"دردِ وفا"..
ناول سے اقداری مسائل تک
حامد
کمال الدین
کوئی پچیس تیس سال بعد ناول نام کی چیز ہاتھ لگی۔ وہ بھی
یوں کہ مدیحی عدن بی بی کا بھیجا ہوا پارسل گھر پہ آ گیا۔ ایسی چیز نہ پڑھنا
زیادتی ہوتی۔
یہ کیا، ’میکے سسرال‘، ’شریکے قبیلے‘، ’’محلے برادری‘‘ اور ’’سیانوں
سیانیوں‘‘ کے سائے میں بسے آتے وہ مانوس رشتے جن کی اصل "لِتَسْكُنُوا
إلَيْها" اور "مِنْ بُيُوتِكُمْ سَكَنًا" رہی ہے، اور جو ہمارے پڑھ رکھے ہوئے ناولوں افسانوں تک عموماً وہیں رہے
تھے، بالکل دھوپ میں جا کھڑے ہوئے اور ’کولیگوں‘، آفِسوں‘ اور ’کمپنیوں‘ میں رہائش
کرنے لگے! گھر آتے ضرور ہیں مگر یوں جس طرح کسی زمانے میں باہر جانا ہوتا! دیوڑھی،
برآمدہ، دالان اور زنانہ سے نکل ’ریسپشنوں‘، ’پارٹیوں‘، ’کیبنوں‘ اور ’میٹنگ رومز‘
کے ہو گئے اور ’اوورٹائم‘ کرنے لگے! اُس کارپوریٹ محلے میں میرا آنا جانا بہت کم
ہے اور میں وہاں باہر کے کام کاج ہی کو جاتا ہوں، لیکن مدیجی عدن نے واقعتاً اگر
ایک صورتِ واقعہ کی عکاسی کی ہے تو مجھے تھوڑا اداس کر دیا ہے۔ یعنی گھر کا بہت
کچھ اب اُدھر ہی ہوتا ہے! ہو سکتا ہے مصنفہ اس میں اکیلی نہ ہو، یہ صرف میرے
تاثرات ہوں جو اصحابِ کہف کی طرح ’تین سو نو سال‘ بعد دنیا دیکھ رہا ہے اور عجوبہ
یہاں وہ خود ہے! لگتا نہیں تھا بیس تیس سال کے
اندر زمانہ اتنا آگے چلا گیا ہے! ’’آگے‘‘ کا لفظ میں نے محاورتاً بول دیا۔ مطلب، کسی
اور طرف کو نکل گیا۔ مگر لکھنے والی کے قلم نے اس کو وہیں جا پکڑا۔ ٹھیک بھی کیا۔ گرفت
میں آ گیا ہے۔ شاید اگلے کسی ناول میں اسے ’’واپسی‘‘ کےلیے بہلایا پھسلایا بھی
جائے۔ سختی لگتا ہے یہ قلم نہیں کرے گا۔ اب بھی جو کیا ہوشیاری اور کاریگری سے
کیا۔
ہر ایک کی پسند ناپسند اپنی ہے۔ مرد کے اندر ایک انسان کو
جگانا بےشک بڑا کام ہو گا اور جوکہ مدیحی نے خاصی کامیابی سے کیا، لیکن عورت کو اس
باہر کی دھوپ میں بھی عورت ہی رکھنا اور اس میں فطرت کو خوب زندہ اور بحال رکھنا
مجھے اس ناول میں کہیں زیادہ پسند آیا۔ نسوانیت کے انہی الجھے تاروں میں یہ کہانی
پھنسی چلی جاتی ہے، ورنہ بڑے شروع میں یہ ختم ہو سکتی یا پھر کسی اور رخ پر جا
سکتی تھی، اور اس کی ساری خوبصورتی انہی تاروں کو سلجھانے میں! عورت کی یہ
پیچیدگی، جو جذبوں کی کثرت کے باعث اس کو عطا ہوئی ہے، اور جو ویسے ایک لا ینحل
عقدہ ہے، اور جو اس کا بہت برا برا استحصال بھی کرواتا ہے تاہم احترام کا اعلیٰ
منصب بھی اس کو دلواتا ہے، اور جو صرف قدردانوں سے اپنے لیے داد چاہتا ہے، کہانی
میں برابر چلتا ہے!
’’نسوانیت‘‘ جو کہ فطرت کا دوسرا نام ہے، کچھ دو چار باتوں
میں محصور نہیں۔ اس کی اَن گنت جہتیں ہیں، جن میں سے اکثر آج ایک نام نہاد ’’فیمینزم‘‘
کی زد میں آئی ہوئی ہیں۔ مختصراً، وہ ایک جِنّ ہے جو عورت کے اندر مرد کی آواز میں
بول کر ’’صنفِ نازک‘‘ کو معاشرے سے اوجھل کروا دیتا ہے۔ اس ’’عمل‘‘ کے اثر سے عورت
تیزی کے ساتھ دنیا سے ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ جبکہ ’’رشتوں‘‘ کا نیوکلئیس یہی حوّا،
اور کائنات کے سب رنگ اسی سے۔ اب ایسے میں ’’رشتے‘‘ وہ پہلی سی اٹھکھیلیاں کیسے کریں!
مادیت ازل سے جذبوں کی قاتل۔ اس کے حملے سے کوئی تہذیب سلامت نہ رہی ہو گی، یہ سچ
ہے۔ لیکن ’’گھر‘‘ اس کے زیر آب آنے سے بچا رہ گیا تھا۔ کوئی تہذیب ’’گھر‘‘ کا کواڑ
نہ توڑ سکی، اور وہ رانی اندر ان بےرحم ہواؤں سے محفوظ، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
باہر کا سب گرم سرد اِسی مَرد کا حصہ، جو صبح تا شام معاش کا بھاڑ جھونکتا، جبکہ اُس
نزاکت کے پیکر کا ایک تبسم اِس تھکے ماندے کی کامل تعویض۔ یوں وہ نسوانی قوت باہر کولہو کے اِس بیل کو بھی ڈھ جانے نہ دیتی اور اس لحاظ
سے پورے معاشرے کو چلاتی۔ ’’پاور ری جنریشن‘‘ کا ایک عجب خودکار نظام! فطرت لاجواب
ہے۔ یوں ’’زندگی‘‘ کی گاڑی جو دونوں کے جُتنے سے رواں دواں ہوتی اِس نگوڑے
’’معاش‘‘ کے چھکڑے سے بڑی تھی۔ یہ تو اس مہاجن کوچوان کا کمال ہے کہ بظاہر مرد کا
بوجھ بانٹنے یا دل لگانے کو، صنفِ نازک بھی اسی سڑکوں پر بھاڑ جھونکتے چھکڑے کے
آگے کَس دی۔ پھر ’’پرفارمینس‘‘ کی ہوس میں ایسےایسے چھانٹے بیچاری پر برسائے کہ
مرد کی سخت چمڑی جواب دے جائے، (سرمایہ داری نظام تمام صنفِ انسان کا قاتل)۔ وہ جو
’’بابا‘‘ کی ڈانٹ سے سہم جاتی، ’’ہنی‘‘ کے بگڑنے سے پریشان ہوتی، گھر کے مردوں کی
اونچی آواز سے مرجھا جاتی، اب حوصلے سے ’’باس‘‘ کی جھڑکیاں سہتی، غیر مردوں کے
پھٹے دیدے ’نظر انداز‘ کرتی، ’’کو۔ورکرز‘‘ کی رقابتیں جھیلتی، شکاریات کا پورا ایک
جنگل گزرتی، پیشہ ورانہ سازباز کی سب کٹھن وادیوں میں ’’سٹرگل‘‘ کرتی اور دفتری
گٹھ جوڑ کی بڑی بڑی سیڑھیاں آتےجاتے پھلانگتی ہے۔ پھر اس سارے عمل میں کسی چوٹ پر
اُف کر بیٹھنا، یا ماتھے پر تیوری آ جانا، سب ’سی وی‘ کا ستیاناس! چوں چرا، یہاں؟
گھر تھوڑی ہے! کچھ ہو جائے، برابر ’کمپوزڈ‘! سارے ہی کام بیچاری کے دفتر منتقل ہو
چکے صرف ایک کام اب بھی ’’گھر‘‘ رہنے پر مُصِر، اِس کا گھُٹ کے تھوڑی دیر رو لینا!
یوں ناز اور زیور میں ڈھکی آتی ایک مخلوق (أوَمَنْ
يُّنَشَّؤُ فِي الْحِلْيَةِ) کو جدید سکرپٹ میں ایک خاصا سخت جان کردار مل جانے سے ’’معاشرے‘‘
ایسی دلچسپ اور خوش رنگ چیز نری ’’ورکنگ‘‘ ہو کر رہ گئی۔ زندگی کا وہ سب تنوع تہس
نہس۔ ’’رشتے‘‘ اب کس کے مابین ہوں؟! جیون زیادہ سے زیادہ ایک ’کنٹریکٹ‘ سائن ہو
سکتا ہے جہاں ’ٹرمینشن‘ کی شقیں موبائل کے بٹنوں کی طرح انگلیوں کی پہنچ میں رہیں!
’’گھر‘‘ پر تالا جو روز شام گئے کھلے گا، اور رات کی بتی کے ساتھ یہاں زندگی
’’آن‘‘ ہو گی جو صبح ناشتے کے ساتھ ’’آف‘‘ کر دی جائے گی، کیا اس سے پہلے کسی
تہذیب کے ہاں دیکھا گیا!؟ ’’رشتے‘‘ اب کیوں ایک چھوئی موئی نہ ہوں۔ یہ تو ہمارے ان
ہنر مند ادیبوں کی ہمت ہے کہ دفتروں، فیکٹریوں اور ڈیپارٹمنٹل سٹوروں میں بھی
انہیں ڈھونڈ لائے اور کچھ روح بھی ان کے اندر پھونک ڈالی!
آنے والے دور میں سب رونے پس میرے خیال میں اس ’’عدم تحفظ‘‘
اور ’’ناپائیداری‘‘ کے ہوں گے جس کےلیے مصنفہ بھی خطرے کی گھنٹیاں بجاتی چلی گئی
ہے، اگرچہ اس کا اپنا ایک حوالہ ہو گا۔ معاشرے کو بچانا بلاشبہ ادیبوں کی ایک بڑی
ذمہ داری ہے۔ رشتوں کا کہیں کہیں ٹوٹ جانا بڑی بات نہیں، ہر زمانے میں ایسا رہا ہو
گا۔ مگر دورِ حاضر کا بحران ٹوٹنے والے رشتوں سے متعلق نہیں بلکہ بچ جانے والے
رشتوں سے متعلق ہے! یہ حد سے زیادہ نازک ہو گئے! ایک ایک جھٹکے پر ’’رشتے‘‘ ایسی
چیز جانے کا ڈر، ذرا تصور تو کریں! پس یہ سانحہ اِس دور کا ہے جس نے عورت روح کو
معاش ایسی وہ سفاک فکر اٹھوا دی جس کےلیے مرد دیس پردیس ایک کر دیتا رہا۔ ایسا
بوجھ اِس شہزادی پر بھلا کس تہذیب نے ڈھویا تھا؟
یہاں بات ہم کسی واقعہ کی نہیں بلکہ دَور کی کر رہے ہیں۔
قصہ کوتاہ۔ اس طاقتور آسیب سے نسوانیت کا سب کچھ سلامت رہنا
تو ایک غیر حقیقت پسندانہ توقع ہو گی۔ اور اس پر ضد بےفائدہ۔ ہمارے بامقصد لکھاریوں
کی مہارت کا ایک بڑا امتحان یہ ہو گا کہ کم سے کم نقصان کے ساتھ اس کا زیادہ سے
زیادہ حصہ بچا لیا جائے۔ معاشرہ کیسا ہو جائے، آخر دم تک اس میں رہا جائے اور
’’مثالیت‘‘ کی فصیلیں اپنے اور اس کے مابین حائل نہ ہونے دی جائیں۔ مدیحی نے کچھ
بڑےبڑے الجھے مقامات پر اس مہارت کا اچھا مظاہرہ کیا ہے۔