اسلامی
تحریک کا ’’مابعد تنظیمات‘‘ عہد؟
Post-organizations
Era of the Islamic Movement
یہ عنوان
مصر کے ایک اسلامسٹ دانشور جمال سلطان، جو مجلۃ المنار الجدید کے رئیس التحریر بھی
رہ چکے ہیں، کے ایک حالیہ مضمون کا ہے:
التيار
الإسلامي.. ما بعد الجماعات
تاہم اس
مضمون میں وارد بعض افکار ذرا ایک مختلف انداز سے خود ہماری
ایک تحریر میں بھی وارد ہو چکے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے ’’اسلامی تحریکی عمل کا ما
بعد تنظیمات عہد‘‘ اپنی کسی قدر ٹھوس شکل میں مسلم عقل پر مرتسم ہونے لگا ہے۔
محولہ
بالا عربی مضمون ہم یہاں تلخیص نہیں کر رہے۔ البتہ اس کے تین نقاط قابل ذکر ہیں، جو ہم خاص
اپنی تعبیر اور اپنے کچھ اضافوں کے ساتھ بیان کرتے ہیں:
1.
آج سے آٹھ نو عشرے پیشتر جب ’’اسلامی جماعتوں‘‘ کا فنامنا
عالم اسلام میں سامنے آیا، اور جس کا آغاز ’’الاخوان المسلمون‘‘ کی تاسیس سے ہوا
تھا، اور باقی سب جماعتوں کا فارمیٹ کم و بیش ’’الاخوان المسلمون‘‘ ہی سے ماخوذ یا
مشابہ تھا، وہ خلافت کے سقوط کے فوراً بعد کا زمانہ تھا۔ لہٰذا ایک مخصوص خلا کو
پُر کرنے کا جذبہ اور اپروچ اس کے اندر پوری طرح بول رہا تھا۔ تاہم یا تو وہ خلا
کچھ دیر میں پُر ہو جاتا، لیکن جب ایسا نہیں ہوا، تو رفتہ رفتہ معاملہ اُس خلا سے
پیدا ہونے والے خلا سے متعلقہ ہو گیا، جو ایک بےحد مختلف صورتحال تھی اور جس کےلیے
عمل اور اقدام کے تقاضے بھی بےحد مختلف۔ لیکن ان کا ادراک کرنے والے اسلامی ذہن
خاصے کم رہے۔ ’’تنظیم‘‘ یا ’’جماعت‘‘ نامی فارمیٹ اپنی حقیقت میں معاشرے کے ایک
حصے میں پائی جانے والی بہت ہی مخصوص پاکٹ ہوا کرتی ہے جو زور اور محنت سے حاصل
کیے جانے والے کچھ اہداف تو ضرور سر کر لیتی ہے لیکن معاشرے کو ساتھ چلانے کی
سائنس اس ’’تنظیم‘‘ نامی عمل سے کچھ خاص لگا نہیں کھاتی۔ البتہ یہاں معاشرے میں
سرایت کرنے کے کچھ طریقوں اور راستوں کو اختیار کیے بغیر چارہ نہیں۔ لہٰذا
’’جماعتوں‘‘ والا یہ فارمیٹ رفتہ رفتہ بےاثر ہونے لگا۔ اور آج یہ ایک کھلی حقیقت
ہے۔ جماعتوں میں افراد کی تعداد اور طاقت پہلے سے بڑھ کر ہونے کے باوجود، جماعتوں
کا عملی کردار روپوش سے روپوش تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے مؤثر متبادل لانا امت کے
بہت سے طبقوں کے یہاں نا گزیر محسوس ہونے لگا ہے۔
2.
پھر ایک دوسرے پہلو سے دیکھیے، توہمارے مدمقابل جو کمیونسٹ
اور لادین طبقے تھے، اب بڑی دیر سے ’’تنظیم‘‘ ٹائپ فارمیٹ میں محصور نہیں رہے۔ وہ
بھی معاشرے میں سرایت کرنے کے کچھ اور فارمیٹس کو ہی اختیار کرتے ہوئے اپنے لا دین
اہداف حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ جبکہ وہ عرصہ جب ہماری یہ ’’اسلامی
جماعتیں‘‘ میدان میں آئی تھیں، وہ زمانہ تھا کہ ہمارا مد مقابل بھی ’’جماعتوں‘‘ کی
صورت میں ہی یہاں پر متحرک تھا۔ لیکن اس بدلتی صورتحال کا انہوں نے ادراک کر لیا،
اور ہم تاحال نہ کر سکے۔
3.
پھر اس بات کو بھی نظرانداز نہ کرنا چاہیے کہ اسلام کا
تحریکی عمل ان خطوں میں بھی پایا جانے لگا ہے جہاں مروجہ ’’جماعتوں‘‘ یا
’’تنظیموں‘‘ کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ یا پھر وہ ممالک جہاں ’’جماعتیں‘‘ اور
’’تنظیمیں‘‘ بین ban ہونے لگی ہیں۔
نوٹ: اس
موضوع کی بعض جہتیں ہمارے اس مضمون میں بیان ہوئی ہیں: ’’اسلامی
تحریکی عمل میں چند جذری ترمیمات۔ سفارشات‘‘۔