(فقه)
عشرۃ ذوالحج اور ایامِ تشریق میں کہی جانے والی تکبیرات
ابن قدامہ مقدسی رحمہ
اللہ کے متن سے
(عربی متن اردو ترجمہ کے نیچے)
جہاں تک تعلق ہے اضحیٰ میں تکبیر کا، تو وہ دو طرز پر ہے: مطلق
اور مقید۔
جہاں تک تعلق ہے مطلق کا، تو وہ ہے
تمام اوقات میں تکبیر کہہ لینا، عشرہ ذوالحج کے شروع سے لے کر ایام تشریق کے آخری
دن تک۔
اور جہاں تک تعلق ہے مقیَّد کا تو وہ
ہے (خاص) نمازوں کے بعد تکبیر کہنا، یوم عرفہ کی نمازِ صبح سے لے کر ایام تشریق کے
آخری دن کی عصر تک۔
امام احمدؒ سے پوچھا گیا: کس حدیث سے
آپ یہ مسئلہ لیتے ہیں کہ تکبیر یوم عرفہ کی نماز فجر سے لے کر ایام تشریق کے آخری
دن کی عصر تک ہے؟ فرمایا: اجماع سے جو حضراتِ عمرؓ، علی، ابن عباس اور ابن مسعود
رضی اللہ عنہم سے آتا ہے۔ اور جابرؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے یومِ عرفہ کو صبح کی
نماز پڑھی، پھر ہماری طرف رخ فرمایا اور کہنے لگے: اللہ أکبر، اور پھر آپﷺ تکبیر
کو ایامِ تشریق کے آخر تک لے گئے۔
مشروع تکبیر یوں کہی جائے گی: (الله
أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله والله أكبر، الله أكبر ولله الحمد)۔ اس لیے کہ
یہ مروی ہے علی سے اور ابن مسعود سے، رضی اللہ عنھما۔ امام احمد فرماتے ہیں: میرا
چناؤ ابن مسعودؓ والی تکبیر ہے، اور پھر امام صاحب نے یہ الفاظ بولے۔ نیز اس لیے
کہ جابرؓ کی حدیث میں آیا کہ نبیﷺ نے دو بار اللہ أکبر کہا۔ نیز اس لیے کہ نماز سے
باہر تکبیر ہے، لہٰذا جفت ہوئی، جیسے اذان کی تکبیر
فأما التكبير في الأضحى فهو على ضربين: مطلق
ومقيد. فأما المطلق فالتكبير في جميع الأوقات، من أول العشر إلى آخر أيام التشريق.
وأما المقيد فهو التكبير في أدبار الصلوات، من صلاة الصبح يوم عرفة إلى العصر من
آخر أيام التشريق. قيل لأحمد: بأي حديث تذهب إلى أن التكبير في صلاة الفجر يوم
عرفة إلى العصر من آخر أيام التشريق؟ قال: بالإجماع عن عمر وعلي وابن عباس وابن
مسعود - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ -. وقد روي عن جابر «أن النبي - صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - صلى الصبح يوم عرفة، ثم أقبل علينا فقال: الله أكبر
ومد التكبير إلى آخر أيام التشريق» . وصفة التكبير المشروع: (الله أكبر، الله
أكبر، لا إله إلا الله والله أكبر، الله أكبر ولله الحمد) ؛ لأن هذا يروى عن علي
وابن مسعود - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا -. قال أبو عبد الله: اختياري تكبير ابن
مسعود. وذكر مثل هذا، ولأن في حديث جابر «أن النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ - كبر تكبيرتين» ، ولأنه تكبير خارج الصلاة فكان شفعاً كتكبير الأذان.
فصل:
اور اس (تکبیرِ مقیَّد) کا وقت ہے فرض نمازوں کے اختتام پر۔ نوافل
کے اختتام پر مشروع نہیں، کیونکہ نوافل کےلیے اذان نہیں ہے، سو نوافل کے اختتام پر
تکبیر نہیں، جیسا نمازِ جنازہ کے بعد نہیں۔ اور اگر آدمی کچھ نماز گزر جانے کے بعد
جماعت میں شامل ہوا تو جب وہ سلام پھیرے تکبیر کہے۔ ہاں اگر اس نے پوری نماز ہی
اکیلے پڑھی ہے، تو اس میں دو روایتیں ہیں:
ایک: وہ تکبیر کہے، کیونکہ یہ ایک مشروع ذکر ہے، سو وہ دوسرے سلام
کے مشابہ ہوا۔
دوسری روایت: تکبیر نہ کہے؛ اس لیے کہ ابن عمرؓ جب اکیلے (فرض)
نماز پڑھتے تو تکبیر نہ کہتے۔ اور ابن مسعودؓ نے فرمایا: تکبیر تو بس اسی شخص پر
ہے جو جماعت سے نماز پڑھے۔ نیز اس لیے کہ وہ ایک وقت کے ساتھ مخصوص ہے۔ سو جماعت
کے ساتھ مخصوص ہوئی، جیسے خطبہ۔
اور مسافر تکبیر کے مسئلہ میں مقیم کی طرح ہے۔ اور عورت مرد کی
طرح۔ بخاریؒ فرماتے ہیں: عورتیں ابان بن عثممان اور عمر بن عبد العزیز کے پیچھے
مردوں کے ساتھ مل کر مسجد میں تکبیر کہا کرتی تھیں، اور وہ آواز نیچی رکھیں گی تا
کہ مرد ان کی آواز نہ سنیں۔ امام احمد سے ایک روایت یہ کہ وہ تکبیر نہ کہے گی۔ اور
جس آدمی کی کوئی نماز تکبیر کہنے کے ایام میں فوت ہوئی تو اس کی قضاء اگر اس نے
تکبیر کے ایام کے اندر اندر ادا کی تو تکبیر کہے گا۔ اور ان ایام کے بعد قضاء ادا
کی تو تکبیر نہیں کہے گا۔ اس لیے کہ تکبیر وقت کے ساتھ مقیَّد ہے۔
فصل:
وموضعه عقيب أدبار الصلوات
المفروضات، ولا يشرع عقيب النوافل لأنه لا أذان لها فلم يكبر بعدها كصلاة الجنازة.
وإن سبق الرجل ببعض الفريضة كبر إذا سلم. وإن صلاها كلها وحده ففيه روايتان:
إحداهما: يكبر لأنه ذكر مشروع
للمسبوق فأشبه التسليمة
الثانية.
والثانية: لا يكبر؛ لأن ابن عمر كان
لا يكبر إذا صلى وحده. وقال ابن مسعود: إنما التكبير على من صلى في الجماعة، ولأنه
مخصوص بوقت فخص بالجماعة كالخطبة. والمسافر كالمقيم في التكبير، والمرأة كالرجل.
قال البخاري: النساء كن يكبرن خلف أبان بن عثمان وعمر بن عبد العزيز مع الرجال في
المسجد، ويخفضن أصواتهن حتى لا يسمعهن الرجال. وعن أحمد - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
-: أنها لا تكبر. ومن فاتته صلاة في أيام التكبير فقضاها فيها كبر، وإن قضاها
بعدها لم يكبر؛ لأن التكبير مقيد بالوقت.
فصل:
اور (مقیَّد) تکبیر وہ (فرض نماز سے فارغ ہو کر اسی پوزیشن میں)
قبلہ رو کہے گا۔ اگر تکبیر کہنے سے پہلے وضوء ٹوٹ گیا تو تکبیر نہ کہے گا۔ کیونکہ
وضوء ٹوٹنا نماز کا قاطع ہے۔ اگر تکبیر کہنا بھول گیا تھا تو قبلہ رخ ہو گا اور تکبیر
کہے گا، تاوقتیکہ مسجد سے نکل نہ گیا ہو۔
فصل:
ويكبر مستقبل
القبلة، فإن أحدث قبل التكبير لم يكبر؛ لأن الحدث يقطع الصلاة. وإن نسي التكبير
استقبل القبلة وكبر، ما لم يخرج من المسجد.
موفق
الدين ابن قدامة المقدسی: الكافي في فقه الإمام أحمد۔ ص 343