ایک ٹھیٹ عقائدی تربیت ہماری سب سے بڑی ضرورت
|
:عنوان |
|
|
|
|
|
ایک ٹھیٹ عقائدی تربیت ہماری سب سے بڑی ضرورت
حامد کمال الدین
اسے فی الحال آپ ایک ناقص استقراء کہہ لیں
واقعہ اب تک کا یہی ہے کہ جمہوری احاطہ میں قدم رکھنے والا ہر مسلم ذہن تھوڑی دیر میں جمہوری قدروں (فی الحقیقت ڈیموکریٹک عقائد) کو انٹرنلائز کرنے لگا، آخر وہ بے ساختہ اس کے اندر بولنے لگیں۔ اس میں کوئی اسثناء کم از کم میرے ذہن میں نہیں۔
اس استقراء کا دوسرا حصہ البتہ یہ ہے کہ اس (جمہوری) احاطہ میں قدم رکھنے سے پیشتر، ایسے کسی مسلم ذہن کا، دور حاضر کے اِس جمہوری (فی الحقیقت ہیومنسٹ) پیراڈائم کو توحید کے ٹھیٹ اوزاروں سے رد کر چکا ہونا بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتا۔ اس میں کسی قدر کوئی استثناء میرے ذہن میں ہے تو وہ امام مودودیؒ کا دورِ اول ہے۔ لیکن کتبِ عقیدہ کی تراث کو پڑھ چکے ایک شخص کو اس میں بھی جو ایک جھول دکھائی دیتا ہے وہ ہے ڈیموکریسی وغیرہ کو ’’عقیدہ‘‘ والی جہت سے دیکھنے پر ’’نظام‘‘ والی جہت سے دیکھنے کا غالب آیا رہنا۔ چنانچہ فوکس کا مسئلہ تب بھی زیادہ ’’شمولیت‘‘ کا تھا اور سید مودودیؒ کی بہت ساری (اور بڑی بڑی سخت) گفتگو ڈیموکریسی پر ’’شمولیت‘‘ ہی سے متعلقہ سوالات اور بحثوں کے پس منظر میں ہوئی۔ خاص ایک ’’عقیدہ‘‘ کی تقریر کرنا اور وہ بھی اپنے روایتی اسلامی عقائدی ڈسکورس کا تسسلسل بنا کر، یہاں بہت کم دیکھنے میں آیا۔ خاصی طبعی بات تھی کہ ’’شمولیت‘‘ جائز ہو جانے کے وقت ڈیموکریسی کی "اسلامائزیشن" کا عمل بھی ذہنوں کے اندر ساتھ ہی شروع ہو جاتا، کیونکہ مسئلہ کی ’’عقائدی‘‘ ترسیخ اس سے پہلے بھی اذہان میں غیر موجود ہی تھی۔ ایک "عقیدہ" کے ساتھ آپ کی جنگ بہر حالت جاری رہے گی۔ البتہ ’’نظام‘‘ کے ساتھ مسئلہ بڑی حد تک شمولیت اور عدم شمولیت کا رہے گا، پھر جب وہ ’’شمولیت‘‘ میں سمٹ آئے تو اُس اباء defiance کو بھی، جو کبھی ’’عدم شمولیت‘‘ کے وقت تھی، ایک بے محل اور آؤٹ ڈیٹڈ outdated بحث ہو کر رہ جانا ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے، میں اس کو بھی ’’استثناء‘‘ ماننے کے لیے تیار نہیں، گو اس اتنی سی چیز کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔
اس دوسرے نکتے کا لب لباب یہ کہ: ایک ٹوٹنے والی چیز کا "ضرب" نہ لگنے تک بچا رہنا صرف اس "ضرب" کی تفسیر نہیں چاہتا بلکہ ٹوٹنے سے پہلے کی اپنی اس "حالت" پر بھی آپ کی نظر چاہے گا۔ معاملے کی پوری تفسیر تبھی ہو سکے گی۔
تو پھر اب تک کا یہ ایک (ناقص) استقراء یوں ٹھہرا، اللہ اعلم، کہ:
1۔ اس نمک کی کان میں جو گیا نمک بنا۔
2۔ "کان" میں جانے سے پہلے، اُس کے ساتھ ایک جوہری مقاومت (immune, resistance) پیدا کر رکھنے کی کوئی زبردست استعداد یا اس کے شواہد بھی البتہ اس کے ہاں نہیں دیکھے گئے تھے۔ یعنی وہ ’’نمک‘‘ بن جانے کے لیے "عُرضة" prone ایک لحاظ سے پہلے سے ہی تھا۔ بالفاظِ دیگر، ایسا ہونا ہی تھا! بلکہ ایسا نہ ہوتا تو باعثِ تعجب تھا؛ کیونکہ ایک ’’نظریاتی جہانی سٹیٹس کو‘‘ کے خلاف ذہنی مزاحمت پیدا کر رکھنا ایک غیر معمولی عقائدی ترسیخ چاہتا تھا، اس کے بغیر اُس کوچے کا رخ کرنا اپنا آپ ہار دینے کے مترادف ہی ہوتا۔ آئندہ بھی اس نمک کی کان میں مسلم جماعتوں کے نمک بننے کے بکثرت واقعات ہوں تو نہ صرف اس پر تعجب نہ ہونا چاہئے بلکہ اس کا سبب بھی سب سے زیادہ اسی پوائنٹ پر پایا جانے کا امکان ہو گا۔ والعلم عند اللہ
ایک بہت بڑی ضرورت اس وقت میری نظر میں ہیومنزم والے شرک کے تار و پود کو قلوب کی سر زمین سے اکھاڑنا ہے، خالص عقائدی بنیادوں پر۔ اور شرک و توحید کا وہی محمد بن عبدالوھابؒ والی بنیادوں پر ایک ٹھیٹ ڈائلیکٹ اٹھانا۔ ’’تربیت‘‘ کا یہ ایک بنیادی و لازمی حصہ ہو گا۔ اس کے بغیر آپ کا صرف یہاں کے سیاسی نہیں تعلیمی و انتظامی اداروں تک کا رخ کرنا گھاٹے کا سودا ثابت ہو گا۔ جبکہ گھر بیٹھنا یا اپنے تنظیمی مراکز اور دفاتر میں ’محفوظ‘ بیٹھے رہنا اور خوش ہونا کہ ہمارا تو یہ ماڈرنزم کوئی نقصان نہ کر پایا، کسی دعوت یا تحریک کے حق میں ’’آپشن‘‘ تک نہیں کہلائے گا۔
ایک ٹھیٹ عقائدی تربیت کا میرے خیال میں کوئی متبادل نہیں
اور ہاں اس کا مطلب ہر بندے کو فلسفی بنانا اور کانٹ اور ہیگل کے نام رٹوانا نہیں، بلکہ ’’عقیدۂ اسلام‘‘ کی ایک سادہ تلقین۔ اس کی کچھ توضیح کسی اور وقت کی جائے گی، ان شاء اللہ
|
|
|
|
|
|