صحیح مسلم کی ایک حدیث پر اٹھائے
گئے اشکال کے ضمن میں
حامد کمال
الدین
ایک
ہے کسی حدیث کو رد ٹھہرانے پر سند یا متن کے حوالہ سے ایک علمی رائے پیش کرنا۔ اس کےلیے، آپ کو دو میں سے ایک
چیز کا انتظام کرنا ہوتا ہے:
1۔ علم حدیث میں خود یہ حیثیت رکھیے
کہ آپ کا ایک خبر کو دین میں قبول اور دوسری کو رد ٹھہرانا اِس علم کے مردانِ کار،
نہ کہ عام لوگوں، کے ہاں ایک ’’رائے‘‘ کے طور پر جانا جائے۔ علم حدیث آپ جانتے ہیں
رتّیاں اور ماشے تولنے والا ایک علم ہے، خواہ سند کا دراسۃ ہو یا متن کا۔ حدیث پر
حکم لگانا یہاں ایک باقاعدہ رُتبہ ہے جو آپ کے محض اپنی بابت دعویٰ کر لینے سے
نہیں بلکہ اس فن کے رجال کی ایک معتد بہٖ تعداد کے آپ کو اس پانی میں ماننے سے
ثابت ہو گا۔ خصوصاً جب آپ اصحابِ سنت کی عام رائے سے ہٹ کر ایک بات کہہ رہے ہوں۔ اس
کے بغیر، فن کے رجال اسے ’’اختلاف‘‘ تک نہیں مانیں گے۔
2۔ یا، اگر علم حدیث میں آپ رجالِ فن
کے ہاں مانے نہیں جاتے تو، آپ وہ بات کسی ایسی ہستی کا نام لے کر کر دیجیے جو رجالِ فن کے ہاں مانی جاتی ہے۔ مثلاً
کوئی اتنا حوالہ لے آئیے کہ فلاں اور فلاں معتبر نام نے سند یا متن کی فلاں خرابی
کی وجہ سے اس حدیث کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے، وغیرہ۔
3۔ ہاں میرے جیسے ایک شخص کو اگر
اوپر مذکورہ دونوں باتوں پر دسترس نہیں، جبکہ حدیث قبول کرنے میں آدمی کو کوئی
الجھن بھی لاحق ہے، تو اہل علم کے آگے اپنی وہ الجھن زبان پر لے آنا تب بھی حرج
نہیں۔ لیکن اس صورت میں، وہ اپنے رفعِ اشکال اور اہل علم سے اس پر مدد لینے کے
انداز میں اُسے سامنے لائے گا اور کوئی متحکمانہ اسلوب اس پر اختیار کرنے سے گریز
کرے گا۔
4۔ ایک چوتھی چیز ہے جو بالعموم ایک
ریسرچ تھیسز کرنے والے شخص کو پیش آتی ہے: علمی قابلیت پیدا کرنے کےلیے (ٹریننگ کے
ایک حصہ کے طور پر) اس کو حدیث پر ویسے ہی ایک حکم لگانا ہوتا ہے جیسے ایک باقاعدہ
محدث حدیث پر اپنا حکم لگاتا ہے۔ یہ بھی اپنی جگہ درست ہے۔ لیکن یہاں بھی ایک ’ڈس
کلیمر‘ disclaimer صریح یا ضمنی طور پر موجود ہوتا ہے اور کسی
متحکمانہ انداز میں ’’امت‘‘ کو اپنی ’’ریسرچ کے نتائج‘‘ کا مخاطَب نہیں رکھا
جاتا)۔
میں
بالکل یہ نہیں کہتا کہ ایک حدیث کو صحیح کہنے کےلیے اس کی محض سند کو دیکھنا ہوتا
ہے متن کو دیکھنا ضروری نہیں۔ بالکل دونوں کو دیکھنا ہوتا ہے۔ سند کی آفت کی وجہ
سے بھی ایک حدیث رد ہو سکتی ہے اور متن کی آفت کی وجہ سے بھی۔ ایسے بہت سے ائمۂ
سنت کی مثال دی جا سکتی ہے جنہوں نے متن میں پائی جانے والی کسی نکارت کی وجہ سے
حدیث قبول کرنے میں تردد یا انکار کیا۔ مسئلہ یہاں نہیں ہے۔ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ
(1) ایک حدیث پر ’’علمی حکم لگانا‘‘ ایک درجہ ہے، جس کی اپنی ایک شرط ہے۔ (2) پھر
ایک حدیث کو رد ٹھہرانے کے متعلق اس فن میں معتبر کسی نام کا ’’حوالہ لے آنا‘‘ ایک
دوسرا درجہ ہے، جس کا اپنا ایک تقاضا ہے۔ (3) حدیث پر اپنا کوئی ’’اشکال سامنے لانا‘‘
پھر ایک تیسرا درجہ ہے، جس کا اپنا ایک اسلوب۔ (4) حدیث پر حکم لگانے کی ’’طالبعلمانہ
مشق کرنا‘‘ پھر ایک اور درجہ، جس کا اپنا ایک دائرہ۔ (5) اس کے بعد بچ جاتا ہے
حدیث پر ’’معترض ہونا‘‘۔ ہاں یہ اس فن کے رجال کو کوئی حیثیت نہ دینے والا ہر شخص
کر سکتا ہے، باہر کے اربابِ استشراق سے لے کر اندر کے اربابِ تشکیک تک۔ اس (معترض
ہونے) کےلیے آدمی کی اپنی ’اقول‘ بھی چلتی ہے اور کوئی خاص شرط بھی اس پر نہیں
لگائی جا سکتی۔ نیز ’’تحکُّم‘‘ اختیار کرنے سے بھی ایک معترض کو روکنا ممکن نہیں۔
اب جہاں تک حدیث پر ہونے والی اعتراضات کی ایک ’’عصرانی‘‘
modernist بوچھاڑ کا تعلق ہے جو دورِ حاضر کا باقاعدہ
امتیاز ہے، اور جو کہ ڈیڑھ سو سال سے اپنے یہاں چلنے والی ’قرض کی مے‘ کے رنگ لانے
کا ایک سماں ہے، تو ان اعتراضات کے خاطر خواہ جواب دینا اہل علم کا کام ہے۔ اپنا
شمار بالیقین ان میں نہیں۔ البتہ ایسے کسی اعتراض کے نتیجہ میں ہمارے ایک متبعِ
سنت نوجوان کے ذہن میں جو اشکالات جنم پا سکتے ہیں، ان کا مقدور بھر ازالہ، اصحابِ
علم کی توضیحات کا سہارا لیتے ہوئے، کر دینا میرے جیسا ایک شخص اپنے لیے سعادت جانے
گا۔ ذیل میں حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے متعلق صحیح مسلم کی ایک حدیث پر
وارد اشکالات کا کچھ جائزہ لیا جاتا ہے۔
*****
عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلًا كَانَ
يُتَّهَمُ بِأُمِّ وَلَدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ
رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ: «اذْهَبْ فَاضْرِبْ
عُنُقَهُ» فَأَتَاهُ عَلِيٌّ فَإِذَا هُوَ فِي رَكِيٍّ يَتَبَرَّدُ فِيهَا،
فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: اخْرُجْ، فَنَاوَلَهُ يَدَهُ فَأَخْرَجَهُ، فَإِذَا هُوَ
مَجْبُوبٌ لَيْسَ لَهُ ذَكَرٌ، فَكَفَّ عَلِيٌّ عَنْهُ، ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ
صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّهُ لَمَجْبُوبٌ
مَا لَهُ ذَكَرٌ (صحيح
مسلم رقم 2771 بترتيب الشاملة)
’’انس رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے، کہ ایک آدمی پر رسول اللہﷺ کی ایک امِ ولد (کنیز) سے متعلق تہمت
لگائی جاتی تھی۔ تب رسول اللہﷺ نے علیؓ سے فرمایا: جاؤ اس کی گردن مار آؤ۔ علیؓ اس
کے پاس پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں وہ ایک کنویں میں اُترا گرمی دُور کر رہا ہے۔ حضرت
علیؓ اسے کہنے لگے: نکل۔ تب اس نے حضرت کو اپنا ہاتھ پکڑایا اور آپ نے اسے نکالا۔
تو کیا دیکھتے ہیں وہ مقطوع العضو ہے آلۂ تناسل ہے ہی نہیں۔ تب حضرت علیؓ نے اپنا
ہاتھ اس سے روک لیا۔ پھر علیؓ نبیﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ وہ
تو مقطوع العضو ہے آلۂ تناسل ہے ہی نہیں‘‘۔
یہاں اشکال کا موجب صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ کیس کے کچھ
ضروی اجزاء بیان ہوئے بغیر رہ گئے (کیس کی تمام تفصیلات روایت نہیں ہوئیں)۔
خصوصاً، حدیث میں یہ بیان نہیں ہوا کہ علیؓ کو آپﷺ کا اس قبطی کو قتل کر آنے کا
حکم دینا کس معیَّن چیز پر مبنی تھا۔ یہاں، معاملہ کو دیکھنے کا سادہ طریقہ یہ ہو
گا کہ وہ ایک ایک احتمال دیکھ لیا جائے جو آپﷺ کے علیؓ کو یہ حکم دینے کے پیچھے
محرک ہو سکتا تھا جبکہ وہ (احتمال) دین میں وارد اصولوں کی رُو سے معتبر بھی ہو۔
ایسا کوئی احتمالِ حق اگر مل جائے تو آپﷺ کا حضرت علیؓ کو یہ حکم دینا اسی پر
محمول کر لیا جائے۔ ایسے احتمالات اگر ایک سے زائد ہوں، اور ان میں جمع ممکن نہ ہو،
تو ان میں سے قوی تر کو دیگر پر ترجیح دے لی جائے۔ حدیث کو رد کرنے کی طرف البتہ
صرف اس صورت میں جایا جائے جب کوئی ایسا احتمالِ حق سرے سے متصوَّر نہ ہو، یعنی
حدیث کو صحیح ماننے کا مطلب جہاں صرف اور صرف یہ ہو کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ (معاذ
اللہ) ایک ظلم یا باطل کی صاف نسبت ہونے لگی ہے، جس کا ایک مسلمان تصور بھی نہیں
کر سکتا۔
تو کیا واقعتاً نبیﷺ کے علیؓ کو یہ حکم دینے کے پیچھے ہر ہر
احتمالِ حق ناپید ہے؟ تا آنکہ صحیح مسلم کی اس حدیث کو اڑا کر رکھ دینا ہی نبیﷺ سے
ظلم کو نفی ٹھہرانے کی واحد صورت سمجھا جائے؟ یا پھر حدیث کو اس ’’چلا کر پھینکنے‘‘
میں کچھ جلد بازی، بھڑک پن، یا لفاظی، یا سرسری و سطحی پن، یا اصحاب الحدیث سے
کوئی مخصوص چِڑ (بغیاً بینھم) کار فرما ہونے کا امکان ہے؟ یعنی حدیث پر طعن کی
بجائے معترض کی عقل یا نفسیات پر طعن کر لینا کیوں اَولیٰ نہ رکھا جائے؟
تو آئیے نبیﷺ کے اس حکم کے پیچھے کارفرما احتمالاتِ حق کا
کچھ جائزہ لیں کہ کیا واقعتاً یہاں ایسے (حق) احتمالات بالکل مفقود ہیں؟
مگر اس سے پہلے کچھ مختصر مقدمات:
1) یہ شخص جس پر الزام
کا ذکر حدیث میں ہے، وہ نبیﷺ کی کنیز حضرت ماریہ قبطیہؓ کا ایک تو قریبی رشتہ دار
تھا۔ اکثر کے نزدیک، ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کا چچا زاد۔ دوسرا، دونوں رشتہ دار
یہاں بڑے ہی دُور پردیس، مصر سے تھے اور مدینہ کا باشندہ ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہ
گزرا تھا۔ پردیس میں اپنے ہم زبان ہم وطن اور پھر اتنے قریب کے رشتہ دار کے ساتھ
دوسروں کی نسبت ایک گونہ قربت ہونا فطری ہے۔ اور اس حد تک معاملے میں کوئی ایسی
بات نہیں۔
2) ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا
نبیﷺ کی کنیز تھیں، آپﷺ کی ازواج میں نہ آتی تھیں۔ لہٰذا ’’فاسألوھن من وراء
حجاب‘‘ وغیرہ کا وہ حکم جو نبیﷺ کی ازواجؓ پر لاگو ہوتا، ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا
پر لاگو نہ ہوتا تھا۔ اس پہلو سے بھی معاملہ، خصوصاً حضرت ماریہ کے پارٹ پر، کسی
پریشانی کا موجب نہیں۔ رضی اللہ عنہا وأرضاھا
3) اللہ نے ہر
دور کے شیاطین نبی کے دشمن کیے ہیں (وكذلك جعلنا لكل نبي عدوًا شياطين
الإنس والجن)۔ چھٹے ہوئے منافقین اور کفار خانوادۂ نبوت پر ہر رکیک
حملہ کرنے کی فکر میں رہے ہیں۔ اس کا کوئی گھٹیا موقع انہوں نے حرمِ نبوت کی سب سے
برگزیدہ ہستی حضرت عائشہؓ بنت ابی بکرؓ کے متعلق چھوڑا (واقعۂ اِفک) اور نہ حضرت
زینبؓ بنت جحش کے متعلق۔ ایسی ایسی غلیظ باتیں اُن مواقع پر انہوں نے کیں جو ایک
مومن زبان پر آنے والی نہیں۔ ایسی ہی کوئی گھٹیا بات بد طینت لوگوں کی جانب سے
ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے حوالہ سے کر دی جانا ان کے خبثِ باطن سے مستبعَد
نہیں، جبکہ حدیث میں وہ مذکور بھی ہے۔ محض اس بات کو ایک لا ینحل اشکال بنانا کہ
نبیﷺ کے حرم سے متعلق شیاطین نے غلاظت بک کیسے دی، عائشہ و زینب رضی اللہ عنہما کے
واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے، کوئی درست بات نہ ہو گی۔ اس پہلو سے بھی معاملے میں
کوئی سمجھ نہ آنے والی بات نہیں۔
4) ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا
کو آخر تک منافقین کے پھیلائے ہوئے بکواسات کا کوئی علم نہ ہوا ہو، ایک خاصی قرینِ
عقل بات ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی، الزام لگ جانے کے بڑی دیر
بعد تک، الزام کا کچھ علم نہ تھا۔ ایک پیکرِ عفت خاتون کے ساتھ گھر والوں کی طرف
سے ایسی کوئی بات ذکر تک نہ ہونا اعلیٰ خاندانوں کے یہاں معمول ہے۔ خاندان کی کوشش
یہی ہوتی ہے کہ معاملے کو باہر باہر ہی نمٹ لیا جائے اور ایک پاک دامن خاتون کے
جذبات مجروح ہونے کی نوبت نہ ہی آئے۔ یہ بات ہم خاص طور پر اس لیے کر رہے ہیں کہ
ماریہ رضی اللہ عنہا کا اُسی بےساختہ انداز میں اپنے اس قبطی رشتہ دار کو اپنے
یہاں آنے دیتے رہنا اور واقعہ کے آخر تک اسی ’’المحصنات الغافلات المؤمنات‘‘ کی مجسم
تصویر چلی آنا معاملے کی ایک نہایت معقول جہت ہے۔
اور اب آ جائیے اصل مسئلہ پر۔ نبیﷺ کے علیؓ کو وہ حکم دینے
کی ممکنہ بنیاد۔ کیا کیا احتمال یہاں پر ہو سکتے ہیں؟ اس حوالہ سے کچھ باتیں نکتہ
وار پیش ہیں:
1) سب سے پہلے سوچنے
کی بات ہے کہ ’’قتل‘‘ کا حکم نبیﷺ کی جانب سے ایک ایسے شخص پر کن کن ممکنہ جرائم
کی بنیاد پر صادر ہو سکتا ہے۔ ابن تیمیہ ’’الصارم المسلول‘‘ میں لکھتے ہیں، زنا کا
تو یہ کیس ہی سرے سے نہیں بنتا۔ کیونکہ ایسی کوئی بات معاذاللہ اگر پایۂ ثبوت کو
پہنچ بھی لے تو اس قبطی کی سزا قتل بہرحال نہیں بنتی بلکہ تب بھی غیر محصن ہو تو
کوڑے اور محصن ہو تو رجم، جس کےلیے یہ بھی پہلے فرق کرنا تھا کہ آیا اسے محصن مانا
جائے یا غیر محصن؟ جبکہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ پھر جرمِ زنا میں چار گواہ درکار ہوتے
ہیں۔ جبکہ اِدھر، بزارؒ و دیگر محدثین کی روایت میں (جس کا ذکر آگے آ رہا ہے) جس
چیز پر نبیﷺ اُس کے قتل کو معلّق ٹھہرا رہے ہیں وہ ہے اس کا محض وہاں پایا جانا۔ ابن تیمیہ کہتے
ہیں: قتل کا دراصل ایک اور شرعی موجب بھی ہے (جو شاید بعض لوگوں کے ذہن میں نہیں آ
سکا) اور وہ ہے آدمی کا نبیﷺ کےلیے (جانتےبوجھتے) باعثِ اذیت ہونا۔ قبطی کا نبیﷺ
کی کنیز کے یہاں آنا جانا، جبکہ مدینہ میں اس پر باتیں ہو رہی ہوں، اور جبکہ اہل
علم کے ایک فریق کی رائے کے مطابق [[بقول ابن رجبؒ
(جامع العلوم والحکم، حدیث نمبر 14 کے تحت) نیز بقول قاضی عیاضؒ (صحیح مسلم کی اسی
حدیث کے تحت اپنی شرح ’’إکمال المعلم بفوائد مسلم‘‘ میں)]] اس قبطی کو نبیﷺ کے گھر
آنے جانے سے روکا گیا ہو، لیکن وہ نہ رکا ہو۔ یہ چیز نبیﷺ کو ایذاء دینے میں آتی
ہے جو بجائےخود مستوجبِ قتل ہے، اور اس حکمِ شرعی کے بےشمار شواہد سیرت میں موجود
ہیں (جن کا الصارم المسلول میں ایک طویل بیان دیا گیا ہے)۔ سو اس معنیٰ میں وہ )قبطی( نبیﷺ کی ایک
حرمت پامال کر بیٹھا تھا، جس پر ایک بار تو اس کے قتل کا حکم صادر کر ہی دینا
مناسب جانا گیا۔ مسند بزار کی روایت میں، نبیﷺ کا حضرت علیؓ کو یہ کہنا: فإن وجَدتَهٗ عندها فَاقۡتُلۡهُ ’’اگر تم اسے (حضرت
ماریہؓ قبطیہ) کے ہاں پاؤ تو قتل کر ڈالنا‘‘ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ ایک طرف
مدینہ کے فتنہ پردازوں کی نبیﷺ کی آبرو سے متعلق پھیلائی ہوئی بکواسات، جس کا خود
اس (قبطی) کے کانوں تک پہنچ چکا ہونا قرینِ عقل ہے (مرد کا باہر گھلنے ملنے کے
دوران اپنی بابت ایسی بکواسات سے لا علم رہنا بجائےخود مستبعَد ہے۔ لہٰذا علم ہونے
کی صورت میں، اس پر واجب ٹھہرتا ہے کہ اسے کوئی نہ بھی کہے تو وہ از خود اِدھر آنے
سے کوسوں دور رہے کہ معاملہ نبیﷺ کی عزت کا ہے، اگرچہ اس کے ذہن میں کسی بدکاری کا
قصد تک نہ ہو، بلکہ بدکاری کی سرے سے قدرت ہی نہ ہو، جس کا لوگوں کو تاحال علم
نہیں)۔ دوسری جانب اس کو متنبہ کر دیا گیا ہونا کہ وہ ادھر مت آئے جائے۔ پھر بھی
اگر وہ وہاں ہے ’’تو اے علی اسے قتل کر ڈالنا‘‘۔ چنانچہ جرم اس قبطی کا، وہاں آنا
جانا رکھنے کے باعث، نبیﷺ کےلیے جانتےبوجھتے اذیت کا باعث ہونا ہے، خصوصاً آپﷺ کی
آبرو کے متعلق، جو فقہاء کے ایک قابل ذکر فریق کے ہاں مستوجبِ قتل ہے۔ قاضی عیاضؒ
’’إکمال المعلم بفوائد مسلم‘‘ میں شرحِ حدیث کے تحت یہی تقریر دیتے ہیں۔
تھوڑا اس نقطے کا خلاصہ کر دوں تو یوں بنتا ہے: رسول اللہﷺ
کا علیؓ کو فرمانا: ’’اگر تم اسے وہاں پاؤ‘‘ واضح کرتا ہے کہ اس کا وہاں ہونا آپﷺ
کو شدید ناگوار اور آپﷺ کےلیے باعثِ آزار ہے۔ ناممکن ہے کہ نبیﷺ اُس کے وہاں ہونے
کے باعث اُس کے قتل کا حکم دینے تک چلے جائیں جبکہ نبیﷺ کی طرف سے اسے پیشگی اس
حرکت پر متنبہ نہ کروا دیا گیا ہو (کہ وہ اِدھر نہ پایا جائے)۔ جبکہ اسے اس پر
متنبہ کرنے کی ضرورت خود حدیث ہی میں مذکور اس امر سے مترشح ہے کہ مدینہ میں گندی
زبانیں اس بابت بک رہی تھیں۔ لہٰذا اِدھر آنے جانے سے اُس کو ممانعت ہو چکی ہونا
بالکل سمجھ آنے والی بات ہے۔ اور ممانعت کے بعد، اس کے نہ رکنے کی صورت میں، جبکہ
مسئلہ حرمِ نبوت کی آبرو کا ہو، اس کے قتل کا (مشروط) حکم (’’اگر اے علی تم اسے
وہاں پاؤ‘‘) "إنّ
الذين يؤذون الله ورسوله"
کے تحت سمجھ آنے
والا ہے؛ اور اس میں کوئی ناانصافی کی بات نہیں۔
2) اصل توجیہ تو یہی ہے جو
اوپر بیان ہوئی۔ ابن قیمؒ بھی زاد المعاد میں اسی کو قوی ترین کہتے ہیں۔ تاہم وہ
لکھتے ہیں کہ بعض اہل علم نے یہاں یہ احتمال بھی بیان کیا ہے (خصوصاً ابن حزمؒ نے)
کہ جیسے احادیث میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ ہے کہ انہوں نے دو فریقِ
نزاع عورتوں سے کہا تھا کہ چھری لاؤ میں بچے کو کاٹ کر دونوں میں آدھا آدھا کر دوں...
تو عین اس طرز پر قبطی کو قتل کر دینے کی ہدایت جو حضرت علیؓ کو فرمائی گئی اُس
باب سے ہے جہاں قاضی قتل کی محض ایک بات کرتا ہے اور دراصل اس سے کسی شخص کو خوف
کی ایک مخصوص حالت میں لانا مقصود ہوتا ہے، جبکہ قاضی کے اپنے منصوبے میں، جسے وہ کچھ
وقت تک ظاہر نہیں کرتا، بالآخر اس پر عملدرآمد نہ کرنے کی کوئی تدبیر بھی موجود
ہوتی ہے۔ اس فریق کے خیال میں اُس قبطی کا خصی اور مردانہ صفات سے بالکل عاری ہونا
(کیونکہ بادشاہوں کے ہاں عموماً ایسے ہی شخص کو شاہی حرم کی عورتوں کے ساتھ ہم سفر
کرانے کا رواج تھا جو مقوقسِ مصر نے کیا) نبیﷺ سے روپوش نہ ہو سکتا تھا۔ لہٰذا یہ
خودبخود متوقع ہے کہ وہ قبطی حضرت علیؓ کے یہ تیور دیکھ کر، اور اپنے آپ کو موت کی
تلوار کے نیچے پا کر، جھٹ سے اپنی پوزیشن بتانے کا یہی طریق اختیار کرے گا جو اس
نے کیا۔ اس طریقے سے اس کو ڈرا بھی لیا گیا جو خالی روک دینے سے وہ ابھی تک نہیں
سمجھا تھا، البتہ اس کے قتل ہو جانے کی نوبت بھی نہیں آنے دی گئی، جبکہ وہ معاملہ
بھی سب پر کھل گیا جس میں شہر کی گندی زبانیں مشغول رہی تھیں۔ قاضی عیاضؒ بھی کچھ ممکنہ
احتمالات میں اس کا ذکر کرتے ہیں۔ تاہم، جیسا کہ ہم کہہ چکے، ابن قیمؒ پہلے احتمال
ہی کو اس واقعہ کی تہہ میں راجح اور کافی مانتے ہیں۔
3)
مسند بزار کی روایت میں اس جانب بھی ایک واضح
اشارہ بلکہ صراحت ہے کہ دربارِ قضاء کا یہ کوئی ایسا فیصلہ نہ تھا جس میں حضرت علیؓ
کو بس عملدرآمد کر آنا ہے۔ بلکہ اس عملدرآمد کرنے میں حضرت علیؓ کو موقع پر اپنا
ایک صوابدیدی فیصلہ کرنے کی پوزیشن بھی اتھارٹی کے اپنے ہی جانب سے باقاعدہ تفویض
ہو رہی ہے۔ بزار کی روایت کے لفظ ہیں، نیز ابن عبد البرؒ ’’الاستیعاب‘‘ میں اعمش
کی روایت سے یہ لفظ نقل کرتے ہیں: [[
قلت : يا رسول الله ، أكون في أمرك إذا أرسلتني كالسكة المحماة ؟ لا يثنيني شيء
حتى أمضي لما أمرتني به ؟ أم الشاهد يرى ما لا يرى الغائب ؟ ، فقال : ( بل الشاهد يرى ما لا يرى الغائب ) ’’میں (علیؓ) نے عرض کی: ’’اے اللہ کے
رسول! کیا میں آپ کی (سونپی ہوئی اِس) مہم میں اس طرح ہوں کہ آپ نے مجھے ایک تپائے
ہوئے پھالے کی طرح بھیجا جہاں آپ نے بس جو حکم فرما دیا کوئی چیز مجھے اسے انجام
دینے سے اِدھر اُدھر نہ کرنے پائے؟ یا پھر میں یوں ہوں کہ موقع پر موجود شخص وہ
کچھ دیکھ لے جو ایک غیرموجود شخص نہ دیکھ پائے؟‘‘ آپﷺ نے جواب دیا: ’’بلکہ یوں کہ
موقع پر موجود شخص وہ کچھ دیکھ لے جو ایک غیر موجود شخص نہ دیکھ پائے‘‘]]۔ یہاں سے
واضح ہوتا ہے، نرے پرے ایک نفاذ کنندہ executioner کی حیثیت میں یہاں قتل کی
مہم دیے جانے والے (شخص یا مشن کے سربراہ) کو خود بھی نہ بھیجا گیا تھا۔ لہٰذا
حضرت علیؓ نے موقع پر جو فیصلہ کیا، انہیں مہم سونپنے والی اتھارٹی کا وہ اپنا ہی
مقصود تھا۔ (’’وأقضاھم عَلِيٌّ
كرَّم اللهُ وجهَه‘‘ کو باقاعدہ ایک جیوڈیشل اختیار دے کر بھیجا جانا یہاں توجہ
چاہتا ہے)۔ لہٰذا یہاں تصویر یوں بنانا کہ ’وہ تو حضرت علیؓ کی سمجھداری کام آ گئی
ورنہ تو...‘ (معاذاللہ ثم معاذاللہ) خاصے ایک طائش (بھڑک اٹھنے والے) طرزِ مطالعہ
کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے۔
4)
قاضی عیاض اپنی شرحِ مسلم میں، حدیث پر اپنی
گفتگو کے اختتام پر یہ ایک احتمال اور بھی لاتے ہیں: [[ويحتمل
أنه كان قد أوحي إليه أنه لا يقتله، وينكشف له من حاله ما يُبِين أمرَه، وأنه فى
الركى متجردًا،
إلا أنه أمره بقتله حقيقة، بل
قال له ذلك وهو يعلم أنه لا يقتله لما تَبِين له من براءته كما قال فى الحديث
الآخر: " اُحثُ
فى أفواههم التراب " وقد
قالت عائشة له: ما أنت بفاعل، ففهمت أن النبى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
لم يرد ما قاله، بل على طريق ’’اور یہ بھی تو احتمال ہے کہ نبیﷺ پر یہ وحی آ چکی ہو کہ
اس کے قتل کرنے (کی نوبت) نہیں آئے گی اور اس کا حال یوں منکشف ہو جائے گا کہ
معاملہ ہی کھل جائے۔ اور یہ (بھی آپﷺ پر وحی آئی ہو) کہ وہ (قبطی) اِس لمحے کنویں
میں برہنہ ہے۔ تاہم آپ نے قتل کا حکم دیا تو فی الحقیقت ہو لیکن یہ فرماتے وقت آپﷺ
کو (از روئے وحی) علم ہو کہ اس کی براءت علیؓ کے سامنےآ جانے کے باعث یہ اُسے قتل
نہ کریں گے۔ یہ کچھ اسی طرح کا معاملہ ہے جس طرح ایک دوسری حدیث میں نبیﷺ نے (حضرت
جعفر بن ابی طالبؓ کے گھر ان کی وفات پر رونے والی اور بار بار روکنے کے باوجود نہ
رکنے والی عورتوں کے متعلق شکایت لانے والے آدمی سے) فرمایا تھا: ’’جا کر ان کے
چہروں پر خاک پھینکو‘‘ تو حضرت عائشہؓ اس (آدمی) سے کہنے لگیں: ’’سنو تم یہ نہیں
کرنے والے‘‘۔ یعنی حضرت عائشہؓ یہ سمجھ گئی تھیں کہ آنحضورؐ نے جو بولا وہ (اُس
انداز سے) آپؐ کا مقصد نہیں ہے، بلکہ وہ تو (آپؐ کے کہنے کا) ایک طریقہ ہے‘‘]]۔
طحاویؒ حنفی نے اپنی شرح مشکل الآثار میں، جو کہ تصنیف ہی
احادیث پر وارد اشکالات کے تبیین و ازالہ کی خاطر ہوئی ہے، اس کے علاوہ بھی کئی
جائز احتمالات اس حدیث کے ضمن میں بیان کیے ہیں۔
5)
مسلم و دیگر کتبِ حدیث کے الفاظ سے واضح ہے، اس
تمام تر نوبت آنے کے پیچھے، واقعات کے تسلسل میں، کچھ گندی زبانوں کا نبیﷺ کے حرم
کی بابت ایک بکواس کرنا معاملے کا ابتدائی سِرا ہے۔ لہٰذا اس کا اختتام قبطی کی
شرمگاہ کا برہنہ ہو جانا اور سارا معاملہ ہی لوگوں کے سامنے آ جانا، نبیﷺ کے حرم
کی براءت سامنے لانے اور ان گندی زبانوں کو رسوا کروانے کی ایک قدرتی خدائی تدبیر۔
یعنی جہاں حضرت عائشہ صدیقہؓ کی براءت سامنے لانے کےلیے ’’تنزیل‘‘ کی راہ اختیار
کی گئی، وہاں حضرت ماریہ قبطیہؓ کی براءت سامنے لانے کےلیے ایک ’’تکوینی‘‘ واقعے
کی۔ یہاں پر یہ اشکال کہ قبطی کا سرے سے کوئی جنسی اعضاء نہ رکھنا قدرتِ حق کی
جانب سے عین شروع میں کیوں نہ ظاہر کروا دیا گیا اور کسی نہ کسی طور اتنا مؤخر کیوں
کروا رکھا گیا؟ تو عین یہی اشکال واقعۂ افک میں سوۃ النور والی ان آیات کے ایک
عرصہ گزار کر اترنے کی بابت بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کا جواب ایک تو ہمارے علماء
یہ دیتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے، اللہ کھرے کو کھوٹے سے یوں الگ فرمانا چاہتا تھا کہ
جھوٹ کی فیکٹریاں اور گندی زبانیں خوب معاشرے کی پہچان میں آ جائیں۔ یہاں تک کہ
ایک طویل صبر کے بعد معاملے کا کلائمکس آئے تو یوں کہ جس شخص کی بابت حرمِ نبوت پر
گند اور جھوٹ بولنا اتنی دیر بدبختوں کی قسمت میں آیا رہا وہ مدینہ کے ہزاروں
لوگوں میں سے وہ شخص نکلا جس کی بابت ایک چیز کا ’عدم ثبوت‘ تو بہت بعد کی بات، اس
بات کا مادہ ہی اس میں نہیں پایا گیا! یعنی اتنے جھوٹے! نیز نبیﷺ اور اہل ایمان کا
اس غیر معمولی صبر پر ثوابِ عظیم اور بلندیٔ درجات کا مستحق ہونا۔
6) کئی ایک اہل علم نے یہاں مسلم اور دیگر کتب کی روایات کے
مابین ’’اضطرابِ متن‘‘ کا دعویٰ بھی رد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے: صحیح مسلم کی حدیث
پر سرے سے کوئی کلام نہیں۔ دوسری کتب کے جس جس بیان میں اس سے تعارض کا شائبہ
نہیں، وہاں بھی (متن کے حوالے سے) کوئی کلام نہیں اٹھتا۔ ہاں اس کا کوئی حصہ صحیح
مسلم کے الفاظ سے اگر متعارض ہو، تو اس پر کلام ہو سکتا ہے۔ گو وہ بھی جب جمع کی ہر
صورت متعذر ہو۔ البتہ مسلم کی روایت پر تو کوئی غبار سند یا متن کی جہت سے ہے ہی
نہیں۔
اللہ اعلم۔