سلفی دیوبندی جماعتی خلافتی "معارک"
کے چند ایس او پیز
حامد کمال الدین
ایک
کام کر لیں، میرا خیال ہے انصاف کا تقاضا ہے:
جب
آپ یہ کہیں "سلفی ایسے کہتے ہیں"، یا "دیوبندی ایسے کہتے
ہیں"، وغیرہ... تو:
1۔ ایک تو یہ
تسلی فرما لیں کہ "سلفی" یا "دیوبندی" دنیا کی نمائندہ، یعنی
اپنے مکتبِ فکر پر اتھارٹی، مانی جانے والی شخصیات وہ بات کہتی ہیں۔ ان نمائندہ
شخصیات کے علاوہ لوگوں یا ‘لڑکوں’ وغیرہ کے حوالے کم از کم نہ دیں اس مقام پر۔
ورنہ آپ معاملے کو اس قدر الجھا دیں گے کہ سلجھانے کی کوئی صورت باقی نہ رہے۔ الا
یہ کہ آپ کا مقصد ہی الجھانا ہو نہ کہ سلجھانا۔ حاشاکم
اور اگر اس کی سکت نہ ہو، یا ضرورت محسوس نہ کریں، اور
کسی مکتب فکر کی غیر نمائندہ شخصیت ہی کا کوئی نظریہ یا تحریر یا تقریر آپ کے زیر
نقد آنا ہو، تو وہاں اس لینگویج سے بھی تھوڑا احتراز فرما لیں کہ "سلفی یوں
کہتے ہیں" یا "دیوبندی یوں کہتے ہیں"۔ بس یہ کہہ لیں کہ فلاں شخصیت
جس کا تعلق آپ کے خیال میں فلاں مکتب فکر سے ہے، یہ کہتی ہے۔
آدھی لڑائیاں تو اپنی شاید اسی جگہ ختم ہو جائیں۔ بجائے
پورے پورے مسلک کی پورے پورے مسلک کے ساتھ کُشتی کروانے کے، اور ہزارہا انداز کی
عصبیت کو بیداری کا موقع دینے کے، وہ ہتھ جوڑی صرف دو بندوں کی رہ جائے گی، یا
زیادہ سے زیادہ اکھاڑے کے آس پاس پائے جانے والوں کی۔ یہ بھی کوئی چھوٹی مہربانی
نہ ہو گی خلقتِ عام پر، جس کےلیے فکرمند ہونا ہم سب پر واجب ہے۔
2۔ ایسی کوئی
سویپنگ سٹیٹمنٹ sweeping statement دینے سے پہلے اس بات کی بھی کچھ تسلی فرما لیجیے کہ ایک مکتب کے
نمائندہ اساطین کے ہاں آیا وہ کوئی متفق علیہ بات ہے، یا خود ان کے ہاں اس پر دو
یا دو سے زیادہ رائے پائی جاتی ہیں؟ مؤخر الذکر صورت میں، یہ کہنے کی بجائے کہ
"سلفی یہ کہتے ہیں" یا "دیوبندی یہ کہتے ہیں"، یہ کہیے کہ
"سلفیوں کا ایک گروہ یہ کہتا ہے" یا "دیوبندیوں کا ایک گروہ یہ
کہتا ہے"۔ جس کا خودبخود یہ مطلب ہو گا کہ اُس مکتب کا ایک دوسرا گروہ آپ کا
ہم خیال ہے؛ اور اس صورت میں آپ اور خود اُس مکتب کا وہ دوسرا گروہ مل کر اس کے
ساتھ اختلاف کر رہے ہیں۔ یہ تو ایک کمال یکجہتی ہوئی اہل سنت طبقوں کی آپس کے
مابین۔ یہ اہل سنت طبقے اتنا سا ترس آپ سے پانے کے مجاز ہیں ضرور ویسے۔
ہاں کسی وقت یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک مکتب کے غالب
اساطین یہ کہتے ہیں۔ لیکن ہوں وہ اُس مکتب کے اساطین۔ شرط اتنی ہے۔
اور واضح رہے، اپنی ان تمام تجاویز کے دوران میں نے آپ
کو بحث سے نہیں روکا!
صرف پبلک کے نقصان کی بات کی ہے!
اوپر کی عبارت ایک پوسٹ کی صورت میں دی گئی تو اس پر ہمیں ایک کامنٹ موصول ہوا:
شیخ
کیا یہ بہت زیادہ سخت شرط نہیں ہے؟؟
نمائندگی کس کا استحقاق ہو سکتا ہے؟
کیا ہم مولانا فضل الرحمن صاحب کو دیوبند اور ساجد میر صاحب کو اہلحدیث
کا نمائندہ کہیں تو بھی ہزاروں نہیں لکھوں اعتراض کرنے والے سامنے آ جائیں گے۔
میری رائے میں معاملہ عرف کا ہے۔ چاہے کہنے والا کوئی گمنام شخص ہی
کیوں نہ ہو۔
جس پر ہماری یہ ایک مزید پوسٹ تحریر ہوئی:
ج:
بات یہ ہے کہ کس حوالے سے آپ ایک جماعت کی نمائندگی کا
سوال حل کرنا چاہتے ہیں۔
جس وقت دیوبندی یا اہلحدیث "سیاست" آپ کے زیر
بحث ہو تو فضل الرحمن صاحب اور ساجد میر صاحب، گروہ کی ایک نمائندہ شخصیت کے طور
پر ذکر ہو سکتے ہیں، بلا شبہ۔
"اعتقادی یا فقہی پوزیشن" کی بات ہو گی تو
البتہ حوالہ ہوں گے آپ کا: اشرف علی تھانوی، انور شاہ کاشمیری، شیر علی، تقی
عثمانی، وغیرھم، ایک طرف۔ اور سید نذیر حسین، ثناء اللہ امرتسری، اسماعیل سلفی،
ثناء اللہ مدنی، وغیرھم، دوسری طرف۔ یہ بھی چند ایک نہیں ہوتے، بڑی تعداد میں ہوتے
ہیں ہر دور کے اندر، ہم نے چند نام علیٰ سبیل المثال ذکر کیے نہ کہ علیٰ سبیل
الحصر۔ یوں سمجھیے ہر مسلک کے تمام اہل افتاء اور بڑے بڑے نامور اساتذہ و محققین۔
ان سب کا عمومی رجحان ہی آپ کے پیش نظر رہے گا اس طائفہ سے منسوب ایک علمی پوزیشن
کا تعین کرتے وقت۔
ہر شےء کے اپنے اپنے رجال ہیں۔ بےشک ہر مکتب فکر کے بڑے
بڑے مشہور یا مقبول واعظ بھی ہوں گے، صوفی و درویش بھی ہوں گے، مجاہد بھی ہوں گے،
پیر و مربی بھی ہوں گے، سیاستدان بھی ہوں گے........ تاہم ایک مکتب کی
"عقائدی پوزیشن" پر مرجع کہلا سکنے والے کچھ مخصوص لوگ ہی ہو سکتے ہیں،
ہماری بات اس متعلق تھی۔
کسی مسلک کا عُرف میرا خیال ہے رویوں یا اعمال یا اخلاق
اور practices وغیرہ سے متعلق امور میں حوالہ بن سکتا ہے۔ گو اس میں بھی التباس
اور واہمہ ایک بڑی گمراہ کن misleading شےء ہے۔ ضروری نہیں
ایک مسلک کے چند جھگڑالو، جو زیادہ فارغ ہونے کی وجہ سے، یا سوشل میڈیا سکِل skill اچھی رکھنے کی وجہ
سے، یا خاص آپ سے زیادہ رابطے یا تعارف میں آ سکنے کی وجہ سے، اور خود اس
"تعارف" کی گوناگوں وجوہات! یا کسی وقت خود آپ کے ان کو کوئی ضد دلا
بیٹھنے کی وجہ سے، کہ فرشتہ ہونے کا دعویٰ آپ کو بھی بہرحال نہ ہو گا، یوں خاص آپ
کی نظر میں زیادہ visible ہوئے رہنے، یا آنکھ میں زیادہ ‘رَڑکنے’ کی وجہ سے، رویوں یا اخلاق
یا اعمال تک کے حوالہ سے، وہ چند جھگڑالو آپ کےلیے اپنے مسلک کی ایک بڑی خاموش
اکثریت کی "پوری پوری" نمائندگی کر رہے ہوں! خاصی زیادتی ہو جائے گی کہ
سو پچاس سیمپل لے کر آپ کروڑوں کے متعلق فیصلے کر ڈالیں۔
اور پھر مسئلہ اگر صرف اتنا ہوتا کہ آپ ہی نے
"ان" کے متعلق کوئی رائے قائم کرنی ہے، تو بھی ایک بات تھی۔ یہ بھی تو
ہو سکتا ہے کہ "آپ" کو دیکھ کر دوسری طرف بھی کسی پورے گروہ کے متعلق
ایک "پکی" رائے قائم کی جا رہی ہو! یوں ایک ہی چھوٹی سی فیس بک بحث ہر
دو طرف "مفید" ثابت ہو رہی ہو! اور پھر چین ری ایکشن chain
reaction،
جس کی کوئی حد ہوتی ہے اور نہ حساب!
اس وجہ سے، میں تو پھر ایک بار یہاں کے عالَمِ بحث و
جدال کے سب "متعلقین" سے درخواست کروں گا:
جو "سلفی" یا "دیوبندی" یا
"جماعتی" یا "خلافتی" قسمت کا مارا آپ کی حق پرست ڈاڑھ تلے آ
گیا ہے اس کو کچا چبا جائیے، میں کب منع کرتا ہوں۔ اپنے شکار پر ہرگز ترس نہ کھائیے،
کہ بہرحال آپ کی محنت ہے۔ بس اتنا ہو کہ اس ایک مسکین کو ڈاڑھ میں لیتے وقت
"کروڑوں" کی نیت نہ کیجیے؛ اتنے زیادہ نقصان کے متحمل ہم نہیں ہیں! اہل
سنت کو ابھی جینا ہے، فی الحال اپنی انہی کمزوریوں، کوتاہیوں اور نارسائیوں کے
ساتھ!
بُورِکْتُم جمیعًا!