روک رکھنا زبان کو صحابہؓ کے آپس کے نزاعات سے
|
:عنوان |
|
|
ہمارے سلف کے ہاں از حد زور دیا گیا: زبان کو اس مسئلہ میں "روک ہی" رکھنے پر۔ جو جتنا بولا ان تنازعات کا "فیصلہ" فرمانے کو، وہ اتنا پھنسا۔ جو جتنا چُپ، وہ اتنا بھلا۔ |
|
|
روک رکھنا زبان کو صحابہؓ کے آپس کے نزاعات سے
حامد
کمال الدین
کیا
جب بھی مشاجرات صحابہؓ ایسے ایک نازک و پُر خار مسئلہ میں کوئی نادان ایک جھگڑا
اٹھا دے یا کوئی بدطینت ایک چپکی سی شرارت کر جائے، ہم سب آپس میں اس پر شروع ہو
جایا کریں؟ اور کب تک؟ ہر برس؟ ہر مہینے؟ ہر ہفتے؟ ہفتے میں کئی کئی بار؟ ہٹ ہٹ کر؟
تھکنا نہ اکتانا؟! سوشل میڈیا نہ ہوا عذاب ہوا!
جانتے
تو ہم سب ہیں کہ اس حساس مسئلہ پر خاموشی اختیار کرنا آدمی کے اپنے دل کی سلامتی
کےلیے سب سے اعلیٰ اور اپنی اخروی جوابدہی کے حق میں سب سے مضمون secured مانا گیا، ہمارے سلف کے یہاں۔ از حد زور دیا گیا
زبان کو اس مسئلہ میں "روک ہی" رکھنے پر۔ جو جتنا بولا ان تنازعات کا
"فیصلہ" فرمانے کو، وہ اتنا پھنسا۔ جو جتنا چُپ، وہ اتنا بھلا۔
تاریخ
یا سیاسہ شرعیہ پر تصنیف کی گئی وہ کتب جو ہماری اس سرگرمیِ بےکار میں حوالہ اور
‘مواد’ کا کام دیتی ہیں، اپنے صحیح و غلط سے قطعِ نظر، کسی مخصوص سیاق اور ایک
متعین علمی ضرورت کےلیے لکھی گئی چیزیں ہیں حضرات! تاریخ اور سیاسہ شرعیہ میں یہ
چیزیں پڑھی بھی لازماً جائیں گی، کچھ شک نہیں۔ ان پر گفتگو بھی ہو گی۔ مگر علم
والوں نے یہ باتیں کتابوں اور کلاس روموں کےلیے چھوڑ دیں اور روزمرہ زندگی میں
اپنے کام سے کام رکھا، باطل سے لڑے، حق کی اقامت کی، اور خدا کی راہ میں جہاد اور
حق کے نقشے پر تعمیرِ جہان کے اندر اپنی زندگی کی سانسیں صرف کیں۔ جبکہ جاہل انہیں
فٹ پاتھ پر لے آئے اور اس پر روز کے مجمعے لگانے لگے۔ ان مسئلوں پر مسلسل ہاہاکار
اور جتھہ بندی! ایک دوسرے کی مدد کو پہنچ! پاسنگ! سکورنگ! لمبے لمبے حساب کتاب!
‘سکرین شاٹس’ کے انبار اور آرکائیوز! جواب الجواب کا ایک سلسلہ ناپیداکنار! اور
اِحقاقِ حق کی سپرٹ، کہ ‘ایمان’ تازہ کر دے! اور کچھ کے تو ڈیرے آباد ہی اس سرِ
راہ دھرے ‘حُقے’ کے دم سے، کہ آتوں جاتوں نے کش دو کش لیے اور کامنٹ دو کامنٹ چھوڑ
گئے جبکہ ‘چلَم’ ہر دم تازہ، انتظام کے ساتھ، برس ہا برس سرد نہ دیکھی گئی! میں
عرض کروں، کچھ نسبت نہیں مشاجراتِ صحابہؓ اور اس سے ملحقہ کئی ایک تاریخی مباحث کو
اپنا ‘صبح شام’ کا موضوع بنا رکھنے والے ان حضرات کو اُن اہل علم مصنفین کے ساتھ
جن کا مرکزی یا کل وقتی مسئلہ یہ چیزیں نہیں تھیں اور تاریخ یا سیاسہ شرعیہ کے
باہر وہ کبھی اُن کا موضوع نہ رہیں۔ کسی ایک لمحے کےلیے نہ رہیں۔ وہ کسی اور جہان
کے لوگ اور یہ کسی اور جہان کے۔ کاش وہ لوگ اِن ظالموں کے حوالے نہ ہوتے۔
|
|
|
|
|
|