Hamid Kamaluddin
Eeqaz
اکیلےدسویں محرم کا روزہ رکھنا (نویں کا ساتھ نہ ملانا) بالکل جائز ہے؛ مکروہ نہیں،صرف یہود کی مخالفت کا اجر آدمی کو ملنے سے رہ جاتا ہے
عاشوراء کا روزہ
فقہ حنبلی کی کتاب "زاد المستقنع" پر ابن عثیمینؒ کی "الشرح الممتع" ج6 ص 468:
[[قوله: «وآكده العاشر ثم التاسع» يعني آكد صوم شهر المحرم العاشر ثم التاسع؛ لأن النبي صلّى الله عليه وسلّم: «سئل عن صوم يوم عاشوراء؟ فقال: أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله» فهو آكد من بقية الأيام من الشهر.
ثم يليه التاسع لقوله صلّى الله عليه وسلّم: «لئن بقيت، أو لئن عشت إلى قابل لأصومن التاسع» يعني مع العاشر.
وهل يكره إفراد العاشر؟
قال بعض العلماء: إنه يكره، لقول النبي صلّى الله عليه وسلّم: «صوموا يوماً قبله أو يوماً بعده خالفوا اليهود» (3).
وقال بعض العلماء: إنه لا يكره، ولكن يفوت بإفراده أجر مخالفة اليهود.
والراجح أنه لا يكره إفراد عاشوراء]].
اردو:
مصنف کا قول: "اس کا سب سے پر تاکید دسواں ہے پھر نواں"
مراد: ماہِ محرم کا سب سے پُر تاکید روزہ دسویں کا ہے۔ پھر نویں کا۔ کیونکہ جب نبیﷺ سے عاشوراء (دسویں) کے روزے کی بابت پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’میں اللہ پر امید رکھتا ہوں کہ یہ گزشتہ (پورے) سال کا کفارہ ہو‘‘۔ چنانچہ یہ اس مہینہ کے باقی ایام کی نسبت زیادہ تاکید والا ہوا۔
اس کے بعد نویں کا (درجہ) آتا ہے۔ نبیﷺ کے اس فرمان کی رُو سے: ’’اگر میں اگلے سال تک جیتا رہا تو ضرور نویں کا روزہ رکھوں گا‘‘۔ مراد ہے دسویں کے ساتھ ملا کر۔
مسئلہ: کیا اکیلا دسویں کا روزہ رکھنا مکروہ ہے؟
بعض علماء کا کہنا ہے: یہ مکروہ ہے۔ نبیﷺ کے اس فرمان کی رُو سے: ’’اس سے پہلے کا ایک دن روزہ رکھو یا اس سے بعد کا ایک دن‘‘۔
جبکہ بعض علماء کا کہنا ہے: مکروہ تو یہ نہیں ہے تاہم یہود کی مخالفت کا اجر آدمی کو ملنے سے رہ جاتا ہے۔
(ان اقوال میں سے) راجح تر یہی ہے کہ اکیلا دسویں کا روزہ رکھنا مکروہ نہیں ہے۔
*****
فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’یوم #عاشوراء کا روزہ رکھنا، میں اللہ پر گمان رکھتا ہوں کہ، گزشتہ (پورے) سال (کی خطاؤں) کا کفارہ بن جائے‘‘۔ (صحیح مسلم)
امام #زہریؒ سفر میں تھے اور #عاشوراء_کا_روزہ رکھا پوچھا گیا: آپ نے روزہ رکھا؟ جبکہ آپ تو رمضان میں سفر پر ہوں تو روزہ چھوڑ لیتے ہیں؟ فرمایا: #رمضان کے چھوٹے روزوں کی قضاء ہے دوسرے دنوں سے۔ مگر #عاشوراء چھوٹ گیا تو چھوٹ گیا۔ ۔ السير للذهبي (5/342)
#عاشوراء سے متعلق کوئی صحیح حدیث نہیں، سوائے روزے کے۔
(شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ) منهاج السنة ٧/ ٤٣٣