کافروں
سے مختلف نظر آنے کا مسئلہ، دار الکفر، ابن تیمیہ اور اپنے جدت پسند
حامد کمال الدین
دار الکفر میں "تشبُّہ بالکفار" کے احکام کسی قدر موقوف
ٹھہرا دینے کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی ایک تقریر پر پچھلے دنوں کئی ایک
سوالات موصول ہوئے۔
بلا شبہہ، شیخ الاسلام کا یہ کلام آپؒ کی تصنیف ’’اقتضاء الصراط
المستقیم مخالفۃ أصحاب الجحیم‘‘ میں وارد ہوا ہے۔ باقی مضمون سے کاٹ کر ایک مسئلہ
’’لے اڑنے‘‘ والی ایک سوشل میڈیا اپروچ کو بےشک اپنی ہی ایک مخصوص سرگرمی سے
سروکار رہے۔ ابن تیمیہؒ کا اِس موضوع پر اپنا جو ایک مُنطَلَق premises ہے اسے البتہ سمجھ
لینا مفید رہے گا۔ ’’تشبُّہ‘‘ آپؒ کے نزدیک نرا ایک فقہی مسئلہ نہیں۔ بلکہ بہت حد
تک ایک عقائدی مسئلہ ہے، سو اس کی تکییف بھی بہت حد تک عقائدی:
1۔ اس مسئلہ کی بنیاد
اٹھتی ہے ’’ملتوں کے مابین فرق اٹھانے‘‘ کے وجوب سے، جو شریعت کے بڑے مقاصد میں سے
ہے۔ شرک اور توحید کے مابین عداوت کے مسئلہ سے۔ اللہ کے ہاں قبول ہونے والی عبادت
(ملتِ اسلام) اور اللہ کے ہاں ناقبول ٹھہرا دی گئی عبادت (اہل کتاب) کے مابین فرق
کو زیادہ سے زیادہ مرئی visible، نمایاں prominent،
زیادہ سے زیادہ ناقابل نظرانداز unmissable بلکہ مسلسل نظروں پر حاوی کروا
رکھنے کو دین کا ایک باقاعدہ مطلوب ماننے سے۔ اب جن جدت پسند حضرات کی اپنی محنت
’’ملتوں کا فرق‘‘ زیادہ سے زیادہ روپوش کروانے یا غیر اہم یا غیر
متعلقہ ٹھہرانے پر صرف ہو رہی ہو، وہ تو ظاہر ہے ابن تیمیہ کی کتاب میں
وارد وہ سب نفیس عقائدی مباحث پھلانگ کر، اور مسئلہ کی وہ سب فقہی تکییف گزر کر،
اُسی ایک سرسری مسئلہ پر ہی جا رکنا پسند فرمائیں گے جو دار الکفر کی ایک استثناء
سے متعلق ابن تیمیہ کے کلام میں وارد ہوا! کہ یہ دیکھو ابن تیمیہ بھی...!!!
2۔ ملتوں کا فرق
(اسلام اور کافر ملتوں کے مابین دوریاں اور جدائیاں ڈال دینے کا وجوب) مکہ میں
زیادہ ’’قلوب‘‘ کے اندر ہی جاگزیں کروایا گیا۔ البتہ خارج environment میں ملتوں کے اس فرق کے مَعَالِم landmarks
مکہ
کے اندر زیادہ نہیں کھڑے کیے گئے۔ اس کی سادہ وجہ: اسلام اس کےلیے اپنی ایک الگ
تھلگ دنیا تعمیر کرنا چاہتا ہے، جس کا نام ’’دار الاسلام‘‘ ہے۔ ’عقلِ عام‘ تک کی
رُو سے، اسلام کی اَن گنت تشریعات اسی (اسلام کی اپنی ایک دنیا ہونے) کی متقاضی۔
(دار الاسلام کا مطلب ہی یہ کہ اسلام کی اپنی ایک الگ تھلگ دنیا)۔ جس میں کافر رہ
تو سکتے ہیں مگر ’’صاغرون‘‘ subordinate
ہو کر، اور جس میں ’’غلبہ‘‘ اور ’’ظہور‘‘ اللہ کے کلمہ کو حاصل ہو اور ایک اُسی
وحدہٗ لا شریک کے اتارے ہوئے شرائع کو وہاں پر سلطان اور ’’آپ سے آپ‘‘ آئین ہونے
کی حیثیت حاصل ہو۔ مکہ چونکہ ابھی دار الاسلام نہیں تھا، اس لیے ’’ظہور‘‘ سے
متعلقہ شریعت کے بہت سے جوانب مدینہ جانے تک کےلیے موخر رکھے گئے۔ کافر ملتوں کے
ساتھ ’’عدم تشبُّہ‘‘ اور ’’مخالفة فی الهَدْيِ الظاهِر‘‘
کا مسئلہ چونکہ اِس ’’ظہور‘‘ (غلبہ) والے مبحث کا کلائمکس ہے، لہٰذا یہ (تشبّہ سے
ممانعت اور مخالفت کے وجوب والا مسئلہ) بالاَولیٰ ’’دارالاِسلام‘‘ کے ساتھ نتھی ہوا،
لہٰذا وہ دارالکفر میں اُس انداز سے ایک مسلمان سے مطلوب نہ رہے گا، بلکہ کسی
نقصان سے بچنے کے باب سے تو ھَدۡیِ ظاھِر میں کافروں سے مختلف نظر نہ آنا اَولیٰ
تک ہو سکتا ہے۔ اب جن جدت پسند حضرات کی صبح شام کی محنت اس دارالکفر اور دارالاِسلام
والے مسئلہ کو بنیاد سے ’فقہاء کی اپنی اختراع‘ ٹھہرانے پر ہو، وہ ابن تیمیہ کا
اصل مقصودِ کلام بھلا کیونکر سمجھنے سمجھانے کی کوشش کریں گے۔
یعنی ایک گھر (دارالاِسلام) کی دیواروں اور
فصیلوں کا ابطال کرنے والے (جدت پسند) اس کی ایک شاذ و نادر کھلنے والی کھڑکی کو
اپنے کسی بیانیہ کے اندر فِٹ فرمائیں!
میرا نہیں خیال، ویسے ان حضرات کا کوئی کام
ابن تیمیہ کے بغیر رکا ہوا ہے، جاوید غامدی
صاحب ہر چیز سے کفایت کر چکے! اغلباً یہ حوالے (ابن تیمیہؒ وغیرہ کے) اپنے یہاں
سنت و ائمۂ سنت سے وابستہ نوجوانوں کو قائل کرنے کےلیے ہوتے ہیں! ان نوجوانوں کو
میرا مشورہ ہو گا، اُن فورَمز کو المورد وغیرہ کی چیزوں پر ہی اتھارٹی مانیں۔ ہاں
اُس کے پورے مالہٗ و ماعلیہ کے بغیر امید ہے وہاں کوئی حوالہ نہ ہو گا۔
3۔ پھر یہ بات بھی مد
نظر رہے، ابن تیمیہؒ اور دیگر فقہائے ملت کے ہاں دارالکفر میں مسلمان کی اقامت کا
مسئلہ بھی خلافِ اصل کے طور پر لیا جاتا ہے۔ کافروں کے ہاں جا بسنا اور اپنا جینا
مرنا کافروں کے ساتھ رکھنا ان فقہاء کے ہاں بنیاد سے ایک ناقبول چیز ہے۔ دارالکفر
میں ایک مسلمان جائے گا کسی بڑی ہی وقتی سی مہم کو سر کرنے کےلیے، اور پھر واپس
اسلام کی سرزمین میں۔ لہٰذا ایک بڑی ہی وقتی سی سرسری سی چیز کو دیکھنے کا زاویہ
نگاہ اور ہو گا۔ البتہ اِس وقت اُن کتابوں کے حوالے ایک ایسی صورتحال سے متعلق
دینا جہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد باقاعدہ کافروں کے ہاں جا بسی، اپنا جینا
مرنا ان کے ساتھ کر چکی، اور اپنی نسلیں اُن میں گم ہو جانے کو ہمیشہ ہیشہ کےلیے
چھوڑ چکی، وہاں ابن تیمیہ وغیرہ کی کتب سے
ایک سرسری و استثنائی مبحث نکال لانا، جبکہ دارالکفر سے متعلق ائمۂ سنت کا وہ
پورا بیانیہ گول (اور شاید باطل تک) ٹھہرا دیا گیا ہو، کسی قدر گمراہ کن misleading ہے۔ یعنی ایک تصویر کے ایک چھوٹے سے جزء کو اٹھا
کر اس سے خاصی مختلف ایک تصویر میں جڑنا، جہاں پڑھنے والا اُسے اِسی نئی تصویر کے
حصے کے طور پر ہی دیکھے گا۔
4۔ علاوہ
ازیں، اس سارے مبحث کا تعلق صرف انہی اعمال سے رہے گا جو محض ’’عدم تشبُّہ‘‘ کے
باب سے شریعت کا مطلوب ہوئے ہوں۔ رہے وہ اعمال جو شریعت کی کسی علیحدہ دلیل سے ثابت
ہیں، تو محض ’’تشبّہ‘‘ اور ’’دارالکفر‘‘ ایسے الفاظ کے تحت لا کر شریعت کے ان
مسائل کا گھونٹ بھرنا پھر بھی درست نہ ہو گا۔ میرے اس جانب توجہ دلانے کی وجہ یہ
کہ ابن تیمیہ کے اس حوالے کے ساتھ ہی ’شارحین‘ مغربی ممالک میں مسلمان عورت کے سر
سے چادر یا خمار وغیرہ اتروانے چل دیے۔ گویا حجاب اور حیاء کا مسئلہ شریعت کا کوئی
مستقل بالذات مسئلہ نہیں بلکہ محض تشبّہ کے باب سے شریعت میں آ گیا (یا سمجھ لیا گیا!)
ہے! (یہاں بھی مجھے وہی واردات نظر آتی ہے۔ مسلمان عورت کا سر ڈھانپنا خود –
ان کے غُلاۃ کے ہاں – سرے سے واجب نہیں۔ لہٰذا اپنے سر کے خمار سے تو یہ مسلمان
عورت پہلے ہی فارغ ہے، ’دارالکفر‘ کی دلیل سے اسے برہنہ کروانے کی کیا خاص ضرورت؟ وجہ
میرے اندازے میں وہی ہے۔ ابن تیمیہ وغیرہ کے یہ حوالے ہمارے متبعِ سنت نوجوانوں کی
کھپت consumption کےلیے ہیں۔ ان کی اپنی کھپت کےلیے تو
مصنوعات ہی اور ہیں، اللہ اعلم۔
5۔ آخری
بات اس ضمن میں یہ کہ بےشک ایک ’یو۔این‘ ورلڈ نے ہمارے ’’دارالاِسلام‘‘ کے معانی
کو عمل کی دنیا میں ان کی اصل حالت پر نہیں رہنے دیا۔ اس کے باوجود ہماری اِن مسلم
سرزمینوں (مانند بلادِ عرب، ترک، فارس، افغان، پاکستان، افریقہ و یورپ کے مسلم
خطوں وغیرہ) سے ’’دارالاِسلام‘‘ کا وہ معنی بالکلیہ ساقط نہیں ہو گیا۔ زیادہ سے
زیادہ یہی کہا جائے گا، ’’دارالاِسلام‘‘ اپنے اُس پورے معنیٰ میں جو فقہاء کے ہاں
بیان ہوا، آج کسی قدر نقص کا شکار ہو گیا ہے، پھر بھی اپنی اصل پر باقی ہے۔ ان
مسلم زمینوں کی پاسبانی کےلیے ہم موحدین کے جان و مال دینے اور ان کو ترقی دلانے
کےلیے اپنی زندگیاں کھپانے کا وجوب اور یہاں کے ساتھ وابستگی سے متعلق بہت سے دیگر
احکامِ شریعت اِسی باب سے ہیں، نہ کہ کسی ہومنسٹ یا نیشنلسٹک باب سے۔ یعنی بےشمار
پہلوؤں سے یہ سرزمینیں دارالاِسلام ہی ہیں۔ اسلامی طرزِ معاشرت (رہن سہن) کے تمام
مَعَالِم land marks کا تحفظ، جوکہ ’’تشبُّہ سے ممانعت‘‘ کے
زیرعنوان شریعت کا ایک باقاعدہ باب ہے، اپنے اِن مسلم دیار میں جہاں جہاں اور جس
قدر ممکن العمل ہو، واجب اور متعلقہ رہے گا۔ ان بدیسی ممالک سے جہاں اپنی نسلوں کا
بالآخر ultimately کافروں
میں گم ہو جانا یقینی یا اغلب ہے، مسلم خاندانوں کا واپس ہجرت کر آنا اور اِن مسلم
سرزمینوں میں آ بسنا جہاں کی معاشرت پر دینِ محمدؐ کی رِٹ قائم ہے، اور جہاں دینِ
محمدؐ کے ’’ظہور‘‘ کے یہ بہت سے ابواب بدستور متعلقہ relevant ہیں، واجب رہے گا۔ ’’جماعت‘‘ دین کے بڑے فرائض
میں سے ایک ہے، اور دین کا یہ فرض کافروں سے بیزاری اور مسلمانوں کی آپس کی
وابستگی ایسے مباحث پر ہی کھڑا ہوتا ہے۔ جس چیز کو آج کی زبان میں ’معاشرہ‘ کہتے ہیں
وہ ہماری کتاب و سنت کی اصطلاحات میں بہت بڑی حد تک ’’جماعت‘‘ کے لفظ سے ہی بیان ہوا
ہے، اور جماعۃ المسلمین، یعنی اسلام کا معاشرہ، دین کے بنیادی فرائض میں سے ایک۔
*****
ابن تیمیہ کی ’’اقتضاءُ الصراطِ المسقیم، مخالفۃَ أصحابِ
الجحیم‘‘ پر کچھ کام کرنے کا پچھلے دنوں مجھے کچھ موقعہ ملا۔ حالیہ ’گلوبلائزیشن‘
کی دہلیز پر قدم رکھنے والے ہر مسلمان کےلیے ابن تیمیہ کی اس کتاب، یا کم از کم اِس
کے کچھ اجزاء، کو میں ایک ضروری نصاب کا درجہ دیتا ہوں۔ ملتوں کا فرق اور آسمان سے
اتری ہوئی چیز کو ایک سماجی واقعہ کے طور پر قائم و دائم رکھنا، بطور ایک عقیدہ اور
فریضہ اور فقہ جس طرح اس کتاب میں واضح کیا گیا وہ شاید ہی کہیں اور ہوا ہو۔