’ریاست
کے شہریوں’ کو بھی بےشک ہر قسم کا بزنس کرنے کا ’حق‘ ہے سوائے جس چیز کو ریاست
غیر قانونی قرار دیتی ہو، اور اس لحاظ سے طارق جمیل کے بزنس کو ایک ‘taboo’ بنا
کر پیش کرنا جدید ’شہریت‘ کے اصولوں کے خلاف ہے
لیکن
اس سے پہلے ہمارے لیے اہم یہ ہے کہ شرعِ خداوندی میں ایک شےء مباحات میں آتی ہے۔
تجارت اور بیع انبیاء سے لے کر فقہاء و محدثین تک بہت سی نیک ہستیوں کا پیشہ رہا
ہے۔ یوں بھی ’’کسبِ حلال‘‘ میں معیارات دینا اہلِ دین ہی کے لائق ہے، اور اس طرح
کے کئی سارے اعتبارات اسے ’’اباحت‘‘ سے اٹھا کر ’’استحباب‘‘ میں بھی لا سکتے ہیں
تعجب
ہے اہل دین کے ’’سیاست‘‘ میں آنے پر تو آنکھوں کی پتلیاں چڑھ ہی آتی تھیں،
بازارِ تجارت میں آنے پر بھی؟ ویسے یہ سیکولرزم کی کونسی قسم ہے!؟(ادارہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طارق جمیل صاحب کا کاروبار ہرگز کوئی پرابلم
نہیں ہے کیونکہ ریاست کے تمام شہریوں کو حق حاصل ہے کہ وہ قانون کی نظر میں جائز
کام، کاروبار، نوکری وغیرہ میں سے جو چاہیں، اور جب چاہیں، کریں۔ خاص طور پر یہ
کیسا بے تکا اعتراض ہے کہ فلاں شخص چونکہ مذہبی شہرت رکھتا ہے تو کاروبار نہیں
کر سکتا کیونکہ یوں کرے گا تو گویا مذہب فروشی کر رہا ہو گا۔ کمال ہو گیا بھائی۔
کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ مذہب سے وابستہ ہر شخص عمر بھر دوسروں کے آسرے پر رہے
اور نتیجے کے طور پر جو اسے کھلائے پلائے اسی کی بولی بولے۔؟؟ ویسے بھی کسی خاص
سماجی پس منظر میں شہرت اگر کاروباری حقوق کی خلاف ورزی ہے تو فیس بکی احباب کیا
یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انعام رانا نے جو Merkit.pk لانچ کی ہے تو بحیثیت لکھاری اپنی شہرت کا غلط استعمال کیا ہے؟
یا شاد مردانوی نے جو Paaposh لانچ کیا ہے تو بحیثیت لکھاری، نقاد، انشاپرداز اور طنز نگار
اپنی شہرت کا ناجائز استعمال کیا ہے۔؟ معروف کمپنیاں اور دیانت دار لوگ اگر اپنی
شہرت کی بنیاد پر کسی کام میں ہاتھ ڈالیں تو انہیں سراہنے کے بجائے تنقید کا
نشانہ بنانا کہاں کا انصاف ہے۔؟
ہاں اگر کوئی شخص یا کمپنی اپنی نیک نامی،
مخصوص پس منظر یا شہرت کی بنیاد پر "دو نمبری، غلط بیانی یا دھوکہ
فراڈ" کرے تو اعتراض بنتا ہے۔ اور ایسا بھی اس لیے ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں
ایک بڑی خرابی کنزیومر اینڈ پر ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ کنزیومر معیار اور مقدار کے
بجائے نعرے، جھنڈے اور علامت سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر
کولا اگر پیپسی یا کوکا ہے تو مشکوک اور برا
مگر اگر مدینہ یا مکہ کولا ہے تو اچھا۔۔
سکول اگر روضۃ الاطفال، دار ارقم وغیرہ ہے تو
تعلیم کا معیار دیکھے بنا بھی صحیح مگر شائننگ سٹار یا برائیٹ کریئر ہے تو
خراب۔۔
اسی طرح عود بیچنے والا اگر "عین"
کی دائیگی حلق کے وسط سے کرے تو خالص مگر اوود کہہ دے تو سمتھنگ از فشی۔۔
شہد اور بینک کے ساتھ اگر اسلامی لگ جائے تو
مزے کا وگرنہ ملاوٹ والا اور خدا سے جنگ۔۔
ہوٹل، ریسٹورنٹ، دکان، مکان، فیکٹری، شوروم
اور ٹریول ایجنسی کے نام کے ساتھ ال یا مکہ و مدینہ لگ جائے تو زبردست۔ تس پر
"واللہ خیر الرازقین، اللہ یرزق من یشاء بغیر حساب اور ھذا من فضل ربی بھی
دروازے پہ لکھا ہو تو سونے پہ سہاگہ وگرنہ مصیبت۔۔
ہارٹ ٹرانسپلانٹ کرنے والا تو چور اور ڈاکو
مگر عجوہ کھجور اور زیتون سے کینسر اور بلڈ پریشر کا علاج کرنے والا سبحان
اللہ۔۔
جسم کو متناسب رکھنے اور وزن کم کرنے کے لیے
یوگا تو ہندوؤں کی رسم مگر عبقری رسالے سے اس کے لیے وظیفہ تلاش کرنا مسلمانی۔۔
ایسے عالم میں جنید جمشید یا طارق جمیل صاحب
اگر کرتے کی دکان بنائیں تو ہمیں پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ پریشانی اس پر ہونی
چاہیے کہ میں ان کی دکان سے کرتہ اور خوشبو خریدتے وقت خود کو مذہب کا چیمپئن نہ
سمجھنے لگوں یا وہاں زیادہ رقم دیتے ہوئے خود کو یہ تسلی نہ دوں کہ میرا پیسہ
"نیکی کے زمرے" میں شمار ہو گا۔ اگر معیار سے مطمئن اور مقدار پہ خاطر
جمع ہو تو ست بسم اللہ، ورنہ چھوڑ دیں۔ کیونکہ جے جے کے کرتے میں عمرے اور
تراویح کی نماز کا ثواب زیادہ نہیں ملتا۔۔
ایک دن میزان بینک میں بیٹھا تھا۔ مینیجر سے
پوچھا کہ آپ کے ہاں منافع اکاؤنٹ پر منافع کا فیصد کیا ہے۔ فرمانے لگے کہ ہمارے
ہاں متعین مقدار نہیں ہوتی مگر چھ سے آٹھ (غالبا) فیصد تک بن جاتا ہے، عرض کیا
کہ فلاں "کافر بینک" اسی مدت میں گیارہ سے تیرہ فیصد منافع دیتا ہے تو
آپ مجھے اسلام کے نام پر کیوں ٹھگ رہے۔؟؟؟
خیر تو عرض یہ کر رہا تھا کہ ہم نعرے سے متاثر
ہو جاتے ہیں۔ پھر نعرے کا تاثر قبول کرنے میں دوسرے لوگ مذہب پسندوں سے پیچھے
ہرگز نہیں ہیں۔ انہیں بھی انگریزی اور انگریز برینڈز سے کم کوئی چیز اچھی محسوس
نہیں ہوتی۔ مغرب سے آئی ہر چیز انہیں جیسی ہے اور جہاں ہے کی "آفاقی
بنیادوں" پر "ہر کدے آؤ" لگتی ہے۔ ان کے خیال میں الباکستان کہنا
اور لکھنا عربوں کی غلامی ہے مگر پےکستےن کہنا زبردست قسم کی دانشمندی۔ انہیں
بچوں کو عربی پڑھانا غلط لگتا ہے مگر پبلک پلیسز پہ خواہ مخواہ بچوں کو انگریزی
کا ایک ہی جملہ بیس بار اونچی آواز میں کہنا تعلیم یافتہ ہونے کی نشانی۔ بھلے ان
کا یہ جملہ دیسی بچے کے سر کے اوپر سے ہی کیوں نہ گذر جائے۔۔
بات دراصل یہ ہے کہ ہم نفسیاتی طور پر بیمار
لوگ ہیں۔ ہمیں ہر اس شخص اور ادارے سے پرابلم ہے جو کامیاب یا مالدار ہے۔ سڑک پر
ہمارے پاس سے بڑی گاڑی گذر جائے تو دل میں فورا خیال آتا ہے کہ ضرور کس چور کی
ہے۔ لیکن یاد رکھیں ہماری اس حالت سے "کام کرنے والوں" کی صحت پر کوئی
فرق نہیں پڑتا، نقصان اگر ہوتا ہے تو ہمارا اپنا۔ ویسے بھی آج یہاں طارق جمیل
صاحب کو طعنے دینے والے کل انہی کی دکان کے باہر خریداری کے لیے لائن میں لگے
ہوں گے۔ پھر جمعے کی نماز کے بعد اس کرتے میں دسیوں ایسے کمالات نکال لائیں گے
جو خود بنانے والے کے علم میں بھی نہ ہوں گے۔ سو بہتر ہے کہ بجائے کامیاب،
مالدار اور مشہور لوگوں کو گالیاں دینے کے ہم خود کامیاب ہونے، مشہور ہونے یا
مالدار ہونے کی کوشش کریں۔۔
کیونکہ
جے جے یا ٹی جے کے کرتے میں عمرہ کرنے اور
تراویح کی نماز پڑھنے سے ثواب زیادہ نہیں ملتا۔۔
وقاص خان۔
|