ایک بڑے شر کے مقابلے پر
تحریر:
حامد کمال الدین
اپنے
اس معزز قاری کو بےشک میں جانتا نہیں۔ لیکن سوال کی نوعیت سے، میں ان کی بہت
زیادہ قدر کرتا ہوں۔ یعنی ایک تو دینی امور کو سنجیدگی سے لینا اور معاملہ میں
ناقدانہ نظر رکھنا۔ دوسرا، تصحیح و اصلاح کی راہ سے مجھ ایسوں پر مہربان ہونا۔
ایک
ترک خاتون کے متعلق میرے ہاں ایک پوسٹ ہوئی، جسے دو عشرے پیشتر حجاب پہننے کے جرم
میں ترک پارلیمنٹ سے نکال باہر کیا گیا تھا۔ بلکہ ترک شہریت ہی سے محروم کر ڈالا اور کچھ مزید زیادتیوں کا بھی نشانہ بنایا گیا
تھا۔ جبکہ اسی خاتون کی باحجاب بیٹی اِن دنوں کسی عالمی کانفرنس میں صدر مملکت کے
ہمراہ ان کی سرکاری مترجم بن کر شریک ہو رہی ہے۔ اس پر میرے اس محسن نے یہ کامنٹ
کیا، جسے میں قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں:
[تو عورت کا گھر سے نکل کر جمہوری سیاست میں شرکت قابل
تقلید نمونہ نہ سہی معیار عزت و شرف ہے؟ اور کیا ترکی کے لبرل تناظر کی وجہ سے
جدیدیت کے ذریعہ در آنے والے انحرافات معاصر دینی تحریکوں کے لئے قابل قبول ہوسکتے
ہیں؟ شیخُنا خدارا آپ کا توسع تساہل میں نہ ڈھل جائے۔۔۔ معذرت] طلحہ عزیز
جواب:
معذرت کی ضرورت نہیں۔ اگر آپ نے دینی حمیت یا دینی تقاضے کے
تحت یہ بات کی ہے، اور میرے گمان میں ایسا ہی ہے… تو دین اور اس کے مقررات ہم سب
سے بالاتر ہیں۔ بس چند باتیں گوش گزار کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے:
یقیناً میرے ہاں اس واقعہ کی ایک گونہ ستائش یا اس پر کچھ
اظہارِ مسرت ہوا ہے، کہ ترکی دین دشمنی کی اس بھیانک حالت سے نکل کر کہ ایک خاتون
کو "حجاب" ایسا ایک اسلامی شعار رکھنے کی پاداش میں پارلیمنٹ بدر بلکہ
ملک بدر کر دیا جاتا ہے… دو عشروں کے اندر اندر… وہی ترکی دین کے ساتھ اس قدر
سازگار ہو جاتا ہے کہ اُسی خاتون کی ایک باحجاب بیٹی کسی عالمی کانفرنس میں اپنے
ملک کے صدر کے ہمراہ شریک ہوتی ہے۔ نیز اس جیسی بےشمار "حجاب" والیاں آج
یہاں کی مقتدر پوزیشنوں پر فائز دیکھی جا رہی ہیں۔ اور یہ معاملہ مسلسل رُو بہ
ترقی ہے۔ اعتراض اگر میرے اس ایک گونہ ستائش یا اظہارِ مسرت کر دینے پر ہوا ہے، تو
"مفہومِ مخالفہ" کی رُو سے، گویا ترکی میں اس عظیم الشان تبدیلیِ حالات
کو میرا اتنا سا سراہ دینا یا اس پر خوشی کا اظہار کر دینا بھی دینِ اسلام کی خلاف
ورزی ہے (یا ’منہج‘ سے میری ناواقفیت کی دلیل!)۔ اس پر چند باتیں مجھے عرض کرنا
ہیں:
1.
ایک مبحث ہے:
ایک کمتر شر کے ہاتھوں ایک بڑے شر کا مات کھا جانا۔ ایسا کوئی واقعہ ہمارے اصول
میں یقیناً سراہے جانے کے قابل ہے۔ مسلمان ایسے کسی واقعے پر خوش بھی یقیناً ہوتے
ہیں۔ محض سراہنا یا خوش ہونا تو شاید ایک چھوٹی بات ہو، جہاں آپشن آپ کے پاس صرف
یہی دو ہوں، یعنی یا بڑا شر یا چھوٹا شر، وہاں بڑے کے مقابلے پر چھوٹے کو اختیار
کرنا یا اس کے ہاتھ مضبوط کرنا تک ایک درست اسلامی اصول ہے۔ یعنی ہم تو، جہاں
ہمارا بس ہو، اور جہاں ہمارا کوئی اقدام اثر رکھتا ہو، اس کی حمایت اور تقویت تک
جائیں گے ۔ اور یہ بات ہمارے اسلامی اصولوں کے خلاف نہیں، عین موافق ہے۔
2.
دوسرا مبحث، اس
اشکال کا جواب ہے کہ ایک طرف آپ ایک شےء کو "شر" مانتے ہیں اور دوسری
طرف اس کےلیے اظہارِ مسرت کر جاتے (اور اب تو اس کے ہاتھ مضبوط کرنے کی بات کرتے!)
ہیں؛ تو کیا یہ "کھلا تضاد" نہیں؟ بادی النظر ایسا ہی ہے! ایک چیز اگر
شر ہے تو اس پر خوشی یا اس کی تحسین کیسی؟ مگر یہ دنیا بہت پیچیدہ ہے؛ اور ہمارے
اسلامی اصول – اللہ کے فضل سے – ان سب
پیچیدگیوں کا احاطہ کرنے والے۔ ایک شے کو دیکھنے کا دراصل ایک ہی زاویہ نہیں ہوتا۔
کسی وقت اس کی ایک مجرد یا اصولی یا کتابی (اکڈیمک academic ) حیثیت دیکھی جاتی ہے، اور اس میں آپ کو طے کرنا ہوتا ہے آیا وہ
خیر ہے یا شر، جو کہ کسی قدر آسان ہے۔ فرض کریں اس اصولی یا کتابی (اکڈیمک) حیثیت
میں ایک شے آپ کے ہاں شر قرار پائی ہے۔ تا ہم کسی وقت اس اصولی یا
کتابی شر کو آپ نے ایک "دی ہوئی صورتحال" کے اندر رکھ کر دیکھنا ہوتا ہے۔
یہاں آپشن اگر اُس شر اور اُس کے مقابلے پر کسی خیر کے مابین ہے، تو آپ ایک لمحہ
توقف کیے بغیر اس کو رد کر دیں گے۔ یہاں اس کو سراہنا گناہ کے زمرے میں آئے گا۔
اور اس کےلیے اظہارِ مسرت، نفاق کی ایک قبیل۔ وہ کتنا ہی چھوٹا شر کیوں نہ ہو، آپشن جب اس کے اور خیر کے مابین ہو، تو وہ رد ہی
ہو گا۔ یہاں؛ اس کی تائید کرنا اور اس کے ہاتھ مضبوط کرنا حق دشمنی کہلائے گا اور
صاف ایمان کے منافی ایک رویہ۔ تا ہم آپشن اگر اُس شر اور اُس کے مقابلے پر اُس سے
کہیں بڑے ایک شر کے مابین ہے، تو یہاں ہمارا جواب ہمارے پچھلے جواب سے یکسر مختلف
ہو گا، اور یہ وہی جواب ہے جو شروع میں دیا جا چکا۔ اس کی ایک مثال: سیکولرزم کا
پالا جس وقت دینِ حق کے ساتھ پڑا ہو – جیسے ہمارے ملکِ خداداد میں، یا بیشتر
اسلامی ملکوں کے اندر، جہاں مقابلے پر دینِ محمدﷺ ہے – وہاں یہ (یعنی سیکولرزم) رد
ہی رد ہے۔ یہاں اس کےلیے ادنیٰ ترین نرمی دکھانا اگر کسی جہالت کے تحت نہیں ہو رہا
تو وہ صاف اسلام دشمنی ہے۔ البتہ سیکولرزم کا پالا جس وقت کسی اور باطل دین سے پڑا
ہو – جیسے بھارت میں کسی نام نہاد ہندو راج کے مقابلے پر سیکولرزم – وہاں، یعنی
ہندو راج کے مقابلے پر، ہو سکتا ہے سیکولرزم ہی چھوٹا شر قرار پائے، اور وہاں یعنی
بھارت میں بعض مسلمان گروہوں کا ایک متعصب ہندو راج کے مقابلے پر کسی سیکولر آپشن
کے ہاتھ مضبوط کرنا ایک صائب اجتہاد ہو۔ اسی طرح کسی مسلم ملک میں فرض کریں
انگریزی قانون اور انگریزی تہذیب کے مقابلے پر ایک بدعتی ٹولہ میدان میں آتا ہے،
جس کے شریعت قائم کرنے میں بہت سی بدعات بھی لازماً ساتھ ہوں گی… تو ایک
"اصولی" و "کتابی" حیثیت میں بےشک اس بدعت کو ہم شر مانتے
ہوں، لیکن آپشن اگر صرف یہی ہے کہ یا تو وہ کھلا کفر ہو یا یہ بدعت ہو، تو ہم کسی
ادنیٰ تامل کے بغیر ایک بدعت کو اس کفر کے مقابلے پر ترجیح دیں گے، اگرچہ – کسی
دوسرے محور پر – ہماری پوری زندگی اس بدعت کی مذمت میں گزری ہو، اور اب بھی ایک
اصولی حیثیت میں ہمارے ہاں اس کی مذمت ہی ہوتی ہو۔ پس بدعت کو دیکھنے کی ایک نظر
ہو گی بمقابلہ سنت؛ جس میں اسے سراہنے یا قبول کرنے کا سوال ہی نہیں۔ جبکہ اسی
بدعت کو دیکھنے کی ایک دوسری نظر ہو گی بمقابلہ کفر، یا بمقابلہ اس سے کوئی بڑی
بدعت۔ یہاں اس کی جیت پر ہمارے ہاں خوشی بھی ہو گی اور "دوسرے" کے
مقابلے پر اسے ترجیح بھی حاصل رہے گی۔ یہ پورا مبحث "فقہ الموازنات" کے تحت
اہل علم کے ہاں بیان ہوتا ہے اور ہمارے ایقاظ ویب سائٹ پر اس کےلیے
ایک ضمیمہ مختص ہے،
خواہشمند اس سے رجوع کر سکتے ہیں۔
3.
ایک شے کو
دیکھنے کے اگر دو محور ہیں: ایک "اصولی"، اور دوسرا ایک "دی ہوئی
صورتحال" میں رکھ کر… تو ہمارے بیانیہ narrative میں
ان دونوں کی اپنی اپنی جگہ رہے گی۔ یہ وجہ ہے "جدیدیت" اور اس کے بطن سے
پیدا ہونے والی "جمہوریت" اور اس "جمہوری پیکیج" کے مختلف
اجزاء کی مذمت بھی ہماری تحریروں میں الحمد للہ خوب ہوتی ہے، جبکہ واقعاتی سطح پر
اسی (جمہوری یا ماڈرن پیکیج) سے متعلقہ بعض امور کے ساتھ "تعامل" بھی
ہمارے یہاں بیان ہونے سے نہیں رہتا۔ نیز اس میں ہونے والی بعض اچھی پیش رفتوں کی
تحسین یا تائید یا حوصلہ افزائی ہونے سے بھی نہیں رہتی۔ کچھ احباب ہماری اس بات کو
"تضاد" پر محمول کرتے ہیں، جس کا جواب پیچھے دیا جا چکا۔ جبکہ ہمارا
کہنا ہے، آپ مسئلہ کے ان ہر دو پہلو سے مستغنی رہ ہی نہیں سکتے؛ یہ دونوں آپ کو
بیک وقت چلانے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک طرف کو لڑھکنا اپنا توازن کھو دینا ہے؛ اور
یہی اس وقت کا ایک بڑا مسئلہ۔ پس یہاں دو انتہائیں ہوئیں:
i. ایک شے جو شرع سے "اصولی" طور پر ہٹی ہوئی ہے تاہم کسی "دی
گئی صورتحال میں" – یعنی اس سے بڑے کسی شر کے مقابلے پر – وہ ہمارے ہاں قابل ترجیح
ٹھہری ہے؛ اس کی گنجائش اِس لحاظ سے بےشک ہے… تاہم ایک طبقہ یہ "ترجیح"
دیتے دیتے اسی کو آئیڈیلائز کر بیٹھتا ہے۔ یعنی یہ اُس چیز کو اصولی طور پر بھی
درست اور حق سمجھنے لگتا ہے (تعلیمِ عقیدہ پورے زور اور تسلسل کے ساتھ نہ ہونے کا
ایک طبعی نتیجہ۔ یا پھر ماڈرنزم کے ساتھ ایک فکری مفاہمت ideological
reconcile)۔ اس کی مثال: حالیہ جمہوری مصنوعات اور "ماڈرن
سٹیٹ" کے بہت سارے مشتقّات derivatives
کو عین حق اور موافق اسلام ثابت کرنے والی جماعتیں۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض تو
خلافتِ راشدہ کو ان (جدید) معیارات کی سند دلوانے کی کوشش کرتی ہیں۔
ii. دوسری جانب کچھ طبقے: جو خیر کے مقابلے پر رد ہونے والی ایک شے کو اس
سے کہیں زیادہ بڑے کسی شر کے مقابلے پر بھی وہی حیثیت دیے رکھتے ہیں جو اسے خیر کے
مقابلے پر دینا ہوتی ہے! ان حضرات کی نظر ایک شے کی کتابی academic حیثیت سے آگے جاتی ہی نہیں۔ یہ وہ ذہن ہے جو
سیکولرزم کو جس طرح پاکستان یا مصر یا سعودی عرب کے حق میں دیکھے گا – یعنی جہاں
سیکولرزم کا سیدھا سیدھا مقابلہ دین محمدﷺ سے ہے – سیکولرزم کی عین وہی حیثیت یہ
بھارت کے حق میں دیکھے گا – یعنی جہاں سیکولرزم کا مقابلہ گاؤپرستی اور دیویوں کی
منتا والے دین سے ہے –! یا جس نظر سے یہ ایک بدعت کو سنت کے مقابلے پر دیکھے گا،
عین اسی نظر سے یہ اس بدعت کو اس سے بڑی کسی بدعت کے مقابلے پر یا کفر کے مقابلے
پر دیکھے گا! اسی ذہن کی تصحیح کےلیے ابن تیمیہ کا ایک مقولہ بیان کیا جاتا ہے: ليس الفقه
معرفة الخير والشر؛ وإنما معرفة خير الخيرين وشر الشرين. "فقہ
(دین کی گہری سمجھ) محض خیر اور شر کو جاننا نہیں۔ فقہ اصل میں دو خیروں میں سے
خیر اور دو شروں میں سے شر کو جان پانا ہے"۔
4.
بنا بریں یہ
ضروری ہو جاتا ہے کہ بیک وقت آپ کے ہاں تعلیمِ عقیدہ بھی جاری رہے اور واقع کے
ساتھ تعامل بھی۔ "تعامل" میں آپ کسی بڑے شر کے مقابلے پر چھوٹے شر کو
اختیار کرتے ہیں، تو بھی تعلیمِ عقیدہ میں اس "چھوٹے شر" کا شر ہونا
بدستور نوجوانوں پر واضح کیا جاتا رہے۔ تا کہ آپ کا عملی تعامل، کسی شر کے ساتھ
معاملہ کرنے کو ناگزیر رکھتے ہوئے بھی، آپ کی نظریاتی پوزیشن کو تبدیل نہ کر سکے۔ آپ
کی نظریاتی پوزیشن اگر استقامت پر رہتی ہے، تو ہی وہ اس معاملہ میں آپ کی راہنمائی
کرے گی کہ: ایک "ناگزیر" صورتحال سے نکل کر ایک "درست
صورتحال" تک جانے کی کسک آپ کے اندر باقی رہے۔ اس لیے تعلیمی عمل میں بیانِ
حق پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔ یہاں؛ اس "جدیدیت" نامی مخلوق کی ایک ایک چیز
کو رد ہی کیا جائے گا، اگرچہ تعامل میں آپ کو درپیش کچھ ’درمیانی مراحل‘ کتنے ہی
طویل کیوں نہ ہو جائیں۔ اسی چیز کو ہم وقتاًفوقتاً ایک قاعدے میں بیان کرتے ہیں: دین،
اعتقاد کی سطح پر: پورا۔ البتہ عمل میں: جتنا ممکن ہو۔ اس توازن کو خراب کرنے سے
یا آپ مفاہمت reconcile کے گڑھے میں
گرتے ہیں یا کسی آئیڈیلزم/یوٹوپیا کے جزیرے میں جا بیٹھتے ہیں۔
اس مضمون پر آنے والا ایک اعتراضی نوٹ اور اس پر ہمارا جواب اس لنک سے دیکھیے