بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛
مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے
تحریر:
حامد کمال الدین
خدا لگتی بات کہنا علم کے واجبات میں آتا ہے۔ کسی بحث کو ہوا دینا مقصود نہیں؛ یہاں کا ہر سُنی
ہماری قوت ہے۔ اپنے آپس میں ’میدان‘ مارنے والی جماعتیں خود کے حریفوں
کےلیے مزیدار نوالہ ہوتی ہیں؛ خدا ہمیں ان میں سے نہ کرے۔ اصحابِ سنت کی شیرازہ
بندی دین کے بڑے مطالب میں سے ہے۔ بس چند تنقیح طلب باتوں پر یہ کچھ معروضات ہیں۔
اعتقاد (اصولِ دین) تو بڑی شے ہے، فروع تک کی ایک معیاری standard، معتمد credible اور منسجم consistent تقریر رکھنے کےلیے آپ کو ایک
"مدرسہ" ہوئے بغیر چارہ نہیں۔ "مدارس" نام کی یہ ایک قدیم و
اصیل چیز دورِ حاضر کے ’تحقیقی‘ رجحانات کے ہاتھوں کسی قدر خطرے میں ہے۔ اس تازہ رجحان
کے مظاہر میں سے ایک یہ ہے کہ: ایک مدرسہ کے اپنے ہی لوگوں کے یہاں اس کے معتمد
رجال اور مراجع ایک اعادۂ نظر revision کےضرورت مند ٹھہرا لیے جائیں۔ "فروع" فی الحال زیربحث نہیں؛ یہاں
بات "اصولِ دین" اور ان کی بنیاد پر انسانوں سے "تعامل" کی ہو
رہی ہے۔
اس امت پر اللہ کا ایک بہت بڑا فضل
یہ کہ "اصولِ دین" کے معاملہ میں اول تو یہاں بہت سے مدارس نہیں جو کامل
تسلسل کے ساتھ پیچھے صحابہؓ تک جانے کا دعوىٰ کر سکیں۔ اور اگر کوئی ایسا دعوىٰ ہو،
تو اس کو ثابت کر سکنے والے کئی نہیں بلکہ ایک ہی مدرسہ ہے؛ جو بالعموم "اھل
الحدیث" یا "اھل
الأثر" کے نام سے ذکر ہوتا آیا ہے۔ مدرسہ کی حقانیت کا اصل حوالہ
چونکہ اس کا یہ "تسلسل" ہے ورنہ ’کتاب و سنت سے استدلال‘ کا دعوىٰ تو
یہاں بہت سوں کو ہے… لہٰذا اس میں سب سے زیادہ قابل توجہ اور اس کی سب سے مرکزی و
اساسی بات – خصوصاً جدیدیت کی آندھیوں کے مقابل تو ڈیرے ڈال دینے والی بات، اور
کھرے کو کھوٹے سے جدا کر جانے والی شے – اس کا یہ تسلسل ہی ہے۔اس سے چند مباحث متفرع
ہوتے ہیں:
1.
"استدلال" سے بننے والے
مدارس اور "اثر" پر کھڑے ہوئے مدرسہ میں ایک بنیادی فرق یہ ہو گا کہ
i.
"استدلالی مدارس" کے
رجال و کتب (نرے استدلال وغیرہ کی بنیاد پر) پہلےایک قول دیں گے اور پھر وہ قول ان
کا موقف یا ’روایت‘ بنے گا۔
ii.
جبکہ "اثری مدرسہ" کا
موقف پہلے سے اور پیچھے سے چلا آتا ہو گا؛ اس کے رجال اور کتب کی حیثیت صرف اس قدر
ہو گی کہ وہ اس کو "تحریر" کر دینے اور "محفوظ" کر جانے والے
ہوں گے۔ غرض اس مدرسہ کے مراجع کوئی قول ایجاد initiate کرنے والے ہیں ہی نہیں؛ ایسا کرنا اس کے ہاں
بجائےخود بدعت کا پیش خیمہ ہے۔ یہ ایک مسئلہ پر "پیچھے سے چلے آتے"
دستور کی بس "تدوین" ہوں گے۔ اور یہی بات دوسرے مدارس کے ساتھ اس کا
مابہ الامتیاز۔ اس چیز کو سمجھ لیا جائے
تو بربہاریؒ پر اٹھنے والے ایک اعتراض کی بہت کم گنجائش رہ جاتی ہے جس میں وہ اپنی
[اس کتاب میں "جو" آیا ہے] اس کے [ایک بھی حرف سے] آگے پیچھے ہونے پر
آدمی کو بدعتی ہونے کا انتباہ کر جاتے ہیں۔ نرا استدلالی ذہن ایسی کسی ’خطرناک‘
عبارت پر یقیناً چونک جائے گا کہ آدمی کی اپنے کہے کے متعلق ایسی خود زعمی! لیکن
اصل چیز یہ ہے کہ مدرسہ کا ایک جانا مانا ترجمان اگر ایک بات کر رہا ہے تو اسے
مدرسہ ہی کے ہاں چلے آتے فارمیٹ کے اندر رکھ کر دیکھا جائے۔ کچھ اسی مضمون کی ایک
تأصیلی بات ابن تیمیہؒ ایک جگہ فرماتے ہیں: [وأخذُ مذاهبِ الفقهاءِ مِن الإطلاقاتِ، مِن غير مراجعةٍ لِمَا فَسَّروا
به كلامَهم وما تقتضيه أصولُــهُم، يَجُــرُّ إلى مذاهبَ
قبيحةٍ. "فقہاء کے مذاہب محض ان کے اطلاقات سے کشید کر لینا، بغیر اس بات کی طرف
رجوع کیے کہ اس کلام متعلق ان کی اپنی کیا تفسیر ہے اور خود ان کے اصول کا اس بابت
کیا اقتضاء ہے، کچھ قبیح روشوں کو جنم دیتا ہے" (الصارم المسلول 280)]۔
4.
"دین" کوئی ایسی ہی "معلوم"
شے ہونی چاہیے جس کی بابت یہ دھڑکا نہ رہے
کہ کب کسی کی تحقیق اور کھوج اس میں کیا "ثابت" کرتی ہے۔ دین گویا اس
معنیٰ میں "غیر ثابت" ہوا؛ اور قیامت تک آپ اِسے "ثابت" کرتے چلے
جائیں گے! جبکہ قیامت تک یہ "ثابت" کیا جاتا رہنے کے باوجود کبھی
"ثابت" نہ ہو گا؛ اس زورآزمائی کی (ہماری کتب جسے "مِراء في الدين" یا "جدال في السنة" کہتی ہیں) ہمیشہ گنجائش رہے گی! (revisionism)۔ جبکہ
ہمارے مدرسہ کی پوزیشن: دین نہ صرف نص بلکہ معنىٰ و مضمون کے معاملہ میں بھی قرونِ
سلف سے "معلوم" چلا آتا ہے؛ اور یہ معنىٰ و مضمون بھی ہم تک پورے انتظام
کے ساتھ پہنچا ہے۔ دین دراصل کچھ ’عبارات‘
اور ’ہدایات‘ نہیں جس کے ہر موڑ پر معانی کی بحثیں اور کھدائیاں جاری ہوں (جدال فی
السنۃ) بلکہ یہ ایک جمی ہوئی شاہراہ (المحجۃ البیضاء) ہے جس پر بعد والوں کا صرف "چلنا" باقی
ہوتا ہے؛ اور وہ بھی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کا نہیں بلکہ بڑے بڑے کاروانوں کا۔ اس
پورے مضمون کو "اثر" کا لفظ بہت خوب ادا کرتا ہے۔ یعنی پہلے دھرے ہوئے
قدموں کے اوپر قدم دھرتے چلے جانا؛ قیامت تک۔
5.
"اعتقاد" اور (اس کی
بنیاد پر انسانوں کے ساتھ) "تعامل" کے باب میں ایک بہت بڑا ایریا area تو اس مدرسہ (اھل
الأثر) کے یہاں متفق علیہ چلا آتا ہے۔ ہاں کچھ جزوی معاملات میں اس کے رجال کے ہاں
ایک سے زائد مذہب بھی پائے جا سکتے ہیں۔ جیسے سماعِ موتیٰ (مُردوں کے سننے) کا مسئلہ، یا
بعض بدعتوں کو (انہیں بدعت جاننے پر ان سب کے یہاں کامل اتفاق ہونے کے باوجود)
مکفرہ یا غیر مکفرہ جاننے کا مسئلہ، وغیرہ۔ ایسے مقامات کے حوالہ سے، اکثر قدیم
مؤلفین کا طریقہ بےشک یہ رہا ہے کہ وہ ان دو میں سے اسی ایک قول کو ذکر کرتے ہیں
جو ان کی اپنی نظر میں صحیح تر یا ان کے اپنے شیوخ کا اختیار کردہ ہے۔ ہاں یہ بات
دورِ حاضر کے ایک مطالعہ نگار کےلیے پیچیدگی کا باعث ہو سکتی ہے۔ پرانوں کےلیے
البتہ یہ اس وجہ سے پریشانی کا باعث نہ تھی کہ ان کے یہاں کتاب کو استاد سے پڑھے
بغیر اس سے اخذِ مسائل کی رِیت نہ رہی تھی، جبکہ استاد سے "تعددِ آراء"
والے ان مقامات کے متعلق مدرسہ کی پوزیشن پر تنبیہ ہو ہی جاتی تھی۔ نتیجتاً یہ
معلوم ہو جاتا تھا کہ یہ (اس کتاب میں آئی ہوئی بات) "اس مدرسہ کا قول"
تو بےشک ہے لیکن یہ "اس مدرسہ کا واحد قول" نہیں۔ اس کا فائدہ یہ کہ: اس
کتاب پر کلی انحصار کرنے والا شخص بھی مدرسہ کے اقوال سے باہر بہرحال نہیں نکلتا۔
اور یہ بھی بہت ہے؛ اور بلاشبہ کسی وقت طالب علم کو اس درجہ پر رکھا بھی جاتا ہے۔
*****
اور اب کچھ ذکر… مبتدع کے ساتھ ’اس قدر شدت‘ اختیار کرنے کا۔
مسئلہ کے کئی ایک جوانب پر ہم وقتاً فوقتاً لکھتے آئے ہیں۔ یہاں تفصیل میں جائے
بغیر چند نکات:
i.
بدعتی کے ساتھ ایسا شدید ترین رویہ اختیار کرنے میں
بربہاریؒ و لالکائیؒ نہ تو اکیلے ہیں اور نہ باقی اہل مدرسہ سے کسی بھی طور مختلف۔
ایک تو، اس سے ملتے جلتے اقوال آپ کو دیگر
ائمہ و مراجع کے ہاں بھی برابر ملتے ہیں۔ دوسرا، بربہاری و لالکائی ہر دو تالیفات – اپنے بنیادی مضامین
کے اعتبار سے – تمام اہل مدرسہ کے یہاں کبھی متنازعہ نہیں رہیں۔ سبھی ان کو بلا
امتیاز، کتبِ عقیدہ میں ذکر کرتے ہیں۔ تیسرا، ان دونوں مؤلفین سے قطع نظر، بدعتی
کے ساتھ ایسی شدید ترین سختی تک چلے جانے کا جواز یا وجوب بذات خود بھی اہل مدرسہ
کے ہاں کبھی متنازعہ نہیں رہا۔ پس اس مسئلہ کو خاص ان شخصیات کے حوالہ سے خوف ناک
بنانا مدرسہ کے عمومی رجحانات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں۔
ii.
ہاں اصل مسئلہ کہیں اور ہے: کیا بدعتی کے ساتھ – مدرسہ اھل
الأثر کے یہاں – صرف سختی وقطع تعلقی ہے؟ یا کہیں پر بدعتی کے ساتھ سختی و قطع
تعلقی اور کہیں پر بدعتی کے ساتھ مدارات (لحاظ ملاحظہ و ملاطفت کا رویہ)… ہر دو،
حسبِ احوال؟ اس کا جواب ہمارے اصولِ سنت
سے یہ ہے کہ: کہیں پر بدعتی کے ساتھ سختی اور کہیں پر مدارات، حسبِ احوال۔
v وَجَوَابُ
الْأَئِمَّةِ كَأَحْمَدَ وَغَيْرِهِ فِي هَذَا الْبَابِ مَبْنِيٌّ عَلَى هَذَا
الْأَصْلِ وَلِهَذَا كَانَ يُفَرِّقُ بَيْنَ الْأَمَاكِنِ الَّتِي كَثُرَتْ فِيهَا
الْبِدَعُ كَمَا كَثُرَ الْقَدَرُ فِي الْبَصْرَةِ وَالتَّنْجِيمُ بِخُرَاسَانَ
وَالتَّشَيُّعُ بِالْكُوفَةِ وَبَيَّنَ مَا لَيْسَ كَذَلِكَ وَيُفَرِّقُ بَيْنَ
الْأَئِمَّةِ الْمُطَاعِينَ وَغَيْرِهِمْ وَإِذَا عَرَفَ مَقْصُودَ الشَّرِيعَةِ
سَلَكَ فِي حُصُولِهِ أَوْصَلَ الطُّرُقِ إلَيْهِ "اس باب میں ائمہ، احمدؒ و دیگر کا جواب اسی قاعدے پر مبنی
ہے۔ یہ وجہ ہے کہ وہ ان علاقوں کا فرق کرتے جن میں بدعات بڑھ گئی ہوئی تھیں، جیسے
بصرہ میں قدریہ کی بدعت بڑھ گئی ہوئی تھی، خراسان میں نجومیت کی، کوفہ میں تشیع کی…
بنسبت ان علاقوں کے جن میں ایسا نہیں تھا۔ نیز ان لوگوں کا فرق کرتے جو ائمہ اور پیشوا
ہیں… بنسبت ایسے لوگوں کے جو اس (مرتبہ پر) نہیں۔ جب شریعت کا مقصود جان لیا گیا
تو اس کے حصول کےلیے وہی راستہ اختیار کیا جائے گا جو اس تک سب سے زیادہ پہنچانے
والا ہو"۔ (مجموع الفتاوىٰ ج28 ص206)
v عَنْ إسْحَاقَ
أَنَّهُ قَالَ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: مَنْ قَالَ: الْقُرْآنُ مَخْلُوقٌ؟ قَالَ:
أَلْحِقْ بِهِ كُلَّ بَلِيَّةٍ. قُلْت: فَيُظْهِرُ الْعَدَاوَةَ لَهُمْ أَمْ
يُدَارِيهِمْ؟ قَالَ: أَهْلُ خُرَاسَانَ لَا يَقْوَوْنَ بِهِمْ. وَهَذَا
الْجَوَابُ مِنْهُ مَعَ قَوْلِهِ فِي الْقَدَرِيَّةِ: لَوْ تَرَكْنَا الرِّوَايَةَ
عَنْ الْقَدَرِيَّةِ لِتَرْكَنَاهَا عَنْ أَكْثَرِ أَهْلِ الْبَصْرَةِ "اسحاق سے روایت ہے، کہ انہوں نے امام احمدؒ سے پوچھا: جو
شخص کہے قرآن مخلوق ہے؟ فرمایا: اسے برے سے برے معاملے کا حقدار رکھو۔ میں نے کہا:
تو کیا ان کے ساتھ اظہارِ عداوت کرے یا ان کے ساتھ مدارات؟ فرمایا: اہل خراسان کا
تو ان کے ساتھ (ایسا کرنے کا) بس نہیں۔ امام احمدؒ سے صادر ہونے والا یہ جواب، اُدھر
قدریہ کی بابت امام احمد ہی یہ فرمانے والے کہ قدریہ سے ہم اگر روایت کرنا چھوڑ
دیں تو ہمیں اکثر اہل بصرہ سے روایت چھوڑنا پڑ جائے گی"۔ (مجموع الفتاوىٰ ج28 ص210)
v فَإِذَا لَمْ يَكُنْ
فِي هِجْرَانِهِ انْزِجَارُ أَحَدٍ وَلَا انْتِهَاءُ أَحَدٍ؛ بَلْ بُطْلَانُ
كَثِيرٍ مِنْ الْحَسَنَاتِ الْمَأْمُورِ بِهَا، لَمْ تَكُنْ هِجْرَةً مَأْمُورًا
بِهَا كَمَا ذَكَرَهُ أَحْمَد عَنْ أَهْلِ خُرَاسَانَ إذْ ذَاكَ: أَنَّهُمْ لَمْ
يَكُونُوا يَقْوَوْنَ بالْجَهْمِيَّة. فَإِذَا عَجَزُوا عَنْ إظْهَارِ
الْعَدَاوَةِ لَهُمْ سَقَطَ الْأَمْرُ بِفِعْلِ هَذِهِ الْحَسَنَةِ وَكَانَ
مُدَارَاتُهُمْ فِيهِ دَفْعَ الضَّرَرِ عَنْ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ وَلَعَلَّهُ
أَنْ يَكُونَ فِيهِ تَأْلِيفُ الْفَاجِرِ الْقَوِيِّ. وَكَذَلِكَ لَمَّا كَثُرَ
الْقَدَرُ فِي أَهْلِ الْبَصْرَةِ فَلَوْ تُرِكَ رِوَايَةُ الْحَدِيثِ عَنْهُمْ
لَانَدْرَسَ الْعِلْمُ وَالسُّنَنُ وَالْآثَارُ الْمَحْفُوظَةُ فِيهِمْ. فَإِذَا
تَعَذَّرَ إقَامَةُ الْوَاجِبَاتِ مِنْ الْعِلْمِ وَالْجِهَادِ وَغَيْرِ ذَلِكَ إلَّا
بِمَنْ فِيهِ بِدْعَةٌ مَضَرَّتُهَا دُونَ مَضَرَّةِ تَرْكِ ذَلِكَ الْوَاجِبِ:
كَانَ تَحْصِيلُ مَصْلَحَةِ الْوَاجِبِ مَعَ مَفْسَدَةٍ مَرْجُوحَةٍ مَعَهُ
خَيْرًا مِنْ الْعَكْسِ. وَلِهَذَا كَانَ الْكَلَامُ فِي هَذِهِ الْمَسَائِلِ
فِيهِ تَفْصِيلٌ"تاہم اگر (ہمارے)
اس کے ساتھ قطع تعلقی کر رکھنے میں کسی کو سبق ہونے یا کسی کے باز آنے والی بات ہی
نہ ہو، بلکہ الٹا (ہمارے ایسا کرنے سے) بہت
سی ایسی نیکیاں موقوف ہونے لگتی ہوں جو شریعت کو مطلوب ہیں، تو ایسے میں یہ قطع
تعلقی شریعت کا حکم نہ رہے گی۔ جیسا کہ امام احمدؒ نے تب خراسان کے (سُنی طبقوں)
کی بابت یہ ذکر کیا کہ وہ تو جہمیہ کے ساتھ ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ چنانچہ
جب وہ ان کے ساتھ عداوت ظاہر کرنے سے قاصر ہوں تو اس نیکی پر عمل کرنے کا حکم ان کے
حق میں ساقط ہوا۔ ہاں ان (اہل بدعت) کے ساتھ لحاظ ملاحظہ کا معاملہ کر رکھنے میں کمزور
اہل ایمان سے نقصان ٹال رکھنے کی ایک صورت برقرار ہے۔ اور ممکن ہے طاقتور بدکاروں کی اس سے کچھ تالیف ہی ہو جائے۔
اسی طرح، جس وقت اہل بصرہ میں قدریہ زیادہ ہو گئے، تب اگر ان سے حدیث کی روایت ترک
کر دی جاتی تو وہ سارا علم اور سنن اور
آثار مٹ جاتے جو اہل بصرہ کے ہاں محفوظ چلے آتے تھے۔ چنانچہ جس وقت علم، جہاد اور
اس باب کے دیگر واجباتِ شریعت کو قائم رکھنا ایسے کسی شخص/اشخاص کے بغیر ناممکن ہو
جس میں پائی جانے والی بدعت کی ضرررسانی اس واجب کو چھوڑ بیٹھنے کی ضرررسانی سے کم
ہے: تو ایسی حالت میں اُس واجب (کو قائم رکھنے) والی مصلحت رو بہ عمل لانا – اُس کمتر مفسدت کے ہوتے ہوئے بھی – ایسا نہ کرنے سے بہتر ہو گا ۔ یہ
وجہ ہے، اس قسم کے مسائل میں کلام کرتے ہوئے ایک تفصیل کی جاتی ہے"۔ (مجموع الفتاوىٰ ج28 ص212)
iii.
پھر مسئلہ ایک اور بھی ہے۔ اس سختی، قطع تعلقی اور اظہارِ
عداوت کے سیاق میں، جو اوپر ہمارے زیر بحث آئی… "بدعت" آپ کسے کہتے ہیں؟
کیا جو شخص نماز یا اذان یا میلاد وغیرہ سے متعلقہ اعمال میں کچھ نوواردات کے اندر
ملوث ہے… وہی ان بحثوں کا اصل محل ہے، جیسا کہ یہاں کے عام شخص کے ذہن میں آنے لگتاہے؟ اعمال وغیرہ سے متعلق یہ اشیاء بھی اگرچہ "بدعت"
کے تحت ذکر کر دی جاتی ہیں اور "بدعت" کے تحت ان سے تنبیہ بھی کر دی
جاتی ہے… تاہم وہ سنگین مباحث جن کی طرف اوپر اشارہ ہوا، ان میں "بدعت"
سے مراد اصل میں وہ بدعتی ٹولے ہوتے ہیں، جن کا جادہٴ حق سے جانتے بوجھتے مفارقت
کر جانا ائمہٴ سنت کے ہاں معروف چلا آتا ہے۔ [و "الْبِدْعَةُ " الَّتِي يُعَدُّ بِهَا
الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ الْأَهْوَاءِ مَا اشْتَهَرَ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ
بِالسُّنَّةِ مُخَالَفَتُهَا لِلْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ؛ كَبِدْعَةِ
الْخَوَارِجِ وَالرَّوَافِضِ وَالْقَدَرِيَّةِ وَالْمُرْجِئَةِ "اور وه بدعت جس کی نسبت سے آدمی بدعتی گنا جاتا ہے، وہ
ہے جس کا کتاب و سنت سے ٹکراؤ سنت کے اہل علم کے یہاں مشہور ہو: جیسے خوارج کی
بدعت، یا روافض کی، یا قدریہ، یا مرجئہ کی" (مجموع الفتاوىٰ مؤلفہ ابن
تیمیہؒ ج35 ص414)]
iv.
پھر تیسرا مسئلہ اس بابت یہ کہ "بدعتی" آپ کسے
اور کس وقت کہیں گے؟ بےشک ایک بدعت اپنے مضمون میں ویسی ہی سنگین ہو جیسی اوپر ذکر
ہوئی (مانند قدریہ، رافضہ، خوارج، وغیرہ)… لیکن کیا ہر وہ شخص جو ایک بدعتی ٹولے
کے عقائد کا حامل ہوا، ہمارے یہاں بدعتی گنا جائے گا؟ یہاں وہ مشہور مبحث ہمارے
پیش نظر نہیں کہ جب تک کسی آدمی کے "اصول" بدعت والے نہ ہوں تب تک بدعت پر
مبنی کچھ اِکادُکا "اقوال" کا حامل شخص، باوجود ایسے بدعتی اقوال رکھنے
کے، ہمارے ہاں بدعتی نہیں گنا جائے گا، بلکہ ان اقوال کے باوجود وہ ہمارے ہاں سنت
کا امام تک مانا جا سکتا ہے۔ وہ مبحث اپنی جگہ حق ہے، مگر اس کا محل یہ نہیں جو اس
وقت ہمارے زیر بحث ہے (اور جو کہ بعض کہنہ مشق ماہرِ گرفت اصحاب سے نوویؒ، قرطبیؒ،
ابن حجر عسقلانیؒ وغیرہ ایسے اپنے ائمہٴ اَعلام کی جان بخشی کروانے کے کام آتا ہے)۔
ہم بات کر رہے ہیں ایسے شخص/اشخاص کی جو کسی ایسے ماحول میں جہاں سنت غالب نہیں،
اور جہاں "قُدوۃ" شخصیات بھاری تعداد کے اندر موجود نہیں، اور اس بات کا
کوئی بہت اعلىٰ انتظام نہیں کہ آدمی پر اپنے کچھ معتقدات کا بدعت ہونا ظاہر و باہر
ہو، اور اس بنا پر وہاں پائی جانے والی ایک تعداد کا اس وہم کا شکار ہونا خاصا قرینِ
امکان ہو کہ وہ جن عقائد کے معتقد ہیں وہ تو اہل سنت و جماعت کے ہی معتقدات ہیں…
مختصراً جہاں آدمی پر اپنے معتقدات کا "اعتقاد اھل السنۃ والجماعۃ" سے
متصادم ہونا صحیح طور پر واضح نہ ہو…… کیا اس ماحول کے کچھ گرفتارِ بدعت لوگوں کے
متعلق، اگرچہ وہ اسلام دشمنوں کے خلاف برسر جہاد کیوں نہ ہوں، اور فی زمانہ اسلام
سے وفادار رہنے کے ہزار ہا جتن کیوں نہ کر رہے ہوں، اور مقدور بھر دین کی نصرت و اقامت
میں مصروف کیوں نہ ہوں، "بدعتی بدعتی" والی زبان رائج کرنا – اور پھر اس
پر "بدعتی کے ساتھ عداوت اور مقاطعہ"
سے متعلقہ وہ کچھ مخصوص فصول کتبِ عقیدہ سے نکال نکال یہاں لاگو کرنا، یہاں
تک کہ کچھ ایسے اصحابِ سنت کے پیچھے پڑ جانا جو اس ماحول کے کچھ گرفتارِ بدعت مگر
معاشرے میں اِس وقت اہم و مؤثر و مخلص طبقوں کے ساتھ مل کر دین کے کسی محاذ کا
دفاع یا دین کے کسی فرض کی اقامت کرنے میں لگے ہیں… یہ سب کیا اصولِ اہل سنت کی صحیح ترجمانی ہے؟ اس کا صاف جواب: نہیں۔ ایک ایسے ماحول میں جس کا
ابھی یہاں ذکر ہوا، اور خصوصاً جہاں اسلام کی پوری عمارت ہی خطرے میں ہو، اسلام
کےلیے مخلص وہمدرد طبقوں کے ساتھ، بعض معاملات میں ان کے گرفتارِ بدعت ہونے کے
باوجود، مدارات اور تالیف کا انداز اختیار کرنا، ان کے خلاف نفرت انگیزی پھیلانے
کی بنسبت، کہیں زیادہ اصولِ سنت کے موافق رویہ ہے۔ نیز ایک ایسے ماحول میں اللہ ور
سولؐ کے ساتھ اخلاص اور وفاء نبھانے کا جذبہ رکھنے والے اُن مسلمانوں کی ناقدری
کرنا یا اُن کے نیک اعمال مانند جہاد، امر بالمعروف، اقامتِ دین کی جدوجہد، وغیرہ
کو ’تقریباً ضائع‘ جاننا، یا اُن کے ساتھ اصحابِ سنت کے تعاون اور اشتراک کو
’گناہ‘ باور کروانا اصولِ سنت کی بدترین ترجمانی ہو گی، اگرچہ اس میں بربہاریؒ و
لالکائیؒ کے حوالے کیوں نہ ہوں۔ جبکہ اصولِ سنت کا اقتضاء ایسی صورتحال میں اس کے
بالکل برعکس ہے۔ اس کی تفصیل ہم کسی اور
وقت کر پائیں گے، جبکہ کچھ شذرات اس موضوع سے متعلق آپ کو ہماری گزشتہ تحریروں میں
بھی مل سکیں گے۔
v.
اس سے متصل، چوتھی بات یہ کہ: متاخرہ صدیوں میں ائمہٴ سنت
کے یہاں "معروف بدعتی ٹولوں" مانند خوارج، مرجئہ، رافضہ، قدریہ کے مابین…
اور اہل سنت سے نسبت رکھنے والے ان گروہوں کے مابین جو کچھ بدعتی عقائد کے معتقد
ہوئے ہوں جبکہ وہ ہنوز اپنے آپ کو اہل سنت سمجھتے بلکہ "معروف بدعتی
ٹولوں" مانند خوارج، معتزلہ اور روافض وغیرہ کے خلاف اہل سنت والا وہ محاذ
بھی کسی نہ کسی طور سنبھالے ہوئے ہوں … ایک اچھا خاصا فرق کیا جاتا رہا ہے۔ متاخرہ
ادوار میں ہند، افریقہ، ایشیائےکوچک اور یورپ میں ہونے والی امت کی بہت ساری
"سُنی" فتوحات ایسے ہی لوگوں کی سرکردگی میں ہوئیں جو یہاں مذکور دوسری
صنف میں شمار ہو سکتے ہوں۔ امت کے بیرونی
دشمنوں – مانند اہل صلیب و تاتار وغیرہ – اور امت کے داخلی دشمنوں – مانند رافضہ و
قرامطہ وغیرہ – کے حملوں اور چیرہ دستیوں کے خلاف انہی (ثانی الذکر) طبقوں کے ساتھ
مل کر جو کہ متاخرہ صدیوں میں بھاری اکثریت کے اندر رہے… یعنی ان کی اصلاح کرنے
اور ان کے بعض مغالطوں کا باحسن انداز رد کرنے کے ساتھ ساتھ… ان سے ایک بھرپور
تعاون اور اشتراک بھی رکھا گیا، امت کےلیے ان کی قربانیوں اور کارناموں پر ان کی
ستائش اور حوصلہ افزائی میں بھی کمی نہ رکھی گئی، اور ان کی نصرت و خیرخواہی میں
بھی فرق نہ آنے دیا گیا، اور تالیف و شیرازہ بندی کا اسلوب بھی ان کے ساتھ ترک
نہیں کیا گیا۔ اس عمل سے ہی ان گزشتہ ادوار میں امت کے دن نکل پائے۔ یہ چیز جو پچھلی
بہت سی صدیوں سے ائمہٴ سنت کا دستور چلا آتا ہے، آج اس دور میں کہ جب اسلام اور
اہل اسلام پر دشمن کے حملے پہلے کسی بھی دور سے بڑھ گئے ہیں، بلکہ پہلے کسی بھی
دور سے زیادہ گہرے، متنوع، ترقی یافتہ اور وسیع الشکل ہو گئے ہیں… ائمہٴ سنت کا اِن
مؤخرہ صدیوں میں بڑی دیر سے چلا آتا وہ دستور آج کہیں بڑھ کر لاگو رکھنے کی ضرورت
ہے؛ اور "سنت و جماعت" کا یہی آج ایک شدید ترین اقتضاء۔ سنت و جماعت کے
بڑے بڑے "ابواب " جہاں آندھیوں کا سامنا کر رہے ہوں اور انہیں بچانے کے چیلنج
پر پورا اترنا دوبھر ہوا پڑا ہو، وہاں سنت و جماعت کی کسی ایک آدھ (اور صورتحال کے
لحاظ سے قطعی غیر متعلقہ) ’فصل‘ میں اٹکے رہنا اور کتابیں کھول کھول اسی کے حوالے
دیے چلے جانا، دورِ حاضر میں ہمارے سُنی ذہن کا ایک بڑا بحران ہے۔ فاللہُ الہادی
المستعان۔