فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت
وَقَدْ
يَتَعَذَّرُ أَوْ يَتَعَسَّرُ عَلَى السَّالِكِ سُلُوكُ الطَّرِيقِ الْمَشْرُوعَةِ
الْمَحْضَةِ إلَّا بِنَوْعِ مِنْ الْمُحْدَثِ لِعَدَمِ الْقَائِمِ بِالطَّرِيقِ
الْمَشْرُوعَةِ عِلْمًا وَعَمَلًا. فَإِذَا لَمْ يَحْصُلْ النُّورُ الصَّافِي
بِأَنْ لَمْ يُوجَدْ إلَّا النُّورُ الَّذِي لَيْسَ بِصَافٍ. وَإِلَّا بَقِيَ
الْإِنْسَانُ فِي الظُّلْمَةِ فَلَا يَنْبَغِي أَنْ يَعِيبَ الرَّجُلُ وَيَنْهَى
عَنْ نُورٍ فِيهِ ظُلْمَةٌ. إلَّا إذَا حَصَلَ نُورٌ لَا ظُلْمَةَ فِيهِ وَإِلَّا
فَكَمْ مِمَّنْ عَدَلَ عَنْ ذَلِكَ يَخْرُجُ عَنْ النُّورِ بِالْكُلِّيَّةِ إذَا
خَرَجَ غَيْرُهُ عَنْ ذَلِكَ؛ لِمَا رَآهُ فِي طُرُقِ النَّاسِ مِنْ
الظُّلْمَةِ.وَإِنَّمَا قَرَّرْت هَذِهِ " الْقَاعِدَةَ " لِيُحْمَلَ
ذَمُّ السَّلَفِ وَالْعُلَمَاءِ لِلشَّيْءِ عَلَى مَوْضِعِهِ وَيُعْرَفَ أَنَّ
الْعُدُولَ عَنْ كَمَالِ خِلَافَةِ النُّبُوَّةِ الْمَأْمُورِ بِهِ شَرْعًا:
تَارَةً يَكُونُ لِتَقْصِيرِ بِتَرْكِ الْحَسَنَاتِ عِلْمًا وَعَمَلًا وَتَارَةً
بِعُدْوَانِ بِفِعْلِ السَّيِّئَاتِ عِلْمًا وَعَمَلًا وَكُلٌّ مِنْ الْأَمْرَيْنِ
قَدْ يَكُونُ عَنْ غَلَبَةٍ وَقَدْ يَكُونُ مَعَ قُدْرَةٍ. " فَالْأَوَّلُ
" قَدْ يَكُونُ لِعَجْزِ وَقُصُورٍ وَقَدْ يَكُونُ مَعَ قُدْرَةٍ
وَإِمْكَانٍ. و " الثَّانِي ": قَدْ يَكُونُ مَعَ حَاجَةٍ وَضَرُورَةٍ
وَقَدْ يَكُونُ مَعَ غِنًى وَسَعَةٍ، وَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْ الْعَاجِزِ عَنْ
كَمَالِ الْحَسَنَاتِ وَالْمُضْطَرِّ إلَى بَعْضِ السَّيِّئَاتِ مَعْذُورٌ فَإِنَّ
اللَّهَ يَقُولُ: {فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ} وَقَالَ: {لَا يُكَلِّفُ
اللَّهُ نَفْسًا إلَّا وُسْعَهَا} - فِي الْبَقَرَةِ وَالطَّلَاقِ - وَقَالَ:
{وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إلَّا
وُسْعَهَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ} وَقَالَ
النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {إذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرِ
فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ} وَقَالَ سُبْحَانَهُ: {وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ
فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ} وَقَالَ: {مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ
مِنْ حَرَجٍ} وَقَالَ: {يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ
الْعُسْرَ} وَقَالَ: {فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إثْمَ
عَلَيْهِ} وَقَالَ: وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ.وَهَذَا
أَصْلٌ عَظِيمٌ: وَهُوَ: أَنْ تَعْرِفَ الْحَسَنَةَ فِي نَفْسِهَا عِلْمًا
وَعَمَلًا سَوَاءٌ كَانَتْ وَاجِبَةً أَوْ مُسْتَحَبَّةً. وَتَعْرِفَ السَّيِّئَةَ
فِي نَفْسِهَا عِلْمًا وَقَوْلًا وَعَمَلًا مَحْظُورَةً كَانَتْ أَوْ غَيْرَ
مَحْظُورَةٍ - إنْ سُمِّيَتْ غَيْرُ الْمَحْظُورَةِ سَيِّئَةً - وَإِنَّ الدِّينَ
تَحْصِيلُ الْحَسَنَاتِ وَالْمَصَالِحِ وَتَعْطِيلُ السَّيِّئَاتِ وَالْمَفَاسِدِ.
وَإِنَّهُ كَثِيرًا مَا يَجْتَمِعُ فِي الْفِعْلِ الْوَاحِدِ أَوْ فِي الشَّخْصِ
الْوَاحِدِ الْأَمْرَانِ فَالذَّمُّ وَالنَّهْيُ وَالْعِقَابُ قَدْ يَتَوَجَّهُ
إلَى مَا تَضَمَّنَهُ أَحَدُهُمَا فَلَا يَغْفُلُ عَمَّا فِيهِ مِنْ النَّوْعِ
الْآخَرِ كَمَا يَتَوَجَّهُ الْمَدْحُ وَالْأَمْرُ وَالثَّوَابُ إلَى مَا
تَضَمَّنَهُ أَحَدُهُمَا فَلَا يَغْفُلُ عَمَّا فِيهِ مِنْ النَّوْعِ الْآخَرِ
وَقَدْ يُمْدَحُ الرَّجُلُ بِتَرْكِ بَعْضِ السَّيِّئَاتِ الْبِدْعِيَّةِ
والفجورية لَكِنْ قَدْ يُسْلَبُ مَعَ ذَلِكَ مَا حُمِدَ بِهِ غَيْرُهُ عَلَى
فِعْلِ بَعْضِ الْحَسَنَاتِ السُّنِّيَّةِ الْبَرِّيَّةِ. فَهَذَا طَرِيقُ
الْمُوَازَنَةِ وَالْمُعَادَلَةِ وَمَنْ سَلَكَهُ كَانَ قَائِمًا بِالْقِسْطِ
الَّذِي أَنْزَلَ اللَّهُ لَهُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ.
مجموع الفتاوى جـ10
صـ365
"سالک کےلیے کسی وقت یہ محال یا پھر دشوار ہوتا ہے کہ
وہ ایک خالص مشروع راستہ چلے، اِلَّا یہ کہ ایک قسم کا محدَث (گھڑی گئی شے) بھی اس
کے ساتھ ہو۔ اس کی وجہ، مشروع راستے کو علم یا عمل کی سطح پر قائم کرنے والا وہاں
میسر نہ ہونا۔ سو جس وقت صاف روشنی دستیاب نہ ہو، اور ہو تو ایسی جو بالکل صاف
نہیں، یوں کہ اگر اسے بھی نہ لے تو آدمی اندھیرے ہی میں پڑا رہے، وہاں یہ جائز نہ
ہو گا کہ آدمی اس (کو اختیار کرنے) کی عیب جوئی کرےاور ایک ایسی روشنی سے ممانعت
کرے جس میں کچھ ظلمت ہے۔ اِلَّا یہ کہ ایسی روشنی میسر ہو جس میں کوئی ظلمت نہیں۔
کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جواس سے گریز کرتے کرتے روشنی سے بالکلیہ محروم ہو گئے۔ اس
لیے کہ ان کو لوگوں کے راستے میں کچھ ظلمت نظر آنے لگی تھی۔
اصل میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا ہے تا کہ: سلف اور علماء نے
اگر کہیں کوئی مذمت کی ہے تو اس کو اس کے صحیح محل پر محمول کیا جائے، اور یہ
معلوم ہو کہ خلافتِ نبوت جس کے ہم شرعاً مامور ہیں، اس سے عدولی (ہٹنا) کسی وقت
علم و عمل کی حسنات میں کوتاہی ہو جانے کے باعث ہو گا تو کسی وقت علم و عمل کی
سیئات کے ارتکاب ایسی زیادتی کے باعث۔ اور یہ ہر دو امر کسی وقت آپ کی بےبسی سے ہو
گا اور کسی وقت قدرت و امکان رکھتے ہوئے۔
پس یہ دو باتیں ہوئیں: پہلی یہ کہ: کسی وقت ایسا بےبسی اور
نارسائی کے باعث ہوتا ہے تو کسی وقت قدرت اور امکان رکھتے ہوئے۔ دوسری یہ کہ: کسی
وقت ایسا حاجت اور اضطرار کے تحت ہوتا ہے اور کسی وقت حالتِ استغناء میں اور وسعت
رکھتے ہوئے۔
اب وہ شخص جو کامل حسنات کی تحصیل سے عاجز ہے، اور وہ شخص
جو بعض سیئات کو اختیار کرنے کے معاملہ میں حالتِ اضطرار کا شکار ہے، تو یہ ہر دو
معذور ہوئے۔ ان سب دلائل کی بنیاد پر: آیت{فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا
اسْتَطَعْتُمْ "اللہ کا تقویٰ کرو اپنی
استطاعت بھر}، آیت: {لَا
يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إلَّا وُسْعَهَا "اللہ نہیں مکلف کرتا کسی نفس کو مگر اس کی گنجائش بھر"}، آیت:{وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا
الصَّالِحَاتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إلَّا وُسْعَهَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ
الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ "اور جو
لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے، جبکہ ہم نہیں مکلف کرتے کسی نفس کو مگر اس کی
گنجائش بھر، وہ ہیں جنت والے، جس میں وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں"}، حدیث: {إذَا أَمَرْتُكُمْ
بِأَمْرِ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ "جب
میں تمہیں کسی امر کا حکم دوں تو اسے بجا لاؤ اپنی استطاعت بھر"}، آیت: {وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي
الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ" اور
نہیں رکھا اللہ نے تم پر دین میں کوئی حرج"}، آيت: {مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ
عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ "نہیں چاہتا اللہ
کہ رکھے تم پر کوئی حرج"}، آیت: {يُرِيدُ
اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ "اور اللہ تو چاہتا ہے تمہارے ساتھ آسانی، اور
نہیں چاہتا تمہارے ساتھ تنگی"}،
{فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إثْمَ عَلَيْهِ "پس جو ناچار ہو، نہ یوں کہ خواہش سے کھائے اور نہ یوں
کہ ضرورت سے آگے بڑھے، تو اس پر کوئی گناہ نہیں}، آیت: {وَلَا
جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ "اور
نہیں کوئی گناہ تم پر جہاں تم سے چوک ہوئی"}۔
اب یہ ایک عظیم قاعدہ ہے۔ اور وہ یہ کہ نیکی کی تم كو فی
نفسہٖ نشان دہی ہو، عقیدہ کا مسئلہ ہو یا عمل کا، اور خواہ وہ نیکی واجب کے درجے
کی ہو یا مستحب کے درجے کی۔ پھر برائی کی تم کو فی نفسہٖ نشان دہی ہو، عقیدہ میں
یا عمل میں، خواہ وہ حرام کے درجے کی ہو یا اس سے کم، حرام سے کم ہونے کی صورت میں
اگر اس کو برائی کہا جا سکے۔ جبکہ دین ہے: حسنات اور مصالح کا حصول، اور سیئات اور
مفاسد کی تعطیل۔ جبکہ بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی فعل کے اندر، یا ایک ہی شخص
کے اندر، یہ دونوں امر (حسنة اور سیئة) بیک وقت پائے جا رہے ہوتے ہیں۔ تو یہاں؛ایک
بات کی مذمت اور ممانعت کرنے یا اسے گناہ قرار دینے کا تعلق ہو جائے گا اس(فعل یا
شخص) میں پائے جانے والے ایک خاص پہلو سے، درحالیکہ اس میں پائے جانے والے دوسرے
پہلو کو بھی نظرانداز نہ ہونے دیا جائے گا۔ اسی طرح ایک بات کی ستائش اور تاکید
کرنے یا اسے باعث ثواب قرار دینے کا تعلق ہو جائے گا اس (فعل یا شخص) میں پائے
جانے والے ایک خاص پہلو سے، درحالیکہ اس میں پائے جانے والے دوسرے پہلو کو بھی
نظرانداز بہرحال نہ ہونے دیا جائے گا۔ کسی وقت آدمی کی تعریف اس بات پر کی جائے گی
کہ اس نے بدعات یا گناہوں پر مبنی سیئات سے اجتناب کیا ہے درحالیکہ اسے اس تعریف
کے قابل نہ سمجھا جا رہا ہو گا جو کسی دوسرے آدمی کی نیک اعمال پر مبنی حسنات کی
ادائیگی پر کرنا بنتی ہو۔
تو یہ ہوا موازنہ اور معادلہ کا طریقہ، جو آدمی اس پر چلا
وہ اس قسط کو قائم کرنے والا ٹھہرے گا جس کےلیے اللہ نے کتاب اور میزان
اتاری۔
ابن تیمیہ کا اقتباس ختم
ہوا۔
فقہ
الموازنات کے تعلق سے ایقاظ میں شایع ہونے والی چند تحریریں، یہاں
کلک کریں