اہل فساد میں سے کسی کے مرنے پر "اہل صلاح" کا آپس میں فساد کرنا!
تحریر:
حامد کمال الدین
کچھ ایسے لوگ
جنہیں خارجِ اسلام ٹھہرانے کا کوئی معلوم فتوىٰ ہمارے ریکارڈ پر نہیں، البتہ انہیں
ظالم یا مفسد سمجھنے پر اصحابِ سنت قریب قریب متفق پائے گئے ہوں…
ایسے لوگوں کےمرنے
پر یہ تینوں رویے اپنی اپنی جگہ درست ہوتے یا ہو سکتے ہیں:
1.
بعض اصحابِ سنت کی طرف سے ان کےلیے ایک سرسری اظہارِ
افسوس یا دعائے مغفرت کر دی جانا۔ اس اعتبار سے کہ استغفار کی ممانعت صرف ایسے شخص
کے حق میں ہے جسے دین سے خارج قرار دے دیا گیا ہو؛ ورنہ اصل یہ ہے کہ ایک مسلمان
کےلیے، خواہ وہ جیسا بھی ہو، اللہ سے بخشش کی منت سماجت کی جائے۔ خصوصاً جبکہ یہ
استغفاری کلمات کہنے سے ان کے پیش نظر کوئی مصلحتِ دینی بھی ہو؛ اگرچہ ایسی کوئی
مصلحت تصور کر لینے میں وہ اجتہادی خطا پر کیوں نہ ہوں۔
2.
اکثر اصحابِ سنت کی طرف سے اس موقع پر ایک بامقصد خاموشی
اپنائی جانا۔ یعنی کچھ بھی اس شخص کے متعلق نہ کہنا؛ گویا کوئی واقعہ ہی نہیں ہوا۔
جنازہ (ترحُّم، استغفار) ایک مسلمان کے حق میں چونکہ فروضِ کفایہ میں آتا ہے؛
لہٰذا امت میں سے چند لوگوں کے اس سے عہدہ برآ ہونے کو ہی اس باب میں کافی سمجھنا؛
اور اس کے دنیا سے جانے کا کوئی غیر معمولی افسوس، یا اس کےلیے عزاء اور ترحُّم کا
کوئی خاص اہتمام نہ کرنا۔ مسلمان سمجھنے کے ناطے، اس کےلیے بخشش کی دعاء کرنا بھی
ہو تو اسے "پبلک" واقعہ اور ایک "عوامی رَو" نہ بنانا۔ یہ بات
"ہجر کے احکام" کے تحت باقاعدہ مذکور ملتی ہے: سلف سے یہ عام منقول ہے کہ ان میں
"اُسوہ" قسم کے لوگ ائمہٴ بدعت کے جنازے میں خود شرکت کرنے سے عمدًا
پرہیز کر لیتے، نیز ان کےلیے اعلانیہ استغفار سے گریز کرتے؛ جس سے ان کا مقصد بدعت
کو معاشرے میں اچھوت بنا رکھنا ہوتا؛ نہ کہ اس کے جنازے یا اس کےلیے دعائے مغفرت
کو حرام سمجھنا۔ بدعت کی توقیر ہو جانے کے تمام دروازے بند رکھنا، اور بدعت کےلیے
معاشرے میں ایک تنفّر اور بیزاری برقرار رکھنا سلف کی ایک بڑی ترجیح رہی ہے؛ اور
یہ شے ان کے ہاں "اقامتِ دین" میں آتی تھی۔ "اقامتِ دین" جسے
دورِ حاضر میں سیاسی معانی کچھ ضرورت سے زیادہ پہنا دیے گئے ہیں۔
3.
یہ دیکھتے ہوئے کہ بعض لوگ جذبات کی رَو میں بہہ کر (یا
میڈیا کے اِلہام پر مبنی "تصورِ خیر وشر" کے کسی ریلے کی نذر ہو کر)،
ایک ایسے شخص کو جو زندگی زندگی کسی ظلم یا فساد یا شرکی رمز symbol بنا رہا ہو،
وہ تکریم دینے لگے ہیں جو مسلم معاشرے میں ایک خیر، صلاح اور سنت پر قائم شخصیت ہی
کا حق ہوتا ہے…تو اس پر لوگوں کو کچھ ضروری تنبیہ کر دینا – اور اگر اس تنبیہ
کےلیے مرنے والے کے کچھ شر اور فساد کا ذکر کر دینا ناگزیر ہو گیا ہو تو اس کا بھی
کچھ بیان کر دینا – یہ رویہ بھی اس موقع پر ایک بالکل صحیح طبعی شرعی رویہ ہو گا۔
یا یوں کہہ لیجیے، اجتہادی صوابدیدوں میں سے ایک صوابدید ہو گا۔
*****
درج بالا تینوں
رویے چونکہ اپنی اپنی جگہ صحیح طرزِعمل ہیں، لہٰذا ان میں سے جس بھی رویے کا
مظاہرہ کسی صاحبِ سنت کے ہاں پایا جائے، یا جسے وہ اس موقع کےلیے اَولیٰ اور اَنسب
جانے، اس کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جانا ایک شدید غلط رویہ ہو گا۔ مثلاً:
1.
کسی صاحبِ سنت شخص نے اس (مرنے والے) کےلیے کوئی سرسری
دعائیہ لفظ بول دیا، تو آپ چل پڑے اس کے ’سکرین شاٹ‘ لے لے کر اس (صاحبِ سنت شخص)
کو کوسنے اور اس کی بھد اڑانے۔ یہ ایک انتہائی بچگانہ اور بےعلمی پر مبنی طرزِعمل
ہے، جو کثرت سے دیکھنے میں آ رہا ہے۔
2.
اسی طرح یہ بھی ایک انتہائی غیر علمی طرزِ عمل ہو گا کہ
کسی صاحبِ سنت نے اگر لوگوں کو اس موقع پر جذبات کی نذر ہوتے دیکھا، اور محسوس کیا
کہ ایک نہایت غلط آدمی کو معاشرے میں وہ تکریم ملنے لگی ہے جو صرف خیر اور سنت پر
مرنے والی کسی شخصیت کا حق ہوتا ہے؛ لہٰذا اس پر لوگوں کو تنبیہ کرنا ضروری جانا،
جبکہ اس تنبیہ کرنے کے دوران لامحالہ اسے مرنے والے کے کچھ شر اور فساد کی نشان
دہی بھی کر دینا پڑی، جس سے اس کا اصل مقصد "مرنے والے کی برائیاں کرنا"
نہیں بلکہ عوامِ اہل سنت کو ایک ایسے غلط عمل سے روکنا ہے جو [[خیر اور سنت پر
مرنے والوں]] اور [[شر اور بدعت پر مرنے والوں]] کا فرق ہی معاشرے میں ملیامیٹ
کروا دے…یوں اس (صاحبِ سنت شخص) کے بیان میں مرنے والے کی کچھ مہلک خرابیوں کا بھی
ذکر آ گیا… تو اس پر آپ چل پڑے اس (صاحبِ سنت شخص) کو ’انتہائی بےرحم‘، ’سنگدل‘،
’شدت پسند‘ اور ’دقیانوسی‘ ثابت کرنے! یعنی جس جس نے میڈیا کے بہائے ہوئے دھارے
میں تیراکی اور غواصی کا کوئی اعلیٰ جوہر نہیں دکھایا، آپ شروع ہو گئے اسے ’انسان
دشمن‘ ثابت کرنے بلکہ "انسانیت سے تہی" اور "رحم سے عاری"
قرار دینے! یہاں یہ ذکر کر دینا خالی از فائدہ نہ ہو گا کہ "مرنے والے کی
برائیاں نہ کرنے" کا حکم سلف کے ہاں ایک [[عموم]] پر ہی لیا گیا ہے۔ البتہ [[خاص
احوال]] میں، کہ جہاں [[ظلم]] اور [[عدل]] کے پیمانے خلط ہو جانے کا اندیشہ ہو،
اور جہاں [[سنت پر موت پانے]] اور [[ضلالت
پر جان دینے]] کا فرق نابود ہو جانے کا خدشہ ہو… یعنی جہاں مسلم معاشرے کے
یہاں [[نیکی و نیکوکاروں کی توقیر]] اور [[بدی وبدکاروں کی عدم توقیر]] سے متعلقہ
پیمانے درہم برہم ہو جانے کی صورت نظر آئے؛ جو کہ فی الحقیقت مسلم معاشرے کی موت
ہے… ایسی [[خاص]] صورتحال میں وہ [[عمومی]] حکم برقرار نہ رہے گا۔ اس حقیقت کا
انکار کرنے والے، سلف کے اس پورے تراث legacy سے بیگانہ ہیں جو مسلم معاشرے میں ظلم اور فساد
کی رمز symbolمانی جانے والی شخصیات کے پسِ مرگ ذکر سے متعلق سلف سے
تسلسل کے ساتھ منقول ہے، اور جس سے ہماری تراث heritage کی کتب بھری پڑی
ہیں۔
3.
یا پھر اس پر "حیرت اور افسوس" کرنا کہ فلاں
فلاں نے اپنے [عوامی] خطبے، یا بیان، یا پوسٹ، یا ٹویٹ وغیرہ کے ذریعے اس مرنے
والے کےلیے کلمہٴ خیر تک نہیں بولا؛ دیکھو یہ کس قدر منفی اور اعلیٰ اخلاق کے
منافی حرکت ہے! درحالیکہ اصحابِ سنت کی اکثریت ایسے موقعوں پر کچھ نہ بول کر ہی
اپنا ایک موقف دیتی ہے؛ اور جو کہ ایسے مواقع کےلیے بہترین اور مناسب ترین موقف
ہوتا ہے (یعنی مرنے والے کے متعلق کچھ بھی کہنے سے گریز کرنا)، تاوقتیکہ کچھ مخصوص
دواعی آپ کے وہاں پر کچھ بولنے اور کہنے کا تقاضا نہ کر لیں۔
4.
ایک چوتھا طرزِ عمل جو ان میں شاید غلط ترین ہو، یہ کہ:
شر اورفساد کی پہچان چلی آنے والی ایک شخصیت کےلیے کچھ ایسا والہانہ اہتمام اور
کچھ ایسی زبردست تحسین کی جائے کہ ایک دیکھنے سننے والے کو لگے، گویا مرنے والا
خیر اور سنت کے کسی بہت اعلیٰ مرتبے پر فائز تھا۔ یعنی [[خیر کی پہچان مانی جانے
والی شخصیات]] اور [[شر کی پہچان مانی جانے والی شخصیات]] کو معاشرے میں عملاً
یکساں کر دینا۔ یہ پوائنٹ چونکہ ضمناً پیچھے ذکر ہو چکا، لہٰذا اس کا اعادہ یہاں
غیر ضروری ہے۔
*****
اس لحاظ سے ہم نے
وہ تین رویّے بھی بیان کر دیے جن پر اصولی اعتراض نہیں بنتا۔ اور اس کے مقابلے پر
وہ چار رویّے بھی نشان زد کر دیے جو اصولاً غلط اور مذموم ہیں۔ اب وہ تینوں
(اصولاً درست) رویّے جو اوپر "اجتہاد" یا "صوابدید" کے حوالے
سے مذکور ہوئے، چونکہ اپنی اپنی جگہ صحیح ہو سکتے ہیں… ان میں پایا جانے والا
اختلاف یا تو [[تنوّع]] کے باب سے ہو گایا [[اجتہادی خطا و صواب]] کے باب سے؛ جس
پر سرزنش یا مذمت بہرحال نہیں بنتی۔ لہٰذا ان تینوں مواقف کو – اصولاً – اہل سنت
ہی کے مواقف جاننا چاہیے۔ آپ ان میں سے کوئی سا بھی اختیار کریں، باقیوں کو لتاڑنا
اور ان کے لتے لینا، یہاں تک کہ اہلِ فساد کو چھوڑ کر اپنے ان بھائیوں ہی کے پیچھے
پڑ جانا (فارغ مباش، کچھ کیا کر) خاصا غلط اور نقصان دہ رویّہ ہے۔ کوئی ضروری تو
نہیں کہ اہل فساد میں سے کسی کے مرنے کے ساتھ ہی ہم آپس میں فساد شروع کر لیا
کریں! اہل سنت اپنے تنوع یا اپنے اجتہاد سے ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں نہ کہ ایک
دوسرے کو کاٹتے ہیں۔
یقین کریں جب سے
یہ "سوشل میڈیا" آیا ہے، جیسے ہی یہاں کوئی ایسا شخص مرتا ہے جس کی اہل
اسلام کےلیے پرکاہ حیثیت نہیں ہوتی، اور جس پر اصحابِ سنت کا کوئی ایک منٹ ضائع
ہونا آدمی کو گوارا نہیں ہو سکتا… "خبر" سننے کے ساتھ ہی جو ایک دھڑکا
لگتا ہے وہ یہ کہ: خدایا خیر! فدائیانِ سنت کے مابین اس پر ایک نیا دنگا اور مورچہ
بندی کی صورت سامنے نہ آ جائے! "کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں"
حضرات؟