خلافتِ راشدہ کے بعد کے اسلامی ادوار، متوازن سوچ کی ضرورت
حامد کمال الدین
مثالی صرف خلافت راشدہ ہے۔
بعد کے سبھی اسلامی ادوار خوبیوں اور خرابیوں کے ساتھ چلتے ہیں، اس
صراحت کے ساتھ کہ ان سب کی خوبیاں ان کی خرابیوں پر شدید بھاری ہیں۔
خوبیاں خرابیوں پر بھاری ہونے کا یہ سلسلہ ہمارے نزدیک سلاطینِ بنی
عثمان تک چلتا ہے۔ البتہ ’’خیر‘‘ ہونے میں یہ ترتیبِ زمانی، ترتیبِ نزولی کے ساتھ
ہے۔ یعنی سب سے اوپر بنی امیہ، اس سے نیچے بنی عباس، اور اس سے نیچے بنی عثمان۔ (’’اسلام‘‘ اور
’’عروبۃ‘‘ کا بھی ایک عجب ساتھ ہے)۔ ان تینوں کے حوالہ سے، اتفاق کچھ یوں ہے کہ
عہدِ نبوت سے کوئی جتنا دور امت کےلیے مجموعی طور پر ’’خیر‘‘ ہونے میں وہ اتنا کم۔
واضح رہے، شخصیات کی بات نہیں ہو رہی مجموعی dynasty کی بات ہو رہی ہے (ہونے کو بنی عباس کی کوئی ایک شخصیت بنی امیہ کی
کسی ایک شخصیت سے بہتر ہو سکتی ہے، بات خانوادے کے مجموعی عہدِ حکومت کی ہے۔ براہ
کرم یہ بات نوٹ رہے)
اس مبحث کو ان شاء اللہ کسی وقت ابن تیمیہ کی تصریحات سے واضح کیا
جائے گا کہ ’’خلافتِ راشدہ سے عدول‘‘ کسی وقت ظلم ہو سکتا ہے تو کسی وقت عجز
(بےبسی، نارسائی)، اور اس دوسری صورت میں آدمی کا اللہ کے ہاں عذر بھی ہو گا۔ (گو
کسی کے عذر کی وجہ سے ایک اصولی واجب اپنی جگہ ناواجب نہیں ہو جائے گا اور اس کی
فرضیت بجائےخود برقرار رہے گی، جو کہ ’’سیاسہ شرعیہ‘‘ یا ’’احکام سلطانیۃ‘‘ پر
لکھی جانے والی امت کی سبھی معروف تصنیفات میں پوری طرح عیاں ہے، الحمد للہ)۔
یہاں صرف یہ ایک بات واضح کرنی ہے کہ ’’ملوکیت‘‘ سے بیزاری ہمارے
(مدرسہ اھل الاثر کے) ہاں بس ایک حد تک ہی ہے۔ اور وہ بھی جہاں موازنہ ’’راشدین کے
طریقے‘‘ کے ساتھ ہو، نہ کہ دورِ آخر کے ’جمہوری ذہن‘ کو دماغ میں رکھ کر۔ (یہ بہت بڑا فرق ہے کوئی
اگر سمجھ لے)۔ ’’حکم‘‘، ’’امامت‘‘ یا ’’امت کی سیاست‘‘ میں کسی عہدِ حکومت کو
مجموعی معنیٰ میں ’’خیر‘‘ پر ماننے یا جانچنے کے جو پیرامیٹرز parameters ہمارے ہاں چلتے ہیں ان میں
’’ملوکیت بمقابلہ شورائیت‘‘ والا مسئلہ پہلا اور آخری نہیں ہے۔ ورنہ محمود غزنوی،
نور زنکی، صلاح ایوبی، محمد الفاتح، اورنگزیب عالمگیر، ٹیپو سلطان اور سلطان
عبدالحمید وغیرہ کو بھی ان کی ’’ملوکیت‘‘ کی وجہ سے ہم فارغ کیے بیٹھے ہوتے۔ (یہ نام ہم نے تاریخ
اسلامی میں ان کے على الاطلاق افضل ہونے کی وجہ سے نہیں لیے بلکہ اس لیے کہ ہمارے
آج کے بہت سے جمہوریت نواز ذہن بھی ان شخصیات کو امت کا محسن ماننے میں ہمارے ساتھ
متفق ہیں اور کم از کم یہاں وہ ’’ملوکیت‘‘ کوشرک یا کفر کی طرح ’’مُحبِطِ اعمال‘‘
قرار دینے نہیں چلے جاتے)۔
بنا بریں، ہیومن اسٹ ذہن سے متاثرہ ہمارے کچھ مذہبی حضرات کا اپنی
تاریخ اسلامی کے کچھ لمبے لمبے ادوار پر لکیر پھیرنا سطحی تو ہے ہی متناقض بھی ہے۔
ہمارے دشمن (مستشرق) کو معلوم ہے، ’’عجمیت‘‘ اور ’’شعوبیت‘‘ سے وہ
کس طرح ہماری spoon feeding کرے۔ لیکن ہمارے یہ حضرات اس سے بےخبر۔ مستشرق کی چھیڑی ہوئی دھنوں
پر ہی اب کچھ اسلامی اذہان کا رقص بھی ہونے لگا۔ کچھ تھوڑا موازنہ اس سلسلہ میں جناب رشید ودود کی اس مفید پوسٹ میں ملتا ہے، لہٰذا وہ
وہیں سے پڑھ لیجیے۔
ہم اگر ’عثمانیوں‘ کےلیے کلمۂ خیر بولتے ہیں کہ ان کی تلوار عالم
کفر کو کئی صدیوں تک دہلاتی رہی، تو اس سے پہلے کے اسلامی ادوار کےلیے اس سے زیادہ
کلمۂ خیر بولنا واجب جانتے ہیں، عین اِسی اور اِس طرح کے اور کثیر ابواب سے۔
البتہ تعجب کیجیے اس ذہن پر جسے ’ارطغرل‘ کے گھوڑے کی ٹاپ اس کی ساری ’’ملوکیت‘‘
بھلا دیتی ہے! سبحان اللہ ملوکیت!!! بھئی اگر یہ ’’گھوڑے‘‘ کے دم سے ہے تو
’’گھوڑے‘‘ پچھلوں کے پاس بھی کوئی کم تو نہیں تھے؛ چین تا اندلس پائے گئے۔ توازن
اور اتساق consistency بہرحال ضروری ہے۔
معلوم یہ ہوتا ہے تاریخ
کے معاملہ میں ہمارے یہاں ڈراموں کے سوا کسی شےء کی کمی نہیں!