ایک
کافر ماحول میں "رائےعامہ" کی راہداری ادا کرنے والے مسلمان
تحریر:
حامد کمال الدین
چند ہفتے پیشتر – یعنی ماہِ رمضان کے دوران – پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی امریکہ کی ایک
مسلمان کانگریس پرسن مسماۃ الحان عمر کی یہاں کی سرکاری و سیاسی شخصیات سے
ملاقاتوں کی خبریں اور تصویریں منظر عام پر آئیں۔ ہمارے دیکھنے میں، اس پر ہمارے
بعض اسلامی حلقوں کی جانب سے کچھ غیرضروری "ردِ عمل" سامنے آیا رہا، یوں
گویا اس عورت کو گھر پہنچا کر آئیں گے! تب ہم اس پر کچھ لکھنے سے قاصر رہے۔ چند
سطریں اس حوالے سے تاخیر کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش ہیں:
مسلمان کو نامزد nominate کر کے – یعنی اس کا نام لے کر – اور باقاعدہ
اشتہار بنا کر "رگیدنا" آپ کا سب سے پہلا
چوائس نہیں ہونا چاہیے حضرات؛ بہت سطحیں levels ہیں ایک آدمی کو ["درست" سمجھنے] اور
[اس پر "برسنے" اور اس کے "قبائح نشر کرنے"] کے بیچ۔
بس شکر کیا کریں
کہ آپ ایک ایسے ملک میں ہیں جو اٹھانوے فیصد مسلم آبادی پر مشتمل ہے، بس اسی لیے
یہاں کے سیاست دانوں، یہاں تک کہ بہت سے "مذہبی" حلقوں کے ساتھ – چلتے
پھرتے – باطل اتنا سا ہی چپکا نظر آتا ہے جتنا کہ ہم دیکھتے ہیں۔ ویسے غور کریں تو
یہاں بھی، یعنی اٹھانوے فیصد مسلم آبادی کے دیس میں رہتے ہوئے بھی، حق کہنا اور
باطل کو پاس نہ پھٹکنے دینا – خصوصاً ہیومن ازم کے پنسار سے آئی ہوئی ہر ہر شے کو
ناں کیے رہنا – آج کس قدر جان جوکھوں کا
کام ہے… آپ کو اندازہ ضرور ہو گا۔ خود اپنے یہاں بھی برسرعمل مسلمانوں کی ایک بڑی
تعداد اپنے چل پانے کےلیے "رائے عامہ" کی زمین کا کتنا بھاری کرایہ دیتی
ہے… یہاں تک کہ ہر تھوڑی دیر بعد اسلام کی
ایک ’تفسیرِ نو‘ کی نوبت آ جاتی ہے، یہ سب آپ سے اوجھل نہ ہو گا۔ ہم دیندار جو
یہاں کی چھوٹی چھوٹی گلیوں اور سڑکوں تک ہی رہتے ہیں، شاید زیادہ اندازہ نہ کر
پائیں۔ جس دن کچھ بڑے "ہائی ویز" آپ کے زیرِ استعمال آئیں گے، یہاں کے
"ٹال ٹیکس" کا صحیح ادراک شاید آپ کو تب ہو۔ پھر بھی یہ بات ماننے کی
ہے، اپنے ملک کا ماحول بہت بہتر ہے یہاں تک کہ آپ کا اور دوسرے ملکوں کا موازنہ ہی
نہیں، الحمد للہ، تو اس کی وجہ آپ کا "اٹھانوے فیصد مسلم آبادی" ہونا؛
ہے یعنی اسلام کا "معاشرتی دباؤ" منوں اور ٹنوں کے حساب سے دوسرے ملکوں
کی نسبت یہاں پر بڑھا ہوا ہونا۔ ہاں جن ملکوں میں مسلم و کافر کے مابین آبادی کا
تناسب آپ والے اس "اٹھانوے فیصد" سے خاصا مختلف ہے، پھر خاص طور پر جہاں
آپ کو مسلمان کی حیثیت میں ایک پِسی ہوئی اقلیت ہونے کی صورتحال درپیش ہے، وہاں پر
تو آپ کو رائے عامہ کی "دستیاب زمین" کا ایسا ایسا کرایہ ادا کرنا پڑتا
ہے کہ الامان والحفیظ۔
میرا یہ مطلب نہیں
کہ کسی ملک کے قومی دھارے میں "پائے جانے" کےلیے وہ سب کچھ کرنا جو اس
وقت وہاں کیا جاتا یا "کرنا پڑتا" ہے، صحیح بھی ہے۔ ہرگز نہیں۔ دینِ
جدید کی اس ڈھلوان پر کسی بھی طرح لڑھکنے کو وجہِ جواز فراہم کرنا تباہ کن ہو گا۔
ہمارے ائمہ و اساتذہ کا کہنا ہے، فکری
استقامت اس وقت کا سب سے بڑا محاذ ہے؛ خواہ "عمل" میں آپ سے کوئی
ڈھیل کیوں نہ ہو جاتی ہو۔ تاہم زیرِبحث موضوع "وجہِ جواز" سے متعلق سرے
سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تعلق اس موقع سے ہے جب آپ لوگوں کا محاکمہ کرنے بیٹھتے ہیں۔
لوگوں کا محاکمہ judging the people کرتے وقت البتہ آپ کو یہ لحاظ کرنا ہوتا ہے کہ ایک ضلالت کہاں تک
ایک شخص کا اپنا عقیدہ ہے جس کی وہ باقاعدہ دعوت دیتا پھر رہا ہے… اور کہاں تک وہ
ضلالت پر مبنی بات زبان پر لانا اس شخص کے ہاں "رائےعامہ کی سرزمین کا کرایہ" دینے
کی ایک کارروائی ہے۔ ایک گمراہی کہاں تک ایک
شخص کے اپنے عمل و سرگرمی کی محرک ہے… اور کہاں تک وہ اپنے تئیں کسی اچھے مقصد تک
پہنچنے کےلیے اس مقبولِ عام گمراہی کی محض آڑ لے رہا ہے۔ باتیں بےشک دونوں غلط
ہیں، تا ہم سنگینی میں یکساں نہیں۔ وہ سختی اور بےرحمی جو "محاکمہ" کرتے
وقت آپ پہلے والے کے ساتھ روا رکھتے ہیں، وہ بہرحال دوسرے کے ساتھ نہیں رکھی جائے
گی۔
علاوہ ازیں، یہ
بھی دیکھ لیا جاتا ہے کہ باطل بولنے والا ایک شخص آیا مسلمانوں میں کوئی اسوہ
(نمونہ) مانی جانے والی شخصیت ہے، جس کے متعلق اندیشہ ہو کہ اس کے منہ پر دہرائی
جانے والی عبارتوں کو لوگ "دین" کے طور پر لے سکتے ہیں… یا وہ کوئی ایسی
شخصیت ہے جس کے اقوال و افعال "دین" کے طور پر لیے جانے کا کچھ خاص
اندیشہ نہیں۔ اول الذکر کیس میں، آپ کو واقعتاً خاصا سخت ہو جانا ہوتا ہے۔ یہاں تک
کہ ایک نسبتاً چھوٹی بات میں بھی شدت کر لی جاتی ہے؛ کیونکہ مسئلہ دین کی حفاظت کا
ہوتا ہے۔ جبکہ دوسرے کیس میں، معاملہ اتنی سختی کے ساتھ نہیں بھی لیا جاتا۔
اور یہ تو معلوم
ہی ہے کہ رجال پر "جرح" شرعی ضرورت کے تابع ہے؛ یعنی اس ضرورت کو اس کی
حد تک ہی رکھا جاتا ہے۔ الضرورات تُقَدَّرُ بِقَدَرِهَا: ایک ماحول میں اس کی ضرورت ہو سکتی ہے… دوسرے میں ہو
سکتا ہے نہ ہو، یا کم ہو؛ اور ایک آدمی کو شر evil بنا کر پیش
کرنے پر اتنا ایڑی چوٹی کا زور لگانے کی ضرورت نہ ہو۔ ایک ماحول میں، یا ایک خاص
صورتحال میں، ایک آدمی کی شر انگیزی سے بہت زیادہ خبردار کرنے کی ضرورت ہو… جبکہ
دوسرے ماحول میں اس کے شر کے متعلق ایک آدھ جملہ کفایت کر دینے والا ہو، جبکہ وہاں
اس کو کچھ سراہ دینے کی بھی ضرورت ہو کہ اس کی کچھ خرابیوں کے على الرغم مسلمانوں
کو اس سے کچھ فائدہ پہنچا یا کافروں کو اس کے دم سے کچھ پسپائی ہوئی ہے… یا یہ کہ
اس کے دیس کے مسلمان اس کی کچھ خدمات یا محنت یا اس کی صلاحیتوں اور جرأت و ذہانت
کے سبب اپنے آپ کو اس کا ممنون بھی مانتے ہیں۔ وغیرہ
پھر ایک اور اعتبار
considerationبھی فی زمانہ
"جرح و تعدیل" کے ضمن میں سامنے رہنا ضروری ہے۔ اور وہ یہ کہ: مسلمانوں
کے وسائل اور توانائیاں جو آج نہایت محدود اور نایاب ہیں… فی زمانہ مسلمانوں کی
ضرب کو زیادہ سے زیادہ مؤثر و کارگر بنانے کےلیے آپ کو "دشمنوں" کا
دائرہ بڑھا نے کی بجائے گھٹانے کی فکر کرنی چاہیے۔ غیر ضروری محاذ کھولنے سے یہاں
آپ کو از حد بچنا ہے۔ تنقید، ملامت اور جرح کا ایک بڑا حصہ یہاں آپ کو بند کمروں
اور مجالس تعلیم و تعلم کے اندر محصور کرنا ہے۔ محدود وسائل کے دور میں گنےچنے
دشمن رکھنا ہی – پبلک سطح پر – آپ کے حق میں ضروری ہوتا ہے؛ اور اس مقصد کےلیے آپ
کو بہت زیادہ صبر اور برداشت کی ضرورت رہتی ہے۔ ایک وقت میں کسی ایک آدھ دشمن کو ہی
گرا لینے پر آپ کو قوم کی نظریں، حوصلےاور ہمتیں مرکوز کروانا ہوتی ہیں؛ اور
"باقیوں" کے ساتھ حساب کتاب صرف خواص کے فکر و نظر میں محصور رکھا جاتا
ہے۔ ناتوانی کے دور میں ہر "غلط آدمی" کو گرا لینے کی مشق اور
"منہج" آپ کے حق میں جان لیوا رہتا
ہے۔
اب مثال کے طور پر
آپ کو اپنی ضرباتِ حق کی پوری دھکیل thrust ہم جنس پرستی ایسی ایک قبیح تحریک کے سینے میں
پیوست کرنی ہے – بات ہو رہی ہے امریکہ ایسے ایک ملک کی، جہاں ہم جنس پرستی کو حمایتیوں
اور پیروکاروں کی ایک بھاری تعداد میسر آ چکی ہے، یہاں تک کہ وہ وہاں کی سیاست میں
ایک قدآور پلیئر player بن چکی ہے– تو اپنا پورا زور آپ کو وہاں ہم جنس پرستی کے فلسفے اور اس کے
بڑے بڑے زعماء کے خلاف ہی لگانا ہو گا جبکہ اس کے چھوٹےچھوٹے مؤیدین کو نظرانداز
کر رکھنا ہو گا۔ پھر ایسے لوگوں کو تو خاص طور پر نظرانداز کرنا ہو گا جن کا ہم
جنس پرستی سے کوئی نظریاتی رشتہ نہیں بلکہ وہ اپنے کچھ خاص ایشوز کےلیے وہاں پر راستہ بنانے کےلیے اس کا وہ
لیوریج leverage استعمال کرنا چاہ رہے ہیں جو اُس کو وہاں کے
سیاسی منظرنامے میں already حاصل ہے۔ دوبارہ عرض کر دوں، میرا یہ مطلب نہیں
کہ ان کا ایسی ایک باطل تحریک کا سیاسی لیوریج استعمال کرنا صحیح ہے۔ اور یہ بھی
حق ہے کہ کسی کا سیاسی لیوریج استعمال کرنا اس کا لیوریج بڑھانے میں بھی مددگار
رہتا ہے؛ سو یہ ایک درجے میں اس کی تقویت ہوئی۔ یہاں میں صرف یہ عرض کر رہا ہوں کہ
مقصد آپ کا اگر وہاں پر ہم جنس پرستی کی تحریک کے خلاف محاذ آرا ہونا ہے تو اپنی
ضرباتِ حق کو اس باطل کی بڑی اور مرکزی شخصیات پر ہی مرکوز کر رکھنا ہو گا۔ بصورتِ
دیگر آپ کا محاذ پھیل جائے گا؛ اور پھیلتے پھیلتے خود آپ کی نظر سے بڑی حد تک
اوجھل ہو جائے گا؛ آخر اپنے تعاقب کےلیے آپ کے پاس وہاں کچھ زید بکر ہی رہ جائیں
گے۔
تاہم اگر آپ کا
مقصد مسلمانوں کو خبردار کرنا ہے کہ امریکی سیناریو میں بھی ہم جنس پرستی تحریک کا
لیوریج استعمال کرنا غلط ہی ہے… تو وہاں یہ کام آپ کو اس توازن کے اندر رہتے ہوئے
کرنا ہے جس کے ایک پلڑے میں ایسے مسلمانوں کی غلط کاری واضح کرنا ہو جو اپنے مسلم
ایشوز کےلیے ہم جنسی پرستی تحریک کی سیاسی قوت سے مدد لے رہے ہیں، تو دوسرے پلڑے
میں خود ان مسلم ایشوز اور چیلنجز کے ساتھ پورا اترنے کی جانب کوئی مؤثر رہنمائی
جس کےلیے وہ یہ سب پاپڑ بیل رہے ہیں۔ اس ترازو کا صرف ایک ہی پلڑا آپ کے یہاں پایا
جانا، اور دوسرے کی بابت نری آئیں بائیں شائیں، کم از کم کسی پبلک بیانیے کے حق
میں فائدہ مند نہیں۔ بلکہ الٹا اثر کرنے والا counter-productive ہو سکتا ہے۔ ہاں خواص کو،
جو خود ایک توازن قائم کر سکتے ہوں، آپ کی ان باتوں کا فائدہ ضرور ہو سکتا ہے؛ جس
کےلیے پبلک شور شرابے کی ضرورت نہیں۔ مقصد: ایسی صورتحال میں یہ ایک "ذکر کر
دینے" کی بات تو ہو سکتی ہے "بیانیے" اور "پراپیگنڈے" کی
نہیں۔
*****
اوپر جو باتیں ہوئی،
وہ اس موضوع سے متعلقہ پیمانوں parameters کے حوالے سے ہیں۔ ضروری نہیں ہر شخص ان
پیرامیٹرز کی تطبیق application
اتنی ہی آسانی سے کر لے۔ خود میرے لیے ایک طالب
علم کے طور پر اس مسئلہ کا زیادہ آسان حل یہ رہتا ہے کہ ایک ایشو یا شخصیت یا روش
کی بابت امت کے ان علماء و مشائخ کا عمومی رخ ہی دیکھوں جو ان جدید پیش آمدہ مسائل
میں ذرا ایک گہری نظر اور ایک مستقل سروکار رکھتے ہیں۔ خصوصاً وہ مشائخ جو امریکہ
و یورپ میں برسر عمل داعیوں کے ساتھ ایک قسم کے liaison میں رہتے
ہیں؛ کیونکہ مسئلہ زیرِبحث امریکہ و یورپ کے زمینی حقائق سے متعلق ہے۔
اس سلسلہ میں یہ
دیکھنا بھی ضروری رہتا ہے کہ… کسی ملک میں پائی جانے والی ایک سیاسی یا سماجی شخصیت
کو مذموم جاننے میں خود اس ملک میں خالص عقیدہ کی داعی شخصیات اپنے پبلک بیانیہ کے
اندر کس حد تک جاتی ہیں۔ اُس ملک سے باہر بیٹھے لوگ بہرحال وہاں پائے جانے والے سب
عوامل factors کا ادراک کر سکتے ہیں، نہ ان عوامل میں سے ایک ایک کا
صحیح وزن، اور نہ ان میں سے ایک کو دوسرے پر صحیح ترجیح دے سکتے ہیں۔ (ایک کافر
ملک میں کچھ عرصہ گزار چکا شخص اس کا کچھ اندازہ ضرور کر سکتا ہے، دوسروں کےلیے
شاید مشکل ہو)۔ اس حوالہ سے بھی میں دیکھوں، تو امریکہ میں موجود داعیانِ عقیدہ ہمارے
زیرِبحث اس "روش" کی مذمت تو خوب خوب کرتے ہیں، تا ہم ہمارے زیرِبحث اس "شخصیت"
کے لتے لینے میں کوئی خاص سرگرمی شاید نہیں رکھتے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے، سیاسی
عمل میں کہیں پر اس شخصیت کی مدد کا سوال اٹھ کھڑا ہو تو – سیاسی عمل کی حد تک –
وہ اس کی مدد یا حمایت کے بھی قائل ہوں۔
*****
بات اپنے موضوع سے
تھوڑی ہٹ جائے گی، لگے ہاتھوں ایک اور مسئلہ کی بھی نشان دہی کر دی جائے…
بہت سارے ملکوں
میں موجود نیشنلسٹ رائےعامہ سے کچھ space (گنجائش)
لینے کےلیے وہاں پر موجود مسلم عوامی قیادتوں یا جماعتوں کو آج ایسی ایسی پوزیشنز positions لینی پڑتی
ہیں جو کسی دوسرے ملک میں موجود مسلم قیادتوں کی لی ہوئی پوزیشن سے صاف ٹکرا رہی ہوں۔ وہ دور جس میں آپ کا مسلم
وجود ملکوں، ریاستوں، حکومتوں اور ان پر مسلط جابروں سرکشوں کے بیچ کٹا پھٹا
ہے، آپ کو یہ مسئلہ جگہ جگہ پیش آتا ہے:
بھارت میں موجود مسلمانوں
کی ایک عوامی قیادت کےلیے بھارتی نیشنلزم کا اچھا خاصا تڑکا لگائے بغیر وہاں کے
سیاسی عمل میں کوئی بڑی کارکردگی دکھانا تو دور کی بات، صرف وہاں پایا جانا دشوار
یا شاید ناقابلِ تصور ہو۔ کوئی ذی ہوش ہماری اس بات کی صحت پر شک نہیں کر سکتا۔ بھارت
کی مثال ہم نے ایک انتہائی extreme صورت بیان
کرنے کےلیے دی۔ ورنہ کونسا ملک یہاں آج ایسا ہے، کیا مسلم کیا غیر مسلم، جہاں "قومی
دھارے" والا قد کاٹھ رکھنے کےلیے آپ کو – بطور ایک عوامی قیادت – اپنے بیانیے
کو مقامی نیشنلزم کے تاؤ نہیں دینے پڑتے؟ پاکستان، بنگلہ دیش، ترکی، سعودی عرب،
قطر، یمن، مصر، سوڈان، مراکش، الجزائر… کونسا ملک ہے جہاں کی عوامی پزیرائی رکھنے
اور وہاں کے میڈیا میں بسنے والی قیادتیں اسلام کا مفاد خاص اپنے ملک سے جوڑ کر
نہیں رکھتیں؟ بلکہ اس کے بغیر اپنے آگے بڑھنے کےلیے شاید وہ کوئی راستہ تک نہیں
پاتیں۔ ظاہر ہے، بہت بار ایسا ہو گا جہاں ان میں سے ایک ملک کا مفاد دوسرے ملک کے
مفاد کے ساتھ متصادم ہو جائے۔ یعنی جہاں ایک ملک کی "رائےعامہ" دوسرے
ملک کی "رائےعامہ" کے ساتھ باقاعدہ برسرِجنگ ہو؛ اور آئے روز ان کے
مابین گولہ باری ہو جاتی ہو۔ مراکش اور الجزائر کے کسی سرحدی تنازعے میں ہر دو طرف
کی اسلامی عوامی قیادتوں کو لا محالہ اپنی اپنی "رائے عامہ" کا بلندآواز
حمایتی رہنا ہو گا۔ مصر اور سوڈان کے مابین "نیل" وغیرہ ایسے دیرینہ
تنازعات پر، جو ایک مستقل عداوت میں ڈھل گئے ہوئے ہیں اور بات بےبات سر اٹھاتے ہیں،
ہر دو ملک کی "قومی دھارے" والی اسلامی قیادتیں اپنی اپنی قوم کے حق میں
نعرے لگائیں گی، اور ایسا نہ کرنے والی قیادتیں اسی "قومی دھارے" کے
پاؤں میں روندی جائیں گی۔ سعودی عرب اور قطر کے مابین چلنے والے تنازعے میں قریب
قریب یہی معاملہ۔ علیٰ ھٰذاالقیاس۔ اس مسئلہ کو لینے کا بھی ایک تنگ نظر طریقہ تو
یہ ہے کہ آپ پاکستان میں بیٹھ کر مثلاً "اسدالدین اویسی" وغیرہ شخصیات
کے خوب خوب لتے لیں جو "دیکھو پاکستان کے خلاف کیسا کیسا زہر اگلتی ہیں"۔
جبکہ سرحد کے دوسری طرف آپ (بھارت میں بیٹھے مسلمان) "حافظ سعید و سراج
الحق" وغیرہ شخصیات کے خلاف مسلمانوں
کے جذبات بھڑکائیں جو اپنے ملک میں "بھارت مخالف بیانیہ کی روحِ رواں بنے
رہتے اور کسی بھارتی لیڈر کا دورہ ہو جانے پر بھی احتجاجی جلوس نکالتے ہیں"۔ بےشک
ایک سطحی ذہن ان دونوں کا ’فیصلہ‘ ہی کر آنا ضروری سمجھے گا؛ یعنی "اسدالدین
اویسی وغیرہ" اور "حافظ سعید و سراج الحق وغیرہ" میں سے ایک کو دشمنِ
دین و ملت ڈکلیئر کر آنا؛ جو کہ ہر دو طرف کے نیشنلزم کےلیے ذرہ مشکل نہیں! جبکہ
ایک دوسرا سمجھدار طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم مثلاً پاکستان میں بیٹھے لوگ یہ کہیں کہ وہ
مجبوریاں جو "اسدالدین اویسی" ایسی ایک مسلم آواز کو بھارت میں پائے اور
سنے جانے کےلیے لاحق ہیں، ہمیں ان مجبوریوں اور ان کی نزاکتوں کا پورا ادراک اور احساس
ہے، اور ایسی آوازوں کو ہم بسا غنیمت سمجھتے ہیں، اور ہماری ہر دم دعاء ہے کہ خدا
انہیں وہاں کے ظالموں کے خلاف مدد و نصرت دے، بھلے وہ اس پاکستان کے خلاف جو ہمارا
صبح شام کا نعرہ ہے، کتنا ہی کیوں نہ بولتے ہوں۔ المختصر، کسی ملک میں
"رائےعامہ" کی سڑکوں راہداریوں کے استعمال پر لاگو کر رکھے گئے اس جان
لیوا "ٹال ٹیکس" کو امت کے اس
حالیہ مرحلہ میں بہرحال برداشت کرنا؛ اور اس "ٹیکس" کو خود اپنی نادانی
سے اس سے بھی کسی بڑے نقصان یا سانحے میں بدلنے نہ چل دینا، جس سے مسلمانوں کے
مابین نفرتیں اور عداوتیں خدانخواستہ اور بڑھ جائیں۔ ان ساری باتوں کا سادہ حل:
اپنی دشمنی اور عداوت کو اسلام کے کھلے دشمنوں تک محدود رکھنا اور گرے ایریاز grey areasمیں آنے والے طبقوں خاص کر مسلمانوں کو اپنی مذمت اور مخاصمت کے معاملہ میں
نظرانداز کرنا، نیز اسلام کےلیے ان کی خدمات کو بہرحال سراہنا۔ یعنی "تحسین"
ورنہ "تغافر"؛ عوامی سطح پر۔ اس کے سوا جو ہے وہ کچھ محدود مجالس کے
اندر؛ یعنی ایک "ذکر" میں آ جانے والی بات نہ کہ "بیانیے" میں۔
مسلم شعور کو اس حد تک بلند کیے بغیر چارہ نہ ہو گا؛ اگرچہ ہر خطے میں ایسے
سمجھدار لوگ تھوڑے کیوں نہ پائے جائیں؛ کیا پتہ کسی دن وہ ایک دعوت بھی بن جائیں۔
(حالات کے مسلسل تھپیڑوں کے ہاتھوں ایسا ہو جانے کا امکان بھی بہرحال ہے ان شاء
اللہ، گو اس کےلیے ایک غیرمعمولی محنت درکار ہے)۔ ایسا ہونے لگے تو "امت" کا ایک معنىٰ
آج بھی کسی نہ کسی سطح پر عود کر آ سکتا ہے؛ ورنہ تو "امت" نام کی شے اب
کتابوں ہی میں رہ گئی ہے۔ واللہ المستعان، وھو الھادی الموفِق