شام میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مدفن کی بےحرمتی کا
افسوسناک واقعہ اغلباً صحیح ہے
حامد کمال
الدین
شام میں معروف مزارات پر بمباری تو متعدد بار ہوئی۔ لیکن
مدفن عمر بن عبدالعزیزؒ کی قصداً توہین (باقاعدہ قبر اکھاڑنا) کا واقعہ اغلباً
امسال جنوری میں پیش آیا۔ اس کا ذمہ دار شامی جنرل رمضان یوسف گزشتہ مارچ میں ترکی
ڈرون کے ہاتھوں مردار بھی ہو چکا ہے۔ دیکھیے
شام سے باہر یہ خبر البتہ اب نکلی ہے، بذریعہ الجزیرہ
اور چند دیگر مصادر۔ اس کی زیادہ بڑی وجہ شام کی باغی و اپوزیشن جماعتوں کے کولیشن
"الائتلاف الوطني لقوى الثورة والمعارضة السورية" کی جانب سے اس مسئلہ کو از سر نو اٹھانا ہے۔ دیکھیے کولیشن کی
پریس ریلیز مجریہ 29 جنوری:
شامی سوشل میڈیا کو دیکھیں تو بہت زیادہ شور اس مسئلہ پر
جنوری کی آخری تاریخوں میں ہی درج ملتا ہے۔ ’’کولیشن‘‘ کی جانب سے اس مسئلہ کو مئی
کے اواخر میں از سرنو کیوں اٹھایا گیا؟ زیادہ معلوم نہیں ہو سکا۔ لیکن الجزیرۃ کے
نقل کردہ شامی صحافی احمد الشامی کے ٹویٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ قبر کی بےحرمتی اب ایک بار
پھر ہوئی ہے۔ احمد الشامی نے صراحت کی ہے کہ ایرانی ملیشیاؤں نے یہ حرکت اس سے
پہلے بھی کی اور اب پھر۔ ان کا اشارہ
اغلباً جنوری کے واقعہ کی طرف ہے۔
اس بات کا امکان خاصا معدوم ہے کہ یہ واقعہ ہوا ہی نہ ہو،
اور نری ایک خبر گھڑ لی گئی ہو۔ جنوری کے اواخر میں شامی سوشل میڈیا پر اس معاملہ
میں اس قدر تو تکرار ہے کہ اس واقعہ کا نہ ہوا ہونا مستبعد ہے۔ صرف یہ دیکھنا رہ
جاتا ہے کہ یہ حرکت کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔
اس سلسلہ میں، لبنان کے ایک سیکولر اخبار ’’المدن‘‘
کی 31 جنوری
کی یہ رپورٹ میرے نزدیک قابل توجہ ہے۔
دلچسپ طور پر، ’’المدن‘‘ کے مطابق عمر بن عبدالعزیز کے مدفن
میں آتش زنی، تخریب اور لوٹ مار پر مشتمل تصویریں پہلے بشارالاسد کے وفادار ویب
سائٹس خصوصاً بشاری خبر رساں ایجنسی ’’سانا‘‘ کی جانب سے نشر ہوئیں۔ بشار کے وفادار ویب سائٹس
’’سانا‘‘ سے پہلے البتہ ایک اور کام کر بیٹھے: 25 جنوری کو
علاقے میں بشاری فوج کی فتح (باغیوں سے اس علاقہ
کو واگزار کروانے میں اپنی کامیابی) دکھانے کےلیے علاقے کے اس مشہور مقام
مزار عمر بن عبدالعزیز کی بھی تصویر دی۔ مزار کی اس تصویر میں تخریب کاری کے کوئی
شواہد نہ تھے۔ جس کا مطلب ہے یہ تخریب شامی حکومت اور اس کی ملیشیاؤں کی اپنی ہے۔
اسی علاقے ’’الدیر الشرقی‘‘ کے ایک صحافی نے اس سلسلہ میں
’’المدن‘‘ کو بتایا: ادلب کے مشرقی دیہات پر روسی حملے کے دوران روسی طیاروں نے اس
مزار کو براہ راست نشانہ بنایا تھا، لیکن اس سے صرف مزار کی خارجی فصیل گری تھی
اور عمارت کے اندورن کا تھوڑا نقصان ہوا تھا۔ جس کی شامی حکومت اور اس ملیشیاؤں کے
اس علاقہ پر حاوی ہونے سے پہلے مرمت بھی کر لی گئی تھی۔ صحافی احمد الدیری نے ’’المدن‘‘ کو اس کی وجہ
بتاتے ہوئے کہا: حکومتی ذرائع ابلاغ یہ تصویریں دکھا کر دراصل شام کی باغی جماعتوں
کی شدت پسندی دکھانا چاہتے تھے، جو قبروں اور مزاروں کے بیری ہوتے ہیں، تاکہ ادلب
کے معرکہ میں ان جماعتوں کے خلاف شامی حکومت کو عالمی تائید حاصل ہو۔
غرض
جہادی جماعتوں کی ’’وہابیت‘‘ اور ’’مزار دشمنی‘‘ دکھانے کےلیے حکومتی ملیشیاؤں نے
کوئی ایسی گھٹیا تدبیر چلی ہے۔
علاوہ
ازیں، ترکی میں حدیث اور استشراق کے ایک پاکستانی پروفیسر ڈاکٹر عالم خان نے شام
میں اپنے شخصی ذرائع سے رابطہ کر کے بھی اس واقعہ کی تصدیق کی ہے۔ فیس بک پر ان کا
بیان یہاں
سے دیکھا جا سکتا ہے۔
یہاں
ایک ’منطقی‘ دلیل کا بھی تھوڑا جائزہ لیتے چلیں کہ روافض اور نُصیریہ کا تو کوئی
گروہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے مزار کے ساتھ یہ حرکت کر ہی نہیں سکتا، کیونکہ یہ
تو ان کی قدر ہی بہت زیادہ کرتے ہیں، اس لیے کہ حضرت محمد بن علی (الملقب
باقر رحمہ اللہ) کا
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سے کچھ خاطر تعلق رہا تھا۔
تو
اس معاملہ میں عرض ہے، یہ تو واقعی کیسے ہو سکتا ہے کہ اہل بیت کے تمام بزرگ، سمیت
حضرت محمدؒ بن علیؒ بن الحسینؓ، حضرت عمر ؒبن عبدالعزیزؒ ایسے ولی اللہ سے محبت نہ کرتے ہوں۔ لیکن اس سے
پہلے ہم پوچھ لیتے ہیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اِن (حضرت
محمدؒ بن علیؒ بن الحسینؓ)
کے جد امجد حضرت علیؓ بن ابی طالب حضرت عمرؓ بن خطاب سے محبت نہ کرتے ہوں؟ کیا سب نہیں جانتے
کہ علیؓ، عمرؓ کے ہاں وزیر اور مشیر کی
حیثیت رکھتے تھے اور ان میں پیار اور محبت مثالی تھا؟ لیکن آپ سوچیے حضرت علیؓ بن
ابی طالب کی حضرت عمرؓ بن خطاب کے ساتھ اُس اتھاہ محبت کا ان روافض کی صحت پر کیا اثر؟
جس شخص کو یہ معلوم ہے کہ رافضیت ایک مخصوص ایجنڈا ہے، جو بزرگانِ اہل بیت رضوان
اللہ علیہم کے صحابہ و تابعین رضوان اللہ علیہم کے ساتھ اُس تمام تر پیار، محبت
اور یگانگت کو اپنا ایک ’مخصوص‘ معنیٰ دے کر ہی آگے چلتا ہے، اور یہ کہ مذہب کی
اصل بہرحال ان تمام ہستیوں کےلیے بغض ہے، وہ حضرت محمد بن علی باقرؒ کے عمر بن
عبدالعزیزؒ کے ساتھ مراسم کو بھی اس کے ’صحیح‘ سیاق میں دیکھ سکتا ہے۔
علاوہ
ازیں، رافضہ کے مصادر میں حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کےلیے بھی ہمیں لعنت ہی نظر آتی
ہے۔ مثال کے طور پر یہ روایت:
قال أبو بصير: كنت مع الباقر عليه السلام في المسجد، إذ دخل عليه عمر بن عبد العزيز، عليه ثوبان ممصران متكئا
على مولى له. فقال عليه السلام:
ليلين هذا الغلام، فيظهر العدل، ويعيش أربع سنين، ثم يموت فيبكي عليه أهل الأرض،
ويلعنه أهل السماء. فقلنا:
يا بن رسول الله، أليس ذكرت عدله وإنصافه؟ قال: يجلس في مجلسنا، ولا حق له فيه
ترجمہ:
’’ابو بصیر نے کہا: میں باقر علیہ السلام کے ساتھ مسجد میں تھا کہ عمر بن عبدالعزیز
داخل ہوا، اس پر دو زرد کپڑے تھے، اپنے ایک
غلام کا سہارا لیے تھا۔ تب آپ (حضرت
باقر) علیہ
السلام نے فرمایا: ضرور یہ لڑکا اقتدار پائے گا۔ تب یہ عدل ظاہر کرے گا اور چار
سال رہے گا پھر مر جائے گا۔ تب اس پر اہل زمین روئیں گے، اور اہل آسمان اس پر لعنت
کریں گے۔ تب ہم نے عرض کیا: اے فرزندِ رسول اللہ! آپ نے تو ابھی اس کے عدل اور
انصاف کا ذکر نہیں فرمایا؟ فرمایا: ہماری گدی پر بیٹھا ہو، جس کا اسے کوئی حق
نہیں۔
تاآنکہ
ہماری اس بات کی غلط تفسیر نہ ہو: ہم نے یہ روایت یہ ’’ثابت‘‘ کرنے کےلیے نہیں دی
کہ ضرور انہوں نے ہی یہ کام کیا ہے!!! بلکہ یہ روایت صرف اس زعم کے ازالہ کےلیے کی
ہے کہ یہ ٹولہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا کوئی خاص معتقد ہے۔ معتقد یہ کسی کے نہیں
ہیں۔
واضح
رہے، یہ مضمون شام میں ایسے کسی افسوس ناک واقعہ پیش آنے کے امکانات کو صرف قوی تر
بتانے کےلیے تحریر ہوا ہے کہ شواہد زیادہ تر اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ کسی کا
واقعاتی تجزیہ اس سے مختلف ہو تو وہ ضرور اپنی رائے رکھے۔ خود میں نے اپنے ٹویٹر
اکاؤنٹ میں شروع دن سے اس واقعہ سے متعلق کچھ قابل اعتبار لوگوں کے ٹویٹ صرف ری
ٹویٹ کیے ہیں جبکہ پروفائل میں یہ درج ہے کہ ریٹویٹ کا اینڈورسمنٹ ہونا ضروری
نہیں۔