ ورنہ یا تو یہ ایک یوٹوپیا ہوتا ہے، یا ایک فکری تنزلی
(reconcile)۔ پہلی
صورت، کام سے جانا۔ اور دوسری صورت، اسلام سے جانا۔ اور ہر دو صورت، اسلام کا
بحران۔ یہاں فی الوقت، توازن کے ان دو میں سے ایک عامل کا بیان ہو رہا ہے:
آج
اِس دور میں اسلام/مسلمانوں کےلیے میدان
میں اترے ہوئے کسی شخص یا جماعت کو ہم اگر اسلام زیادہ نہیں سمجھا سکے، یا کسی کی
ہمت اگر مطالبِ حق کا زیادہ ساتھ نہیں دے پائی، یا کسی کی استطاعت کا دائرہ ہی اگر
فی الحال تنگ ہے… تو جتنا کوئی اسلام کو سمجھتا ہے، یا جتنا کسی کی ہمت ساتھ دے
پائی ہے، یا جتنا کسی کی استطاعت ہے، اتنا وہ اسلام یا مسلمانوں کے بھلے کا کوئی
کام کر جاتا ہے، تو اس پر ہم اس کو سراہتے بہرحال ہیں۔ کسی نے اگر اپنی پوری محنت
اور عمر لگا کر مسلمانوں کو ایٹم بم ہی بنا کر دے دیا جس سے طاقت کا توازن
مسلمانوں کے حق میں ایک گونہ بہتر ہو گیا، کسی نے مسلمانوں کےلیے کوئی آزادی کی
جنگ ہی لڑ دی چاہے ’نفاذِشریعت‘ کا کوئی روڈمیپ وہ اپنے پاس نہ بھی رکھتا ہو، کسی
نے جان مار کر مسلمانوں کو کسی ظلم سے ہی نجات دلا دی، کسی نے اپنی ’اسلامی
جمہوری‘ جدوجہد سے آپ کو ایک عدد قراردادِمقاصد ہی لے دی کہ جس سے عشروں یہاں
اسلام کے بدخواہوں کی نیندیں حرام ہوئی رہتی ہیں، قربانیوں سے لبریز ایک بھاری بھر
کم تحریک چلا کر کسی نے وقت کے ایک ’جمہوریہ‘ سے قادیانیوں کو کافر ڈیکلیئر کروا
دیا جس سے عالمی کفر کا ایک مؤثر اوزار tool یہاں اچھا خاصا ناکارہ ہوا رہا، کسی نے مسلمانوں کو اگر ایک مضبوط
فوج ہی دے دی، اسلحہ سازی یا کسی اور بنیادی صنعت میں مسلمانوں کو قدرے خودکفیل کر
کے کافروں کا دست نگر ہونے میں کچھ کمی ہی لا دی، کسی نے مسلمانوں کے استحصال کی
کوئی ایک بھی راہ بند کرنے میں کچھ مؤثر کردار ادا کر دیا… تعلیم، معیشت، انتظام،
سماجی ریلیف، کسی ایک بھی شعبے میں کسی مسلم آبادی کو دو چار قدم چلا دیا… دین اور
امت کے کسی ایک بھی دشمن کی خبر لے ڈالی، نبیﷺ کے کسی ایک بھی گستاخ کی زبان جا
کھینچی، امت کے بدخواہوں کا کوئی ایک بھی سیاسی یا سماجی یا تہذیبی یا معاشی یا
فوجی منصوبہ ناکام کروا دیا…… اگرچہ ’جدیدیت‘ وغیرہ کے متعلق وہ کچھ نہ کر سکا، یا
سمجھنے ہی سے قاصر رہا…… تو بھی یہ سب ہماری نظر میں بڑی بڑی نیکیاں ہیں؛ جن پر وہ
خدا کے ہاں ماجور ہو سکتا ہے۔ ہمارا اعتقاد: ان میں سے کوئی ایک بھی بات آدمی کے
حق میں بندوں سے کلمہٴ خیر کہلانے اور عنداللہ فائدہ دلانے کا موجب ہو سکتی ہے۔
اور اس باب میں، کسی مسلمان کی خدمات کےلیے دو اچھے لفظ بول دینے پر آدمی کو
’عقیدہ‘ و ’منہج‘ کی فکر کروا دینا ’عقیدہ‘ و ’منہج‘ کی ایک وحشت ناک جہت ہے۔
*****
اور
اب ہم اصل موضوع پر آتے ہیں: فاضل معترض کے الفاظ میں:
ترکی کا "اسلامی" جمہوری ماڈل جس
سطح پر خارج و داخل میں اسلام کاری کی تحریف معنوی کو جس طرح عام کررہا ہے اس پر
اصلاحی تنقید کے بغیر اس طرح کے تصویبی تبصرے؟
یہاں
ذکر کر دوں، فی زمانہ اسلام کا "جمہوری" ماڈل، یا جمہوریت کا
"اسلامی" ماڈل – اردو دنیا کی حد تک – جتنا ہماری تحریروں کے اندر ردّ
ہوتا ہے شاید بہت کم کہیں ہوتا ہو۔ اس سلسلہ میں ہمارے ویب سائٹ پر دیے گئے ضمیمہ
"ایک غیر شرعی سٹیٹس کو کے ساتھ تعامل" کا پہلا حصہ بعنوان "عقیدہ" (جس کے ذیل
میں باره مضامین دیے گئے ہیں، اور جو کہ سب کے سب اسلام اور جمہوریت کے اس نام
نہاد "ٹانکے" ہی کو موضوع بناتے ہیں) اور پھر تیسرا حصہ بعنوان
"اسلام پسندوں کا اس جاہلیت سے ذہنی طور پر متاثر ہونا" (جس کے ذیل میں
آٹھ مضامین دیے گئے ہیں)، یہ کل بیس (20) مضامین ایک نظر دیکھ لینا ہی ان شاء اللہ
کفایت کرے گا۔ علاوہ ازیں، "جدید ریاست" کو مسلمانوں پر تھوپنے سے متعلق
اور اس کے مقابل سماج و اجتماع کی ٹھیٹ اسلامی بنیادیں اٹھانے پر، کئی سو صفحات پہ
مشتمل ہمارا ایک خاص نمبر بعنوان "مسلم اجتماعیت، جدت پسند حملوں کی زد میں"۔ ابھی
سوشل میڈیا پر جس تکرار سے ہمارے ہاں یہ بات ہوتی ہے، وہ الگ ہے۔ اور ہماری کچھ
زیر طبع تالیفات اس پر مستزاد۔
اس
کے بعد سوال یہ رہ جاتا ہے کہ خاص ترکی کی ایک جماعت کا نام لے لے کر آخر ہم یہ
کام کیوں نہیں کرتے؟ اس پر دو مختصر باتیں عرض کر دوں:
۱۔ پڑھنے پڑھانے کی مجلسوں میں تو سب زیر
بحث آتا ہے، لیکن سوشل میڈیا کے چوک چوراہوں پر مسلمانوں کے جس بھی نظریاتی یا
تہذیبی انحراف کی ہمارے یہاں خبر لی جاتی ہے، وہ عموماً کسی جماعت کو موضوع بنائے
بغیر ہوتا ہے۔ دین سے وابستگی نبھانے والی جماعتیں تو خیر بہت اوپر کی چیز ہیں،
یہاں کی وہ سیاسی جماعتیں بھی جنہیں یہاں کا عرفِ عام ’مذہبی‘ نہیں گِنتا، اگر وہ
اپنی جماعتی حیثیت میں دین دشمنی تک نہیں گئی ہوئیں، تو انہیں بھی اپنی تنقید کے
اندر نامزد کرنا ہماری نظر میں ایک غیرضروری اور کسی قدر نقصان دہ امر ہے، جس کی
پوری وجوہات شاید ہم کسی اور مقام پر واضح کر سکیں۔ "عوامی" سطح پر، نام
لے کر رد کرنا ہمیں صرف ایسی جماعتوں کا اِس گھڑی مناسب معلوم ہوتا ہے جن کی اسلام
کے ساتھ مخاصمت عیاں ہو اور مسئلہ کسی فہم یا تاویل کی غلطی سے اوپر کا ہو۔ پس
تحسین کی بات ہو تو جماعت کا نام لیا جاتا ہے۔ مذمت کی بات ہو تو بغیر نام لیے۔
۲۔ اس سلسلہ میں سب سے اہم بات۔ کسی فکری یا
تہذیبی انحراف میں پڑی ہوئی دینی جماعت کو ٹارگٹ کر کے زیرِ نقد لانے کو بھی ہم
بےشک درست سمجھتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کب؟ جس وقت میدان میں اس کی جیت ہار
نوعیت کا مقابلہ کسی ایسی اللہ والی جماعت سے ہو جو اس کی نسبت اقرب الى السنۃ
والجماعۃ ہو۔ ایک عوامی نیریٹو narrative میں تو ہم
اس حد کو اُسی وقت جائیں گے۔ مگر کیا اس وقت جب مقابلے پر جیت سکنے والا حریف ایک
دین بیزار، ترکی کو اس کی پرانی پوزیشن پر لےجانے کے خواب دیکھنے والوں کا باقاعدہ
انتخابی چناؤ ہو؟ اور جس وقت پیرس تا کوپن ہیگن صلیبی پریس اس کے اندر چھپے ہوئے
"عثمانی خطرے" کی نشان دہی کرنے پر راتیں جاگ رہا ہو؟ اور جس وقت پورے
عالم اسلام کا لبرل اور دین بیزار طبقہ اس کا سقوط دیکھنے کےلیے دن گن رہا ہو؟ کہ
اتنی سی بھی کوئی پیش رفت عالم اسلام کے اندر مسلمان کے حق میں اُسے فی الواقع برداشت
نہیں ہے؟ ایسے میں، یعنی مقابلہ جب اسلام
دشمنوں سے ہو اور دو کیمپوں کا پورا زور لگا پڑا ہو، ایک عوامی بیانیہ کی حد تک تو
ہم دامے درمے سخنے قدمے اسے مضبوطی دینے ہی کی اپنی سی کوشش کریں گے، اگرچہ پڑھنے
پڑھانے سمجھنے سمجھانے کی مخصوص مجلسوں میں ہم اس کی کتنی ہی بڑی بڑی غلطیوں کی
نشان دہی کرتے ہوں۔ یاد رہے، ہماری گزشتہ تحریر "بڑے شر کے مقابلے پر" کا یہی مضمون تھا۔
*****
اوپر
اگرچہ ہم نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ’جمہوریت کے اسلامی ماڈل‘ کا بہت سارا
اِبطال کرنے سے پہلے ہم نے ترکی میں پیش آنے والے کچھ راحت رساں واقعات کی تحسین
نہیں کر دی ہے… پھر بھی یہ عرض کر دیں، ایسا ضروری بالکل نہیں ہے۔ ایسی کوئی ’شرط‘
پوری کیے بغیر بھی آپ اس قسم کے واقعات کی تحسین کر سکتے ہیں، بلکہ کرنی چاہیے۔ اس
کی کچھ وجہ مغرب کے ساتھ ہماری جنگ کی حالیہ نوعیت کے تحت آگے آ رہی ہے۔
*****
کچھ
مختصر بات مجھے فاضل دوست کی ذکر کردہ "لبرلزم کی عطائی حریت" پر بھی
کرنی ہے۔ میرا اپنا خیال ہے اس وہم میں رہنے کا وقت کئی عشرہ پہلے گزر گیا۔ یا یہ
کہ وہ جنگ کرنے میں ہم لیٹ ہو چکے؛ جب ترکی کی یہ جماعت شاید منظرِ عام پر بھی
نہیں آئی تھی۔ یہ ایک سہانا تصور کہ ترکی میں آپ اسلامیوں کو اِس وقت جو کچھ بزورِ
حکومت مل رہا ہے، وہ تو خود لبرلزم ہی آپ کو دینا چاہتا ہے! بہت لیٹ ہو چکے ہم ان
مفروضوں کےلیے۔ اب جب لبرلزم اپنے کھانے کے دانت باہر لا چکا، ہنوز یہ خوش قیاسی؟
یہ پرانے وقتوں کی باتیں ہیں جب آپ کا پردہ اور نماز وغیرہ آپ کی ’شخصی آزادیوں‘
کے طور پر اُس کو قبول تھا اور جب ایک
معاصر کفر کی سیلزمین شپ salesmanship یہ اشتہار
دیا کرتی تھی کہ آپ برقعہ پہنیں یا بکینی، مسجد جائیں یا نائٹ کلب، بس یہ ’آزادی‘
دینا اور منوانا ہی اس کا دین ہے! اس کے وہ ابلیسی پرت تقریباً اتر چکے؛ اور آپ کا
برقعہ اب وہ – خدا نخواستہ – عجائب گھر میں رکھوانے کی تیاری کر رہا ہے۔ یہاں تو
میرے دوست آج وہ حکومتیں غنیمت ہوں گی جو قومِ لوط کے جلسوں اور مظاہروں کو اپنے
یہاں بین ban رکھنے کی ہی
’جرأت‘ کیے رکھیں اور جہاں کا سنتری ان کا قوس قزح والا سدومی غلاظت سے لتھڑا
جھنڈا راستے کے ڈسٹ بن میں پھینک کر آتے ہوئے ایک چین اور اطمئنان کی مسکراہٹ دے
سکے۔ یہ بھی نجانے کتنے دن ہے، فکر فی الحال اس کی کریں۔ بےشک خدا سے اچھی ہی امید
رکھنی چاہیے، لیکن ’افق‘ پر دیکھیے تو نہ صرف اس نام نہاد لبرلزم کے متعلق آپ کی
بہت ساری خوش فہمیاں اُڑ کر رہ جانے والی ہیں (خصوصاً یہ کہ آپ کے ’شخصی‘ اسلام کو
یہ کچھ نہیں کہے گا۔ اور کچھ بھلے مانسوں کا تو خیال، یہ آپ کے شخصی اسلام کو
’پروٹیکٹ‘ کرے گا!) بلکہ کچھ خاص شخصی و خانگی امور ہی میں آپ کا ایک جبری ری شیپ reshape کر وانے پر مبنی ’لطیف و
بلیغ‘ عالمی فرمائشوں کے آگے یہاں کی بہت سی مسلم حکومتیں یکے بعد دیگرے سرنڈر کر
جانے والی ہیں۔ اُس دن شاید ہمیں یہ بھی لگے کہ قومی سطح پر ایمان کے بعد ہماری
بڑی ضرورت ایک مضبوط اکانومی تھی۔ beggars can’t be choosers ، اصل خوف تو یہاں سے جاری ہونے والے اِس
ایک دُور رَس ’پالیسی بیان‘ سے مجھے اُن بھیانک عالمی فرمائشوں سے متعلق آ رہا ہے
جو – خدا نخواستہ – اس برہنہ تہذیبی سرنڈر کا تقاضا کریں گی جو ابھی تک آپ کے یہاں
نہیں ہوا۔
*****
شاید
یہ بات میں کہیں اور بھی عرض کر چکا ہوں، "نظام" والی آپ کی وہ جنگ اور
اس سے ملحقہ جمہوریت بمقابلہ خلافت یا نیشن سٹیٹ بمقابلہ روایتی اسلامی قلم رَو
وغیرہ ایسے مباحث بڑی اچھی چیز ہے، لیکن آج کی صورتحال کےلیے بہت پرانی outdated ہو چکی۔ اب یہ جنگ سرے سے
"نظام" والے نقطے سے گزر کر "معاشرے" والے نقطے پر جا کھڑی
ہوئی ہے۔ وہ جنگ کسی وجہ سے ہم نہیں لڑ سکے، یا ہمارے لڑنے کی نہیں تھی، اب البتہ
اُسی کے مباحث میں گھومتے پھرتے رہنا اور قلم و قرطاس کے جہان میں اُسی کے معرکے
جیت جیت کر خوش ہونا، جہاں آپ کا حریف ان بحثوں کےلیے وہ گرمجوشی تک نہیں رکھتا
کیونکہ اُس کا فوکس اب کچھ اور ہے… یہ سب آپ کو حالیہ میدان سے باہر رکھنے کا موجب
ہو گا۔ یعنی اِس سے بھی آپ لیٹ ہو جائیں گے۔ اس حالیہ جنگ کا بھی اگر آپ نے وقت
گزار دیا تو شاید کھونے اور پچھتانے کو یہاں کچھ نہ رہے، لا قدَّرَ اللہ۔ بنابریں؛
اپنی ان قومی جمہوری ریاستوں کے پیچ اب جا کر ڈھیلے کرنا اور ان کے ڈھانچوں کی
تصحیح و مرمت کے کچھ گہرے مباحث اب اٹھانا ایک طالبعلمانہ سرگرمی تو بےشک ہونی
چاہیے، لیکن ایک دعوتی تحریکی سرگرمی کے
طور پر یہ ایک بےوقت کی راگنی ہو گی۔ دشمن کو آپ کی ایسی کسی سرگرمی سے کوئی خطرہ
نہیں، ہاں یہ اُس کو عالم اسلام میں اپنا حالیہ معرکہ سر کرنے کےلیے موقع ضرور دے
سکتی ہے، التزاماً نہ سہی لزوماً! اب تو یہاں کا جمہوری بھی اور خلافتی بھی، وطنی
بھی اور عالم گیریت پر ایمان رکھنے والا بھی، پارلیمانی بھی صدارتی بھی اور
اِمارتی بھی، قدامتی بھی اور عصری بھی، سب مسلمان اس جنگ کا عَلم اٹھا لیں جس پر
ان کا کوئی اختلاف نہیں، قبل اس کے کہ خدانخواستہ اس پر بھی ان میں اختلاف ہو جائے
(مکتبِ استشراق کی صلاحیت کو ہرگز معمولی نہ جانیے) اور میدان ہاتھ سے نکل جائے۔
اور وہ ہے:
v
وحدتِ ادیان یا تقاربِ ادیان کی اٹھتی ہوئی آندھیاں جو
کچھ ہی دیر میں یہاں کا بہت کچھ تہ و بالا کر دینے والی ہیں۔ اس کے مقابل، ملتوں
کے فرق کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرنا۔
v
ایک کھلے الحاد کے خلاف قوم کو متحد و یک آواز کرنا، جس
کا ایک ہراول لبرلزم اور دوسرا فیمنزم ہے۔ اس کے خلاف کم از کم بھی، ویسی ہی ایک
مزاحمت اٹھانا جیسی ہم نے کچھ عشرے پیشتر ’سرخوں‘ کے خلاف اٹھائی تھی۔
v
نام نہاد پلوریلٹی plurality کے خلاف آپ کی ایک سخت ترین قلعہ بندی؛ اسلام کو واحد سچا دین ("واحد"
پر خصوصی زور)… واحد سچا دین کہنے اور کہلانے پر یہاں بچےبچے کو پختہ کر دینا؛ اور
اس ایک ہی مہم کو عالم اسلام میں باقاعدہ ایک تحریک کے طور پر لینا۔ (’نظام‘ وغیرہ
کی بحثوں کو بھول کر)۔
v
زنا (معاصر کفر کا اہم ترین تہذیبی ہتھیار) اور اس کی
راہ ہموار کرنے والے جملہ سماجی دھاروں کے خلاف قومی سطح پر ایک درجہ کی ’ہنگامی
حالت‘ کا اعلان، بلکہ جنگ کے نقارے۔
v عالم اسلام میں رہی سہی اسلامی معاشرتی قدروں کا
ایک شدید ترین تحفظ، باقاعدہ ایک احساس بیدار کرتے ہوئے کہ ہمارے ہاتھ میں یہ
اسلام کی آخری چیز رہ گئی ہے جسے ہم سے لینے کےلیے دشمن کے ان گنت لشکر میدان میں
اتر چکے۔
v
قادیانیت اور ارتداد کے جملہ مظاہر کے خلاف سرکاری اور
نجی ہر سطح پر بڑے بڑے ناقابلِ عبور بند باندھنا۔
v
کم از کم فرد سے متعلقہ اسلامی قوانین کی ایک از سر نو
قلعہ بندی fortification ۔ جتنا جتنا
کسی ملک کا آئین اور قانون اسلام کا ساتھ دیتا ہے، یا جتنا جتنا کسی ملک کا آئین
اور قانون وہاں پر دستیاب عوامل کی مدد سے اسلام کی موافقت میں لایا جا سکتا ہے لا
کر، یا خوش اسلوبی کے ساتھ نہ کہ محاذآرائی کی راہ سے اس کی کوشش کر کے، کم از کم
اس آئین اور قانون کے دائرے میں اسلامی سماجیات پر عملدرآمد کی ایک غیرمعمولی
تحریک اٹھا دینا۔ ریاستی اداروں اور ان کے تمام تر امکانات کو – کم از کم اس دائرہ
میں – اسلامی قوانین کی پشت پر لانا۔ اور ہر قسم کے ’نظام‘ اور ’حکومت‘ سے اس پر جس
قدر مدد ملتی ہو، لینا اور اگر وہ کریں تو اس پر تحسین و حوصلہ افزائی کے لہجے عام
کرنا۔ اسلام (یا مسلمان) کے حق میں ہونے والے اس کے کسی اچھے اقدام کو ’جمہوریت‘
یا ’آمریت‘ یا ’نظام کی نوعیت‘ وغیرہ کے کھاتے میں ڈال کر بےوقعت نہ کرنا۔ (نجاشی
کی مثال ہمارے "فقہ الموازنات" میں ان گنت پہلوؤں سے لاگو ہوتی ہے)۔
v اسلامی شعائر مانند نماز روزہ، مسجد، قرآن،
اذان، حج، قربانی، حجاب، ارحام و محرمات کی حرمت، نکاح، وغیرہ کی ایمپاورمنٹ empowerment اور ان کے تقدس کی ایک انتہائی دھاک بٹھانا جو آئندہ کچھ
مرحلوں میں ہمیں غیرمعمولی کام دینے والی ہے، بصورتِ دیگر اس سے دشمن کا کام ہمارے
یہاں غیر معمولی حد تک آسان ہو جانے والا ہے۔
v
اور ہو سکے تو ریاست کو قومی سطح پر نماز "قائم
کروانے" تک لے کر آنا، یا اس کی تحریک چلانا؛ جو ایک دُوررَس طور پر یہاں کے
نقشے تبدیل کر سکتا ہے۔
v
نبیﷺ کی ناموس سے متعلق لہجوں کو انتہائی حد تک مضبوط اور
حساس کر دینا؛ جو اِس گلوبل ولیج کے اندر بذات خود ایک بہت بڑی جنگ کا عنوان اور
تہذیبوں کا ایک زبردست اکھاڑا ہے۔
v
تعلیمی اداروں میں قرآن کی تعلیم کا اِحیاء، جو ہمارے
کئی عشروں کا راستہ کھول دینے والی ایک چیز ثابت ہو گا، ان شاءاللہ۔ حکومتی صفوں
میں، بلکہ اپوزیشن جماعتوں تک میں، نیز سرکاری مشینری کے اندر موجود صالح پُرزوں میں،
اس کے مؤیدین ڈھونڈنا، اور تالیفِ قلوب کی راہ سے، نیز لابنگ lobbying کی سائنس کو بروئےکار لاتے ہوئے، یہاں پر اِس
دُوررَس اثر کے کچھ جزوی اہداف سر کرنا۔
آج
میرے خیال میں یہ جنگ لڑنے کی ہے۔ عالم اسلام میں اِس وقت قائم بہت سے جمہوریت کے
اسلامی یا اسلام کے جمہوری ماڈل بھی – جن میں آپ کا ملک سرفہرست ہے – اپنے آئین
اور اپنے قوانین کے اندر ایسا بہت کچھ رکھتے ہیں جس سے آپ لادینیت کے خلاف اپنی اس
جنگ میں اچھی خاصی مدد لے سکیں۔ ایک قراردادِمقاصد ہی، اگر اس کی پچ پر کھیلنے کا
فیصلہ ہو جائے، یہاں لادینیت کا کچومر نکال دینے کو کافی ہے، ان شاء اللہ۔ ہم کہتے
ہیں، یہ جو پڑا ہے اس کو کم از کم اٹھا لیں۔ اور جتنا جتنا، جو جو کچھ، جس جس
انداز میں، کسی ملک کے اندر آپ کی اس جنگ میں کام دینے کو ہاتھ آتا ہے (کہیں پر
ملکی قوانین لادینیت کے خلاف آپ کی اس جنگ میں قدرے سازگار ہوں گے جبکہ اس کے
حکمران ناسازگار، جیسے اس وقت پاکستان میں۔ جبکہ کہیں پر حکمران قدرے سازگار ہوں
گے جبکہ وہاں کے قوانین نازسازگار، جیسے اس وقت ترکی میں)، اس کو بہرحال نہ
چھوڑیں۔ اور اس کو بھی موقع جانیں قبل اس کے کہ یہ نکل جائے؛ کہ یہ جنگ نجانے کیا
کیا پینترے بدلنے والی ہے۔ پس جو نہیں مل سکتا اس پر ابھی زور لگانے کی بجائے، جو
مل سکتا ہے اسی کو اپنی اِس حالیہ جنگ میں بروئےکار لانے کی ایک زیرک اسکیم سامنے
لائیں۔ کوئی آپ کے کہنے سے اپنی ریاست کا ڈھانچہ نہیں بدلنے والا۔ جمہوری سے اس کو
غیر جمہوری یا غیرجمہوری سے جمہوری نہیں کرنے والا؛ جبکہ وقت تیزی کے ساتھ آپ کے
ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے اور آپ مسلسل پیچھے دھکیلے جا رہے ہیں، اگر ادراک کر لیں۔
اٹھ آئیں وہاں سے۔ جنگ کو اس (جمہوریت Vs غیرجمہوریت)
نقطے پر ہی فریز freeze کر دینا اور وہاں سے ہلنے نہ دینا آپ کی ہار اور
اُس کی جیت ہے؛ کیونکہ آپ کا حریف کب کا اس جنگ سے فارغ ہو چکا۔ باقی سب کچھ کو
اِسی ایک نقطے پر موقوف رکھنے کا مطلب:
باقی سب امور میں بھی مسلسل آپ کی ہار اور اس کی جیت۔ یعنی وہ سب کچھ کرے گا؛
کیونکہ اُس کا تو کچھ رُکا ہوا ہوا نہیں ہے۔ جبکہ آپ کچھ نہیں کریں گے؛ کیونکہ آپ
کا سب کچھ اُسی ’تصفیہ طلب‘ نقطے پر تھم گیا ہوا ہے۔ کیونکہ یہ پتھر تو فی الحال نہیں ہلنے کا، خواہ
آپ جو بھی کر لیں۔ اُدھر زمانہ روز ایک نیا چیلنج لاتا ہے۔ ایسے ہر چیلنج پر آپ کی
طرف سے کوئی کردار سامنے نہ آ سکنا، اس لیے کہ
آپ کا کوئی تصفیہ پیچھے کہیں رہ گیا ہوا ہے؛ لہٰذا ایک غیرمعینہ مدت تک
زمانہ چلتا چلا جائے گا اور ہم وہیں پیچھے کے کسی مقام پر بیٹھیں گے!؟ لامحالہ آپ کو وہ فریکوئنسی frequency درکار ہےکہ اس نظام میں – جو فی الحال کہیں نہیں جا رہا –:
o
جو کچھ آپ کو اسلام یا مسلمان کےلیے فی الوقت مل سکتا
ہے، یا کچھ کوشش اور موقع پیدا کر کے لیا جا سکتا ہے، آپ کے یہاں وہ نری ٹھکرانے
کی چیز نہ ہو۔ "دستیاب" کے ہی – خواہ وہ کتنا ہی کم ہے – ایک سے ایک بڑھ
کر دانشمندانہ استعمال کی کوئی اسکیم لانا ہو گی۔ بصورتِ دیگر، آپ پچھلی ہی نہیں
اس حالیہ جنگ سے بھی باہر ہیں۔
o
جو اچھے لوگ (یعنی اسلام اور مسلمانوں کےلیے نسبتاً
سازگار لوگ) یہاں اپنے سے بدتر لوگوں کو پچھاڑ کر یا میرٹ میں انہیں پیچھے چھوڑ
کر، اعلیٰ پوزیشنوں پر آئیں – چاہے وہ سیاسی پوزیشنیں ہوں یا انتظامی یا عسکری یا
کوئی اور – ان کو اس ’نظام‘ میں ہونے کے طعنے دیے بغیر، اور ان کی بابت ایسی منفیت
پیدا کرائے بغیر (جس کی ایک مثال: ترکی میں پیدا ہونے والی حالیہ اسلام دوست یا
مسلمان دوست فضا کے حق میں بولے گئے دو اچھے لفظ بھی برداشت نہ کر پانا)… یہ
"نسبتاً اچھے" (اسلام اور مسلمانوں کےلیے سازگار تر) لوگ اپنی اس پوزیشن
سے جو جو کچھ اسلام کےلیے بآسانی کر سکتے ہوں، اس کےلیے انہیں خوب خوب ترغیب دینا،
اور اگر وہ واقعتاً کچھ ایسا اچھا کریں جو ان پوزیشنوں پر ان کے پیش رَو نہیں کر
رہے تھے (موازنہ ہمیشہ میدان میں پائے جانے والے معاصرین سے، نہ کہ فرشتوں سے، یا
کسی اور عہد کے غیر معمولی کرداروں سے) تو اس پر ان "نسبتاً اچھے" لوگوں
کو کسی اگر مگر کے بغیر سراہ دینا اور مزید کےلیے ان کی حوصلہ افزائی کر دینا، اور
اگر وہ اپنے حریفوں کے مقابلے پر واقعتاً اسلام یا مسلمانوں کے حق میں کچھ مفید
معلوم ہوں تو ان کے ہاں پائی جانے والی کمیوں کوتاہیوں اور زیادتیوں سے کچھ صرفِ
نظر بھی کر لینا تا کہ وہ اپنے حریفوں کے مقابلے پر مضبوط ہی رہیں، نیز وہ جس
’نظام‘ میں ہونے کے باعث اپنی اس پوزیشن سے اسلام یا مسلمانوں کو کچھ فائدہ دے رہے
ہیں اس ’نظام‘ سے متعلقہ ان کی مجبوریوں
اور محدودیتوں limitations کا بھی ادراک رکھنا…… یہ سب آپ کے یہاں ہکا بکا
ہو کر دیکھنے اور ناں ناں کرنے کی باتیں نہ ہوں۔ اتنا سا پیش اِقدام pro-active آپ کو بہرحال ہونا ہو گا۔
اس تحریر کا پہلا حصہ اس لنک سے